-
خوش بختی اور محرومی کی انتہا دنیا میں نیک عمل کرنے والوں کوحشر کے میدان میں رب کی طرف سے ان کا نامہء اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا جو اس بات کا اعلان ہوگا کہ جنت میں تمہارا ٹھکانہ پکا ہو چکا ہے، اب جاؤ اور مزے کی زندگی گزارو، جنّتی جنت میں خوش ہوں گے، رب کی طرف سے بیش بہا نعمتوں میں ہوں گے، مزے کی زندگی گزر رہے ہو ں گے کہ رب کا اعلان آئے گا کہ :’’اے جنتیو! خوش ہو؟‘‘ جنتی کہیں گے کہ:خوش کیوں نہ ہوں، عمل سے بڑا بدلہ مل گیا، جہنم سے نجات مل گئی اور جنت میں داخلہ مل گیا، رب کی طرف سے مزید کی فرمائش آئے گی :اور کچھ چاہیے؟ جنّتی حیران ہوں گے کہ اللہ!اب اور کیا، اب اس سے بڑی خوشی اور کیا مل سکتی ہے کہ جنت حاصل ہو گئی،مصیبت سے بچا لئے گئے، ہاں!ہم راضی ہیں۔ رب کا اعلان آئے گا کہ:آج کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا، میں آج تمہاری خاطر ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنی رضا کا اعلان کرتا ہوں۔ ہاں یہ خوش بختی کی انتہا ہی تو ہے لیکن نہیں، ابھی کچھ اور ملنا باقی ہے۔مالک!اب کیا؟ ہاں پھر پردہ ہٹے گا اور اس عظیم دنیا کے بنانے والے خالق اور بِن دیکھے جس معبود کی پوری زندگی عبادت کرتے رہے اس کا، ہاں اس عظیم رب کا تمام جنّتی اپنی کھلی آنکھوں سے دیدار کریں گے ، اللہ اللہ !کیا منظر ہوگاجب کائنات کے بنانے والے اور اس کے نظام و سسٹم کو چلانے والے کو جنّتی اپنے سامنے دیکھیں گے اورسب سے بڑی سعادت حاصل کر لیں گے، ہاں!یہ سعادت ہی تو ہے ، یہ خوش بختی کی انتہا ہی تو ہے کہ آج جو آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتی ہیں کل انہی آنکھوں سے جنّتی اپنے رب کا دیدار کریں گے اور انہیں کوئی مشکل و پریشانی نہ ہوگی۔
ہاں!وہیں دوسری طرف نافرمانوں کے لئے رب کی بنائی ہوئی جہنم ہے۔ اس میں نافرمان انسانوں کا جم غفیر ہوگابلکہ اللہ اس جہنم کو بھرنے کے لئے الگ مخلوق پیدا کرے گا پھر بھی اس کی طرف سے ’’ھَلْ مِن مزِید‘‘ کی صدا آتی رہے گی، مختلف طرح کے عذاب میںجہنمی گرفتار ہوں گے۔محرومی ہی تو ہے کہ جنت سے دور کر دیا گیا اور جہنم میں ڈال دیا گیا۔ رب سے مہلت مانگیں گے کہ اے رب کریم !تھوڑا سا اور موقع دے دے تاکہ ہم نیکیاں کر کے نیک لوگوں میں شامل ہو جائیں اور جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہو جائیں، لیکن رب کی طرف سے انہیںپھٹکار ملے گی اور کہا جائے گا کہ ہم کسی کو مہلت نہیں دیا کرتے اور ہمیں سب پتہ ہے کہ تم نے کون سا عمل کب کیا اور کیوں کیا۔
دربار الہٰی سے پھٹکار ملنے کے بعد جہنمی لوگ داروغہء جہنم کا وسیلہ لگائیں گے اور کہیں گے کہ اے مالک! اپنے رب سے کہہ دو کہ ہماری اس زندگی کا خاتمہ کر دے اور ہمیں موت آ جائے لیکن ہائے رے محرومی!وہاں سے بھی ڈانٹ ڈپٹ کے سوا کچھ نہ ملے گااور داروغہ کہے گا کہ یہیں رہو، اب تمہیں موت نہیں آ سکتی کیونکہ اب موت کو بھی موت آ چکی ہے۔
اس محرومی کے بعد پھرجب جہنمی اپنے جسم پر موجود کھال کو جہنم کی آگ میں لپٹا اور جلتا ہوا دیکھیں گے تو خوش ہوں گے کہ چلو بس کچھ لمحوں کی بات ہے ،یہ کھال جل کر ختم ہو جائے گی اور پھر ہمیں اِس دُکھ بھری زندگی سے چھٹکارا مل جائے گا، خوشی کا ایک موقع انہیں ملتا نظر آرہا ہوگا، مگر…یہ کیا؟ کھال جل تو گئی ، مگر اس کی جگہ ایک اور کھال چڑھا دیا گیا۔ یہاں بھی محرومی۔
ہر جگہ سے محرومی،ڈانٹ اور پھٹکار ،اب کیا کیا جائے، اس مصیبت سے نجات کے لئے تو دروازے بند ہو چکے ہیں، لیکن نہیں،سارے دروازے جب بند ہو جاتے ہیں تب بھی ایک دروازہ کھلا رہتا ہے اور وہ ہے رب کا دروازہ، چلو رب کے پاس، سنا ہے بڑا مہربان ہے…رب کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اللہ!ایک گزارش ہے، قبول کر لی جائے۔بولو…کہیں گے کہ رب!ہم نے آپ کی قدرت دیکھ لی، جہنم کا دیدار کر لیا، سن لیا، ایک درخواست قبول کر لیجیے کہ دنیا میں پھر سے بھیج دیں۔سوال کیا جائے گاکیوں؟ تاکہ ہم نیک عمل کر کے آپ کی بنائی ہوئی جنت حاصل کر لیں۔اور ہاں اے ہمارے رب!اس بار ہم پکا وعدہ کرتے ہیں کہ نیک بن کر زندگی گزاریں گے۔ہاں واپس بھیج دیجیے۔ آواز آئے گی کہ نہیں، ہمارے یہاں اصول و قانون چلتا ہے، یہاں بات میں تبدیلی کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
ہائے افسوس اب کیا کریں۔ واپس جانے کے دروازے بند ہیں، جنت مل نہیں سکتی، رب الگ ناراض ہے پھر جنت اور اس کی نعمتوں کا مشاہدہ کریں گے، لالچ آئے گی، جنتیوں سے مطالبہ کریں گے کہ جنتیو!تھوڑا کھانا ہمیں بھی دے دو۔تھوڑا جنت کا پانی ہمیں بھی دے دو اور نہیں دے سکتے تو کم از کم پانی کا چھڑکاؤ ہی کر دو تاکہ ہم بھی فیضیاب ہو جائیں۔ ہائے ہائے یہ ہوتی ہے محرومی!نہیں:نہ کھانا ملے گا نہ پانی، بلکہ سنو جنت کی یہ دونوں چیزیں اللہ نے تمہارے اوپر حرام کر دی ہیں۔
رب کریم!ہم تجھ سے تیری جنت کا سوال کرتے ہیں اور تیری بنائی ہوئی جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں، ہمیں بچا لے۔
اللہم إنی اسالک الجنۃ واعوذبک من عذاب جہنم۔