-
غیرت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے اسلام نے غیرت و حمیت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے،یہ وہ خصلت ہے جو معاشرے میں خیر و نیکی کے جذبے کو پروان چڑھاتی ہے،اخلاقی وانسانی قدروں کو مہمیز کرتی ہے،جہاں لوگوں میں غیرت موجود ہو وہاں شروبدی کو سر اٹھانے کا موقع نہیں ملتاہے،بے راہ روی و انارکی کو بڑھاوا نہیں ملتا ہے،عورتوں میں حیا وشرم کے صفات کی پرورش ہوتی ہے،اباحیت اور فحاشی کے لیے راستے بند ہوتے ہیں،اس کی ایک عملی مثال آج سے چودہ سو سال پہلے کا نبوی معاشرہ ہے،وہ معاشرہ خیرونیکی کا علمبردار اور تقویٰ و طہارت کا آئینہ دار تھا،دور دور تک شروبدی کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی،مردوعورت اپنے اپنے دائرۂ کار میں اپنے اپنے فرائض انجام دیتے تھے،کہیں کوئی اختلاط نہیں تھا،کہیں کوئی بے حیائی نہیں تھی،گناہوں کا بازار ویران تھا،معصیت ونافرمانی کے مواقع ناپید تھے،شیطان مارا مارا پھر رہا تھا،ہرچہار سو تقویٰ وپارسائی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
آج سماج ومعاشرے پر ایک نظر ڈالئے تو خیر و نیکی کے تمام چشمے خشک ہوتے نظر آتے ہیں،قدم قدم پر شر پیر پسار رہا ہے،بے حیائی اور فحاشی جابجا بال وپر نکال رہی ہے،عریانیت فیشن بن چکی ہے،زناکاری روزافزوں ہے،ہر پبلک مقام پر مردوزن کا اختلاط ہے،راستے،آفسیں،بازار،کمپنیاں،اسکول،کالج،یونیورسٹیاں،بس اسٹاپ اورریلوے اسٹیشن پر مردوزن کا کھلم کھلا میل جول ہے،ایک آگ ہے جو پھیل رہی ہے،ایک زہر ہے جو سماج کے شریانوں میں سرایت کر رہا ہے،دوسری قوموں کے ساتھ مسلم قوم بھی اس لعنت میں گرفتار ہے،یہ بھی بے حیائی اور فحاشی میں دوسری قوموں کے شانہ بشانہ چل رہی ہے،کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔
اس پوری بربادی کے پیچھے ہماری غیرتوں کا دیوالیہ پن ہے،ہماری اخلاقی حس کی بربادی ہے،اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا تھا دیوث جنت میں نہیں جائے گا،پوچھا گیا دیوث کون ہے؟آپ نے فرمایا کہ جو اپنے گھر کی عورتوں میں برائی دیکھے تو خاموش رہے،اس پر ایکشن نہ لے۔[مسند أحمد:۵۳۷۲]آج ہماری غیرت مرگئی توگھر اور باہر کا منظر بدل گیا،سلف کی غیرتوں نے بے حیائی پر روک لگائی تھی،ان کا بابرکت دور تھا،مساجد میں خواتین نماز کے لیے آیاکرتی تھیں،راستوں کے کنارے کنارے بچتے بچاتے اس طرح چلتی تھیں کہ ان کے دوپٹے مکانات کے دیواروں میں پھنس جاتے تھے،حضرت عمررضی اللہ عنہ ابتدائے اسلام سے ہی خواتین کو پردہ کرانے کی خواہش کا اظہار کرچکے تھے،آخر کار حضرت عمر کی غیرت رنگ لائی اور حجاب کے احکام قرآن مجید میں نازل ہوگئے،لعان کے احکام سے پہلے جب یہ سوال آیا کہ شوہر بیوی کو زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو کیا کرے؟جواب ملا کہ چار گواہ پیش کرے،حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ شدت جذبات میں کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ،میں اگر اپنی بیوی کو اس حالت میں دیکھوں گا تو گواہ ڈھونڈنے نہیں جاؤں گابلکہ جگہ پر ہی اس کا سر قلم کردوں گا،اس پر نبی نے کہا تھا لوگو،تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو،اللہ کی قسم اس سے زیادہ غیرت مجھ میں ہے اور مجھ سے کہیں زیادہ غیرت اللہ جل شانہ کے اندر ہے،جی ہاں،اللہ بھی غیرت کرتا ہے اسی لئے اس نے فواحش کو حرام قرار دیا ہے۔[صحیح البخاری:۷۴۱۶]
یہ اعلیٰ وارفع تعلیمات مسلم سماج کی پاکیزگی اور پارسائی کی ضمانت ہیں،مگر وہ زمانہ لد گیا جب ہم ان تعلیمات پر عمل پیرا تھے اور ہمارے اندر غیرت تھی،اب ہمارا سماج ہماری بے غیرتی کا اشتہار بن گیا ہے،اگر مسلمانوں کی غیرت کا تماشا دیکھنا ہے تو ان کی شادیوں پر ایک نظر ڈال لیجیے،یہ تو سچ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی نشست الگ الگ ہوتی ہے،تاہم اختلاط مردوزن سے پاک نہیں ہوتی،چلئے مردوں کی انٹری عورتوں کی نشست گاہ میں نہیں ہوتی لیکن کیمرہ مین دندناتے ہوئے جاتا ہے اور تصویر کشی کرتا ہے،ویڈیو بناتا ہے،پھر موبائل میں تھوک کے بھاؤ لی جانے والی تصویریں کیا شیئر نہیں ہوتی ہوں گی؟کیا وہ تصویریں مرد نہیں دیکھتے ہوں گے؟نشستیں الگ الگ ہیں لیکن راستہ تو ایک ہی ہے،کیا راستوں میں بات کرتے ہوئے مرد وعورت نظر نہیں آتے؟کیا نقاب میں ملبوس بعض عورتوں کے چہرے کھلے نہیں ہوتے،چہرے کھلے ہیں تو غضِّ بصر کے متقیانہ عمل کے کتنے لوگ پابند ہوتے ہیں؟یہ تو جگ ظاہر ہے،اسٹیج اگر کامن یا مخلوط ہے تو مسلمان اگرچہ نہ ناچ رہے ہوں لیکن شیطان وہاں ننگا ناچ رہا ہوتا ہے،ساتھ ہی مردوعورت کے درمیان مبارکبادیوں کے تبادلے کا منظر بڑا روح پرور ہوتا ہے۔
بازاروں میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ ہماری غیرت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے،یہ دور جدید کی برکت ہے کہ شاپنگ کا ڈپارٹمنٹ خواتین نے سنبھال لیا ہے،خریدار تو خواتین ہیں لیکن دکانداروں کی اکثریت مرد ہوتی ہے جن سے خرید وفروخت میں سامنا ہوتا ہے،آپ کیا سمجھتی ہیں؟آپا اور بھابھی کہہ کر پکارنے سے کوئی محرم ہوجاتاہے؟وہ بھی مرد ہوتے ہیں،نفس وشیطان کا عارضہ انہیں بھی لاحق ہوتا ہے،ان سے بھاؤ تاؤ اورچند روپئے کم کرانے کے لیے گھنٹوں تکرار کیا کہلائے گی؟بیوی کے ساتھ اکا دکا اگر مرد نظر آتے بھی ہیں تو وہ لڑکا اور جھولا سنبھالے ہوتے ہیں،ظاہر سی بات ہے ایک ہاتھ میں موبائل اور ایک ہاتھ میں پرس ہے تو شوہر کو باربرداری کی زحمت اٹھانی ہی پڑے گی،لیکن خریداری کا پورا ذمہ بیوی ہی اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے ہوتی ہے،عید کی شاپنگ کا نظارہ تو ایسا ہوتا ہے کہ محشر سے پہلے محشر کا سماں ہوتا ہے۔
ادھرہماری تعلیم گاہوں کا منظر بھی عجیب ہے،مخلوط تعلیم ایک فتنہ ہے،یہ بات نہ تو مسلم اداروں کے ذمے داروں کو سمجھ آئی اور نہ پیرنٹس کے حلق سے نیچے اتری ہے،جب لڑکی اور لڑکے کی کلاس ایک ہوگی تو تعلیم کے ساتھ دوسرے غیراخلاقی فتنے بھی ہوں گے،لڑکے اور لڑکی کا باہم میل جول اور اختلاط تو چھوٹی بات ہے،مخلوط کلاس غیرمعیاری لڑکوں اور لڑکیوں کو من مانی کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے،آئے دن اسکول میں کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پرپوز کرتا ہے،ویڈیو بنتی ہے اور وائرل ہوتی ہے،عشق ومحبت کے سلسلے شروع ہوتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں،کتنے تو اس آزار میں مبتلا ہو کر اپنی تعلیم سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،موبائل اس پورے معاملے میں بڑا کلیدی رول ادا کرتا ہے جو پیرنٹس خرید کر دے چکے ہوتے ہیں،تعلیم اور آرٹ کے نام پر گانے باجے اور ڈانس کے فنکشن کا معاملہ بھی خوب ہے،مسلم والدین کی خوشی دوچند ہوتی ہے جب ان کی لڑکی یا لڑکا اس طرح کے مقابلوں میں سلیکٹ کرلیے جاتے ہیں،فوراً اسٹیٹس اپلوڈ ہوجاتا ہے،مشنری اسکولوں پر بہار بھی روشن خیال مسلم والدین کی ترجیحات کا نتیجہ ہے،پھر کوئی مسلم بچی کمپٹیشن جیتنے کے لیے گیتا حفظ کرلیتی ہے تو حیرت کی بات نہیں ہے،مسلم علاقوں میں بھی مشنری اسکولس دھوم سے چل رہے ہیں،سچ تو یہ ہے کہ تعلیم کے تیزاب میں ہمارے بچوں کی خودی کو بدلا اور اپنے کلچر میں ڈھالا جارہا ہے،ارتداد کی لہر یونہی نہیں آگئی ہے، یہ سب اسی کے اسباب ہیں۔
گھروں میں حرمتوں کی پامالی کی ایک الگ کہانی ہے،وہ افراد جن سے پردہ کرنا تھا وہ بھی بلاروک ٹوک گھروں میں آجارہے ہیں،سالی اور بہنوئی کا رشتہ اسلام میں کیا معنیٰ رکھتا ہے؟سب کو پتہ ہے،داماد کے لیے راہیں اتنی کشادہ کردی جاتی ہیں کہ وہ گھر میں کچن تک گھستا چلا جاتا ہے،کوئی روک ٹوک نہیں ہے،ہنسی مذاق اور بے تکلفی ہوتی ہے،اسلام کی نظر میں بیوی کی بہنوں کو بھی اپنے بہنوئی سے پردہ کرنا چاہیے،یہاں کوئی استثنا نہیں ہے،وہ دوسروں کی طرح بیوی کی جوان بہنوں کے لیے غیر محرم ہے،یہ کہنا کہ یہ تو ہمارے بیٹے جیسے ہیں یا یہ تو ہمارے بھائی جیسے ہیں،کوئی اہمیت نہیں رکھتا،شریعت کا حکم ہماری لاجک سے بدلتا نہیں ہے۔
اسی طرح دیور بھی بھابھیوں کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے،عموما ًاس سے پردہ نہیں کیا جاتا،بھابھی سے بے تکلفی اور ہنسی مذاق کو دیور اپنا حق سمجھتا ہے،دراصل یہ ہندؤوں کے کلچر کا حصہ ہے جو ہمارے یہاں بھی غیر محسوس طریقے سے آگیا ہے،بھابھی کو چاہیے کہ دیور سے قربت کو ختم کرکے شرع کی پابندیوں پر عمل پیرا ہو،اللہ کے نبی ﷺسے دیور کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ دیور تو موت ہے،اس جواب کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس کے تقاضوں کو بروئے کار لایا جائے،وگر نہ روز روز کی بے احتیاطی اور بے تکلفی سے ایسے واقعات جنم لیں گے جو نہ اسلام کی پیشانی پر کلنک ہوں گے بلکہ خاندانوں کی رسوائی کا ذریعہ بھی ہوں گے۔
یہ تمام برائیاں غیرت کے فقدان کا نتیجہ ہیں،خواتین کے تعلق سے اہلِ ایمان کی شدت احساس کی کمزوری کا باعث ہے،ہم کو اپنے اندر کی غیرت کو صیقل کرنا ہوگا،حیاوشرم کے تقاضوں پر خود کھرا اترنا ہوگا اور گھر کی خواتین کو بھی پابند کرنا ہوگا،کمیوں کو دیکھ کر نظر انداز کرنا اور بے پردگی کو ہلکے میں لینا وہ بھول ہے جو آگے چل کر کسی بڑے فتنے کی شکل اختیار کرسکتی ہے،اس لیے برائی کے ناگ کو سراٹھانے سے پہلے ہی کچل دو تاکہ ہمارا معاشرہ مستقبل میں اباحیت زدہ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بنے۔