Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • نخوت دین کے شاخسانے

    نخوت ورعونت انسانی طبیعت کا ایسا آزار ہے جس سے انسان اللہ کے ساتھ بندوں کی نظروں سے بھی گر جاتا ہے، یہ نخوت مال ودولت پر بھی ہوتی ہے،علم وقابلیت پر بھی ہوتی ہے،حسن ورعنائی پر بھی ہوتی ہے،طاقت وقوت پر بھی ہوتی ہے،مگر نخوت کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو دین اور مذہبی نفسیات سے تعلق رکھتی ہے،نماز وروزہ پر،حج وعمرہ پر،صدقہ وخیرات پر،دینی خدمات پر بھی جذبۂ نخوت انگڑائیاں لیتا ہے، چہرے کا جغرافیہ بتادیتا ہے کہ یہ مقدس مخلوق کن احساساتِ ناز کی بلائیں لے رہی ہے؟اس فتنۂ عالم رسا کا اظہار زبانِ حال اور زبانِ قال دونوں سے ہوتا ہے،تکبر کسی بھی قسم کا ہو وہ گناہِ کبیرہ ہے،اللہ کی معصیت ہے،اللہ تعالیٰ نے تو دوٹوک فرمادیا ہے:
    {فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَي}
    ’’پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو،وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ‘‘
    [النجم :۳۲]
    یہاں تک کہ رائی کے برابر کبر بھی اللہ کو گوارہ نہیں ہے،تاہم انسان کہاں سننے والا ہے؟بے چین طبیعتیں قول وعمل میں گل کھلاتے رہتی ہیں۔
    سماج اور معاشرے کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ کس طرح اس خصلت نے دینداروں کو اپنی زلف گرہ گیر کا اسیر بنایا ہے،یہ دینی نخوت ہی تو ہے کہ ہر گروہ وجماعت اپنے لیے جنت کا سر ٹیفکیٹ اور دوسروں کے لیے دوزخ کا پروانہ لے کر گھوم رہی ہے،عالمِ بالا اور جنت پر ان کا بلا شرکت غیرے قبضہ ہوتا ہے جہاں کسی اور جماعت کو منہ مارنے کی اجازت نہیں ہوتی،اس رویے نے شاعروں کو بھی علماء و صلحاء کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم کیا ہے،شاعر کہتا ہے:
    ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہوگا
    بھروسہ کس قدر ہے تجھ کو اخترؔ اس کی رحمت پر اگر وہ شیخ صاحب کا خدا نکلا تو کیا ہوگا ؟
    جوشِ نخوت میں جنت کا نرخ اتنا گرادیا جاتا ہے کہ جگہ جگہ بہشتی دروازے تعمیر ہوجاتے ہیں جن سے داخل ہونے والوں کے لیے جنت پکی ہوجاتی ہے،ذرا اور آگے بڑھئے تو کوئی دنیا میں بیٹھ کر جنت کے محل بیچ رہاہوتا ہے،کوئی برسرِاسٹیج جنت کا ٹکٹ تقسیم کررہا ہوتاہے،محرم ومیلاد کی مناسبتوں پر چندہ دینے والوں کے لیے خلد کے دروازے چوپٹ کھول دیے جاتے ہیں۔
    دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی
    اختلافی مسائل میں دلیل کی بنیاد پر موقف سے اختلاف فطری امر ہے،صحابہ میں بھی مسائل میں رائیں مختلف ہو جاتی تھیں، مگر اختلاف رائے کو حق وباطل کا معرکہ بتاکر ایک دوسرے کی تنقیص اور تکفیر دور دور تک نظر نہیں آتی،لیکن اب نخوتِ دین کے متوالے تکفیر کی بندوق لے کر اپنا موقف منوانے کی کوشش کرتے ہیں،ایک ایک مسئلے پر تھوک کے بھاؤ لوگوں کو جہنم رسید کر رہے ہیں،اخروی چارج خود سنبھال کر داروغۂ جہنم کو فارغ کردیا جاتا ہے،تکفیر کا پودا ایسے لوگوں کے ذریعہ ہی پھل پھول رہا ہے۔
    مقامِ صحابیت پر شب خون مارنے والے بھی بادۂ نخوت سے مدہوش ہوتے ہیں،برتری کا خمار صحابۂ کرام کے فضائل پر جھاڑو پھیر دیتا ہے لیکن اکابرینِ جماعت صحابہ پر بھی بازی لے جاتے ہیں،بعض تو اپنے ممدوح کو القاب وآداب کی سیڑھیوں پر چڑھا کرکے اتنی بلندی پر پہنچا دیتے ہیں کہ وہاں پہنچ کر شرفِ صحابیت کے بھی پر جلنے لگیں،فکر کی یہی باغیانہ روش ہے جو آگے چل کر شیعیت سے بغلگیر ہوجاتی ہے اور باری باری صحابہ کی عظمت کی قبا کو نوچتی ہے اور شیعیت سے داد وصول کرتی ہے۔
    اللہ رے کافری ترے طرزِ خرام کی نقشِ قدم سے کردیا کعبے کو سومنات
    دعوت وتبلیغ کی جولانگاہوں میں بھی نخوتِ دین کی لالہ کاری ہے،کوئی جگہ جگہ بلا ضرورت برسرِا سٹیج یہ بیان کرتا پھرے کہ میں نے اتنے لوگوں کو مسلمان بنایا ہے یااتنی بڑی تعداد میں غیرمسلموں کو کلمہ پڑھایا ہے،یہ اور بات ہے کہ ہندو اکثریتی ملک میں اس طرح کی فخریہ باتیں ماحول میں فرقہ پرستی کا زہر گھول دیتی ہیں اور ایک نئی مصیبت مسلمانوں کے دروازے پر دستک دینے لگتی ہے،لیکن سود وزیاں سے بے نیاز اسلام کے غازی ڈرتے کہاں ہیں؟دعوت وتبلیغ کیا تشہیر اور جتانے کی چیز ہوتی ہے یا خاموشی اور حکمت سے اپنا کام کرتے رہنے کی ڈگر ہے؟
    کوئی کسی علاقے کی دینی و فکری بیداری کو اپنی طرف منسوب کرکے عوام سے داد وتحسین وصولنے کے فراق میں رہتا ہے،کوئی زندگی میں ہی اپنی خدمات پر کتاب لکھواتا ہے اور کوئی جیتے جی اپنی شخصیت پر سیمینار کراتا ہے،کوئی چند دعائیں اور اقوال جمع کرکے کتاب خواں سے صاحبِ کتاب کے پائیدان پر قدم رکھ دیتا ہے ، کوئی اپنے آپ کو سب سے بڑا داعی وقت ظاہر کرتا ہے اور چند صفحات پر مشتمل کتابوں کی تعداد بتا بتاکر ایسا ظاہر کرتا ہے جیسے قلعۂ کفر فتح کرلیا ہو،شاعر کہتا ہے:
    خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہیں ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار مجھ سے ہے
    نخوت کی گرم بازاری ایسی ہے کہ علم وصلاحیت کی دھونس جمانے کی کوشش کی جاتی ہے،عوام الناس میں تقریر کو فنی نکتہ آفرینیوں اور لطائف سے ایسے بوجھل کردیا جاتا ہے کہ بڑے بڑے دماغوں کو پسینہ آجائے،کوئی جہلاء سامعین کے سامنے حدیث کی طویل سندیں بیان کررہا ہے،کوئی اپنی سند سیدھے نبی تک پہنچا رہا ہے،عوام سمجھتی تو کچھ نہیں ہے لیکن چہرے پر اڑتی ہوائیاں ان کی قابلِ رحم حالت کا پتہ دیتی ہیں۔
    وفات پر تعزیت لکھنے والوں نے بھی نخوت میں کسر اٹھا نہ رکھی ہے،اسلوبِ کلام میں مبالغہ آرائی ایسی کہ لگتا ہے اب ان کی وفات کے بعد اسلام کا بیڑا ہی غرق ہوجائے گا،پہلے بھی جو رونق تھی ان کے دم سے ہی قائم تھی،حجۃ الاسلام، صدرالاسلام،مفکراسلام،سلطان لوح وقلم،کشتیٔ ملت کے ناخدا جیسے القاب کی ہار ان کی لاش پر سجا دی جاتی ہے،مرنے والے کی لفظی مورتی بنا کر ذہنی پرستش شروع کر دی جاتی ہے۔
    نخوت نے عقل کا ایسا دیوالیہ کیا ہے کہ لوگ اب نام نہاد اسلامی ڈراموں سے ایمان تازہ کر رہے ہیں،بدنامِ زمانہ سیریئل کو دیکھنا نہ صرف کار ثواب سمجھا جارہا ہے بلکہ ان کے مسلم ایکٹروں کا موازنہ اسلامی تاریخ کے فاتحین سے کیا جا رہا ہے،اگر چہ وہ ڈرامے شرکیات اور اباحیت کی تبلیغ کررہے ہوں،مملکتِ خداداد کے مومنین و مومنات تو ان کے لیے درازیٔ عمر کی دعائیں مانگ رہے ہیں تاکہ ڈراموں کے ذریعہ سے اسلام کی عظمتِ رفتہ اور قوم کی شوکت گذشتہ کو بازیاب کیا جائے۔
    اب تو سراب ہی سے بجھانے لگے ہیں پیاس لینے لگے ہیں کام یقیں کا گماں سے ہم
    بعض شخصیات کو اگر اسٹیج،مائیک اور اشتہار سے رسم وراہ ہوجائے تو نخوت کا درجۂ حرارت اور بڑھ جاتا ہے، پھر سماعتوں کو لوگوں کا کیا ہوا سلام بھی سنائی نہیں دیتا،اس لیے جواب ندارد،اصاغر سے نظریں چرانا،تجاہل برتنا،درخور اعتنا سمجھنا،نظر انداز کرنا اچھے اچھوں کا وطیرہ ہے،مگر اعاظم کے استقبال کے لیے دوڑ پڑنا،احترام میں دست بستہ کھڑے رہنا،چشمِ براہ ہوناسعادتِ دارین سمجھی جاتی ہے۔
    کسی غریب کا کب احترام کرتی ہے لباس دیکھ کے دنیاسلام کرتی ہے
    یہ بھی نخوتِ دین کا مظہر ہے کہ آدمی نے پوری زندگی سیہ کاریوں میں گزاری ہوتی ہے،تجارت میں حرام وحلال سے بے نیاز ہوکردونوں ہاتھوں سے دولت جمع کی ہوتی ہے،اب بڑھاپے میں تمام کالے کام بیٹوں کو سونپ دیاجاتا ہے اور ایک عدد حج کرکے زمانے کی گوشمالی کے لیے فارغ ہولیا جاتا ہے،اب ہر جگہ لیکچر دیا جارہا ہے،دوسروں کو آداب سکھائے جارہے ہیں، عقبیٰ کے غم میں دبلے ہورہے ہیں،ہر غلط کام پر دوسروں کے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑ رہے ہیں۔
    گھوم پھر کر دیکھیے تو جا بجا نخوتِ دین کی عملداری ہے،خمارِ زہد کے شاخسانے ہیں،نخوتِ دین ایک چھلاوہ ہے،چہرہ بدل بدل کر یہ واردات انجام دیتی ہے،یہ کوئی بھی شکل اختیار کرسکتی ہے،کوئی بھی روپ دھار سکتی ہے،کسی پر بھی حملہ آور ہوسکتی ہے،ضروری ہے کہ اس کی آہٹ کو محسوس کریں اور اس ایمان شکن فتنے سے بچنے کا سامان کریں کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند، تو جو کوئی ان دونوں چیزوں کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings