-
تین طلاق اور صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ (قسط اول ) امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱)نے کہا:
«حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، واللفظ لابن رافع، قال إسحاق:أخبرنا، وقال ابن رافع:حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاؤس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال:’’كان الطلاق على عهد رسول اللّٰهﷺ ، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب:إن الناس قد استعجلوا فى أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم »
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں ، جو شخص بیک وقت تین طلاقیں دے دیتا اس کو ایک شمار کیا جاتا تھا ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:لوگوں نے اس کام میں عجلت شروع کردی ہے جس میں ان کے لیے مہلت تھی تو اگر ہم بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو نافذ کردیں تو بہتر ہوگا ، پھر انہوں نے تین طلاقوں کو نافذ کرنے کا حکم دیا ‘‘(ترجمہ غلام رسول سعیدی )
[ شرح صحیح مسلم : ۳؍۱۰۱۹،صحیح مسلم :۳؍۱۰۹۹،رقم۱۴۷۲]
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے نبی کے دور میں بیک وقت دی گئی تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«’’وهو نص لا يقبل الجدل على أن هذا الطلاق حكم محكم ثابت غير منسوخ لجريان العمل عليه بعد وفاتهﷺ فى خلافة أبي بكر، وأول خلافة عمر، ولأن عمر رضي اللّٰه لم يخالفه بنص آخر عنده بل باجتهاد منه ولذلك تردد قليلا أول الأمر فى مخالفته كما يشعر بذلك قوله:إن الناس قد استعجلوا…فلو أمضيناه عليهم… ، فهل يجوز للحاكم مثل هذا التساؤل والتردد لوكان عنده نص بذلك؟وأيضا، فإن قوله: قد استعجلوا يدل على أن الاستعجال حدث بعد أن لم يكن، فر أى الخليفة الراشد، أن يمضيه عليهم ثلاثا من باب التعزيز لهم والتأديب، فهل يجوز مع هذا كله أن يترك الحكم المحكم الذى أجمع عليه المسلمون فى خلافة أبي بكر وأول خلافة عمر، من أجل ر أى بدا لعمر واجتهد فيه، فيؤخذ باجتهاده، ويترك حكمه الذى حكم هو به أول خلافته تبعا لرسول اللّٰه ﷺ وأبي بكر؟! اللهم إن هذا لمن عجائب ما وقع فى الفقه الإسلامي ‘‘»
’’یہ حدیث ایسی نص ہے جس کے سامنے اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ تین طلاق کو ایک قرار دینے کاحکم ثابت اور غیر منسوخ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں نیز عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں اس پر عمل جاری رہا ہے ۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت کسی نص کی بنیاد پر نہیں کی بلکہ اجتہاد کی بناپر کی ہے ، اسی لئے شروع میں وہ اس کی مخالفت کے سلسلے میں متردد تھے جیساکہ ان کے الفاظ «إن الناس قد استعجلوا…فلو أمضيناه عليهم» ، (لوگوں نے اس بارے میں جلد بازی کی…تو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو) سے پتہ چلتا ہے ، تو اگر کسی حاکم کے پاس نص موجود ہے تو کیا اس طرح کا تردد وپس وپیش جائز ہوسکتا ہے؟
نیز عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ’’ قد استعجلوا‘‘ ،’’ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کردی ‘‘یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے لوگوں کی طرف سے یہ جلدبازی نہیں ہوتی تھی بلکہ بعد میں ہی انہوں نے ایسا کرنا شروع کردیا تھا ، تو خلیفہ ٔراشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی سزاء و تادیب کے لئے اسے ان پر نافذ کردیا ۔ کیا ان سب کے باوجود بھی یہ جائز ہوگا کہ اس محکم(واضح وغیرمنسوخ)حکم کو چھوڑ دیا جائے جس پر مسلمانوں کا ابوبکر الصدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں اجماع تھا ، صرف اس وجہ سے کہ بعد میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کرتے ہوئے ایک دوسری رائے دی ، لہٰذا ان کے اسی اجتہاد کو لے لیاجائے اورخود عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی کے اس موقف کو چھوڑ دیا جائے جس کے مطابق وہ اپنے ابتدائی دور خلافت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے نیز ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے (تین طلاق کے ایک ہونے کا)فتویٰ دیتے تھے ؟ اللہ کی قسم ! یہ اسلام کی فقہی تاریخ کا عجوبہ ہے‘‘
[سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ:۳؍۲۷۲]
یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے جس کی صحت پر پوری امت کا اتفاق ہے یعنی اس کی احادیث باجماع امت صحیح وثابت ہیں ۔
خود امام مسلم رحمہ اللہ نے وضاحت کردی ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب صحیح مسلم میں وہی احادیث درج کی ہیں جن کی صحت پر محدثین کا اجماع تھا چنانچہ:
ض امام مسلم رحمہ اللہ نے کہا:
«ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ها هنا إنما وضعت ها هنا ما أجمعوا عليه »
’’میں نے اس کتاب میں ہرصحیح حدیث درج نہیں کی ہے بلکہ صرف ان صحیح احادیث کو درج کیا ہے جن کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے‘‘
[صحیح مسلم :۲؍۳۰۴،تحت رقم:۴۰۴]
صحیحین کی صحت پر اجماع سے متعلق مزید حوالوں اور تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب :[أنوار التوضیح لرکعات التراویح :ص۲۸تا ۳۷]
ضامام ابو اسحاق الاسفرایینی رحمہ اللہ (المتوفی۴۱۸)اپنی کتاب اصول الفقہ میں فرماتے ہیں:
«أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التى اشتمل عليها الصحيحان مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف فى طرقها ورواتها»
’’اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ مع اصول ومتون قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں،اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے ‘‘
[أصول الفقہ للإسفرایینی بحوالہ النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی:۱؍۲۸۰، فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث:۱؍۷۲]
ضامام ابن الصلاح رحمہ اللہ (المتوفی۶۴۳)لکھتے ہیں:
«جميع ما حكم مسلم بصحته من هذا الكتاب فهو مقطوع بصحته والعلم النظري حاصل بصحته فى نفس الأمر وهكذا ما حكم البخاري بصحته فى كتابه وذلك لأن الأمة تلقت ذلك بالقبول سوي من لا يعتد بخلافه ووفاقه فى الإجماع»
’’وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے ،اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو ’’تلقی بالقبول‘‘حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ‘‘
[صیانۃ صحیح مسلم: ص:۸۵]
ض امام نووی رحمہ اللہ (المتوفی۶۷۶)فرماتے ہیں:
«اتفق العلماء رحمهم اللّٰه على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول»
’’علماء رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ قرآن عزیز کے بعدسب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، امت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہے ‘‘
[شرح النووی علٰی مسلم:۱؍۱۴]
ض امام ابن کثیر رحمہ اللہ (المتوفی۷۷۴)فرماتے ہیں:
’’أجمع العلماء علی قبولہ وصحۃ ما فیہ، وکذلک سائر أہل الإسلام‘‘
’’صحیح بخاری کی مقبولیت اور اس کی احادیث کی صحت پر علماء اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے‘‘
[البدایۃ والنہایۃ ط إحیاء التراث:۱۱؍۳۰]
ض ملا علی القاری رحمہ اللہ (المتوفی۱۰۱۴)فرماتے ہیں:
«ثم اتفقت العلماء على تلقي الصحيحين بالقبول، وأنهما أصح الكتب المؤلفة»
’’پھر علماء کا صحیحین کو قبول کرنے پر اتفاق ہے اور اس بات پر کہ تمام کتابوں میں یہ صحیح تریں کتابیں ہیں ‘‘
[مرقاۃ المفاتیح للملا القاری:۱؍۱۸]
ض شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ (المتوفی۱۱۷۶)فرماتے ہیں:
« أما الصحيحان فقد اتّفق المحدثون على أَن جَمِيع مَا فيهمَا من الْمُتَّصِل الْمَرْفُوع صَحِيح بِالْقطعِ، وأنهما متواتران إِلَي مصنفيهما، وَأَنه كل من يهون أَمرهمَا فَهُوَ مُبْتَدع مُتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ »
’’صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقینا صحیح ہیں ، یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچتی ہیں جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے ‘‘
[حجۃ اللّٰہ البالغۃ:۱؍۲۳۲] (حجۃ اللہ البالغہ مترجم اردو: ص:۲۵۰، ترجمہ اردو نسخہ سے نقل کیا گیا ہے)
عصر حاضر کے احناف نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے چنانچہ :
ض سرفراز صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
’’اور امت کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ بخاری اور مسلم دونوں کی تمام روایتیں صحیح ہیں‘‘[احسن الکلام : ج: ۱، ص۱۸۷]
اور خاص زیر بحث حدیث سے متعلق امام ابو الولید سلیمان بن خلف الباجی رحمہ اللہ (المتوفی۴۷۴)فرماتے ہیں:
«وعندي أن الرواية عن ابن طاوس بذلك صحيحة فقد رواه عنه الأئمة معمر وابن جريج وغيرهما وابن طاوس إمام »
’’میرے نزدیک ابن طاوس کے طریق سے مروی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے ،کیونکہ ابن طاوس سے اس روایت کو ائمہ مثلاً معمر ،ابن جریج وغیرہما نے روایت کیا ہے اورابن طاوس امام ہیں‘‘
[المنتقی شرح الموطإ لأبی الولید الباجی :۴؍۴]
ض القاضی ابو بکر بن العربی المالکی (المتوفی ۵۴۳)فرماتے ہیں:
«وعندي:أن الرواية صحيحة، لأن طاؤس قوي الحفظ إمام »
’’میرے نزدیک روایت صحیح ہے کیونکہ طاوس قوی حافظے والے اور امام ہیں‘‘
[المسالک فی شرح موطأ مالک لابن العربی:۵؍۵۴۶]
اس صحیح حدیث کے سامنے آنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوراً اس پر ایمان لایا جاتا اور سارا اختلاف ختم کرلیا جاتا لیکن افسوس ہے کچھ لوگوں نے اس حدیث کو تسلیم کرنے کے بجائے اس پر بے بنیاد اعتراضات وارد کرکے اسے رد کرنے کوشش کی ، ہم اگلی سطور میں تفصیل کے ساتھ ان اعتراضات کا جائزہ پیش کرتے ہیں ۔
اس حدیث پر جتنے اعتراضات کیے گئے ہیں انہیں ہم سند اور متن کے لحاظ سے دو قسموں میں بانٹ سکتے ہیں:
1سند پر اعتراضات
2متن پر اعتراضات
اعتراض کی پہلی قسم :سند پر اعتراض
ہم سب سے پہلے سند پر کیے گئے اعتراضات کو دیکھتے ہیں، سند پر وارد کردہ اعتراضات تین طرح کے ہیں:
اول: رواۃ پر اعتراض
دوم: طریق پر اعتراض
سوم : غیرمتعلق اعتراض
اب تینوں اعتراضات کے جوابات ملاحظہ ہوں:
سند پر پہلا اعتراض : رواۃ پر
(الف): ابن عباس ص پر اعتراض
سند پر صحابی کو لے کر اعتراض کرنا محدثین بلکہ پوری امت کے متفقہ اور اجماعی منہج کے خلاف ہے ، کیونکہ صحابی تک سند ثابت ہونے کے بعد سند کی حیثیت سے کوئی اعتراض کی گنجائش بچتی ہی نہیں ہے،لیکن افسوس ہے بعض لوگوں نے اس حدیث سے جان چھڑانے کے لیے صحابی پر بھی اعتراض کردیا ہے ، ذیل میں اس اعتراض کے جوابات ملاحظہ ہوں:
ابو العباس احمد بن عمر القرطبی رحمہ اللہ (المتوفی۶۵۶)کہتے ہیں:
«إن ظاهر ذلك الحديث خبر عن جميعهم أو عن معظمهم، والعادة تقتضي-فيما كان هذا سبيله-أن يفشو، وينتشر، ويتواتر نقله، وتحيل أن ينفرد به الواحد.ولم ينقله عنهم إلا ابن عباس، ولا عنه إلا أبو الصهباء»
’’اس حدیث میں بظاہر تمام صحابہ یا اکثر صحابہ سے متعلق خبر ہے اور عادتا ًہوتا یہ ہے کہ اس طرح کی خبر عام اور منتشر ہوجاتی ہے اور تواتر کے ساتھ نقل ہوتی ہے ، اور یہ محال ہوتا ہے کہ ایسی خبر کو نقل کرنے میں کوئی منفرد ہو ، اور اس حدیث کو صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے اور ان سے بھی صرف ابوالصہباء نے نقل کیا ہے‘‘
[المفہم للقرطبی:۴؍۲۴۲]
عرض ہے کہ:
ء اولا :
ابوالعباس قرطبی رحمہ اللہ کو بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے، انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ عہد رسالت اور عہد ِصدیقی میں بھی لوگ بکثرت طلاق دیتے تھے ، جبکہ اس حدیث میں ایسا قطعاً نہیں ہے اس میں تو صرف عہد ِفاروقی میں بکثرت طلاق دینے کا ذکر ہے ۔
بلکہ اسی حدیث میں یہ بیان ہے کہ لوگ اس سے پہلے ایسا نہیں کرتے تھے یعنی اس سے قبل عہدِ صدیقی اور اس سے بھی قبل عہدِ رسالت میں بکثرت طلاق دینے کے واقعات نہیں ہوتے تھے بلکہ شاذو نادر ہی لوگ طلاق دیتے تھے۔
ظاہر ہے کہ جب عہد رسالت اور عہد صدیقی میں طلاق کے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے تھے تو وہ تواتر کے ساتھ کیسے نقل کیے جاسکتے جیساکہ ابوالعباس القرطبی سوچ رہے ہیں !
ابوالعباس قرطبی رحمہ اللہ نے اسی غلط فہمی کی بنیاد پر یہ بھی سوال اٹھا یا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عہد رسالت اور عہد صدیقی جیسے مبارک دور میں لوگ ایک ساتھ تین طلاق کثرت کے ساتھ دیں جو کہ حرام ہے؟
عرض ہے کہ حدیث میں یہ بیان ہے ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس یہ بیان ہے کہ عہد فاروقی میں لوگوں نے کثرت سے طلاق دینا شروع کردیا اور اس سے پہلے یہ معاملہ نہیں تھا۔
ء ثانیاً :
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نیچے طبقے میں کہیں تفرد نہیں ہے ، جیساکہ آگے وضاحت آرہی ہے ، اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ایک صحابی ہیں اور جب صحابہ تک کوئی بات ثابت ہوجائے تو ان پر تفرد کی بنیاد پرکوئی کلام قطعاً نہیں کیا جاسکتا ۔
ض امام ابن القیم رحمہ اللہ (المتوفی۷۵۱)نے کہا:
«وهذا أفسد من جميع ما تقدم ولا ترد أحاديث الصحابة وأحاديث الأئمة الثقات بمثل هذا فكم من حديث تفرد به واحد من الصحابة لم يروه غيره وقبلته الأمة كلهم فلم يرده أحد منهم وكم من حديث تفرد به من هو دون طاوس بكثير ولم يرده أحد من الأئمة ولا نعلم أحدا من أهل العلم قديما ولا حديثا قال:إن الحديث إذا لم يروه إلا صحابي واحد لم يقبل وإنما يحكي عن أهل البدع ومن تبعهم فى ذلك »
’’یہ اعتراض گزشتہ تمام اعتراضات میں سب سے زیادہ فاسد ہے ، اس طرح کے اعتراضات سے صحابہ اور ثقہ ائمہ کی احادیث رد نہیں کی جاتیں ، چنانچہ کتنی ہی ایسی احادیث ہیں جن کی روایت میں کوئی ایک صحابی منفرد ہے ، اس کے علاوہ اس حدیث کو کسی بھی دوسرے صحابی نے روایت نہیں کیا ، اور پوری امت نے اس حدیث کو قبول کیا ہے ، امت میں کسی نے بھی ایسی حدیث کو رد نہیں کیا ہے ، بلکہ کتنی ایسی حدیث ہے جسے راویت کرنے میں طاوس سے کم تر درجہ کا راوی منفرد ہے اور ائمہ میں سے کسی نے بھی اسے رد نہیں کیا ہے ،اور ہم قدیم وجدید کسی بھی دور کے کسی بھی صاحب علم کو نہیں جانتے جس نے یہ کہا ہو کہ:اگر کسی حدیث کو صرف ایک ہی صحابی روایت کرے تو وہ مقبول نہیں ہوگی ، اس طرح کی بات تو اہلِ بدعت اور ان کی پیروی کرنے والے سے نقل کی جاتی ہیں‘‘
[إغاثۃ اللہفان:۱؍۲۹۵]
ض جمال الدین القاسمی (المتوفی۱۳۳۲)فرماتے ہیں:
«لا يضر صحة الحديث تفرد صحابي به »
’’صحابی کا کسی حدیث کی روایت میں منفرد ہونا اس کی صحت کے لیے مضر نہیں ہے ‘‘
[قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث :ص:۹۹]
بلکہ صحابی تو جانے دیں بعد کے محدثین میں بھی کوئی اعلیٰ درجے کا محدث وامام ہو تو اس کا تفرد بھی بلاچوں چرا مقبول ہے ، بلکہ یہ تفرد اس امام کے کمالِ حفظ اور وسعتِ معلومات کی دلیل ہے جیساکہ امام ذہبی نے یہ وضاحت کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے ہماری دوسری کتاب [انوار التوضیح لرکعات التراویح :ص :۱۱۹تا ۱۲۰]
ض امیر صنعانی رحمہ اللہ (المتوفی۱۱۸۲)اس اعتراض پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وهذا مجرد استبعاد، فإنه كم من سنة وحادثة انفرد بها راو، ولا يضر سيما مثل ابن عباس حبر الأمة »
’’یہ محض خود سے بعید سمجھ لیا گیا ہے ، ورنہ کتنی سنت اور کتنے حادثے ایسے ہیں جنہیں روایت کرنے میں کوئی ایک ہی راوی منفرد ہے ، اور اس کا انفراد مضر نہیں ہوتا ہے بالخصوص جب حِبر الامہ ابن عبا س رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت ہو ‘‘
[سبل السلام : ۲؍۲۵۲]
یادرہے کہ تفرد کسی مستقل واقعہ یا حدیث کو تنہا نقل کرنے کو کہتے ہیںجو کہ فی نفسہٖ کوئی عیب کی بات نہیں ہے ، البتہ اگر کسی واقعہ یا حدیث کو کئی لوگ نقل کرنے والے ہوں پھر ان میں کوئی ایک ناقل دوسروں کے خلاف یا ان سے علیحدہ بات نقل کرے تو اسے قرائن کی روشنی میں پرکھ کراس پر زیادتِ ثقہ یا شاذ کا حکم لگاتے ہیں ۔
بہر حال جب کبار ائمہ کا تفرد قابلِ قبول ہوتا ہے تو کسی صحابی کے تفرد پر سوال اٹھانے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
ء ثالثاً :
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا ہے کہ ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فطرہ میں کھجور ، جَو ، پنیر اور کشمش نکالتے تھے جیساکہ آگے یہ حدیث آرہی ہے۔ان میں کھجور اور جَو کا ذکر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی کیا ہے کما سیاتی ، لیکن پنیر اور کشمش نکالنے والی بات تمام صحابہ کے سلسلے میں صرف اور صرف ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے۔
ابوالعباس القرطبی رحمہ اللہ کو تو طلاق کے سلسلے میں تعجب ہورہا ہے جو کہ بہت کم لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے اور جن کے ساتھ پیش آتا ہے وہ بھی زندگی میں کبھی کبھار کا واقعہ ہوتا ہے، لیکن فطرہ نکالنے کا عمل تو ہر ہر گھر بلکہ گھر کے ہر ہر فرد کی طرف سے ہوتا تھا اور یہ عمل ہرسال پابندی کے ساتھ اور لازمی طور پر ہوتا تھا ، عہدِ رسالت میں تمام صحابہ وصحابیات اور تمام گھرانوں کا اسی پر عمل تھا ۔
لیکن اس عمل میں ان تمام صحابہ وصحابیات اور تمام گھرانوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے صرف اور صرف ابوسعید الخدری رضی للہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سب فطرہ میں پنیر اور کشمش نکالتے تھے ۔اب ذرا سوچئے کہ ابوالعباس القرطبی رحمہ اللہ کے اصول کو اس حدیث پراپلائی کردیا جائے تو اس حدیث کا کیا حشر ہوگا۔
بہر حال جب صحابی تک کوئی بات ثابت ہوجائے تو صحابی کے تفرد کو بنیاد بنا کر اس کی بات کو رد کرنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
جاری ہے ……