Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عصر کی نماز کے لیے ’’ایک مثل‘‘سایہ کا صحیح مفہوم اور’’سایہ اصلی‘‘کی تشریح

    تمہید:
    احادیث میں عصر کی نماز کا وقت بتایا گیا ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے، پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حدیث میں سایہ کے لیے جو’’ایک مثل‘‘کا لفظ وارد ہوا ہے اس میں وہ’’سایہ اصلی‘‘شمار نہیں کیا جائے گا جو زوال کے وقت موجود ہوتا ہے اور عصر کی نماز کا وقت اس وقت شروع ہوگا جب اس ’’سایہ اصلی‘‘سے زائد سایہ ’’ایک مثل‘‘کا ہوجائے۔
    البتہ ممبئی کی ایک مسجد کے بعض ذمہ داران جو اہل علم میں سے نہیں، فقہ وشریعت کے بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہیں حتیٰ کہ ایک سطر عربی عبارت کا ترجمہ کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے ’’ایک مثل‘‘سایہ کے متعلق پوری امت کے فہم کو چھوڑ کر اپنا ایک من مانا فہم گھڑ لیا ہے اور اس پر اس حد تک اصرار کرتے ہیں کہ زمانے سے اپنی مسجد میں عصر کی اذان اور جماعت پوری امت کی مخالفت کرتے ہوئے وقت سے پہلے کراتے ہیں ،یہ مضمون انہی کی اصلاح اور غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ہے۔
    اس مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ حدیث میں وارد’’ایک مثل سایہ‘‘کے متعلق اجماع کے ثبوت اورامت کے کبار اہل علم کے اقوال ذکر کریں اور مذکورہ مسجد کے ذمہ داران کے لیے واضح کریں کہ انہوں نے حدیث میں وارد لفظ ’’مثلہ‘‘کا جو مفہوم سمجھا ہے وہ پوری امت کے فہم سے مختلف ہے اور ان کا اختلاف محض کسی مقامی سینٹر، عالم یا ذمہ دار کے ساتھ نہیں بلکہ پوری امت کے ساتھ ہے ، گویا کہ مذکورہ مسجد کے ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ حدیث میں وارد لفظ ’’مثلہ‘‘کا مفہوم ۱۴۰۰سال سے پوری امت کے علماء اور فقہاء کو سمجھ میں نہیں آسکا اور ۱۴۰۰سال بعد آج جاکر ممبئی کے ایک علاقے میں رہنے والے ان چند لوگوں کو حدیث کا صحیح مفہوم سمجھ میں آیا ہے ۔
    واضح رہے کہ یہ مسئلہ ایک مقامی مسئلہ ہے اوراس کی وجہ علم کا فقدان، اصولوں سے ناواقفیت ،جاہلوں کا خود کو افتاء ، تفسیر اورشرحِ احادیث کے منصب پر فائز کرلینا ، اہل علم کی قدر نا جاننا اور خود کو ان کی رہنمائی سے آزاد کرلینا ہے۔
    مذکورہ مسجد کے ذمہ داران کے موقف کو رد کردینے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ ایک مثل کا جو مفہوم یہ حضرت بیان کر رہے ہیں یہ امت میں کبھی کسی عالم کا موقف نہیں رہا ہے اور یہ آج بھی باحیات مستند اہل علم میں سے کسی ایک صاحب علم کو پیش نہیں کرسکتے جو ان کے’’ایک مثل‘‘سایہ کے خود ساختہ مفہوم کی تائید کرے اور اس بات کا قائل ہوکہ’’سایہ اصلی‘‘کو بھی’’سایہ مثل‘‘میں شمار کیا جائے گا۔
    اس مسئلہ میں امت کے اجماع کے ثبوت اور اہل علم کے اقوال اس امید سے پیش کیے جارہے ہیں کہ عوام جو اس مسئلہ سے ناواقف ہیں ان کے لیے دلائل کے ساتھ مسئلہ واضح ہوجائے ، وہ ان بے علم ذمہ داروں کے شبہات سے متأثر نہ ہوں اور ان حضرات کو قائل کیا جائے کہ وہ اپنے موقف سے رجوع کریں ۔
    وقت سے پہلے عصر کی اذان دینا اور اس کو مستقل عادت بنا لینے کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ نماز کے وقت کی تعیین شریعت کے امور میں سے ایک اہم امر ہے ، اور اس امر میں احادیث اور امت کے اجماع کے برخلاف مستقل ایک فرض نماز کی اذان اور جماعت وقت سے پہلے کرانااور اس کو عادت بنا لینا ایک بدعت ہے، اور اس مضمون کا مقصد اس بدعت کا خاتمہ ہے ۔
    عصر کی نماز کا وقت:
    احادیث نبویہ ﷺکے مطابق عصر کی نماز کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے۔ سنن نسائی کی روایت ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام لوگوں کو نماز کے اوقات کی تعلیم دینے کے لیے آئے اور تمام نمازوں کے اوقات پر نماز پڑھ کر اوقات کی تعیین کی ، حدیث کے الفاظ ہیں «ثمَّ صلَّي العصرَ حِينَ ر أى الظلَّ مِثلَه» ’’کہ آپ نے عصر کی نماز پڑھی جب سایہ اس کے مثل تھا‘‘۔
    ’’ایک مثل‘‘ کا مفہوم:
    احادیث یا علماء کے اقوال میں جب’’ایک مثل‘‘کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس میں ’’ظل الزوال‘‘یعنی وہ سایہ شامل نہیں ہوتا جو زوال کے وقت موجود ہوتا ہے ، جس کو’’ فئی الزوال‘‘ اور ’’سایہ اصلی‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔
    اثرم جو امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں وہ کہتے ہیں کہ ابو عبداللہ (امام احمد ابن حنبل، وفات۲۴۱ھ) سے پوچھا گیاکہ ’’ظہر کا آخری وقت کیا ہے؟‘‘تو انہوں نے فرمایا کہ’’جب سایہ ایک مثل ہوجائے‘‘ان سے کہا گیا کہ ’’سایہ ایک مثل کب ہوتا ہے؟ ‘‘تو انہوں نے جواب دیا’’جب سورج زائل ہوجائے اور زوال کے بعد سایہ چیزوں کے برابر ہوجائے تب ایک مثل سایہ ہوگا، اور اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ زوال کے وقت جو سایہ (سایہ اصلی) تھا اس کو یاد رکھا جائے اور اس کے بعد سائے کی زیادتی کو دیکھا جائے، پھر اگر سایہ شخص کے برابر ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا‘‘۔
    امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے یہ مکالمہ اپنی مایہ ناز کتاب ’’المغنی ‘‘میں نقل کیا ہے ، عبارت مع حوالہ حسب ذیل ہے :
     «قال الأثرم:قيل لأبي عبد اللّٰه:’’و أى شيء آخر وقت الظهر؟ قال:أن يصير الظل مثله.قيل له: فمتي يكون الظل مثله؟ قال:إذا زالت الشمس، فكان الظل بعد الزوال مثله، فهو ذاك.ومعرفة ذلك أن يضبط ما زالت عليه الشمس، ثم ينظر الزيادة عليه، فإن كانت قد بلغت قدر الشخص، فقد انتهي وقت الظهر»
    [ المغنی لابن قدامۃ:۱؍۲۷۱]
    اس موقف پر علماء امت کا اجماع:
    یہ موقف اکیلے امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کا نہیں بلکہ پوری امت کا متفقہ موقف ہے ۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس موقف پر اجماع نقل کیا ہے ۔ آپ لکھتے ہیں :
     «وَاتَّفَقُوا أَن مَا بَين زَوَال الشَّمْس إلى كَون ظلّ كل شَيْء مثله بعد طرح ظلّ الزَّوَال وَقت الظّهْر»
    [مراتب الإجماع:ص:۲۶]
    ’’اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ ظہر کا وقت زوالِ شمس سے لے کر ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجانے تک ہے ’’ظل الزوال‘‘(سایہ اصلی )کو چھوڑ کر ‘‘۔
    امام ابن منذر نے بھی اسی بات پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں :
     «أجمع أهل العلم عَلَي أن وقت الظهر زوال الشمس، ودلت السنة عَلَي أن آخر وقت الظهر إذا صار ظل كل شيء مثله بعد القدر الذى زالت عليه الشمس»
    [الإقناع لابن المنذر:۱؍۷۹]
    ’’اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال شمس کے بعد ہے اور سنت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ظہر کا آخری وقت تب ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے ، اتنے سائے کے بعد جس پر سورج زائل ہوا تھا‘‘۔
    اجماع متفق علیہ حجت ہے ۔
    واضح رہے کہ اجماع شریعت کے دلائل میں سے ایک دلیل اور حجت ہے ، اجماع کا منکر بدعتی ہے ، کیونکہ یہ امت کبھی غلطی پر متفق نہیں ہوسکتی ، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنین کا راستہ چھوڑنے والوں کے لیے وعید سنائی ہے (النساء:۱۱۵) اور اس امت کے فرقوں میں سے ایک فرقہ فرقہ ناجیہ ہے اور امت کے کسی بات پر متفق ہوجانے کا مطلب وہ فرقہ ناجیہ بھی اسی بات کا قائل ہے ۔
    امام قاضی ابو یعلیٰ (وفات۴۵۸ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
     «الإِجماع حجة مقطوع عليها، يجب المصير إليها، وتحرم مخالفته، ولا يجوز أن تجتمع الأمَّةُ على الخطأ»
    ’’اجماع ایک حتمی حجت ہے ، اس کو ماننا واجب ہے ،اس کی مخالفت حرام ہے اور یہ ممکن نہیں کہ امت کبھی غلطی پر متفق ہوجائے‘‘
    [العدۃ فی أصول الفقہ :۴؍۱۰۵۸]
    حدیث کیسے سمجھی جاتی ہے؟
    احادیث کے الفاظ کو سمجھنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ڈکشنری میں اس لفظ کے لغوی معنیٰ دیکھ لیے جائیں اور پھر حدیث کی تشریح اسی لغوی معنیٰ کے حساب سے کی جائے۔
    بلکہ حدیث سمجھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اہل عرب جب یہ لفظ استعمال کرتے تھے تو ان کی مراد اس لفظ سے کیا ہوتی تھی ، اور اہل عرب کی مراد سمجھنے کے لیے اس لفظ کی تشریح میں اہل علم فقہاء اور محدثین کی طرف رجوع کیا جائے گاجو عربی زبان کے معانی کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کے معانی پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔
    اگر کسی لفظ کی تشریح کے لیے اہل علم کی طرف رجوع چھوڑ کر محض لغت کی کتابیں لے کر بیٹھ جایا جائے تو بے شمار مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔
    مثلاً سنن ابی داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: «لَا يَقْبَلُ اللّٰهُ صَلَاةَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ» اس حدیث کا لفظ بلفظ ترجمہ ہوگا ’’حائضہ کی نماز بغیر دوپٹے کے قبول نہیں ہوتی‘‘اب اگر حدیث میں وارد لفظ ’’حائض‘‘ کے لغوی معنیٰ مراد لیے جائیں تو کہنا پڑے گا کہ حائضہ عورت کو بھی نماز پڑھنا چاہیے، لیکن امت کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں حائض سے اس کے لغوی معنیٰ مراد نہیں ہیں بلکہ حائض سے مراد بالغ ہے ۔
    ایک اور مثال دیکھیں ، نماز کے اوقات سے متعلق صحیح بخاری ہی کے الفاظ ہیں «’’وَيُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ‘‘» حدیث کے الفاظ کا ٖلغوی ترجمہ ہوگا ’’نبی ﷺظہر کی نماز پڑھتے جب سورج زائل ہوتا ‘‘زوال کا معنیٰ لغت میں’’اپنے مکان سے ہٹنا‘‘، ’’ہلنا‘‘اور’’زائل ہونا‘‘ہوتا ہے، اس اعتبار سے تو سورج ہمیشہ اپنی جگہ سے ہٹتا رہتا ہے ، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یہ لفظ جب اہل عرب استعمال کرتے تھے تو ان کی مراد وسط آسمان سے سورج کے ہٹنے کے ہوتے تھے، نہ کہ اس کا لغوی معنیٰ مراد ہوتا تھا۔
    ایسا ہی معاملہ ایک مثل سائے کا ہے ، عربی زبان میں جب ’’مثلہ‘‘کا لفظ سائے کے لیے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد زوال کے بعد ’’سایہ اصلی‘‘کو چھوڑ کر سائے کا’’ایک مثل‘‘ہوجانا ہوتا ہے ، نہ کہ‘‘سایہ اصلی‘‘کو ملاکر ، پوری امت نے حدیث کے الفاظ ’’مثلہ‘‘کا یہی مفہوم سمجھا ہے ، اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ پوری امت کو’’مثلہ ‘‘کا مفہوم سمجھ میں نہیں آسکا اور آج ممبئی کے ایک علاقے کے بعض لوگوں کو’’مثلہ‘‘کا صحیح مفہوم سمجھ میں آیا ہے ۔
    سایہ اصلی کیسے معلوم کیا جاتا ہے ؟
    یہ بات سمجھنے کے لیے کہ ’’سایہ اصلی‘‘( ظل الزوال ، فیء الزوال)کیا ہوتا ہے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ زوال کے وقت ہمیشہ سورج بالکل ہمارے سروں کے اوپر نہیں ہوتا ، اس لیے ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ زوال کے وقت چیزوں کا سایہ بالکل ختم ہوجائے، خط جدی( Tropic of Capricorn) اور خط سرطان( Tropic of Cancer) کے بیچ رہنے والوں کے لیے سال میں صرف دو دن ایسے آتے ہیں جب زوال کے وقت ان کا سایہ بالکل نہیں ہوتا ہے ان دنوں کو ’’No shadow day ‘‘کہا جاتا ہے ، بقیہ دنوں میں ہر چیز کا زوال کے وقت کچھ نہ کچھ سایہ ہوتا ہے ، مثلا ًہمارے یہاں سردی کے دنوں میں سورج قطب جنوبی کی طرف جھکا ہوا ہوتا ہے اور سورج بالکل ہمارے سروں کے اوپر سے ہوکر نہیں گزرتا بلکہ جنوب کی طرف مائل ہوکر نکلتا اور ڈوبتا ہے ، ان دنوں میں جب زوال کا وقت ہوتا ہے اس وقت سورج ہمارے جنوب کی طرف ہوتا ہے اس لیے شمال کی طرف ایک سایہ موجود ہوتا ہے، اسی سایہ کو ’’سایہ اصلی‘‘یا ’’ظل الزوال‘‘یا ’’فیء الزوال‘‘یعنی زوال کا سایہ کہا جاتا ہے ، یہ سایہ اصلی زمان اور مکان کے اعتبار سے چھوٹا بڑا ہوتا رہتا ہے، بعض مقامات پر تو زوال کے وقت ہی سایہ چیزوں کے برابر ہوجاتا ہے اور بعض مرتبہ ان سے بھی بڑا، یعنی اگر سایہ اصلی کو سایہ مثل میں شمار کیا جائے تو بہت سارے مقامات پر ظہر اور عصر کا وقت ایک ساتھ ہی ہوجائے گا۔(ان شاء اللہ اس بات کو ہم اپنے اگلے مضمون میں مثالوں اور تٖفصیلات کے ساتھ واضح کریں گے۔)
    سایہ اصلی کو سمجھنے کے لیے آپ ایک تجربہ کریں ، آج کل ٹھنڈی کے دن ہیں او ر سورج جنوب کی طرف مائل ہوکر نکل رہا ہے ۔ آپ ایک لکڑی زوال سے تین چار گھنٹے پہلے دھوپ میں کھڑی کردیں، آپ دیکھیں گے کہ شمال مغرب میں اس کا لمبا سایہ ہے ، جیسے جیسے سورج مشرق سے اوپر اٹھ رہا ہوتا ہے مغرب میں لکڑی کا سایہ گھٹتا چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ عین زوال کے وقت شمال کی جانب آکر سائے کاگھٹنا رک جاتا ہے ، یہی سایہ اصلی ہے ، کیونکہ یہ سایہ زوال کے وقت موجود ہوتا ہے اس لیے عربی میں اسے ’’ظل الزوال‘‘ یا ’’فئی الزوال‘‘ یعنی زوال کا سایہ کہتے ہیں ، اس کے بعد پھر سورج مغرب کی طرف زائل ہوجاتا ہے ا ور سایہ شمالِ مشرق کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے ۔
    جب یہ سایہ سایہ اصلی کے بعد ایک مثل بڑھ جاتا ہے تب عصر کی نماز کا وقت شروع ہوتا ہے ۔
    سایہ اصلی معلوم کرنے کا یہ طریقہ شیخ الالبانی نے بھی بتایا ہے، دیکھیے: [جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقہ:۳؍ ۵۲]
    شیخ البانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
     «وقت العصر، وقت العصر كما جاء فى الأحاديث إذا صار ظل الشيء مثله مع فيء الزوال»
    ’’عصر کا وقت جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے فیء الزوال کے ساتھ‘‘
    شیخ البانی کے اس قول سے بھی ہماری اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ حدیث میں اور علماء کے اقوال میں جب ایک ’’مثل‘‘کی اصطلاح آتی ہے تو اس میں سایہ اصلی کا شمار نہیں ہوتا ہے ۔[جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقہ: ۳؍ ۵۲]
    واضح رہے کہ یہ سایہ اصلی زمان ومکان کی تبدیلی کے اعتبار سے گھٹتا بڑھتا رہتا ہے، فقہ کے مشہور انسائیکلوپیڈیا ’’الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ‘‘میں درج ہے :
     «وَيَخْتَلِفُ ظِل الزَّوَال طُولاً وَقِصَرًا وَانْعِدَامًا بِاخْتِلاَفِ الأَْزْمِنَةِ وَالأَْمْكِنَةِ.وَكُلَّمَا بَعُدَ الْمَكَانُ مِنْ خَطِّ الاِسْتِوَائِ كُلَّمَا كَانَ فَيْئُ الزَّوَال أَطْوَل، وَهُوَ فِي الشِّتَائِ أَطْوَل مِنْهُ فِي الصَّيْفِ»
    ’’ظل الزوال (سایہ اصلی)کے لمبے ہونے ، چھوٹے ہونے اور معدوم ہوجانے کا معاملہ زمان اور مکان کی تبدیلی سے تبدیل ہوتا رہتا ہے، جو مقامات خط استواء سے جتنی دور ہیں ان میں سایہ اصلی اور اتنا ہی لمبا ہوگا اور سردیوں میں سایہ اصلی گرمیوں سے زیادہ لمبا ہوگا‘‘
    [ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ :۷؍۱۷۲]
    شیخ الالبانی رحمہ اللہ بھی سایہ اصلی کے بارے میں فرماتے ہیں : «ويختلف طوله باختلاف الفصول»
    ’’کہ سایہ اصلی کی لمبائی موسم کے حساب سے تبدیل ہوتی رہتی ہے
    ‘‘[جامع تراث العلامۃ الألبانی فی الفقہ:۳؍۵۲]
    مزید کچھ ائمہ اور علماء کے حوالے:
    امام مالک رحمہ اللہ:
     «قَالَ مَالِكٌ وَأَصْحَابُهُ آخِرُ وَقْتِ الظُّهْرِ إِذَا صَارَ ظِلُّ كُلِّ شَيْئٍ مِثْلَهُ بَعْدَ الْقَدْرِ الَّذِي زَالَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ وَهُوَ أَوَّلُ وَقْتِ الْعَصْرِ»
    ’’امام مالک(وفات ۱۷۹ھ) اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ ظہر کا آخری وقت تب ہوگا جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے اتنے سائے کے بعد جو سورج کے زوال کے وقت تھا اور وہی عصر کا اول وقت ہے‘‘
    [التمہید لما فی الموطأ من المعانی والأسانید :۸؍۷۳]
    امام نووی رحمہ اللہ:
    امام نووی (وفات ۶۷۶ھ) صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں :
     «وَوَقْتِ الْعَصْرِ بَلْ مَتَي خرج وقت الظهر بمصير ظل الشي مِثْلَهُ غَيْرَ الظِّلِّ الَّذِي يَكُونُ عِنْدَ الزَّوَالِ دَخَلَ وَقْتُ الْعَصْرِ»
    ’’عصر کی نماز کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب ظہر کا وقت ختم ہوجائے یعنی جب ہر چیزکا سایہ اس کے مثل ہوجائے اس سائے کے علاوہ جو زوال کے وقت تھا ، اس وقت عصر کا وقت داخل ہوجاتا ہے ‘‘
    [شرح النووی علیٰ مسلم:۵؍۱۱۰]
    امام ابن قدامہ رحمہ اللہ :
    امام ابن قدامہ رحمہ اللہ (وفات۶۲۰ھ) فرماتے ہیں:
     «وأول وقتها إذا زالت الشمس، وآخره إذا كان ظل كل شيء مثله بعد القدر الذى زالت الشمس عليه»
    ’’ظہر کا اول وقت ہے جب زوال ہو اور آخری وقت جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے ، اس سائے کی لمبائی کے بعد جس پر سورج زائل ہوا تھا‘‘
    [الکافی فی فقہ الإمام أحمد:۱؍۱۸۴]
    امام مجد الدین ابی برکات رحمہ اللہ:
    امام مجد الدین ابی برکات (وفات۶۵۲ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
     «أول وقت الظهر زوال الشمس وآخره تساوي الشيء وظله سوي فيء الزوال»
    ’’ظہر کا اول وقت زوال شمس کا وقت ہے اور آخری وقت جب ہر چیز اور اس کا سایہ برابر ہوجائے سوائے ’’فیء الزوال‘‘(سایہ اصلی) کے ‘‘
    [المحرر فی الفقہ علی مذہب الإمام أحمد بن حنبل :۱؍۲۸]
    امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ :
    امام ابن تیمیہ(وفات۷۲۸ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
     «وَوَقْتُ الظُّهْرِ:مِنَ الزَّوَالِ إِلَي مَصِيرِ ظِلِّ كُلِّ شَيْئٍ مِثْلَهِ، سِوَي فَيْئِ الزَّوَالِ»
    ’’اور ظہر کا وقت زوال کے بعد سے ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجانے تک ہے ’’فیء الزوال‘‘ (سایہ اصلی) کے علاوہ‘‘
    [القواعد النورانیۃ:ص:۴۰]
    مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ:
    مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری(وفات۱۳۵۳ھ) رحمہ اللہ سنن ترمذی کی اپنی مایہ ناز شرح تحفۃ الاحوذی میں حضرت جبریل علیہ السلام کی امامت والی حدیث ہی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
     «ثُمَّ صَلَّي الْعَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْئٍ مِثْلَ ظِلِّهِ) أَيْ سِوَي ظِلِّهِ الَّذِي كَانَ عِنْدَ الزَّوَالِ»
    (پھر (حضرت جبریل نے) عصر کی نماز پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل تھا )’’یعنی اس سائے کے علاوہ جو زوال کے وقت تھا‘‘
    [ تحفۃ الأحوذی :۱؍۳۹۵]
    دائمی فتویٰ کمیٹی سعودی عرب:
    سعودی عرب کی سرکاری فتویٰ کمیٹی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء عصر کی نماز کے وقت کے متعلق اپنے فتویٰ میں صاف صاف لکھا ہے :
    ’’وقت العصر یبدأ إذا صار ظل کل شیء مثلہ بعد الظل الذی کان موجودًا حین الزوال سواء کان طویلاً أم قصیرًا‘‘
    عصر کا وقت شروع ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے اس سائے کے بعد جو زوال کے وقت موجود تھا، چاہے وہ سایہ چھوٹا ہو یا بڑا۔
    (فتویٰ نمبر۷۵۵۰):
    اس فتویٰ کے نیچے ان علماء کے دستخط ہیں ۔ شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز،شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد اللہ بن غدیان، شیخ عبد اللہ بن قعود۔
    شیخ الالبانی رحمہ اللہ:
    شیخ الالبانی(وفات۱۴۲۰ھ) رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
     «والعصر عند صيرورة ظل الشيء مثله، بالإضافة إلى ظل الزوال»
    ’’عصر کا وقت اس وقت ہوتاہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے اور اس میں سایہ اصلی (ظل الزوال) کا اضافہ بھی کیا جائے گا‘‘
    [سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ وشیء من فقہہا وفوائدہا:۷؍۱۳۰۳]
    شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:
    شیخ ابن عثیمین (وفات۱۴۲۱ھ)رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
     «الظهر من زوال الشمس إلى أن يصير ظل كل شيء مثله لكن بعد أن تخصم ظل الزوال»
    ’’ظہر کا وقت زوال شمس سے لے کر اس وقت تک ہے جب تک ہر چیز کا سایہ اس کے مثل نہ ہوجائے، لیکن ظل الزوال (سایہ اصلی)کو اس سے الگ کردینے کے بعد‘‘
    [مجموع فتاویٰ ورسائل العثیمین:۱۲؍۲۳۰]
    خاتمہ :
    سایہ مثل کے مفہوم پر چونکہ امت کے علماء کا اتفاق ہے اس لیے تمام علماء کے اقوال نقل کرنا ممکن نہیں ، فقہ کی بیشتر کتب میں یہ بات موجود ہے کہ’’مثل‘‘میں ’’سایہ اصلی‘‘کا شمار نہیں کیا جائے گا،اگر تمام علماء کے اقوال نقل کیے جائیں کئی ضخیم جلدوں میں کتاب تیار ہوجائے گی، فی الحال ہم چند معروف علماء کے حوالوں پر اکتفاء کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مذکورہ مسجدکے ذمہ داران کے لیے علماء امت کے اتنے سارے حوالے کافی ہوں گے اور وہ حدیث کے فہم سے متعلق پوری امت کے فہم کے برخلاف فہم پیش کرنے سے باز آجائیں گے ۔
    نماز کا معاملہ بہت اہم ہے، وقت سے پہلے ادا کی گئی نماز ادا نہیں ہوتی اور ایسی نماز باطل ہے، خواہ بھول کر ہی پڑھی گئی ہو ، شیخ ابن باز (وفات۱۴۲۰ھ)رحمہ اللہ سے ایک سائل نے سوال کیا:
    ’’إذا صلیت أحد الفروض قبل موعد الصلاۃ بما یقرب من عشر دقائق وکان ذلک سہو منی، ہل تسقط عنی تلکم الصلاۃ أم ما زالت فی ذمتی؟‘‘
    ’’اگر میں نے کوئی فرض نماز وقت ہونے سے پہلے تقریباً دس منٹ پہلے پڑھ لی اور یہ عمل مجھ سے غلطی سے ہوگیا تو کیا میری یہ نماز تسلیم کی جائے گی یا میرے ذمہ نماز باقی ہے (اور مجھے دوبارہ دہرانی پڑے گی؟)‘‘
    اس پر شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے جواب دیا کہ :
     «إذا صليتها قبل الوقت فهي باطلة ولا تسقط عن ذمتك»
    ’’اگر آپ نے یہ نماز وقت سے پہلے پڑھ لی تو باطل ہے اور آپ کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوئی ۔(یعنی آپ کو دوبارہ دہرانی پڑے گی)‘‘
    (یہ فتویٰ شیخ ابن باز کی آفشیل ویب سائٹ پر موجود ہے ، فتوے میں موجود الفاظ لکھ کر تلاش کیا جاسکتا ہے) ۔
    عصر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے کی صرف ایک صورت ہے کہ ظہر اور عصر کو ظہر میں جمع کرکے جمع تقدیم کی جائے، بصورت دیگر وقت سے پہلے عصر کی نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
    اس مضمون کا اختتام ہم انہی باتوں پر کرتے ہیں ،اگلے مضمون میں ان شاء اللہ تعالیٰ ہم مثالوں سے یہ بات واضح کریں گے کہ اگر ’’سایہ اصلی‘‘کو ’’سایہ مثل‘‘میں شمار کیا جائے تودنیا میں بہت سارے مقامات میں ظہر کی نماز کے ساتھ ساتھ عصر کی نماز کا وقت ہوجائے گا اور کئی مقامات پر تو دو تین منٹ میں ہی ظہر کی نماز قضاء ہوجائے گی ۔
    وما علینا إلا البلاغ المبین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings