-
اہل علم کی لغزشوں کے تئیں منصفانہ رویہ علماء انبیاء کے وارث، دین کے محافظ، شریعت کے پاسبان اور امت کے رہنما ہیں۔ قرآن وسنت میں ان کی جلالتِ شان اور رفعتِ مقام کے متعدد شواہد موجود ہیں۔
تاہم بایں ہمہ وہ انسان ہیں، لہٰذا بسا اوقات ان سے علمی یا عملی لغزشوں کا صدور ہو سکتا ہے۔
چنانچہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’العَالِم قد يزِلّ ولا بد، إذ ليس بمعصوم‘‘
’’عالم سے غلطی ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ معصوم نہیں ہے‘‘
[أعلام الموقعین:۳؍۴۵۳]
اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ما من شرط العالم أنه لا يخطيء‘‘
’’عالم کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اس سے غلطی ہی نہ ہو‘‘
[سیر أعلام النبلاء:۱۹؍۳۳۹]
البتہ ایک عالم کی لغزش کے اثرات ہمہ گیر ہوتے ہیں، کیونکہ لوگ اپنی دینی وعلمی رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے افعال وتصرفات اور آراء واجتہادات میں اس کی اقتدا وتقلید کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کی غلطی کا دائرہ وسیع ہوجاتاہے اور اس کے مفاسد بڑھ جاتے ہیں۔
چنانچہ مثل مشہور ہے:
’’إذا زَلَّ عالِمٌ زَلَّ بزَلّتِه عَالَمٌ‘‘
’’یعنی ایک عالم کی لغزش بہت سارے لوگوں کی لغزش کا سبب ہوتی ہے‘‘
[مجمع الأمثال للمیدانی :۱؍۴۴]
زین الدین مناوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’يترتب على زلته من المفاسد التى لا تحصي لاقتداء الخلق به‘‘
’’چونکہ لوگ عالم کی پیروی کرتے ہیں اس لیے اس کی غلطی کے نتیجے میں بے شمار مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں‘‘
[فیض القدیر:۱؍۱۸۷]
اسی لیے عالم کی لغزش شرعاً سنگین سمجھی جاتی ہے اور اس کی چھوٹی غلطی بھی بڑی شمار کی جاتی ہے۔ دیکھیں: [الموافقات للشاطبی :۴؍۸۸۔۸۹]
نیز بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حق بات ظاہر ہونے کے بعد عالم اپنی غلطی سے رجوع کر لیتا ہے، لیکن اس کے بہت سارے پیروکاروں کو اس رجوع کا علم نہیں ہو پاتا ہے،لہٰذا وہ بدستور اس غلطی پر قائم رہتے ہیں، جس کا تدارک عالم کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ دیکھیں:[الموافقات:۵؍۱۳۶]
افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض شر پسند عناصر اہل علم کی لغزشوں کی تاک میں رہتے ہیں، چنانچہ جوں ہی کسی عالم سے کوئی غلطی ہوتی ہے فوراً اسے لے اڑتے ہیں اور اس کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں۔
اسی لیے کہا جاتاہے:
’’زَلَّةُ العَالِم يُضْرَبُ بِهاَ الطَّبْلُ‘‘
[مجمع الأمثال للمیدانی :۱؍۳۲۵]
یعنی عالم کی غلطی کا ڈھول پیٹا جاتا ہے اور چہار دانگِ عالم میں اسے پھیلا دیا جاتاہے۔
لہٰذا عملی طور پر ایک عالم کو اُن تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے کوسوں دور رہنا چاہیے جو معاشرے میں اس کے آئیڈل اور قدوہ ہونے کے منافی تصور کیے جاتے ہیں تاکہ اس کے کسی غلط رویے کو لوگ دلیل بنا کر فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
اسی طرح علمی طور پر ان تصرفات سے اجتناب کرنا چاہیے جن کی بنا پر غلطی میں واقع ہونے کا امکان زیادہ ہوتاہے، جیسے فتویٰ دینے میں تساہل اور عجلت کا مظاہرہ کرنا، مسئلہ کے تمام گوشوں پر کما حقہ غور وفکر کرنے سے پہلو تہی کرتے ہوئے اپنی رائے کا برملا اظہارکرنا، تحقیق طلب مسائل میں دلائل کا دراسہ کیے بغیر کوئی موقف اختیارکرنا، وغیرہ۔
لیکن اگر بتقاضائے بشریت کسی عالم سے غلطی ہوجائے تو اس غلطی کے تئیں ہمارا کیا موقف یا رویہ ہونا چاہیے؟ اس تعلق سے اہلِ علم نے متعدد امور کی نشاندہی فرمائی ہے جن میں سے چند باتیں درج ذیل ہیں:
۱۔ عالم کی غلطی واضح ہوجانے کے بعد اس غلطی میں اس کی پیروی نہ کی جائے اس لیے کہ وہ غلطی در اصل شریعت کے خلاف ہے لہٰذا اس کو اختیار کرنا جائز نہیں۔
شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’زلّة العالم لا يصح اعتمادها من جهة، ولا الأخذ بها تقليدا له، وذلك لأنها موضوعة على المخالفة للشرع، ولذلك عُدّت زَلّةً، وإلا فلو كانت مُعتدًّا بها، لم يُجعل لها هذه الرتبة، ولا نُسب إلى صاحبها الزللُ فيها‘‘
’’عالم کی لغزش کو معتبر قرار دینا صحیح نہیں اور نہ ہی اس کی تقلید کرتے ہوئے اس غلطی کو قبول کرنا درست ہے، کیونکہ اس کی بنیاد ہی شریعت کی مخالفت پر ہے، اسی لیے تو اس کو لغزش قرار دیا گیا ہے، ورنہ اگر وہ غلطی قابلِ اعتبار ہوتی تو پھر اسے غلطی کے درجے میں نہیں رکھا جاتا اور نا ہی غلطی کرنے والے کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے‘‘
[الموافقات :۵؍ ۱۳۶]
ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’فإذا عَرَف أنها زَلَّة لم يجز له أن يتبعه فيها باتفاق المسلمين، فإنه اتباعٌ للخطأ على عمد‘‘
’’اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ غلطی ہے تو اس کے لیے اس غلطی میں عالم کی پیروی کرنا بالاتفاق ناجائز ہے، کیونکہ یہ جان بوجھ کر غلطی کی پیروی کرنا ہے‘‘
[أعلام الموقعین:۳؍۴۵۴]
۲۔ نصح وخیر خواہی اور اصلاح کے جذبہ کے ساتھ عالم کو اس کی غلطی سے آگاہ کیاجائے اور اس لغزش کی وجہ سے خواہ مخواہ اسے طعن وتشنیع یا طنز وتعریض کا نشانہ نہ بنایا جائے ۔
شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’لا ينبغي أن يُنسب صاحبها إلى التقصير، ولا أن يُشنَّع عليه بها، ولا يُنتقَص من أجلها، أو يُعتقد فيه الإقدامُ على المخالفة بَحْتًا، فإنّ هذا كله خلاف ما تقتضي رتبته فى الدين‘‘
’’یہ مناسب نہیں کہ غلطی کرنے والے (عالم) کوغفلت وکوتاہی سے منسوب کیا جائے اور اس غلطی کی وجہ سے اس کی تنقیص اور کردار کشی کی جائے، یا اس کے متعلق یہ خیال رکھا جائے کہ وہ محض مخالفت کی غرض سے غلطی کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ یہ ساری چیزیں اس کے دینی مقام ومرتبے کے تقاضے کے خلاف ہیں‘‘
[الموافقات:۵؍۱۳۶]
اور ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’فلو كان كل من أخطأ أو غلط تُرك جملةً، وأُهدرت محاسنُه، لفسدت العلوم والصناعات‘‘
’’اگر ہر غلطی کرنے والے کو بالکلیہ ترک کر دیاجائے اور اس کی اچھائیوں پر پانی پھیر دیا جائے تو تمام علوم وفنون برباد ہوجائیں‘‘
[ مدارج السالکین:۲؍۴۰]
۳۔ لوگوں کو اس غلطی سے آگاہ کیا جائے اور اس سے بچنے کی تلقین کی جائے تاکہ لوگ اس عالم کے علمی مقام ومرتبہ سے متأثر ہو کر اس کی خلافِ حق بات کو صحیح اور مشروع نہ سمجھ بیٹھیں اور اس پر عمل کرنا شروع کردیں۔ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’من ر أى متأولا أخطأ فى تأويل يضر من أخذ به أن يشهر القول للناس ويبين خطأه ليحذر من الاغترار به‘‘
’’یعنی اگر کوئی شخص کسی مسئلے میں ایسی غلط تاویل کرے جو لوگوں کے لیے نقصان کا سبب ہو تو اس کی غلطی کو اعلانیہ طور پر واضح کیا جائے تاکہ لوگ اس سے دھوکہ نہ کھاجائیں‘‘
[فتح الباری:۱۳؍۱۶۷]
ابن رجب رحمہ اللہ مشہور حدیث ’’الدين النصيحة…‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسول کے ساتھ خیر خواہی کی ایک نوعیت یہ بھی ہے کہ کتاب وسنت کے ذریعہ گمراہ کُن بدعتوں کی تردید کی جائے اور تمام بدعات کے خلاف کتاب وسنت کی دلالت واضح کی جائے۔ اسی طرح کتاب وسنت کے دلائل کے ذریعہ ان کمزور اقوال کی بھی تردید کی جائے جو علماء کی لغزشوں کا نتیجہ ہیں اور یہ کام علماء کے لیے خاص ہے‘‘[جامع العلوم والحکم :۱؍۲۲۳]
البتہ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ نقد ورد میں عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے اور زبان وقلم کا رشتہ ادب واحترام کے تقاضوں سے منقطع نہ ہونے پائے۔ نیز اس تنقید کے پس پردہ دنیا طلبی، شہرت پسندی اور اظہارِ برتری جیسے مذموم مقاصد کار فرما نہ ہوں۔
ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ما زال العلماء قديما وحديثا يرد بعضهم على بعض فى البحث، وفي التواليف، وبمثل ذلك يتفقه العالم، وتتبرهن له المشكلات، ولكن فى زماننا قد يُعاقَب الفقيه إذا اعتني بذلك لسوء نيته، ولطلبه للظهور والتكثر، فيقوم عليه قضاة وأضداد، نسأل اللّٰه حسن الخاتمة، وإخلاص العمل‘‘
’’ہر دور میں علماء بحث ومباحثہ اور اپنی کتابوں کے اندر باہم ایک دوسرے پر رد کرتے چلے آئے ہیں، اس سے عالم کو تفقہ حاصل ہوتا ہے اور اس کے لیے مشکل مسائل واضح ہو تے ہیں، لیکن اگر کوئی فقیہ ہمارے زمانے میں بدنیتی، شہرت طلبی اور تفوق وبرتری کی خاطر ایسا کرتا ہے تو اسے اس کی سزامل سکتی ہے، چنانچہ اس کے خلاف قضاۃ اور مخالفین کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حسنِ خاتمہ اور اخلاص عطا فرمائے‘‘
[سیر أعلام النبلاء:۱۲؍۵۰۰]