Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • والدین کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں (قسط اول )

    محترم قارئین :
    اللہ ورسول کے بعد ایک انسان پر سب سے بڑا حق اس کے والدین کا ہے،کیونکہ اللہ ورسول کے بعد ایک انسان پر سب سے بڑا احسان انہی کا ہوتا ہے اور ماں باپ کی الفت بے مثال اور قربانی بے بدل اور محبت سچی اور خیر خواہی لا محدود ہوتی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق کی عظمت اور رفعتِ شان کی وجہ سے اپنی توحید کے ساتھ ہی والدین کے تعلق سے حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
    {وَقَضَي رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا}
    ’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا‘‘
    [بنی إسرائیل:۲۳]
    رب کی نعمتیں ہم پر مسلسل نازل ہورہی ہیں،ہمارا دھڑکتا ہوا یہ دل، چلتی ہوئی سانسیں،خوبصورت مناظر اور کائنات کے حسن وجمال کو دیکھنے کے لیے یہ حسین آنکھیں رب العالمین کے فضل وکرم کا حصہ ہیں، ان پر شکرگزاری بندۂ مؤمن کا وظیفۂ حیات ہے،اللہ نے اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ایک ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
    {أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ}
    ’’تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘
    [لقمان:۱۴]
    اللہ کی عبادت کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے، اور یہ ان فرائض اور واجبات میں سے جس کا اللہ نے عہد وپیمان لیا ہے:
    {وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللّٰهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا}
    ’’اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا‘‘
    [البقرۃ:۸۳]
    اللہ نے تمام لوگوں کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
    {وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا}
    ’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے‘‘
    [الأحقاف:۱۵]
    جس طرح شرک سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑا گناہ ہے اسی طرح والدین کو تکلیف دینا سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے۔
    آپ اس آیت پر غور فرمائیں اللہ کا فرمان ہے:
    {قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا}
    ’’آپ کہیے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن (یعنی جن کی مخالفت)کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے، وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو‘‘
    [الانعام:۱۵۱]
    اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
     «أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟قُلْنَا:بَلٰي يَا رَسُولَ اللّٰهِ قَالَ:’’الْإِشْرَاكُ بِاللّٰهِ وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ‘‘
    ’’کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا ضرور بتایئے یا رسول اللہ!آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا‘‘
    [صحیح البخاری:۵۹۷۶]
    نیکی اور حسن سلوک،الفت ومحبت، تعظیم وتکریم، لطف وکرم اورشفقت ورحمت کی جتنی خوبیاں اور وسائل انسان کے پاس ہیں، ان سب پر بندوں میں پہلا حق والدین کا ہے،صحیحین کی یہ روایت والدین کی عظمت کو بیان کرتی ہے، ایک صحابی نے نبی ﷺ سے پوچھا:
    ’’مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ:أُمُّكَ، قَال: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أُمُّكَ، قَالَ:ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أُمُّكَ؟ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوكَ
    ’’سب لوگوں میں کس کا زیادہ حق ہے مجھ پرحسن سلوک کرنے کے لیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:تیری ماں کا۔ وہ بولا:پھر کون؟ آپﷺنے فرمایا:تیری ماں کا۔ وہ بولا:پھر کون؟ فرمایا:تیری ماں کا۔ وہ بولا:پھر کون؟ فرمایا:تیرے والد کا‘‘
    [صحیح مسلم :۲۵۴۸]
    اسی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری مائیں بچوں کے حسنِ سلوک کی زیادہ مستحق ہیں،اسی لیے نبی ﷺ نے ماؤں کی نافرمانی کرنے اور انہیں تکلیف دینے کو حرام بتاتے ہوئے فرمایا:
    ’’إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ وَمَنْعًا وَهَاتِ‘‘
    ’’اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی حرام قرار دی ہے اور (والدین کے حقوق) نہ دینا اور ناحق ان سے مطالبات کرنا بھی حرام قرار دیا ہے‘‘
    [صحیح البخاری :۵۹۷۵]
    اور والدین کو معمولی تکلیف دینا بھی حرام ہے، کیونکہ اللہ نے اف کہنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا :
    {إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا}
    ’’اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا‘‘
    [الإسراء:۲۳]
    مثلاً ماں نے کہا بیٹی ذرا پانی دے دو اور تم نے کہا اففوہ اور پھر پانی دیا، تو تم نے گناہ کا کام کیا، جب والدین کچھ کہیں تو خوشی کے ساتھ ان کے کام پورا کرنا بچوں کی ذمہ داری ہے۔
    خوش نصیب ہیں وہ بچے جو اپنے ماں باپ کا احترام کرتے ہیں،نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں، ادب اور محبت سے بات کرتے ہیں،رحمت اور شفقت کا معاملہ کرتے ہیں،ان کی مدد کرتے ہیں،ان کا سہارا بنتے ہیں،ان کے دکھ دردکو سمجھتے ہیں، ان پر رحم کرتے ہیں اوران کو خوش رکھتے ہیں،انہی تمام باتوں کا حکم دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا:
    {وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ}
    ’’اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا‘‘
    [بنی إسرائیل :۲۳]
    بڑے بد نصیب ہیں وہ بچے جو اپنے والدین کو دکھ دیتے ہیں،ان کی باتیں نہیں مانتے بلکہ انہیں دن ورات رلاتے ہیں، دراصل نبی رحمت ایسے بچوں کے لیے ذلت ورسوائی کی بد دعا کررہے ہیںاور جنت سے محرومی کی سزا سنارہے ہیں۔
    آپ نے فرمایا:
    ’’رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ، قِيلَ:مَنْ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ:’’مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا، ثُمَّ لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ‘‘
    ’’خاک آلود ہو ناک اس کی، پھر خاک آلود ہو ناک اس کی، پھر خاک آلود ہو ناک اس کی۔ کہا گیا کون؟ یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا:جو اپنے والدین کو بڑھا پے میںپا ئے یا ان میں سے ایک کو پھر جنت میں نہ جائے۔(ان کی خدمت گزاری کر کے)‘‘
    [مسلم :۲۵۵۱]
    محترم قارئین ! کبھی بھی والدین کو دکھ نہ دو، ان کی عزت کرو، ان کی مدد کرو ،ذرا ماں کی عزت تو دیکھو اللہ نے جنت کوان کے قدموں کے نیچے رکھ دیا ہے، سبحان اللہ! اور بڑے سے بڑا نیکی کا کام ماں کی خدمت سے بڑھ کرنہیں ہوسکتا ہے،پیارے نبی ﷺ ایک صحابی سے جو جہاد میں جانا چاہتے تھے فرمایا تھا:
    ’’هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟‘‘
    ’’کیا تمہاری ماں موجود ہے‘‘؟
    قَال:نَعَمْ‘‘،
    ’’انہوں نے کہا:جی ہاں‘‘۔
    قَالَ:
    آپ ﷺنے فرمایا :
    ’’ فَالْزَمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا‘‘
    ’’انہی کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے‘‘
    [سنن نسائی :۳۱۰۴]
    الحمد للہ ثم الحمد للہ ہمارے والدین تو مسلمان اور توحید والے ہیں،اگر وہ مشرک اور کافر بھی ہوں تو بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ایک مسلمان اولاد پر فرض ہے،حضرت اسماء بنت ابی بکر کی مشرکہ ماں کے لیے نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا :
    ’’نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ‘‘
    ’’ہاں احسان کرو اپنی ماں سے‘‘
    [صحیح مسلم :۱۰۰۳]
    والدین کی خدمت جنت کی طرف بڑھتا ہوا قدم ہے،آپ جتنی زیادہ ان کی خدمت کروگے ان کے ساتھ احسان کروگے اتنا ہی زیادہ جنت سے قریب ہوگے، اور والدین سے دوری جہنم سے نزدیکی ہے،ان کی ناراضگی جہنم کی آگ کو بھڑکانے والی ہے، لہٰذا اللہ سے ڈرو، جہنم کی آگ بہت بھیانک ہے، اللہ نے فرمایا:
    {إِنَّهَا لَظٰي نَزَّاعَةً لِلشَّوَي}
    ’’وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔جو منہ اور سر کی کھال کھینچ لینے والی ہے‘‘
    [المعارج:۱۵۔۱۶]
    اپنی استطاعت بھر ان کے ساتھ احسان اور نیکی کرنے کے بعد اللہ سے یہ دعا بھی مانگو:
    { رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}
    ’’اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے‘‘
    [الإسراء :۲۴]
    کیونکہ اولاد اپنے والدین کا حق ادا ہی نہیں کرسکتی ہے،ان کا حق بہت عظیم ہے۔
    اللہ ہم سب کو اپنے والدین کے ساتھ احسان کی توفیق عطا فرما۔{ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}
    محترم قارئین ! والدین کا یہ مقام فطری طور پر ہرقوم میں موجود ہے، اسلام نے والدین کے حقوق کو مزید نمایاں اور واضح کرکے بتادیا ہے۔اور اسی کے ساتھ والدین کو بھی خصوصی ہدایات دی ہیں، تاکہ اولاد اور والدین کا رشتہ مضبوط بنیادوں پر قائم رہے،والدین کو ان باتوں کا خاص لحاظ رکھنا چاہیے:
    ۱۔ پرورش کی ذمہ داری: جن کا مقام بلند ہوتا ہے، ان کی ذمہ داری بھی بڑی ہوتی ہے،والدین پراولاد کی بہت ساری ذمہ داریاں ہیں،ان کی عظمت کا کمال ان کی ادائیگی میں ہے،اللہ نے والدین پر بچوں کی پرورش کی ذمہ داری عائد کی ہے،تاکہ ان کی نشوونما بہترین ہو اور وہ صحت مند اور طاقت ور رہیں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    ’’كَفَي بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَنْ يَحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَهُ‘‘
    ’’آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جس کو خرچ دیتا ہے اس کا خرچ روک رکھے‘‘
    [صحیح مسلم:۹۹۶]
    بلکہ اولاد پر خرچ ہونے والا مال تمام صدقات سے اجر کے اعتبار سے افضل ہے:
    ’’دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ، وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلٰي مِسْكِينٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلٰي أَهْلِكَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلٰي أَهْلِكَ‘‘
    ’’ایک دینار تم نے اللہ کی راہ میں دیا اور ایک اپنے غلام پر خرچ کیا (یا کسی غلام کے آزاد ہونے میں دیا) اور ایک مسکین کو دیا اور ایک اپنے گھر والوں پر خرچ کیا تو ثواب کی رُو سے عظیم وہی دینار ہے جو اپنے گھر والوں پر خرچ کیا‘‘
    [صحیح مسلم :۹۹۵]
    بچوں کی ضروریات سے نظریں چرانا،اچھی غذا، مناسب کپڑااورپرسکون رہائش سے محروم رکھنا ظلم ہے،گناہ ہے۔
    لڑکی کی پرورش پر نبی کریم ﷺ نے جنت میں اپنی رفاقت اور قربت کا وعدہ فرمایا ہے:
    ’’مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّي تَبْلُغَا جَاء َ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ، وَضَمَّ أَصَابِعَهُ‘‘
    ’’جو شخص دو لڑکیوں کو پالے ان کے جوان ہونے تک توقیامت کے دن میں اور وہ اس طرح سے آئیں گے۔ اور آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ملایا‘‘
    [صحیح مسلم :۲۶۳۱]
    بیوی اور بچوں پر خرچ کرنا ایک مسلمان مرد پر واجب ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا :
    ’’أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًي، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَي، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ‘‘
    ’’سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر دینے والا مالدار ہی رہے اور ہر حال میں اوپر کا ہاتھ (دینے والے کا) نیچے کے (لینے والے کے) ہاتھ سے بہتر ہے اور (خرچ کی) ابتدا ان سے کرو جو تمہاری نگہبانی میں ہیں‘‘
    [صحیح البخاری :۵۳۵۵]
    ’’وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے ابنِ بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    ’’دليل علٰي أن النفقة على الأهل أفضل من الصدقة لأن الصدقة تطوع، والنفقة على الأهل فريضة‘‘
    ’’یہ دلیل ہے اس بات پر کہ گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ سے افضل ہے کیونکہ صدقہ کرنا نفل ہے اور اہل وعیال پر خرچ کرنا فرض ہے‘‘
    [شرح صحیح بخاری إبن بطال جزء:۳،ص:۴۲۸]
    مرد کو قوّام بھی اسی لیے بنایا گیا ہے کیونکہ وہ اپنا مال بیوی اور بچوں پر خرچ کرتا ہے ،اللہ کا ارشاد ہے:
    {الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَي النِّسَائِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ}
    ’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں‘‘
    [النساء:۳۴]
    ہر مرد اپنی کمائی اور مالداری کے اعتبار سے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے گا،مالدار کو اپنے اعتبار سے اور غریب کو اپنی وسعت وطاقت کے اعتبار سے لیکن بیوی بچوں پر خرچ کرنا واجب ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللّٰهُ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا}
    ’’کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (اپنی حسبِ حیثیت)دے، کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے، اللہ تنگی کے بعد آسانی وفراغت بھی کر دے گا‘‘
    [الطلاق:۷]
    لہٰذا ایک مسلمان مرد کو اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کی تکمیل میں بخیلی نہیں کرنا چاہیے بلکہ اجر وثواب کی نیت سے خوشی خوشی خرچ کرنا چاہیے۔
    جاری……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings