Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ (قسط ثانی )

    (ب): امام طاؤس رحمہ اللہ پر اعتراض
    امام طاؤس رحمہ اللہ کے حفظ پر اعتراض:
    امام طاؤس رحمہ اللہ بالاتفاق ثقہ وحجت راوی ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ سمیت کتب ستہ کے تمام مصنفین نے ان سے روایت کی ہے ۔ بلکہ حدیث کی مشہور حدیث کی تمام بڑی کتابوں میں ان کی روایات موجود ہیں۔ نیز تمام ائمہ جرح و تعدیل نے بالاتفاق انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ:
    امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۳)نے کہا:
    ’’ثقۃ ‘‘’’ آپ ثقہ ہیں ‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۴؍۵۰۰،واسنادہ صحیح ]
    امام أبو زرعۃ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۴)نے کہا:
    ’’ثقۃ‘‘ ’’ آپ ثقہ ہیں‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۴؍۵۰۰]
    ض امام نووی رحمہ اللہ (المتوفی۶۷۶)نے کہا:
    ’’اتفقوا على جلالته وفضيلته، ووفور علمه، وصلاحه، وحفظه، وتثبته‘‘
    ’’آپ کی جلالت وفضیلت ، وافر علم ، دینداری اور حفظ و ضبط پر سب کا اتفاق ہے‘‘
    [تہذیب الأسماء واللغات للنووی:۱؍۲۵۱]
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے کہا: ’’وحديثه فى دواوين الإسلام، وهو حجة باتفاق ‘‘
    ’’طاؤس کی حدیث اسلام کی بڑی کتب میں ہیں اور وہ بالاتفاق حجت ہیں‘‘
    [سیر أعلام النبلاء للذہبی: ۵؍ ۳۹]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے کہا:
    ’’ثقة فقیه فاضل ‘‘’’ آپ ثقہ ، فقیہ اور فاضل ہیں‘‘[تقریب التہذیب لابن حجر:رقم:۳۰۰۹]
    ہمارے علم کی حدتک کسی بھی ناقد امام نے ان پر کوئی جرح نہیں کی ہے اسی لیے امام ذہبی رحمہ اللہ نے بالاتفاق حجت قرار دیا ہے۔اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ نے بھی ان کی عدالت وجلالت اور ان کے حفظ و ضبط پر اتفاق نقل کیا ہے۔
    لیکن افسوس ہے کہ بعض مقلدین نے محض اپنے مسلکی تعصب میں ان کے حفظ کو نشانہ بنا لیا چنانچہ :
    ٭ چودہویں صدی کے ایک حنفی مفسرابو بکر الجصاص الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی ۳۷۰)نے امام طاؤس کا ایک فتویٰ اور انہی کے واسطے ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے بھی وہی فتویٰ نقل کرکے کہا:
    ’’ویقال هذا مما أخطأ فیه طاؤس ‘‘
    ’’کہا جاتا ہے کہ طاؤس نے اس میں غلطی کی ہے‘‘
    [أحکام القرآن للجصاص ط العلمیۃ :۱؍۴۷۹]
    عرض ہے کہ:
    یہاں ابوبکرالجصاص حنفی رحمہ اللہ نے تاثر یہ دیا ہے کہ لوگوں نے ان کو روایت بیان کرنے میں غلط کہا ہے یعنی ان کے حفظ پر جرح کی ہے ، جبکہ یہ قطعاً غلط ہے کیونکہ ان کے حافظ وضابط ہونے پر تو تمام ائمۂ نقد کا اتفاق ہے جیساکہ اوپر نقل کیا گیا ۔
    دراصل معاملہ یہ ہے کہ امام طاؤس رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ دیا کہ خلع طلاق نہیں ہے بلکہ فسخِ نکاح اور افتراق ہے ، تو ان کے بعض معاصرین نے ان کے اسی فتویٰ کو غلط کہا جس پر امام طاؤس رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی فتویٰ نقل کیا ، چنانچہ:
    محمد بن إسحاق المکی الفاکہی (المتوفی ۲۷۲)نے کہا:
    ’’حدثنا محمد بن منصور، قال:ثنا سفيان، عن ابن أبي نجيح، قال: تكلم طاؤس، فقال:الخلع ليس بطلاق، إنما هو فراق ، فأنكر ذلك عليه أهل مكة، فقالوا:إنما هو طلاق، فاعتذر إليهم، وقال: لم أقل هذا، إنما قاله ابن عباس رضي اللّٰه عنهما ‘‘
    ’’ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ طاؤس نے فتویٰ دیا اور کہا: خلع طلاق نہیں ہے بلکہ افتراق ہے ، تو اہلِ مکہ نے اس بات کو غلط قرار دیتے ہوئے ان پر نکیر کی اور کہا بلکہ یہ طلاق ہے ، تو طاؤس رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں کہا کہ : یہ بات میں ہی نہیں کہتا بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہ فتویٰ دیا ہے‘‘
    [أخبار مکۃ للفاکہی: ۳؍۷۰،وإسنادہ حسن ، وقال الحافظ فی الفتح (۹؍۴۰۳): ’’أخرج إسماعیل القاضی بسند صحیح عن بن أبی نجیح فذکرہ ‘‘]
    معلوم ہوا کہ:
    لوگوں نے امام طاؤس رحمہ اللہ کے فتویٰ کو غلط کہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دلائل کے اعتبار سے امام طاؤس اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہی درست ہے اور ان کو غلط کہنے والے خود غلطی پرہیں ۔
    لیکن بالفرض مان لیں کہ اس فتویٰ میں امام طاؤس نے غلطی کی ہے تو یہ روایت کوبیان کرنے میں حافظہ کی غلطی نہیں ہے ، بلکہ فتویٰ دینے میں علمی غلطی ہے ، اور فتویٰ میں غلطی سے کوئی بھی پاک نہیں ہے ، اسی لیے علمی دنیا میں یہ اصول ہے کہ’’الْمُجْتَهد قد یُصِیب وَقد یُخطیء ‘‘ ’’یعنی مجتہد کبھی صحیح فتویٰ دیتا ہے اور کبھی اس سے غلطی ہوجاتی ہے‘‘ ۔
    ٭نیز ابوبکر الجصاص حنفی رحمہ اللہ نے آگے جو یہ نقل کیا کہ:
    قالوا:’’وکان أیوب یتعجب من کثرۃ خطإ طاؤس‘‘
    لوگوں نے کہا:’’ایوب تعجب کرتے تھے کہ طاؤس کتنی کثرت سے غلطی کرتے ہیں‘‘[أحکام القرآن للجصاص ط العلمیۃ:۱؍۴۷۹]
    عرض ہے کہ :
    اول تو یہ بات بے سند و بے حوالہ ہے،کتبِ رجال کے مصنفین نے طاؤس کے ترجمہ میں ایوب کے ایسے کسی قول کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، لہٰذا یہ مردود و غیرمقبول ہے ، دوسرے یہ کہ ممکن ہے ایوب کی مراد بھی فتویٰ دینے میں غلطی ہو جیساکہ اوپر کی روایت میں ہے کہ اہلِ مکہ نے ان کے فتویٰ کو غلط کہا ، تو یہ حافظہ پرکلام نہیں ہے، اسی لیے کتاب رجال میں طاؤس کے ترجمہ میں یہ قول ذکر نہیں ہے ، بہرحال یہ قول ثابت نہیں لہٰذا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام طاؤس کے ہم عصر وں نے ان کے فتویٰ کو غلط کہا تھا نا کہ ان کی روایت کو ، اس لیے ابو بکر الجصاص الحنفی کا یہ تاثر دینا بالکل غلط ہے کہ طاؤس کے ہم عصروں نے یا متقدمین نے طاؤس کے حفظ پر کوئی جرح کی ہے۔
    ٭البتہ خود ابو بکر الجصاص الحنفی رحمہ اللہ نے طاؤس کے حفظ پر اپنی طرف سے جرح کی ہے، چنانچہ آگے کہا:
    «وكان كثير الخطإ مع جلالته وفضله وصلاحه يروي أشياء منكرة »
    ’’طاؤس اپنی جلالتِ شان اور فضل و دینداری کے باوجود منکر چیزیں روایت کرتے تھے‘‘
    [أحکام القرآن للجصاص ط العلمیۃ :۱؍۴۷۹]
    اس کا جواب یہ ہے کہ:
    ٭ اولاً:
    ابو بکر الجصاص الحنفی ائمہ ناقدین میں سے نہیں ہیں اس لیے ان کا نقد مردود ہے۔
    ٭ثانیاً:
    ابو بکر الجصاص الحنفی نے مذکورہ جرح کے لیے اس بات کو بنیاد بنایا ہے کہ طاؤس نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ فتویٰ نقل کردیاکہ خلع طلاق نہیں ہے ، جبکہ ابن عباس سے ایسا کوئی دوسرا روایت نہیں کرتا ۔
    ابو بکر الجصاص الحنفی نے اس سلسلے میں طاؤس کی روایت اس طرح نقل کی ہے:
    «حدثنا عبد الباقي بن قانع قال:حدثنا على بن محمد قال:حدثنا أبو الوليد قال:حدثنا شعبة قال:أخبرني عبد الملك بن ميسرة قال:سأل رجل طاوسا عن الخلع، فقال:ليس بشيء، فقلت: لا تزال تحدثنا بشيء لا نعرفه فقال:واللّٰه لقد جمع ابن عباس بين امرأة وزوجها بعد تطليقتين وخلع»
    ’’عبد الملک بن میسرۃ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے طاؤس سے خلع کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا:’’لیس بشیء‘‘’’ یعنی خلع سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی‘‘، تو میں نے کہا:آپ ہمیں ایسی بات بتاتے ہیں جو ہمیں کہیں اور معلوم نہیں ہوتی تو طاؤس نے کہا:اللہ کی قسم(یہ صرف میں نہیں کہتا بلکہ ) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک عورت اور اس کے شوہر کو جمع کردیا جن کے بیچ دو طلاق ہوچکی تھی اورپھر خلع ہوا تھا(یعنی ابن عباس نے خلع کو طلاق نہیں مانا ورنہ کل تین طلاق ہوجاتی پھر دونوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا تھا) ‘‘
    [أحکام القرآن للجصاص ط العلمیۃ:۱؍۴۷۹]
    عرض ہے کہ :
    یہ بنیاد ہی سرتاسر غلط ہے کہ اس فتویٰ کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صرف طاؤس ہی نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ امام عطاء رحمہ اللہ نے بھی نقل کررکھا ہے چنانچہ:
    1امام ابو بکر النیسابوری (المتوفی ۳۲۴)نے کہا:
    «حماد بن الحسن، نا حماد بن مسعدة، عن ابن جريج، عن عطاء ، عن ابن عباس، وابن الزبير، قال:المختلعة يطلقها زوجها: قالا:إن طلق امرأته إنما يطلق ما لا يملك ما لا يملك»
    ’’ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے مختلعہ کو اس کا شوہر طلاق دے تو اس بارے میں انہوں نے فرمایا:یہ ایسی طلاق دے رہا ہے جس کا وہ مالک نہیں ہے۔‘‘
    [الزیادات علی کتاب المزنی: ص:۵۵۰،وإسنادہ صحیح]
    2امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵)نے کہا:
    «من قال لا يلحقها الطلاق:حدثنا ابن المبارك، عن ابن جريج، عن عطاء ، عن ابن عباس وابن الزبير،أنهما قال:’’ليس بشيء »
    ’’ان کا بیان جنہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ خلع طلاق نہیں ہے ، عطاء رحمہ اللہ ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :’’لیس بشیء‘‘ ’’ یعنی خلع سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ط الفاروق:۶؍۴۴۴وإسنادہ صحیح]
    ثابت ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مذکورہ فتویٰ نقل کرنے میں امام طاؤس منفرد نہیں بلکہ امام عطاء نے بھی ان کی متابعت کی ہے ۔
    ٭ابو بکر الجصاص الحنفی رحمہ اللہ نے طاؤس پر کلام کے لئے دوسری بنیاد یہ ذکر کی ہے کہ طاؤس نے ابن عباس سے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ ذکر کیا جب کہ دوسروں نے ابن عباس سے تین طلاق کے تین ہونے کا فتویٰ ذکرکیا چنانچہ ابوبکرالجصاص الحنفی نے کہا:
     «منها أنه روي عن ابن عباس أنه قال:من طلق ثلاثا كانت واحدة وقد روي من غير وجه عن ابن عباس:أن من طلق امرأته عدد النجوم بانت منه بثلاث»
    ’’طاؤس کی منکر روایت میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا کہ جو تین طلاق دے دے اس کی ایک طلاق مانی جائے گی ، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دیگر کئی طرق سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:جس نے اپنی بیوی کو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دی تو تین طلاق سے اس کی بیوی جدا ہواجاے گی۔‘‘
    [أحکام القرآن للجصاص ط العلمیۃ:۱؍۴۷۹]
    عرض ہے کہ:
    ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فتویٰ بھی صرف طاؤس نے ہی نقل نہیں کیا ہے بلکہ عکرمہ وغیرہ نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی فتویٰ نقل کیا جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔ لہٰذا یہ دوسری بنیاد بھی غلط ہے۔
    تنبیہ:
    السیر الحاث:ص۲۹ میں ابوبکرالجصاص الحنفی کی احکام القران میں موجود مذکورہ باتوں کو قاضی اسماعیل کی احکام القرآن کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے ، اور اسی پر اعتماد کرتے ہوئے زاہد کوثری نے بھی ایسے ہی نقل کیا ہے۔[اشفاق فی أحکام الطلاق :ص :۴۹]
    لیکن قاضی اسماعیل کی احکام القرآن میں طلاق کا جو بھی حصہ ہے اس میں ان باتوں میں سے ایک بات بھی موجود نہیں ہے ، واضح رہے کہ ابوبکر الجصاص حنفی ہیں جبکہ قاضی اسماعیل مالکی ہیں۔
    بہر حال امام طاؤس رحمہ اللہ کے عادل وضابط اور حجت پر تمام ائمۂ نقد کا اتفاق ہے ان کے برخلاف ابوبکرالجصاص الحنفی کا ان کے حافظہ اوربے بنیاد باتوں کا سہارا لے کر کلام کرنا مردود ہے۔
    فائدۃ
    حنفی حضرات بہت سارے مقامات پر امام طاؤس کی روایت کردہ حدیث سے دلیل لیتے ہیں ۔ مثلاً دیکھیں : (حدیث اور اہل حدیث:ص :۲۵۴،حدیث نمبر:)اس کی سند میں امام طاؤس موجود ہیں۔
    جاری ہے ……

مصنفین

Website Design By: Decode Wings