Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • نامور محققین ہند کی عربی و اسلامی سرمائے کے تئیں خدمات (قسط ثانی)

    ترجمہ:آفاق احمد شبیر احمد سنابلی
    حدیث اورفقہ کے میدان میں خدمات انجام دینے والوں میں سے پانچ شخصیات کے تذکرے پہلی قسط میں ہو چکے ہیں، دوسرے ان پانچ لوگوں کا ذکر جنہوں نے لغت، ادب ،تاریخ، انساب وغیرہ کے میدان میں خدمات انجام دیں وہ یہ ہیں۔
    ان پانچ لوگوں میں:
    ۱۔ علامہ عبد العزیز میمنی (ت۱۳۹۸ھ؍۱۹۷۸م)رحمۃ اللہ علیہ
    ۲۔ علامہ محمد بن یوسف السورتی (ت۱۳۶۱ھ؍۱۹۴۲) رحمۃ اللہ علیہ
    ۳۔ علامہ امتیازعلی عرشی (ت۱۴۰۱ھ؍۱۹۸۱م) رحمۃ اللہ علیہ ،
    ۴۔ ڈاکٹرحمید اللہ (ت۱۴۲۳ھ؍۲۰۰۲م) رحمۃ اللہ علیہ،
    ۵۔ علامہ ابو محفوظ الکریم المعصومی (ت۱۴۳۰ھ؍۲۰۰۹م) رحمۃ اللہ علیہ ۔
    ۱۔ علامہ میمنی : علامہ میمنی علمی حلقوں میں اپنے مقالات اور تحقیقات کی وجہ سے مشہور ومعروف ہیں۔انہوں نے لغت ادب اور دوسرے فنون میں تقریباً تیس کتابوں اور رسالوں کی تحقیق کی ہے۔ اسی طرح ان نوادر مخطوطات سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا جو ہندوستان، ترکی اور ان عرب ممالک کے مکتبات میں موجود تھے جن کی زیارت آپ نے کئی بار کی ہے۔
    ان کا اہم کارنامہ:
    انہوں نے ابو عبید البکری کی کتاب ’’اللآلی شرح امالی القالی‘‘کی تحقیق،اور’’سمط اللآلی ‘‘کے نام سے اس پر تعلیق بھی انہوں نے چڑھائی، یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے بارے میں علامہ محمود محمد شاکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’اس کے ہم پلہ تحقیق میں کوئی کتاب نہیں ہے‘‘۔ کیونکہ اس میں موجود اشعار کی تخریج علمی انداز میں انہوں نے کی ہے ،ساتھ میں شعر کی نسبت اور روایت میں اختلاف کو بھی بیان کیا ہے۔ شعراء وغیرہ کے انساب کی بھی تحقیق کی ہے، ان کے حالاتِ زندگی کے مآخذاور ان میں موجود اوہام کو بھی واضح کر دیاہے۔
    اسی طرح کتاب میں وارد قصص، جنگی واقعات، اخبار اور امثال کے مآخذ کی طرف بھی انہوں نے اشارہ کیا ہے اور ابو عبید البکری کابہت سارے امور میں انہوں نے مناقشہ بھی کیا ہے اور حجج و براہین کے ذریعہ ’’القالی‘‘کا دفاع بھی کیا ہے۔ ان کی تعلیقات میں دوسرے بہت سارے علمی فوائد ہیں جن کے استقصاء کا یہ محل نہیں ہے۔
    عربی زبان وادب میں ان کی مہارت وقابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے’’کتاب اللآلی‘‘پر ذیل لکھا ۔ چنانچہ اسی کے طرزپر’’ذیل آمالی‘‘کی شرح لکھی اور اسے کتاب کے آخر میں ملحق کردیا ہے۔ کیونکہ بکری نے صرف’’أمالی‘‘کی شرح کی تھی ۔ پھر ایک انوکھے طرز پر’’سمط اللآلی‘‘کی فہرست بھی تیار کی ہے جس میں اشعار، شعراء ، تراجم، اور امثال وغیرہ کا بیان ہے ۔
    آپ کا’’سمط اللآلی‘‘کے بعد دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے علی بن حمزہ البصری کی کتاب ’’التنبیہات علی أغالیط الرواۃ‘‘کی تحقیق کی اور اپنی تعلیقات میں انہوں نے مؤلف کے افکار وخیالات سے بحث کی ہے اور ان کی تردید بھی کی ہے۔ مزید برآں اہلِ لغت کے مابین مختلف فیہ مسائل میں آپ نے بطور حکم ایک رائے اختیار کرکے ایسے شواہد اور دلائل سے مدلل کیاہے جسے کوئی بھی انصاف پسند باحث تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔اور اس کتاب کے فہارس انہوں نے پیچیدہ رکھے ہیںتاکہ نا تجربہ کار لوگ ان فہارس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں جیسا کہ’’سمط اللآلی‘‘کے فہارس کے ساتھ معاملہ کیا تھا کہ ان فہارس کے ذریعہ انہوں نے محقق کی تعلیقات میں بکھرے فوائد کو نکال لیا اور ان کی طرف اشارہ تک نہیں کیا چنانچہ اسی وجہ سے محقق نے اس بار آسان فہارس نہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
    جن کتابوں کی انہوں نے تحقیق کی ان میں ’’دیوان حمید بن ثورالہلالی ، دیوان سحیم عبدبنی الحسحاس‘‘، اور’’الطرائف الأدبیۃ‘‘جو چند دواوین اور قصائد کا مجموعہ ہے۔مبرد کی تینوں کتابیں’’الفاضل، نسب عدنان و قحطان، مااتفق لفظہ و اختلف معناہ‘‘وغیرہ کی بھی تحقیق کی ہے۔اور’’دیوان شعر المتنبی‘‘کے زیادات کو اور ابو العلاء کے چھوٹے ہوئے اشعار کو جمع کیا۔
    میمنی صاحب کے تمام مقالات وتحقیقات اور مختلف کتابوں کی تنقید پر مشتمل ان کی تحریروں کو میں نے ایک مجموعے میں جمع کردیا ہے۔ دارالغرب الاسلامی بیروت نے’’بحوث و تحقیقات للعلامۃ عبد العزیز المیمنی‘‘کے نام سے شائع کیا ہے۔
    ۲۔ علامہ سورتی رحمۃ اللہ علیہ: علامہ عبد العزیز میمنی رحمۃ اللہ علیہ کے رفقاء درس میں سے ہیں اورحدیث، رجال، أنساب وغیرہ میں ان پر فائق نظر آتے ہیں ،علامہ میمنی کی طرح انہیں بھی لگ بھگ دولاکھ عربی اشعار یاد تھے۔ انہوں نے بھی مخطوطات کے نقل ونسخ کو اپنا مشغلہ بنایا اور نادر کتابوں کو جمع کرکے ان کا تحقیقی مطالعہ کیا ۔
    انہوں نے ابن درید کی ’’جمہرۃ اللغۃ‘‘، ابن القطاع کی ’’الأفعال‘‘اورخطیب بغدادی کی ’’الکفایۃ‘‘وغیرہ کی تحقیق کی اور یہ کتابیں دائرۃ المعارف العثمانیۃ سے چھپی ہیں۔ ابن حزم کی ’’جوامع السیرۃ‘‘اور دوسری کتابیں میں نے ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی دیکھی ہیں۔ ان کے پاس ابن ماکولا کی ’’الإکمال‘‘ابن حزم کی’’جمہرۃ انساب العرب‘‘ اور دیگر دوسرے مآخذ بھی تھے جن سے استفادہ کرکے ’’سمط اللآلی‘‘پر اس کے شائع ہونے کے بعد چبھتا ہوانقد کیا ۔ پھر علامہ میمنی نے ان پر رد لکھا لیکن رد لکھنے کے باوجود انہوں نے اپنے بعض اوہام اوراغلاط کا اعتراف بھی کیا ۔
    علامہ سورتی رحمہ اللہ کی وفات علی گڑھ میں ہوئی اورعلامہ میمنی رحمہ اللہ ،علامہ سورتی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد تقریباً ۳۶سال زندہ رہے۔ کبھی کبھار علامہ میمنی رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ان کے قبر کے پاس سے گزرتے تو کہتے’’ہذا قبر جبل العلم‘‘(یہ علم کے پہاڑ کی قبر ہے)۔ اس جملہ میں ان کے علم و فضل کا بہت بڑا اعتراف ہے رحمہما اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
    ۳۔ علامہ امتیاز علی عرشی: علامہ میمنی رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ہیں،اور علامہ عرشی رحمہ اللہ رامپور کی مشہور رضالائبریری کے ڈائرکٹرتھے۔ اس لائبریری کی فہرست انہوں نے ہی تیار کی اور اس میں موجود نادر مخطوطات سے مطلع ہوئے اوراردو زبان میں ان مخطوطات کے تعارف اور مطالعہ پر مضامین بھی لکھے جو اردو کے علمی مجلات میں شائع ہوئے۔ علمی حلقوں میں انہیں مقبولیت اس وقت ملی جب انہیں رامپور میں’’تفسیر سفیان ثوری ‘‘کا ایک قدیم نسخہ ملا اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے انہوں نے اس کی تحقیق کی اور ممتاز علمی شکل میں شائع کیا۔ ’’تفسیر سفیان ثوری‘‘ہم تک پہنچنے والی تفاسیر میں سب سے قدیم ترین تفسیر ہے۔ محقق نے اس پر ایک عرصہ لگایا، اس میں موجودروایات و آثار کی تخریج کی اور مؤلف کی مفصل سوانح حیات بھی درج کی ہے نیز مؤلف کی طرف کتاب کی نسبت کی بھی تحقیق کی ہے۔ کتاب میں موجود تمام رجال کے سوانحِ حیات تاریخی ترتیب پر مرتب کر نے کے ساتھ ساتھ مطبوع او رغیر مطبوع مآخذ بھی انہوں نے ذکرکیے ہیں، جن کی تعداد بسا اوقات پچاس سے زائد ہوجاتی ہے۔ان تراجم کو انہوں نے طبقات پر مرتب کرکے کتاب کے آخری حصہ سے منسلک کردیا ہے۔
    دوسری وہ کتابیں جن کی انہوں نے تحقیق کی ہے وہ درج ذیل ہیں:
    دیوان أبی محجن الثقفی، دیوان شعر الحادرۃ الذبیانی، کتاب الأجناس من کلام العرب لأبی عبید، الأخبار للجاحظ، مرسوم الخط و المقطوع و الموصول لأبن الأنباری، الأمثال السائرۃ من شعر المتنبی للصاحب بن عباد۔
    ان میں سے بعض کتابوں کی طبعات عرب ممالک میں غیر معروف ہیں۔ متداول طبعات سے اس کا مقارنہ کرنے پر اس کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ علامہ عرشی متن کی تحقیق کرنے میں ،اس پر تعلیق چڑھانے نیز مطلوبہ فہارس تیار کرنے میں تھے بڑے باریک بیں تھے۔
    ہمارے فاضل دوست جناب ڈاکٹر محمد اجمل اصلاحی صاحب نے ان کے تمام بکھرے ہوئے بحوث اور تحقیقات کو یکجا کردیا ہے تاکہ ان سے عرب ممالک کے علماء و طلبہ بھی استفادہ کرسکیں۔
    ۴۔ ڈاکٹر حمید اللہ: تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ یورپ اور ترکی کے مکتبات سے نوادر مخطوطات تلاش کرنے کے بے حد شائق تھے۔ انہوں نے ہی سعید بن منصور کی’’السنن و الآثار‘‘کو دریافت کیا اور’’صحیفۃ ہمام بن منبہ عن أبی ہریرۃ‘‘ کی تحقیق کی جو کہ علم حدیث میں لکھی گئی اولین کتابوں میں سے ہے۔ اصل سیرۃ ابن اسحاق کے موجود دو حصوں کی بھی تحقیق کی۔
    دوسری اور کتابیں جن کی انہوں نے تحقیق کی:
    أنساب الأشراف للبلاذری الجزء الأول، الذخائر والتحف للرشید بن الزبیر، معدن الجواہر بتاریخ البصرۃ و الجزائر لنعمان بن محمد،تاب الانواء لابن قتیبۃ، والمعتمد فی أصول الفقہ لأبی الحسین البصری، المحبر لمحمد بن حبیب وغیرہ کی تحقیق میں بھی انہوں نے حصہ لیا۔
    ’’کتاب النبات لأبی حنیفۃ الدینوری‘‘کے گمشدہ حصہ کے باقی نصوص کو مختلف مصادر سے انہوں نے جمع کیا جن میں سب سے اہم مصدر زبیدی کی’’ تاج العروس ‘‘ہے۔
    ڈاکٹرمحمد حمید اللہ نے متن کی تحقیق اور ضبط میں کافی اہتمام کیا ہے۔ کبھی کبھار وہ ان اولین مآخذ کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں جن میں کتاب میں موجود موضوعات یا اخبار کا تذکرہ ہوتا ہے اور وہ اس میں بہت زیادہ تفصیل یا توسع نہیں کرتے ہیں ، ان کی زیادہ تر توجہ اس بات پر ہوتی تھی کہ کتاب کو صحیح وسالم انداز میں منظرِعام پر لایا جائے۔
    البتہ اس طرز سے ان کی کتاب ’’الوثائق السیاسیۃ‘‘مستثنیٰ ہے۔ اس میں انہوں نے ہر وثیقہ کے بعد عربی، فارسی ، اردو اور یورپی زبانوں میں موجود مطبوعہ وغیر مطبوعہ(مخطوطات) تمام مآخذ کا ذکر کیا ہے اور ان میں موجود چھوٹے بڑے تمام باریک سے باریک فروق کو بھی اکٹھاکیا ہے،ساتھ ہی ان وثائق سے متعلق جملہ بحوث و ریسرچ کا بھی ذکرکر دیا ہے۔ اسلامی وثائق پرمبنی شائع شدہ کتابوں میں ان کا یہ مجموعہ بے نظیر ہے۔ اس طرح کے کام کی شروعات انہوں نے ہی کی ہے ،پھر لوگ اس جانب توجہ دینے لگے۔ اس وقت میں ان کے تمام بحوث و مقالات کو عربی زبان میں اکٹھا کررہا ہوں اللہ تعالیٰ اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔آمین۔
    ۵۔ ان بڑے علماء محققین کی آخری کڑی اس مقالہ میں علامہ شیخ ابو محفوظ الکریم المعصومی کی ہے۔ جنہوں نے بعض نادر کتابیں شائع کیں،مثلاً’’دیوان الرستمیات‘‘اور’’شرح الألفات‘‘ابن انباری کی ’’مسألۃ صفات الذاکرین و المتفکرین ‘‘أبو عبد الرحمان السلمی کی اورمرتضی زبیدی البکرامی کے بعض رسائل۔
    مگر انہیں شہرت اس وقت ملی جب انہوں نے بعض مشہور محققین کے مرتب کردہ دواوین اور کتابوں پر نقد و استدراک کیا۔ گویا کہ وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ ان کی تحقیق اور تصحیح میں شریک ہیں۔ ان کے اہم استدراکات و تصحیحات میں ڈاکٹر صلاح الدین المنجد کی تحقیق کے ساتھ شائع ہونے والی علامہ ذہبی کی کتاب’’سیر أعلام النبلاء‘‘کے تین اجزاء پر نقد ہے۔
    علامہ میمنی کی تحقیق سے شائع ہونے والیسمط اللآلی، دیوان حمید بن ثور الہلالی، قصیدۃ العروس وغیرہ پر نقد ہے۔
    ایسے ہی جن کتابوں پر انہوں نے نقد کیا وہ درج ذیل ہیں :
    دیوان ابن الدمینۃ بتحقیق الاستاذأحمد راتب النفاخ
    دیوان جمیل بثینۃ بتحقیق الدکتور حسین نصار، ودیوان بشر بن أبی خازم ،دیوان ابن مقبل کلاہما بتحقیق الدکتور عزۃ حسن۔
    علامہ معصومی کو ابو علی الھجری کی کتاب ’’التعلیقات و النوادر‘‘کے قلمی نسخہ (نسخۃ الجمعیۃ الآسیویۃ فی کلکتا)کو متعارف کرانے میں شرفِ اولیت حاصل ہے چنانچہ اس کام پر علامہ حمد جاسر نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کے فضل کا اعتراف بھی کیا ۔ہمارے فاضل دوست محمد اجمل اصلاحی نے ان کے تمام بحوث و مقالات کوایک جگہ جمع کردیا ہے جو دارالغرب الاسلامی بیروت سے دو جلد میں مطبوع ہے۔
    ہندوستان کے نامورمحققین نے عربی ذخائر کی تحقیق واشاعت کے باب میں جو خدمات انجام دی ہیں یہ اس کا سرسری جائزہ ہے ، اب اس طرح کے علماء سے وطن خالی نظر رہا ہے، اس لیے جامعات اورتحقیقی اداروں سے گزارش ہے کہ مخطوطات کی تحقیق کے لیے اور ان کی فہارس تیار کرنے، ان کے تحقیقی مطالعہ کے لیے اور ان میں سے اہم چیزوں کا ترجمہ ہندی اور یورپی زبانوں میں کرنے کے لیے طلبہ اور ریسرچ اسکالر کو تیار کرنے میں بھر پور کوشش کریں او ر مکمل ایک شعبہ صرف ہندوستانی علماء کی تالیفات کو عربی زبان میں منتقل کرنے اور ان کے ترجمے کے لیے خاص کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام لوگوں کو دین اسلام اورعلمی سرمایہ کی خدمت کی توفیق دے ،یقینا وہی سننے والا او ر قبول کرنے واالا ہے۔
    ……………………………………………………………
    حواشی:(مترجم)
    نوٹ: یہ مضمون’’دور الہند فی نشر التراث العربی‘‘ نامی کتاب سے لیا گیا ہے۔(ص:۷۱۔۸۴)۔
    ۱۔ ’’غایۃ المقصود‘‘کا پہلا جزء دہلی سے ۱۳۰۴ھ میں شائع ہوا۔’’غایۃ المقصود‘‘کے بقیہ اجزاء اب تک شائع نہیں ہوسکے ہیں۔
    جبکہ شارح نے تقریباً کتاب کے ثلث حصہ کی شرح مکمل کرلی تھی، جیسا کہ انہوں نے ’’عون المعبود‘‘میں بہت ساری جگہوں پر’’غایۃ المقصود‘‘کی طرف احالہ کیا ہے۔ابھی اس کتاب کے تین اجزاء مؤلف ہی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے پٹنہ میں واقع خدا بخش لائبریری میں موجود ہیں۔(غایۃ المقصود: ص:۱۲)
    ۲۔ ’’مختصر قیام اللیل‘‘شیخ الاسلام ابوعبد اللہ محمد بن نصر المروزی کی ہے ۔اصل میں اس کتاب میں مؤلف کی تین کتابیں شامل ہیں۔
    ۱۔ قیام اللیل، ۲۔قیام رمضان، ۳۔کتاب الوتر
    ان تینوں کتابوں کا اختصار امام احمد بن علی المقریزی (ت۸۴۵ھ)نے کیا ہے۔اس مختصر کا ایک مخطوط نسخہ خود علامہ مقریزی کے ہاتھ کا لکھا ہوا علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ کے مکتبہ میں موجود تھا ۔یہ کتاب دو بار شائع ہوئی ہے ،ایک بار ہندوستان سے،دوسری بار پاکستان سے ۔ہندوستان سے۱۳۲۰ھ میں مطبع رفاہ عام لاہور سے جو مطبع حافظ عبد التواب ملتانی رحمہ اللہ کے زیر نگرانی تھا ،اس پر حافظ عبد التواب ملتانی رحمہ اللہ نے مفید تعلیقات اور حواشی بھی چڑھائے تھے ۔دوسری بار مولانا عبد الشکور اثری نے پاکستان سے ۱۳۸۹ھ میں اپنی مفید تعلیقات کے ساتھ شائع کیا۔
    لیکن یہ دونوں طبعات حجری طبعات تھیں ،اس وجہ سے ان کو پڑھنا اور ان سے استفادہ کرنا بڑا مشکل تھا ۔پھر ’’حدیث اکادمی‘‘فیصل آباد ؍پاکستان نے اسے موجودہ طرز پر شائع کیا۔(مختصر قیام اللیل ص۶۔۷،ناشر حدیث اکادمی فیصل آباد ؍پاکستان نے)۔
    (اس ترجمہ پر نظرثانی شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ نے خود کیا ہے۔ فجزاہ اللہ خیرا و أحسن الجزاء )

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings