Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سورہ کہف دورفتن کا ایک محفوظ قلعہ (چھٹویں قسط)

     تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات:

    قارئین کرام: حرکت وعمل زندگی کی علامت ہے،دنیا وآخرت کی سعادت کا راز بھی یہی ہے،دنیا باحیات لوگوں کا مسکن ورہائش گاہ ہے،مردوں کو جلد از جلد قبروں میں دفن کردینا دستور دنیا ہے،یہ پوری کائنات متحرک ہے،سب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں،کوئی بھی بے عمل نہیں ہے۔

    حرکت و عمل انسانی فطرت میں داخل ہے،نوزائدہ بچہ بھی مسلسل اپنے ہاتھوں اور پیروں کو ہلاتا رہتا ہے،یہ حرکت وعمل فطرت نے اسے سکھایا ہے، انسان جب باشعور ہوجاتا ہے تو مختلف ضروریات اور فطری احتیاجات کیلئے حرکت وعمل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے،معاش کیلئے جدوجہد کرتا ہے،خیر وبھلائی کیلئے بھاگ دوڑ کرتا ہے،اپنے اور دوست واحباب کیلئے بھی محنت کرتا ہے،غرض یہ کہ وہ سراپا عمل بن جاتا ہے،دراصل یہی زندگی ہے،شاعر کہتا ہے:

    دنیا وآخرت میں کامیابی کا حصول محنت اور جد وجہد میں ہی پوشیدہ ہے،ایک عربی شاعر کہتا ہے۔

    ’’جد وجہد کرو،سستی نہ کرو،اور نہ لا پرواہ رہو،کیونکہ انجام کے وقت کی شرمندگی صرف کاہلوں کو ہی اٹھانی پڑتی ہے‘‘

    بڑی سے بڑی نعمت کے حصول کو اللہ نے حرکت وعمل سے مربوط کردیا ہے،حتیٰ کہ جنت کو بھی اللہ نے عمل کا بدلہ قرار دیا ہے،اللہ نے فرمایا:

    {اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ}

    ’’داخل ہو جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے ‘‘۔[ النحل:۳۲]

     ایک اور مقام پر جنت کے عیش وآرام کو عمل کا بدلہ قرار دیا ہے۔

    {إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ ،وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ ،كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ،إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ}

    ’’بیشک پرہیزگار لوگ سایوں میں ہیں اور بہتے چشموں میں،اور ان میوؤں میں جن کی وہ خواہش کریں،(اے جنتیو!)کھاؤ پیو مزے سے اپنے کیے ہوئے اعمال کے بدلے، یقیناً ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں‘‘ [المرسلات:۴۱۔۴۴]

    اس کے برعکس کاہلی وسستی شر وفساد کا مقدمہ اور محرومی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے،یہ بہت بڑی خطرناک بیماری ہے،جو انسان کو ہر جگہ ذلیل کرتی ہے،اسی لئے اللہ کے نبی ﷺ نے ایک مومن کو حرکت وعمل اور جد وجہد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

    ’’الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَي اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلٰي مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ وَلَا تَعْجَزْ‘‘

    ’’طاقت ور مسلمان اللہ کے نزدیک بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے ناتواں مسلمان سے،اور ہر ایک طرح کا مسلمان بہتر ہے،نفع بخش کاموں کے حریص رہو،اور اللہ سے مدد طلب کرواور ہمت نہ ہارو‘‘ [صحیح مسلم:۶۷۷۴]

    اور حالت نماز میں سستی وکاہلی سے پناہ مانگا کرتے تھے:

    ’’اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ العَجزِ وَالكَسَلِ‘‘

    ’’اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے اور سستی سے‘‘

    اس لئے پاکیزہ زندگی،کامیابی اور جنت وہ پا ہی نہیں سکتا ہے جو کاہل اور سست ہو،کیونکہ کاہلی وسستی خاص کر اہم ترین کاموں میں فساد عقیدہ کی علامت ہے۔

    سستی وکاہلی وہ میٹھا زہر ہے،جس سے انسان دھیرے دھیرے مرتا ہے،اعضاء جسم اورذہن ودماغ شل ہوجاتے ہیں،ضمیر مردہ ہوجاتا ہے،اسی لئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضرور کرتے رہنا چاہیے،حرکت میں ہی برکت ہے اور کاہلی میں خیر وبرکت کا زوال اور تباہی ہے۔خوشی اور سکون قلب بہت بڑی نعمت ہے،لیکن یہ محنت کا پھل محنت کرنے والوں کو ہی ملتا ہے،کاہل وسست لوگ اپنی آرام پسند طبیعت کی وجہ سے سکون قلب سے محروم ہی رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ بندے چاق وچوبند اور چست رہیں،پرعزم اور پر نشاط رہیں،لیکن شیطان چاہتا ہے کہ لوگ کاہل اور سست رہیں،بندہ سستی کو اختیار کرکے شیطان کو خوش کردیتا ہے،اور اللہ کے بندے حرکت و عمل کے ذریعے اللہ کو خوش کردیتے ہیں،شیطان ہر رات انسان کی پیشانی پر’’ لمبی رات ہے سوجاؤ‘‘کی گرہ لگا دیتا ہے،اب جو صبح اٹھتا ہے،دعاء پڑھتا ہے، وضو کرتا ہے،نماز ادا کرتا ہے،تو اس کا نفس پاکیزہ اور طبیعت چاق وچوبند ہوجاتی ہے،گویا حرکت وعمل سے رب کی خوشی،نفس کی پاکیزگی،طبیعت کو فرحت وسرور ملتا ہے۔ لیکن جو صبح طلوع شمس کے بعد اٹھتا ہے،کاہلی کی وجہ سے اہم ترین فریضہ کے ضیاع سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے،شیطان اس کے کان میں پیشاب کردیتا ہے،اور خبیث نفس اور کاہلی کے ساتھ وہ صبح کرتا ہے، گویا فرائض سے سستی رب کی ناراضگی،خیر سے محرومی،دشمن کے سامنے ذلت ملتی ہے۔ واقعی سستی وکاہلی قابل نفرت ہے اورحرکت وعمل حد درجہ محبوب صفت ہے۔ [صحیح بخاری:۳۲۶۹]

    اس وقت اپنے ملک پر ایک نظر ڈالو،آپ کو جانباز جوان بھی ملیں گے جو ظالم کے خلاف سد ذوالقرنین بنے ہوئے ہیں،دوسری طرف ایسے بھی ہیں جو منافقین بنے ہوئے ہیں،یعنی بظاہر قائد ہیں اور باطن میں ملے ہوئے ہیں،ایک طرف طلباء اور عوام سراپا حرکت وعمل اور احتجاج بنے ہوئے ہیں،سنگھرش کی راہ میں ہر تکلیف برداشت کررہے ہیں،وہیں قیادتیں زندہ لاشوں کی طرح اپنے اے سی کمروں میں پڑی ہوئی ہیں،دراصل یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آپ زندہ لاشیں کہہ سکتے ہیں،ان کے دلوں میں نہ اللہ کا ڈر ہے اور نہ لوگوں سے محبت وہمدردی،یہ مفاد پرست ہیں انہیں چندہ اور دھندہ سے مطلب ہے،خیال رہے یہ آپ کو پھر گمراہ کریں گے،اسلام کے قلعے کے نام پر،دعوت الی اللہ کے نام پر،کانفرنس کے نام پر آپ کی جیبیں خالی کرائیں گے۔ان کے جھانسے میں مت آنا۔

    محترم قارئین: حرکت وعمل قانون فطرت ہے،بقاء اسی کیلئے ہے جو نفع بخش ہو،اور جو بے نفع اور بے عمل ہو وہ مٹ جاتا ہے:اللہ کا فرمان ہے:

    {فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء ً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْض}

    ’’اب جھاگ تو ناکارہ ہو کر چلا جاتا ہے لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے‘‘

    یہ عام حالات میں عمل وکردار کی اہمیت وضرورت ہے لیکن اگر آزمائش اور فتنوں کا دور ہو،معاشرہ فساد اور ظلم وعدوان کا شکار ہو،چور اور ڈاکو حاکم بن بیٹھے ہوں،خباثت وجہالت کا غلبہ ہوگیا ہو،خیر کو شر اور شر کو خیر منوایاجارہا ہو،ایمان کو چند ٹکوں کے عوض بیچا جارہا ہو،شریف ذلیل ہو،ذلیل محترم ہوجائے،ایسے خطرناک ماحول میں ایمان اور اسلام واخلاص کی بقاء کیلئے کئی گنا زیادہ حرکت وعمل اور جد وجہد کی ضرورت ہوتی ہے،اور سستی اور کاہلی موت و تباہی کا پیغام بن جاتی ہے،اسی لئے خود اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو مکی دور میں مسلسل عمل کا فلسفہ بتلایا کہ آپ دعوت وتبلیغ اور اصلاح اور نبوت کے اعمال سے فارغ ہوں تو پھر رب کی عبادت میں زبردست محنت کریں،یہاں تک کہ آپ تھک جائیں،اللہ نے فرمایا:

    {فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ}

    ’’پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر‘‘[ الشرح:۷]

    یہ آیت کریمہ مسلسل مشغول رہنے کی دعوت دیتی ہے،ہر آن وہرلمحہ مومن حرکت وعمل میں رہتا ہے،ایک کام سے فارغ  ہوتا ہے تو فورا ًدوسرے کام میں لگ جاتا ہے،کیونکہ فراغت مفاسد کی بنیاد ہے،فارغ انسان کا دل ودماغ فاسد خیالات کا اڈہ بن جاتا ہے۔چونکہ یہ حکم مکی دور کا ہے اس سے معلوم ہوا کہ دور فتن میں عمل وکردار اور جد وجہد کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے،اسی لئے اللہ نے اہل ایمان کے فلاح کو صبر کرنے،ایک دوسرے کوصبر کی تلقین کرنے اور مضبوطی سے ڈٹے رہنے سے جوڑ دیا ہے اللہ نے فرمایا:

    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}

    ’’اے ایمان والو!تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لئے تیار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو‘‘ [آل عمران:۲۰۰]

     دور فتن میں حرکت وعمل کی اہمیت وضرورت:

    قصۂ اصحاب کہف:

     اس قصہ میں آپ غور فرمائیں کہ چند نوجوان ایمان لے آئے، اور پھردعوت و تبلیغ کا مشن لیکر اٹھ کھڑے ہوئے،مسلسل اپنی قوم کو دعوت دیتے رہے،دلائل وبراہین کے ساتھ قوم کو سمجھاتے رہے،ان کے ظالمانہ نظام پر شدید تنقید کرتے رہے،یہاں تک کہ اسی دعوت کی راہ میں اپنا گھربار،دوست واحباب،معاش و معیشت اور شہر چھوڑ کر ایک غار میں جاکر چھپنا پڑا،تاکہ اپنے ایمان کو بچا سکیں،اور جب نیند سے بیدار ہوئے پھر کوشش میں لگ گئے،سب کچھ چھوڑا لیکن اپنا دین وایمان نہیں چھوڑا،حرکت وعمل کا یہ جذبہ انہیں ان کے عظیم اور سچے مقصد نے عطا کیا،ہمارے قوم کے جوان اور افراد آج بھی اگر اپنا سچا اور عظیم مقصد متعین کرلیں تو یہی روح ان میں بھی سرایت کرجائے گی ان شاء اللہ۔اور سب سے بڑی بات یہ کہ انہوں نے دین وایمان کیلئے ہر ممکن کو شش کی،ہر تکلیف برداشت کیا، یقیناان کی زندگیاں سراپا جد وجہد کا بہترین نمونہ ہیں،اللہ نے ان کے مشن اور آغاز مشن کو بہت پسند فرمایا ہے،اور بطور انعام ان کے دلوں کو طاقت وقوت اور مضبوطی عطا فرمائی،اور دل کی مضبوطی ہی اصل قوت ہے،استقامت کے ساتھ فتنوں کے دفاع میں اصلی ہتھیار یہی ہے:اللہ نے فرمایا:

    {وَرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا}

    ’’ہم نے ان کے دل مضبوط کردیئے تھے جب کہ یہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان وزمین کا پروردگار ہے، ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو پکاریں اگر ایسا کیا تو ہم نے نہایت ہی غلط بات کہی ‘‘[الکہف:۱۴]

    دو باغ والے کا قصہ:

     اس واقعہ میں آپ غور کریں کہ ایک شخص دو پھل دار باغ کا مالک ہے،اپنے باغ کی نگرانی،نگہبانی کرتا ہے،باغ کے سنوارنے میں بھرپور محنت کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے محنت کی قدر فرماتا ہے اور اسے دو قابل رشک باغ کا مالک بنادیتا ہے،دنیا دارالعمل ہے،یہاں محنت کو ضائع نہیں کیا جاتا ہے،یہ اللہ کا قانون ہے، ہمارے لئے اس میں حرکت وعمل کا پیغام ہے،لیکن یہی شخص جب تکبر کی راہ اپناتا ہے،آخرت کا انکار کرتا ہے،ناشکری کی راہ اپناتا ہے،ظلم اور فساد کا ارتکاب کرتا ہے تو تباہ کردیا جاتا ہے،اس شخص کو سمجھانے کیلئے ایک صاحب علم کھڑا ہوتا ہے،جو اسے اللہ کی یادد ہانی کراتا ہے،شکر گزاری کی تلقین کرتا ہے،تکبر کے برے انجام سے ڈراتا ہے،مسلسل اسے نصیحت کرتا ہے۔مختلف انداز میں سمجھاتا ہے،اور یہی ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سراپا حرکت وعمل بن جائے،عمل کا خوگر ہو،دعوت واصلاح کو مقصد حیات بنالے،فساد جس جگہ بھی ہو اس کی اصلاح کیلئے فوراً اٹھ کھڑا ہو،یہی زندگی کی علامت ہے،یہی کامیابی کا راز ہے۔

    موسیٰ وخضر کا قصہ:

      فتنۂ شبہات کا مقابلہ علم نافع کے ذریعہ ہی کیا جاتا ہے،اور حصول علم کیلئے زبردست اور مسلسل محنت کی ضرورت ہوتی ہے،کاہل اور سست انسان علم نافع نہیں پا سکتا ہے،اس واقعہ میں حرکت وعمل اور بھاگ دوڑ کا ایک جہان آباد ہے، ذرا دیکھئے موسیٰ علیہ السلام سفر پر نکل رہے ہیں،اور مقصد کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کا عزم مصصم کئے ہوئے ہیں،بھوک اور تھکاوٹ بھی جھیل رہے ہیں،بڑی مشقت کے بعد خضر سے ملاقات ہوتی ہے،حصول علم کیلئے اصرار کرتے ہیں،اور پھر نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے،تکلیف اٹھاتے ہیں،معذرت کرتے ہیں،ایک پرمشقت سفر کو برداشت کرتے ہیں،اور علم لیکر واپس لوٹتے ہیں،اس قصہ میں بار بار ’’فانطلقا‘‘کا لفظ کثرت سفر کا اعلان ہے،اور کثرت سفر جد وجہد، خیر وبرکت اور نفع رسانی کی پہچان ہے،جو چلتا ہے وہ خراب نہیں ہوتا ہے جیسے بہتا ہوا پانی صاف رہتا ہے اور ٹھہرا ہوا پانی بدبو دار اور گندہ ہوجاتا ہے ،کیونکہ ایک جگہ پڑا رہنا،ساکن وجامد رہنا بیکار و بے نفع ہونے کی علامت ہے، یہ قصہ ہمارے لئے حرکت وعمل،کدوکاوش،جد وجہد،قربانی،جانفشانی کا پیغامبر ہے،علم کے باوجود مزید علم کیلئے سفر در سفر کی تکلیف اٹھانے کا درس عظیم سکھایا گیا ہے،آج امت کو ایسے ہی جفاکش اور محنتی علماء کی ضرورت ہے۔

    قصۂ ذوالقرنین:

    مقاصد عظیم ہوں،وسائل کے استعمال کا سلیقہ آتا ہو،طبیعت محنت وجفاکشی کی خوگر ہو،ارادے صاف و شفاف ہوں،آخرت کا خوف ہو، تو پھر سماج میں انقلاب آجاتا ہے،ایسے افراد سماج کو بدل کر رکھ دیتے ہیں،ہم جب ذوالقرنین کے واقعہ پر نظر ڈالتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ ایک شخص جسے اللہ نے وسائل عطا فرمائے ہیں،وہ سفر پر سفر کئے جارہا ہے،پوری دنیا کا سفر کررہا ہے،لوگوں کی ہدایت کیلئے،فساد کو دور کرکے عدل کے قیام کیلئے،مظلوموں کی فریاد رسی کیلئے،اصلاح سماج کیلئے۔

    یہ قصہ ہمارے لئے حرکت وعمل کو عالمی شکل میں پیش کرتا ہے،اور ہمیں اپنے مقصد کیلئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کی تلقین کرتا ہے۔کاہلی اور سستی کو فوراً دور کرنے کا درس دیتا ہے،اس نیک دل بادشاہ کو اللہ نے سارے وسائل دئے تھے اسے محنت کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وسائل ہوتے ہی اس لئے ہیں تاکہ سماج کو فائدہ پہنچایا جائے،سب سے بہترین وہی ہوتے ہیں جو لوگوں کیلئے نفع بخش ہوں،کاہلی تو موت ہے،زندگی کی پہچان تو نفع رسانی ہے،ہمیں آج زندگی کا ثبوت دینا ہے،کاہلی وسستی کو تیاگ دینا ہے،حرکت وعمل سے محبت کو اپنی پہچان بنانا ہے،یہ دنیا تو دارالعمل ہے، سونے اور پڑے رہنے کی جگہ تو قبر ہے۔

    محترم قارئین:سورہ کہف کے اس عظیم سبق کی مناسبت سے میں تمام اہل اسلام کو کام کرنے،محنت کرنے،جد وجہد کرنے کی تلقین کرتا ہوں،لیکن میں جانتا ہوں کہ ہمارے سماج کا انجن جب تک جفاکش اور محنتی نہیں ہوتا تب تک ہم ڈبوں سے اس کی امید نہیں رکھ سکتے ہیں۔

     سماج کے مؤثر ترین افراد:

     والدین،اساتذہ کرام،علماء عظام،اصحاب ثروت،عہدہ داران، یہ سماج کے انجن ہیں،ان کے رخ پر سماج چلتا ہے،ان کے بگاڑ پر سماج بگڑتا ہے،ان کے رنگ پر سماج رنگ پکڑتا ہے،آپ سے میں مخاطب ہوں،آپ اپنے آپ کو عمل کا خوگر بنالو،آپ محنتی بن جاؤ،جفاکشی اختیار کرلو،حوصلہ مند ہوجاؤ،میں سماج کے بدلاؤ کا وعدہ کرتا ہوں،انقلاب لفاظی نہیں ہے بلکہ جہد مسلسل کا انجام ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings