Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • صحابہ کرام حقائق و فضائل

    صحابۂ کرام کے مناقب و فضائل ، مراتب و منازل یا ان کے تعلق سے دیگر جماعتوں کے آراء و نظریات پر بحث کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’صحابی ‘‘ کے معنی و مفہوم کی وضاحت کردی جائے تاکہ ’’صحابی ‘‘ کے دائرۂ وسعت سے واقفیت حاصل ہو سکے ۔
    صحابی لغوی اعتبار سے :
    یہ صحابہ کی طرف منسوب ہے اور صحابہ یا تو بمعنی صحبت ہے یا بمعنی صاحب۔ لہٰذا جس شخص نے کسی کی صحبت اختیار کی گویا وہ اس کا صاحب ہوگیا ۔ اور لفظِ صاحب مشتق ہے:صحِب یصحَب سے ۔
    صحابی شرعی اعتبار سے :
    دراصل صحابی کی تعریف کے تعلق سے ائمہ و محدثین میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے لہٰذا جوتعریف سب سے جامع و مانع اور جمہور علماء کے نزدیک راجح مانی جاتی ہے وہی یہاں زیر بحث ہوگی۔ وہ مندرجہ ذیل ہے :
    ’’من لقي النبى ﷺ مؤمنا به ومات على الاسلام ‘‘
    ’’جس نے ایمان کی حالت میں آپ ﷺ سے ملاقات کی اوراسلام کی حالت میں وفات پایا ہو‘‘ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قراردیا ہے ۔
    [الاصابۃ لابن حجر العسقلانی:ج:۱،ص:۱۰]
    من لقی: (جس نے آپ ﷺ سے ملاقات کی) گویا صحابی کے لیے شرط ہے کہ آپ ﷺ بالمشافہ ملاقات ثابت ہو، اگر ملاقات ثابت نہیں ہے تو صحابی کا اطلاق نہیں ہوگاگرچہ آپ ﷺ کی زندگی میںوہ شخص مشرف بہ اسلام ہی کیوں نہ ہوا ہو۔ جیسے نجاشی بادشاہِ حبشہ ۔
    مؤمنا به: (آپ ﷺ سے ملاقات ایمان کی حالت میں ہوئی ہو)اگر آپ ﷺکی زندگی میں کافر تھا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد اسلام قبول کیا ہو تو اس کا شمار صحابی میں نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی دیگر انبیاء جیسے حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام پر ایمان رکھتا تھا لیکن آپ کی نبوت کا منکر تھا اس کا بھی شمار صحابی میں نہیں ہوگا۔ چونکہ اس کے اندر ایمان کی شرط مفقود ہے ۔
    ومات علی الاسلام: (اور اس کی وفات بھی اسلام کی حالت میں ہوئی ہو) گویا اگر کسی نے آپ ﷺ سے ملاقات حاصل کی اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار بھی کیا لیکن آپ ﷺ کی زندگی کے بعد یا آپ ﷺ کی زندگی میں مرتد ہوگیا اور کفر کی حالت میں اس کی موت ہوئی تو اس کا بھی شمار صحابی میں نہیں ہوگا۔
    مذکورہ بالا تعریف کی روشنی میں وہ تمام لوگ دائرہ ٔ صحابی میں شامل ہوں گے جن کی صحبت آپ ﷺ کے ساتھ ثابت ہے چاہے صحبت لمبی تھی یا مختصر ، آپ ﷺ سے احادیث روایت کی ہو یا نہ کی ہو، آپ کے ساتھ غزوہ میں شرکت کی ہو یا نہ کی ہو یہاں تک کہ وہ تمام جمّ غفیر صحابہ شمار کیے جائیں گے جو حجۃ الوداع کے موقع سے آپ کے ساتھ موجود تھے۔
    چونکہ ان کے اندرصحابی کی شرطیں پائی جاتی ہیں ۔ اسی طرح صحابی کے دائرہ میں وہ تمام چھوٹے ،بڑے ،مرد، عورت، غلام ،آزاد،صاحب بصارت اور نابینا بھی شامل ہوں گے جن کے اندر مندرجہ بالا شروط پائے جاتے ہیں ۔
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’ويدخل كل مكلف من الجن والانس اذاانطبقت عليه شروط الصحابي‘‘ ’’صحابی کے دائرہ میں وہ تمام انس و جن داخل ہوں گے جن کے اندر صحابی کی شرطیں پائی جاتی ہیں ‘’
    کیا جنّوں کا شمار صحابہ میں ہوگا؟
    جمہور علماء کا موقف ہے کہ جنوں میں جس کی ملاقات ایمان کی حالت میں بالمشافہ آپ ﷺسے ثابت ہے ان کا شمار صحابی میں ہوگا۔ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
    ’’أما الجن فالراجح دخولهم لأن النبى ﷺ بعث اليهم قطعاً وهم مكلفون فيهم العصاة والطائعون ،فمن عرف اسمه منهم لا ينبغي الترددفي ذكره فى الصحابة‘‘
    ’’جنّوں کے تعلق سے راجح بات یہی ہے کہ ان کا شمار صحابہ میں ہوگا کیونکہ آپ ﷺ ان کی طرف بھی مبعوث کیے گیے تھے ، وہ بھی مکلف ہیں ، ان میں بدکار بھی ہیں نیکوکار بھی ہیں ، جنّوں میں جس کا نام معلوم ہو اس کو صحابہ میں شمار کرنے سے تردد کرنا مناسب نہیں ہے ‘‘
    [انتھی من فتح الباری : ۷؍۴]
    بہر حال انسانوں کی طرح جنّوں کی تخلیق کا بھی مقصد عبادت و ریاضت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
    {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ}
    [الذاریات:۵۶]
    جنّوں کی جماعت میں بھی کچھ مسلمان ہیں جو اللہ کی وحدانیت اور محمد ﷺ کی رسالت کے قائل ہیں ۔ جنّوں کی جماعت سے کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا، بلکہ سارے انبیاء انسان تھے۔
    {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ}
    ’’ہم نے آپ سے پہلے جتنے انبیاء مبعوث کیے وہ سب انسان تھے ‘‘
    [یوسف:۱۰۹]
    اسی طرح جنّوں کا آپ ﷺ کے پاس آنا ، قرآن سننا ، آپ کی رسالت کا اقرار کرنا ، اپنی جماعت کو قرآن کی ترغیب دینا قرآن واحادیث سے ثابت ہے ۔ اس کی مکمل تفصیل سورہ احقاف میں موجود ہے ۔
    {وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَي قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ۔قَالُوا يَاقَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَي مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَي الْحَقِّ وَإِلَي طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ۔يَاقَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللّٰهِ وَآمِنُوا بِهِ …}
    ا’’ہم نے جنّوں کی ایک جماعت کو تمہاری طرف متوجہ کیا وہ قرآن سن رہے تھے ، جب نبی کے پاس پہنچ گئے تو کہاخاموش ہوجاؤ ، پھر جب ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو ڈرانے کے لئے واپس لوٹے اور کہنے لگے اے ہماری قوم ہم نے یقیناً وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلے کتابوں کی تصدیق کرتی ہے ، جو سچے دین اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے ، اے قوم کے لوگو! اس داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ ‘‘
    [الاحقاف: ۲۹۔۳۱]
    گویا اس جماعت نے قرآن کو بغور سنا سمجھا اور اس کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائے، اور اپنی قوم کو بھی آپ کی طرف دعوت دی اور آخرت کے انجام سے باخبر کیا ۔
    اسی طرح جنّوں کے وفود کا آپ ﷺ کے پاس آنا ، قرآن سیکھنا اور آپ کا ان کے پاس جا کر دین سکھانے کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے ، صحیح مسلم کی روایت ہے علقمہ رضی اللہ عنہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم میں سے کوئی لیلۃ الجن کو آپ کے ساتھ تھا؟ ابن مسعود نے کہا کوئی نہیں البتہ آپ رات بھر ہم سے غائب رہے ، ہم بہت گھبرائے ہوئے تھے ، تمام گھاٹیوں میں تلاش کیے، صبح صادق سے پہلے دیکھا کہ آپ غار حرا سے واپس آرہے ہیں۔ ہم نے ساری کیفیت بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا :
    ’’أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ‘‘
    ’’میرے پاس جنّوں کا ایک قاصد آیا تھا جس کے ساتھ جاکر میں نے انہیں قرآن سنایا‘‘
    [صحیح مسلم:۴۵۰]
    قارئین کرام ! ان مندرجہ بالانصوص سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنّوں کو قرآن سنایا کرتے تھے ، انہیں اسلام کی دعوت دی ، اور جن مسائل کی اس وقت انہیں ضرورت تھی وہ سب بھی سکھلایا ، اسی طرح جن آپ کے پاس آتے تھے، اسلام سیکھتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے، لہٰذا ان تمام نصوص کی روشنی میں اہل سنت و جماعت کا موقف ہے کہ جنّوں میں جس کسی نے ایمان کی حالت میں آپ سے بالمشافہ ملاقات کی اور اسلام کی حالت میں وفات پائی ان کا شمار صحابۂ کرام میں ہوگا۔
    کیا تمام صحابۂ کرام فضائل میںیکساں ہیں ؟
    عمومی طور پر تمام صحابۂ کرام کا شمار قرنِ نبی ﷺ میں ہوتا ہے جس کی طرف آپ ﷺ نے اشارہ کیا ہے ’’خیر القرون قرنی‘‘ انبیاء کے بعد صحابۂ کرام اللہ کے بہتر بندے ہیں جس کی طرف آپ ﷺ نے اشارہ کیا :
    ’’ثُمَّ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ‘‘
    ’’پھراللہ نے محمد ﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو بندوں میں سب سے بہتر دل صحابۂ کرام کا پایا،
    [مسند احمد:۳۶۰۰]
    اس کے باجود تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فضل و منقبت میں برابر نہیں ہیں بلکہ ایمان میں سبقت لے جانے ہجرت میں پہل کرنے اور جہاد و نصرت میں اقدام کرنے کے اعتبار سے ان کے مراتب و درجات مختلف ہیں ۔
    اہل سنت و جماعت کا اتفاق ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد چار خلفاء راشدین مہاجرین میں سب سے بہتر ہیں بلاشبہ ان کا تقابل دوسرے صحابہ سے نہیں کیا جا سکتا ، اسی طرح بقیہ عشرہ ٔ مبشرہ ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت دنیا میں سنا دی تھی ، اس کے علاوہ بدری صحابۂ کرام کے تعلق سے آپ ﷺ نے فرمایا :
    ’’اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ ‘‘
    ’’اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے تعلق سے فرمایا جو دل چاہے کرو میں نے تم لوگوں کو بخش دیا ہے ‘‘
    [مسلم:۲۴۹۴]
    گویا اللہ تعالیٰ نے بدری صحابہ کرام کو بڑی فضیلت بخشی ہے اور ان کی مغفرت کا اعلان دنیا ہی میں کردیا ہے ۔
    اسی طرح وہ تمام صحابۂ کرام جنہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رـضوان کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اپنی خوشنودی کا اظہار و اعلان کیاہے ۔
    {لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ}
    ’’اللہ تعالیٰ ان تمام مومنوں سے راضی ہوگا جو درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے‘‘
    [الفتح:۱۸]
    اور آپ ﷺ نے فرمایا :
    ’’لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ‘‘
    ’’جس نے بھی درخت کے نیچے بیعت کی وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا‘‘
    [سنن الترمذی:۳۸۶۰،صحیح]
    اللہ تعالیٰ نے اہل بیعت الرضوان سے رضا مندی کا اظہار کیا جو ان کی فضیلت و عظمت پر غماز ہے ۔
    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
    {لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ …}
    ’’جس نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ ان لوگوں سے بہتر ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خرچ کیا اور جنگ کی‘‘
    [الحدید:۱۰]
    اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان صحابۂ کرام کو فضیلت اور فوقیت بخشی ہے جنہوں نے فتح سے پہلے اسلام قبول کیا اور جنگ میں شرکت کی ۔
    اسی طرح قرآن کی ایک دوسری آیت ہے :
    {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ }
    ’’جو مہاجر اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب بھی اس سے راضی ہوئے ‘‘
    [التوبۃ:۱۰۰]
    امام شعبی کہتے ہیں کہ مہاجر و انصار میں سابقین اولین وہ ہیں جنہوں نے جنگ حدیبیہ میں بیعۃ الرضوان کا شرف حاصل کیا (تفسیر ابن کثیر)بہر حال وہ صحابۂ کرام جنہوں نے ایمان واسلام میں سبقت کی وہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بہتر ہیں ۔
    اس کے علاوہ آپ ﷺ نے دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دنیا ہی میں جنت کی بشارت سنائی ہے ۔جیسے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ، عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ، حسن و حسین رضی اللہ عنہمااور امہات المومنین وغیرھم ۔ یہ تمام صحابۂ کرام ایسے ہیں جنہیں آپ ﷺ نے خصوصی طور پر شہادت کی بشارت دی ہے ۔ چونکہ اس کا تعلق شریعت سے ہے نہ کہ عقل سے لہٰذا شہادت کی بشارت دینا یا شہید کے لقب سے ملقب کرنا صرف انہیں کے لیے جائز ہے جن کے بارے میں آپ ﷺ نے بشارت سنائی یا پیش گوئی فرمائی ہے ۔
    قارئین کرام! صحابۂ کرام کے تقابل کے تعلق سے اہل سنت وجماعت کا موقف ہے کہ تمام صحابۂ کرام کے فضائل و مناقب کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جن کی فضیلت نصوص قرآنیہ یا احادیث نبویہ میں ملتی ہیں انہیں دیگر صحابۂ کرام پر فوقیت دیتے ہیں ۔
    صحابۂ کرام عادل و ثقہ ہیں :
    وہ صحابۂ کرام جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کا اعلان کردیا ، وہ صحابۂ کرام جنہوں نے آ پ ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنے کانوں سے فرامین سنے ، اچھی طرح سے ذہن نشین کیا اور پھر اس امانت کو امت تک پہنچانے کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا ہے ان کے بارے میں امت کا اجماع ہے کہ سب عادل و ثقہ ہیں ، قرآن وحدیث میں ایسے بیشتر نصوص ہیں جو ان کی عدالت پر غماز ہیں ۔
    (۱) اللہ تعالیٰ نے سورہ حدید میں فرمایا کہ جن صحابۂ کرام نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور جنگیں لڑیں وہ دیگر صحابہ سے بہتر ہیں اور مزید فرمایا: {وَكُلًّا وَعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰي}  یہ آیت صحابۂ کرام کی عدالت پر صحیح دلیل ہے ۔
    (۲) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَي أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ}
    ’’جن کے لیے پہلے ہی سے نیکی ثابت ہو چکی ہے وہ سب جہنم سے دور رکھے جائیں گے ‘‘
    [الانبیاء:۱۰۱]
    گویا اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے لیے جہنم سے برأت کا اعلان کردیا ہے جو ان کی عدالت و ثقاہت پر بڑی دلیل ہے ۔
    (۳) آپ ﷺ نے فرمایا :’’خیر القرون قرنی…‘‘’بہترین زمانوں میں سب سے بہترزمانہ میرا ہے‘‘
    گویا صحابۂ کرام کا دور بہتر تھا اور آپ ﷺ کا یہ کلام صحابہ ٔکرام کی عدالت کی صریح دلیل ہے ۔
    (۴) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ }[الفتح:۱۸]
    اللہ نے ان تمام صحابۂ کرام سے اپنی رضامندی کا اعلان کیا جو بیعت الرضوان میں شریک تھے۔
    اللہ تعالیٰ کی رضامندی و خوشنودی صحابہ کرام کی عدالت و صداقت کے لیے کافی ہے۔
    (۵) اللہ تعالیٰ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
    {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ …} [توبۃ:۱۰۰]
    اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی صحابہ کرام سے اپنی خوشنودی کا اعلان کیا ہے اور جنت کی بشارت سنائی ہے ، یہ تمام نصوص صحابۂ کرام کی عدالت و صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
    عدالت سے مراد صحابۂ کرام کی معصومیت یا ان کی پاکدامنی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی عدالت و صداقت پر بحث کیے بغیر ان کی مرویات کو قبول کیا جائے گا ،جرح و تعدیل یا اصول الحدیث کے شروط کے میزان پر انہیں پر کھا نہیں جائے گا۔
    آئیے اس تعلق سے ائمہ و محدثین کے آراء و مواقف کا بھی دراسہ کرتے ہیں،ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    ’’اتفق اهل السنة على أن الجميع عدول ولم يخالف فى ذالك الاشذوذ من المبتدعة‘‘
    ’’اہل سنت کا صحابۂ کرام کے عادل ہونے پر اتفاق ہے سو ائے بعض مبتدعین کے کسی کا اختلاف نہیں ہے‘‘
    [الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ:۶؍۱]
    امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
    ’’و نحن وان كان الصحابة قد كفينا البحث عن أحوالهم لاجماع أهل الحق من المسكين وهم أهل السنة والجماعة على انهم كلهم عدول‘‘
    ’’اہل سنت و جماعت کے اجماع کی وجہ سے صحابۂ کرام کے احوال پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے،سارے صحابہ عادل ہیں ‘‘
    [الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب:ص:۲۳ ،دار الأعلام]
    امام ابیاری کہتے ہیں :
    ’’وليس المراد بعد بعد التهم ثبوت العصمة لهم واستحالة المعصية و انما المراد قبول رواياتهم من غير تكلف بحث عن اسباب العدالة و طلب التزكية…‘‘
    ’’عادل سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ معصوم عن الخطاء ہیں یا ان کی پاکدامنی کو ثابت کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی عدالت و ثقاہت پر بحث کیے بغیر ان کی مرویات کو قبول کرنا ہے‘‘
    [البحر المحیط للزرکشی: ۴؍ ۳۰۰]
    صحابہ کرام کے فضائل و مناقب :
    نبی کریم ﷺ کی تربیت یافتہ جماعت صحابۂ کرام جنہوں نے آغوشِ نبوت میں پرورش پانے کا اعزاز حاصل کیا، جو ایمان کامل اور یقین محکم کے حسین مرقع تھے جنہوں نے اپنی ایمانی آنکھوں سے چہرۂ نبوت کا دیدار کرنے کی سعادت حاصل کی ، جن کے ایمان و صدق گو امت مسلمہ کے لیے معیار قراردیا گیا، جن کے خلاف زبان درازی کرنے والا شخص اللہ و رسول اور تمام ملائکہ کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے ، ایسی جماعت جس سے اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی کا اعلان قرآن میں کرتا ہے، انہوں نے اسلام کے ستونوں کو قائم کیا اور رسالتِ نبوت کو دنیا کے چپہ چپہ میں پہنچایا۔
    قارئین کرام ! آئیے قرآن و احادیث کی روشنی میں صحابہ کے مناقب پر نظر ڈالتے ہیں۔
    (۱) آپ ﷺ نے فرمایا:
    ’’لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ، ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلاَ نَصِيفَهُ‘‘
    ’’میرے کسی صحابہ کو گالی مت دو، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو وہ نہ ان کے ایک مُد کے برابر ہو سکتا ہے اور نہ ہی آدھے مد کے برابر ‘‘
    [صحیح البخاری :۲۵۴۱]
    گویا ایک صحابی کا اپنی تنگ دستی کے باوجود تھوڑا خرچ کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ پاکیزہ اور اجر کے لائق ہے ۔
    (۲) آپ ﷺ نے فرمایا :’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘
    ’’سب سے بہتر لوگ میرے دور کے ہیں (صحابۂ کرام) پھر جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے ‘‘
    [صحیح البخاری :۲۶۵۲]
    گویا آپ کے دورکے لوگ یعنی صحابۂ کرام اس امت کے بہتر لوگ ہیں ۔
    (۳) قرآن کی آیت ہے :
    {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ}
    ’’جو مہاجر ین و انصارمقدم اور سابق صحابۂ کرام ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سے راضی ہوا وروہ اللہ سے راضی ہوئے‘‘
    [التوبۃ:۱۰۰]
    اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار سے اپنی خوشنودی کا اعلان کیا ہے جو ان کی فضیلت و برتری کی اعلیٰ دلیل ہے ۔
    (۴) قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ہے :
    {لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا }
    [الحدید :۱۰]
    اللہ تعالیٰ اس آیت کے اندر ان صحابۂ کرام کو جو فتح سے پہلے مال و دولت خرچ کیے اور جنگوں میں شرکت کی دیگر صحابہ پر فوقیت دیتا ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ فرمایا: ’’وَكُلًّا وَعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنَي‘‘ ’’اور اللہ تعالیٰ نے ان سب سے بھلائی کا وعدہ کیا ‘‘گویا اللہ تعالیٰ نے وعدہ ٔخیر تمام صحابہ کرام سے کیا جو ان کی فضیلت کی دلیل ہے ۔
    (۵) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ}
    ’’جو لوگ ایمان لائے ، ہجرت کی ،اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے پناہ دیا اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں اور ان کے لیے مغفرت اور بہتر رزق ہے ‘‘
    [الانفال:۷۴]
    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصارکو سچا مومن قرار دیتے ہوئے ان کے لیے مغفرت کا پروانہ سنایا ہے ۔
    (۶) آپ ﷺ نے غزوۂ خندق کے موقع پر فرمایا :
    ’’اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الآخِرَةْ، فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ‘‘
    ’’عیش و عشرت تو آخرت کی ہے ، اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما‘‘
    [صحیح البخاری:۳۷۹۷]
    آپ ﷺ نے خندق کی کھودنے کے موقع پر یہ دعا کی تھی اور خصوصی طور پر مہاجرین و انصارکی مغفرت کے لیے دعا فرمائی تھی۔
    (۷) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    ’’آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ‘‘
    ’’انصار سے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے اور انصارسے نفرت رکھنا نفاق کی علامت ہے‘‘
    [صحیح البخاری:۱۷]
    آپ ﷺ نے انصار کے مناقب و فضائل کو اجاگر کیا ہے اور ان سے محبت و نفرت کرنے کو ایمان کی علامت قراردیا ہے۔
    (۸) مسند احمد کی روایت ہے کہ:
    ’’ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَقَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاء َ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَي دِينِهِ‘‘
    ’’اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے دل کا معائنہ کرنے کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو صحابہ کرام کے دلوں کو دیگر بندوں کے دلوں سے بہتر پایا ،لہٰذا انہیں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کاسا تھی بنادیا جو آپ کے دین کی حمایت کے لیے قتال کریں گے ‘‘[مسنداحمد :۳۶۰۰]
    یہ حدیث اس بات کی طرف صریح اشارہ کرتی ہے کہ صحابہ کرام کے دل دیگر لوگوں سے بہتر اور افضل ہیں ۔ اور صحابۂ کرام امت کے بہتر لوگ ہیں ۔
    صحابۂ کرام کے بارے میں خوارج و روافض کا عقیدہ :
    قرآن و احادیت میں صحابۂ کرام کے مناقب و فضائل کے ان گنت نصوص وارد ہونے کے باوجود روافضہ نے صحابۂ کرام کے تعلق سے زبان درازی کی اور خلفاء راشدین ، امہات المومنین اور بہت سے صحابہ کرام کے بارے میں طعن و تشنیع کرنے میں ذرہ برابر جھجھک محسوس نہیں کیا۔ تہمت تراشی اور افتراء پردازی میں انتہاکرتے ہوئے بعض صحابۂ کرام کو (نعوذباللہ ) کافر تک قراردے دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کی مدح و سرائی میں افراط و غلو سے کام لیا۔
    وہیںدوسری طرف خوارج نے حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھ جو بھی صحابہ کرام شریک ہوئے سب کی تکفیر کی ہے ۔
    شیخ الاسلام بن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ النبویۃ‘‘ میں لکھتے ہیں :
    ’’وفضلت اليهود والنصاري على الرافضة بخصلتين:سئلت اليهود من خير أهل ملتكم۔؟ قالوا:أصحاب موسٰي، وسئلت النصاري من خير أهل ملتكم؟ قالوا:حواري عيسي ، وسئلت الرافضة:من شر أهل ملتكم؟ قالوا:أصحاب محمد ‘‘
    ’’یہود ونصاریٰ کو دو وجوہات کی بنا پر رافضہ پر فوقیت دی جائے گی ۔ یہودیوں سے جب پوچھا گیاکہ تمہاری امت کے بہتر لوگ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا اصحاب موسیٰ ، اسی طرح جب نصاریٰ سے پوچھا گیا کہ تمہاری امت کے بہتر لوگ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا عیسیٰ کے حواری۔ لیکن جب رافضہ سے پوچھا گیا کہ تمہاری امت کے سب سے برے لوگ کون ہیں تو انہوں نے کہا محمد ﷺ کے ساتھی (صحابہ کرام‘‘[منہاج السنۃ النبویۃ:۱؍۲۷]
    صحابۂ کرام کے تعلق سے اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ :
    اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابۂ کرام سے محبت کرنا واجب ہے ۔ اور ان کے لیے دعائیں کرنا ضروری ہے، ان سے بغض رکھنا حرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابۂ کرام سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے اور جنت کی خوشخبری دی ہے ، تمام صحابۂ کرام ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔
    احادیث و مرویات کے قبول کرنے کے لیے انہیں اصول حدیث یا جرح و تعدیل کے میزان پر نہیں پرکھا جائے گا۔ صحابہ کے متعلق ہم اپنے دلوں کو بغض و کینہ سے پاک رکھتے ہیں ، انبیاء کے بعد انسانیت کی سب سے بہتر جماعت ہے، صحابۂ کرام انبیاء کی طرح معصوم عن الخطاء نہیں ہیںبلکہ ان سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے اور جنت کی بشارت سنائی ہے ۔
    اہل سنت و الجماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ گرچہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ سے اپنی رضامندی کا اعلان کیا ہے۔ اور جنت کی بشارت سنائی ہے لیکن تمام صحابۂ کرام مرتبے اور مناقب میں برابر نہیں ہیں بلکہ آپس میں تفاوت پایاجاتا ہے جیسا کہ اس کاتذکرہ گزر چکا ہے، صحابۂ کرام نے مسائل میں اختلاف کیا ہے تاہم صحابۂ کرام دینی مسائل میں مجتہد تھے انہوں نے کبھی بھی عمداً غلطیاں نہیں کیں،جس کا اجتہاد صحیح تھا انہیں دوگنا اجر ملا اور جس کا صحیح نہیں تھا انہیں ایک اجر ملا۔
    اہل سنت و الجماعت افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابۂ کرام نہ معصوم عن الخطاء ہیں اور نہ ہی کوئی صحابی باغی تھا ۔ صحابۂ کرام کے آپسی اختلافات کے بارے میں ہم سکوت اختیار کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں صحابۂ کرام سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings