Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • نومولود کے کان میں اذان کی حدیث

     «حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَي، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ:حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُبَيْدِ اللّٰهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللّٰهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:’’رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ»
    امام ابود ادؤد نے کہا : ہم سے مسددنے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہم سے یحییٰ یعنی یحییٰ بن سعید قطان نے حدیث بیان کی ، وہ سفیان ثوری سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : مجھ سے عاصم بن عبید اللہ نے حدیث بیان کی ، وہ عبیدہ اللہ بن ابی رافع سے ، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :’’ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ انہوں نے حسن بن علی کے کان میں صلاۃ والی اذان کہی جب فاطمہ نے ان کو جنا‘‘ ۔
    درجہ ٔ حدیث: یہ حدیث ضعیف و منکر ہے کیوں کہ اس کا مدار عاصم بن عبید اللہ بن عاصم بن عمر بن الخطاب عدوی عمری مدنی ہے یعنی عاصم بن عبیداللہ ابو رافع رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو روایت کرنے میںمنفردہے اور یہ عاصم ضعیف المنکر الحدیث ہے جیسا کہ جمہور محدثین کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں:
    (۱) امام یحییٰ بن معین نے کہا:
    ’’ضعیف لا یحتج بحدیثه ، وھو أضعف من سھیل والعلاء بن عبد الرحمٰن‘‘
    ’’ضعیف ہے ، اس کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جائے گی اور یہ سہیل اور علاء بن عبد الرحمن سے زیادہ ضعیف ہے‘‘
    (۲) امام ابو زرعہ رازی نے کہا :
    ’’عاصم منکرالحدیث فی الاصل وھو مضطرب الحدیث‘‘
    ’’عاصم اصل میں منکر الحدیث ہے اور یہ مضطرب الحدیث ہے ‘‘
    (۳) امام ابو حاتم رازی نے کہا :
    ’’منکر الحدیث مضطرب الحدیث، لیس له حدیث یعتمد عليه ، وماأقربه من ابن عقیل ‘‘
    ’’منکرالحدیث ، مضطرب الحدیث ہے ، اس کی کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جائے اور یہ ابن عقیل سے بڑا ہی قریب ہے ‘‘
    یہ تینوں اقوال امام ابن ابی حاتم کی کتاب (الجرح والتعدیل :۱۹۱۷) میں مذکور ہے ۔
    (۴) امام بخاری نے کہا ہے :
    ’’منکرالحدیث‘‘[التاریخ الکبیر:۳۰۸۸]
    (۵) امام ابن حبان نے کہا :
    ’’اعداہ فی أھل المدینة وکان سیء الحفظ کثیر الوھم فاحش الخطأ فترک من أجل کثرۃ خطیٔه‘‘
    ’’اس کا شمار اہل مدینہ میں ہوتا ہے اور یہ حافظہ کا خراب ، بہت وہم کرنے والا،فحش غلطی کرنے والا تھا چنانچہ اس کی غلطیوں کی کثرت کی وجہ سے اسے ترک کردیا گیا ‘‘[المجروحین:۷۲۲]
    (۶) امام عجلی نے کہا :
    ’’لا بأس به‘‘
    ’’ اس میں کچھ بھی حرج نہیں ہے ‘‘[الثقات:۸۱۲]
    امام عجلی نے اسی طرح کہا ہے مگر ان کا یہ قول مرجوح ہے کیونکہ دوسرے ائمہ نے عاصم بن عبید اللہ پر جرح کی ہے اور اس کے ضعف اور سببِ ضعف کو بیان کیا ہے ۔
    اسی وجہ سے امام ذہبی نے اس کے بارے میں کہا ہے :
    ’’ضعفه ابن معین ، وقال البخاری وغیرہ : منکر الحدیث‘‘
    ’’ اس کو ابن معین نے ضعیف کہا ہے اور بخاری وغیرہ نے منکرالحدیث کہا ہے ‘‘[الکاشف:۲۵۰۶]
    اور حافظ ابن حجر نے کہاہے :
    ’’ضعیف من الرابة مات فی اول دولة بنی العباس سنة اثنتین وثلاثین‘‘
    ’’ضعیف ہے چوتھے طبقہ کا ہے ، بنو عباس کی حکومت کے شروع میں سنہ ۱۳۲ میں وفات پایا ‘‘[تقریب التھذیب :۳۰۶۵]
    اس حدیث کے متعلق بعض علماء کرام کے اقوال:
    (۱) امام ابن القطان فاسی نے اس حدیث کو اور اس کی اسناد کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے :
    وعاصم،ھوالعمری، ضعیف الحدیث، مکنره، مضطربه‘‘
    ’’اور عاصم عمری ضعیف الحدیث ، منکر الحدیث ،مضطرب الحدیث ہے‘‘
    [بیان الوھم والابھام:۴؍۵۹۴،رقم الحدیث۲۱۳۵]
    (۲) امام ابن طاہر مقدسی نے اس حدیث کو’’ معرفۃ التذکرہ :رقم الحدیث ۴۵۳ ‘‘میں ذکرکرکے کہا ہے :
    ’’فیه عاصم بن عبد اللّٰہ (کذا والصواب :عبید اللّٰہ) بن عاصم بن عمر بن الخطاب ضعیف‘‘
    ’’اس میں عاصم بن عبد اللہ بن عاصم بن عمر بن الخطاب ضعیف ہے ‘‘
    تنبیہ : مذکورہ حدیث کی سند میں عاصم بن عبد اللہ نہیں بلکہ عاصم بن عبید اللہ واقع ہے ۔
    (۳) امام ابن حجر نے کہا :
    ’’مدارہ علی عاصم بن عبید اللّٰہ وھو ضعیف‘‘
    ’’اس کا مدار عاصم بن عبید اللہ پر ہے اور یہ ضعیف ہے‘‘[التلخیص الحبیر: ۴؍۲۷۲]
    (۴) امام شوکانی نے’’ نیل الاوطار‘‘میں اس حدیث کی شرح میں کہا ہے :
    ’’ومدارہ علی عاصم بن عبید اللّٰہ وھو ضعیف۔ قال البخاری : منکرالحدیث ‘‘
    ’’اور اس کا مدار عاصم بن عبید اللہ پر ہے اور یہ ضعیف ہے ، بخاری نے کہا ہے : منکر الحدیث ہے‘‘[نیل الاوطار :۵؍ ۱۶۱ رقم الحدیث۲۱۴۹]
    (۵) امام ناصر الدین البانی نے پہلے بعض شواہد کی بنا پر اس حدیث کو حسن کہا تھا مگر جب ان شواہد کے سخت ضعیف کا علم ہوا تو اس تحقیق سے رجوع کرکے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔[الاعلام بآخر احکام الالبانی الامام تالیف: محمد کمال السیوطی رقم الحدیث :۳۱]
    تنبیہات:
    پہلی تنبیہ: اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی جامع’’جامع الترمذی:ابواب الاضاحی، باب الاذان فی اذن المولود:ح:۱۵۱۴‘‘میں روایت کرکے ’’حسن صحیح‘‘کہاہے،اسی طرح امام حاکم نے ’’المستدرک علی الصحیحین :ح:۴۸۲۷‘‘میں ’’صحیح الاسناد‘‘کہا ہے مگر یہ تحقیق معتبر نہیں ہے کیونکہ دونوں اماموں کے یہاں اس حدیث کا مدار عاصم بن عبیداللہ ہی پر ہے اور یہ ضعیف منکر الحدیث ہے جیسا کہ گزرا،اسی لیے امام ذہبی نے تلخیص المستدرک میں امام حاکم کا رد کرتے ہوئے کہا:
    ’’عاصم ضعیف‘‘’’عاصم ضعیف ہے‘‘[مختصر تلخیص الذہبی لابن الملقن: ح:۶۱۷]
    دوسری تنبیہ : نومولود کے کان میں اذان و اقامت کے متعلق بعض دوسری احادیث پائی جاتی ہیں مگر وہ سب سخت ضعیف یا من گھڑت ہیں،لہٰذا وہ نہ حدیث ابی رافع کو تقویت دے سکتی ہیں اور نہ ہی حجت بن سکتی ہیں۔
    تفصیل کے لیے دیکھئے:(علامہ البانی کی سلسلہ الاحادیث ضعیفہ و الموضوعہ:حدیث نمبر:۳۲۱،۶۱۲۱)
    تیسری تنبیہ: نومولود کے کان میں اذان و اقامت کا مسئلہ فضائل میں سے نہیں ہے بلکہ احکام میں سے ہے کیونکہ اگر اس مسئلہ میں کوئی حدیث صحیح یا حسن ہوتی تو نومولود کے کان میں اذان کہنا کم از کم مستحب ہوتا اور استحباب احکام خمسہ میں سے ہے۔
    چوتھی تنبیہ: نومولود کے کان میں اذان کی ضعیف حدیث پر بعض علماء کا عمل رہا ہے جیسا کہ بہت سے مسائل میں ضعیف احادیث پر بعض علماء کا عمل رہا ہے بلکہ امام ترمذی کی کتاب انہی احادیث پر مشتمل ہے جن پر بعض علماء نے عمل کیا ہے اور جامع ترمذی میں ضعیف احادیث بہت ہیں جن پر بعض علماء نے عمل کیا ہے مگر کسی حدیث پر بعض علماء کا عمل اسے حجت نہیں بتاتا۔حجت علمائے امت کا اجماع ہے اور اس مسئلہ میں کوئی اجماع نہیں ہے اور اگر کسی کو اس بارے میں اجماع کا شبہ ہے تو مزید یہ بھی جان لے کہ کسی ایک صحابی سے بھی اس عمل کا ثبوت نہیں ہے چہ جائیکہ اس مسئلہ میں صحابہ کرام کا اجماع پایا جائے،اور اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین ۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings