Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • گیارہ رکعات سے زیادہ تراویح کاحکم

    إنَّ الْحَمْدَ للّٰهِ نَحْمَدُه وَنَسْتَعِيْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ انْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ اعْمَالِنَا مَنْ يَّھْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَه وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَا ھَادِيَ لَه ، وَاشْھَدُ انْ لَا إلٰهَ إلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لَاشَرِيْكَ لَه وَاشْھَدُ انَّ مُحَمَّداً عَبْدُه وَرَسُوْلُه۔{يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ }{يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَآئً۔ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآئَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا } {يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا۔ يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْلَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۔ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا} امابعد: فإنَّ خَيرَالحَدِيْثِ كتابُ اللّٰه وخَيْرَالھَديِ ھَدْيُ محمد ﷺوشَرَّالامُورِ مُحْدَثَاتُھَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ۔
    اہمیت قیام اللیل:
    رات کی نماز اللہ سے مناجات کا ذریعہ ہے رب اور بندے کے درمیان براہ راست اتصال قیام اللیل ہے، اللہ کی قربت اوراس سے اپنے دکھوں کا مداوا طلب کرنے کا سب سے بہتر وسیلہ صلاۃ اللیل ہے ، رنج ومحن اورغم و الم کے ماحول میں سکون دل اوراطمینانِ قلب کا بہترین نسخہ صلاۃ اللیل ہے، کائنات انسانی جب محو خواب ہو تو دنیا سے منقطع ہو کر رب کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل کرنے کا طریقہ قیام اللیل ہے، آرام دہ بستر، خوبصورت بیوی، مسرت آمیز نیند اور دنیاوی عیش وتنعم کی موجودگی میں رب کی کبریائی کے اعلان واعتراف کا موقعہ صلاۃ اللیل ہے، اللہ سے ہم کلامی کا سب سے آسان اور افضل ذریعہ یہی ہے ، رات کے پچھلے پہر جب کائنات انسانی پر مہیب سناٹا اوردنیا میں گھنگھور تاریکی پھیلی ہوئی ہو ایسے میں بیدار ہو کر رب کے حضور حاضری کی لذت سے شادکام ہونا اہل عزیمت کا وظیفہ ہے، رات کی تنہائی میں اپنی عاجزی ، بے بسی اور بندگی کا اظہار یہ لے کر رب العالمین سے معافی تلافی کرکے اس کی رضا حاصل کرنے کی شاندارفرصت یہی رات کی نماز ہے، رب العالمین کے ساتھ راز و نیاز اورمناجات وسرگوشی کا سنہری موقعہ صلاۃ اللیل ہے، عبدو معبود کے درمیان رابطہ کی کڑی قیا م اللیل ہے۔گویا کہ صلاۃ اللیل انسانیت کا کمال اورعبدیت کی معراج ہے، اورصلاۃ اللیل عبودیت وریاضت کے ماتھے کا جھومر ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے مومن، مطیع اور مقرب بندوں کی علامت قراردیا ہے۔ {تَتَجَافٰي جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُم يُنْفِقُوْنَ}’’ان کی کروٹیں بستروںسے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اورامید کے ساتھ پکارتے ہیں اورجو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں‘‘[السجدۃ:۱۶]
    اوراسی لئے نبی ﷺنے اسے طریقۂ صلحا ء قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ‘‘ ’’تم قیا م اللیل کو لازم پکڑو کیوں کہ وہ تم سے قبل صالحین کا طریقہ ہے‘‘[ترمذی :۳۵۴۹] دیکھیں : [الارواء:۴۵۲]
    اوراسی لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف مواقع پر نبیﷺکو اس بات کا حکم دیا ہے فرمایا: {وَمِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَه وَسَبِّحْهُ لَيْلاً طَوِيْلاً} ’’اوررات کے وقت اس کے سامنے سجدے کر اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کر‘‘ [الانسان: ۲۶]
    دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَمِنَ الَّيْلِ فَتَھَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا}’رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لئے ہے عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا‘‘[الاسراء:۷۹]
    نبی ﷺنے بھی متعدد حدیثوں میں اس نماز کی ترغیب دی ہے اس کی فضیلت اور اجر عظیم بیان کر کے اس کی پابندی کا شوق دلایا ہے ۔فرمایا: ’’شرف المومن صلاته بالليل وعزه استغناء ه عما في ايدي الناس‘‘’مومن کا شرف اور اس کی برتری اس کی رات کی نماز ہے اور اس کی عزت وسرفرازی لوگوں کے مال سے اس کی بے نیازی ہے‘‘[صحیح الجامع:۳۷۱۰، الصحیحۃ:۱۹۰۳]
    اور فرمایا: ’’أَفْضَلُ الصَّلَاةِ، بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صَلَاةُ اللَّيْلِ‘‘ ’’فرض نماز کے بعد افضل نمازرات کی نماز ہے‘‘[مسلم:۱۱۶۳]
    اورفرمایا:
    ’’ثلاثة يحبھم اللّٰه ويضحك إليھم ويستبشربھم:۔۔۔۔۔ والذي له امراة حسنة وفراش لين فيقوم من الليل فيقول:يذرشھوته ويذكرني لوشاء رقد، والذي إذا كان في سفر وكان معه ركب فسھروا ثم ھجعوا فقام من السحر ضراء وسراء‘‘
    ’’تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ پسند کرتاہے ان سے ہنستاہے اورخوش ہوتاہے۔۔۔ جس کے پاس خوبصورت عورت اورنرم گداز بستر ہے اوروہ قیام اللیل کرتاہے تواللہ تعالیٰ فرماتاہے:اپنی شہوت وخواہش کو ترک کرکے مجھے یاد کرتاہے، اگرچاہتا توسوجاتا، اورجو آدمی سفر میں قافلے کے ساتھ ہوتاہے وہ رات میں جاگتے ہیں پھرسوجاتے ہیں،مگروہ سحرکے وقت خواہ تکلیف ہو یا آرام قیام کرتاہے‘‘
    [حاکم:۱؍۲۵، صحیح الترغیب: ۶۲۹]
    اورفرمایا: ’’إن في الليل لساعة لايوافقھا رجل مسلم يسال اللّٰه خيرا من امر الدنيا والآخرة إلا اعطاه إياه وذلك كل ليلة ‘‘ ’’رات میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اسے کوئی بھی مسلم آدمی اس حال میں پائے کہ وہ اللہ سے دنیا وآخرت کی بھلائی کا سوال کررہاہو تو اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتاہے اور یہ ہر رات کا معاملہ ہے‘‘
    [مسلم:۷۵۷]
    یہ آیتیں اور حدیثیں مطلق طور سے قیام کی فضیلت اوراہمیت بیان کر تی ہیں اسی لئے اہل علم اسے مستحب قرار دیتے ہیں شیخ حسین عوایشہ نے کہا : ’’قيام الليل سنة مستحبة وقدورد في الترغيب فيه العديد من النصوص ‘‘ [الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ: ؍۲؍۱۳۹]
    قیام رمضان کی فضیلت:
    یہ معاملہ تو سال بھر رات کی نماز کا ہے اگر اس کے ساتھ رمضان کی رات بھی جمع ہو جائے تو معاملہ دوبالا ہوجائے گا، اور عام فضیلت خصوصی فضیلت کے ہم رکاب ہو کر اجر میں اضافہ کی باعث اورحکم کے مؤکد ہونے کا سبب ہوگی۔
    نبی ﷺنے جس طرح مطلق طو رسے قیام اللیل کی فضیلت بیان کی ہے اسی طرح رمضان کی راتوں میں نماز تراویح کی عظمت کو بھی اجاگر کرکے مومن کو اس میں سبقت اوراس پر مواظبت کی ترغیب دلائی ہے۔
    ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نبی ﷺقیام رمضان کی ترغیب دیتے تھے لیکن اس میں کسی عزیمت (تاکید، وجوب) کا حکم نہ دیتے تھے اورفرماتے تھے : ’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘ ’’جو شخص ایمان اورثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرے گا (یعنی رمضان کی راتوں میں نماز کاا ہتمام کرے گا) اس کے گزرے ہوئے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘
    [بخاری:۳۷،مسلم: ۷۵۹]
    ایک دوسری روایت میں ہے:ایک ا ٓدمی نبی ﷺکے پاس آئے اورکہا:
    اے اللہ کے رسول !اگرمیں گواہی دوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اورآپ اللہ کے رسول ہیں،پانچوں نمازیں اداکروں،زکاۃ دوں، رمضان کا روزہ رکھوں اوراس کا قیام کروں، تو میں کن لوگوں میں سے ہوں گا، فرمایا:تم صدیقین اورشہداء میں سے قرار پائو گے۔
    [ابن خزیمہ۳؍۳۴۰ (۲۲۱۲)،صحیح الترغیب :۱۰۰۳]
    اسی لئے شیخ حسین عوایشہ نے کہا : ’’ قيام رمضان سنـة تودي بعد صلاة العـشاء قبل الوتر ‘‘ [الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ:۲؍۱۴۹] امام البانی نے کہا : ’’وليس صلاة الـتــراويح من النوافل المطلقـة حتي يكون للمصلي الخيار في ان يصليـهـا باي عدد شاء بل هي سنة موكدة ‘‘ [صلاۃ التراویح:۲۶]
    رمضان کی راتوں میں قیام اور تہجد کا اہتمام کرنا جس طرح گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے اسی طرح رب کی رضامندی اوراس کی جنت حاصل کرنے کا راستہ بھی ہے ، اوراسی لئے رمضان میں قیام اللیل کو اہل علم نے ایک مخصوص نام دیا ہے ، جو اگرچہ کہ قرآن وحدیث میں وارد نہیں ہے مگراس کو سب نے متفقہ طورپر اس نماز کے لئے منتخب کیا ہے یعنی تراویح جونماز سال کی بقیہ راتوں میں صلاۃ اللیل ، قیام اللیل اورتہجد کہلاتی ہے، وہی نماز رمضان میں تراویح کے نام سے موسوم کی جاتی ہے اور ولا مشاحۃ فی الاصطلاح کے مطابق اس میں بظاہر کوئی حرج بھی نہیں ہے۔
    باجماعت تراویح:
    تراویح کی نماز باجماعت نہ صرف مشروع ہے بلکہ جماعت سے پڑھنا تنہا پڑھنے سے افضل ہے۔ شیخ حسین عوایشہ نے کہا: ’’وتشرع الجماعة في قيام رمضان بل هي افضل من الانفراد لإقامة النبي ﷺلها بنفسه وبيانه لفضلها‘‘ [الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ:۲؍۱۵۱]
    شیخ البانی نے کہا : ’’لا يشك عالم اليوم بالسنة في مشروعية صلاة الليل جماعة في رمضان ، ھذه الصلاة التي تعرف بصلاة التراويح لامور ثلاثة‘‘:
    أ۔ إقراره ﷺ الجماعة فيھا۔ ب۔ إقامته لها۔ ج۔ بيانه لفضلها۔[صلاۃ التراویح:۱۰]
    اس کے بعد انہوں نے ان تینوں طرح کے دلائل کا تذکرہ کیا ہے اسی لئے صحابہ اس کا اہتمام کرتے تھے ، عمر رضی اللہ عنہ کااسے باجماعت پڑھانے کا حکم دینا تو متفق علیہ ہے اوراسی لئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہ نماز جماعت سے پڑھاتے تھے، زیدبن وہب کہتے ہیں:عبداللہ(ابن مسعود)ہمیں ماہِ رمضان میں نماز پڑھاتے تھے اور رات میں فارغ ہوجاتے تھے۔
    [عبدالرزاق:۷۷۴۱]
    معلوم ہواکہ تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا تنہاپڑھنے سے افضل ہے، امام احمد رحمہ اللہ سے کسی نے کہا :آپ کو رمضان میں تنہا آدمی کی نماز پسند ہے یا جماعت کے ساتھ؟فرمایا:جماعت کے ساتھ، اورکسی نے کہا:تراویح کو آخری رات تک مؤخر کرکے پڑھے؟ کہا :نہیں ، مسلمانوں کی سنت مجھے زیادہ پسند ہے۔[مختصر قیام اللیل:۹۱]
    رکعات تراویح:
    اب سوال یہ ہے کہ قیام رمضان کی رکعات کتنی ہوں؟ نماز تراویح کتنی رکعت پڑھی جائے؟ تو اس سلسلے میں نبی ﷺ کا اسوہ بہت واضح ہے، وہ ہے گیارہ رکعات کی پابندی، یہ بات سب لوگوں کے یہاں متفق علیہ ہے کہ نبیﷺ اتنی ہی رکعتیں پڑھتے تھے، اس کے بعض دلائل اس طرح ہیں:
    ۱۔ ابوسلمۃ بن عبدالرحمن بن عوف رحمۃ اللہ علیہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا، رمضان میں رسول اللہ ﷺکی نماز کیسی تھی؟ فرمایا: ’’مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلٰي إِحْدَي عَشْرَةَ رَكْعَةً‘‘ ’’نبی ﷺرمضان اوررمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں بھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں کرتے تھے‘‘
    [بخاری: ۲۰۱۳، مسلم:۷۳۸]
    ۲۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاء’’ِ وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ إِلَي الْفَجْرِ‘‘، إِحْدَي عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ‘‘ ’’نبی ﷺ عشاء کی نماز’’جسے لوگ تاریکی کی نماز کہتے ہیں‘‘سے فراغت اور فجر کے درمیان گیارہ رکعات نماز پڑھتے تھے اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرتے تھے اورایک رکعت وتر پڑھتے تھے‘‘
    [مسلم: ۷۳۶]
    ۳۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا :’’صلي بنا رسول اللّٰه ﷺفي شهر رمضان ثماني ركعات واوتر۔۔۔‘‘ ’’نبي ﷺنے ماهِ رمضان ميں هم كو نماز پڑھائي آٹھ ركعت اورپھر وترپڑھائي‘‘ [ابن حبان :۲۴۰۹،من الاحسان، ابن خزیمۃ:۱۰۷۰،ابویعلی :۱۷۹۶] شیخ البانی نے کہا :’’صحیح لغیرہ‘‘ [صحیح موارد الظمان: ۱؍ ۳۹۱(۷۶۳]اورصلاۃ التراویح:۲۱میں کہا :’’وسندہ حسن بما قبلہ‘‘
    ۴۔ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا :
    ’’جاء ابي بن كعب الي رسول اللّٰه ﷺفقال:يا رسول اللّٰه إنه كان مني الليلة شيي يعني في رمضان، قال :وماذايا ابي؟ قال:نسوة في داري قلن:إنا لا نقرا القرآن فنصلي بصلاتك قال:فصليت بھن ثمان ركعات ثم اوترت قال: فكان شبه الرضا ولم يقل شيئا‘‘
    ’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نبی ﷺکے پاس آئے اورکہا:اے اللہ کے رسول ﷺرات میں مجھ سے کچھ کام ہو گیا ہے، (مجھ سے کچھ حرکت سرزد ہوگئی ہے)یعنی رمضان میں، فرمایا:اے ابی!وہ کیاہے؟ کہا:میرے محلہ کی عورتوں نے کہا:ہم قرآن نہیں پڑھ سکتے، لہٰذا ہم آ پ کی اقتدا میں نماز پڑھیں گی، انہو ںنے کہا:تب میں نے انہیں آٹھ رکعات نماز پڑھائی اس کے بعد وتر پڑھائی، راوی نے کہا :یہ شبہ رضامندی(یا رضامندی کی سنت) تھی کہ رسول اللہﷺنے انہیں کچھ نہیں کہا‘‘
    [مسند ابویعلی :۱۷۹۵،مختصر قیام اللیل للمروزی:۹۰] دیکھیں :[صلاۃ التراویح:۷۹]
    ۵۔ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’امر عمررضي اللّٰه عنه ابي بن كعب و تميما الداري ان يقوما للناس بإحدي عشرة ركعة‘‘ ’’عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو (قیام اللیل میں)گیارہ رکعت نماز پڑھائیں‘‘[المؤطا للامام مالک:۳۰۲،بیہقی:۲؍۴۹۶]
    عشاء اور فجر کے درمیان گیارہ رکعت سے زیادہ قیام اللیل کا حکم:
    ان تمام دلائل میں اس بات کا قوی ثبوت ہے کہ نبی ﷺرات کی نماز گیارہ رکعت ہی پڑھتے تھے اس پر کبھی بھی اضافہ نہ کرتے تھے، حتیٰ کہ وہ راتیں جن میں آپ پوری رات جاگتے تھے اس میں بھی اور وہ راتیں جن میں آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو جماعت سے تراویح پڑھائی تھی ان میں بھی، ا ن میں سے کسی بھی موقعے پر نبیﷺنے گیارہ سے زیادہ نہ پڑھی تھی اورنہ پڑھائی تھی، لیکن ہر سال رمضان میں اورخاص کر شب قدر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ تراویح کے بعد اگر کوئی گیارہ سے زیادہ پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتاہے یا نہیں ؟ عام طور سے لوگ یہی کہتے ہیں کہ گیارہ سے زیادہ نفل کی نیت سے پڑھ سکتاہے، ؟ مگر دلیل کیا ہے ؟ کہتے ہیں کہ اسلاف میںسے بہت سے لوگ پڑھتے تھے؟ یعنی نہ نبی نے اورنہ صحابہ نے بلکہ بعد میں بعض تابعین نے گیارہ سے زیادہ ادا کیا ہے؟!!مگرسوال یہ ہے کہ ا گر گیارہ پر اضافہ مطلوب تھا تو نبی ﷺاورصحابہ کے قول وعمل سے اس کی تائید کیوں نہیں ہوتی؟ پوری زندگی نبی ﷺنے اس سے زیادہ کیوں ادا نہ کیا؟ جب کہ واضح ہے کہ اس سے کم پڑھنا آپﷺکے معمولات مبارکہ میں داخل تھا اوراگر اضافہ مطلوب تھا تو آپﷺنے اپنے قو ل یا فعل سے کبھی اس اضافہ کی طرف اشارہ کیوں نہ کیا؟
    اور پھر تابعین کا عمل شرعی دلیل کب سے ہوگیا کہ اس کی بنیاد پر اسوئہ نبی میں اضافہ کو درست قراردیاجائے؟!
    عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تراویح کی جو عدد نبی ﷺسے ثابت ہے، اس پر اضافہ کو درست قراردینے سے پہلے درج ذیل چیزوں پر ضرور غور کرلیا جائے:
    (۱) عشاء اور فجر کے درمیان نبی ﷺسے جو نماز ثابت ہے وہ صرف گیارہ رکعت ہے، البتہ وتر کے بعد دورکعت بیٹھ کر پڑھنا ، قیام اللیل شروع کرنے سے پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑھنا،(جیسا کہ نبیﷺکامعمول تھا ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’كان إذا قام من الليل ليصلي افتتح صلاته بركعتين خفيفتين مسلم‘‘)[مسلم: ۷۶۷] اورعشاء کے بعد دوسنت مؤکدہ اور اس کے بعد چار نفلی رکعات(نبی ﷺعشاء پڑھ کر گھر آتے تو کبھی کبھی چار رکعت نماز پڑھتے تھے) دیکھیں :[صحیح الترغیب :۵۹۱]وہ یہ نمازیں ہیں جن کی ادائیگی نبی ﷺسے ثابت ہے اور وہ گیارہ سے زیادہ ہیںچونکہ یہ نمازیں ثابت ہیں اس لئے ان کااستثناء کردیا جائے گا، البتہ ثابت پر غیر ثابت کا قیاس درست نہ ہوگا، یعنی یہ کہنا کہ ان حدیثوں میں عشاء اورفجر کے درمیان گیارہ سے زیادہ پڑھنا ثابت ہے اس لئے اگراس سے بھی زیادہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے؟ یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ یہ قیاس ہے اور بذریعہ ٔقیاس عبادت کا اثبات محل نظر ہے، مثلاً نماز کاحکم ثابت ہے اب اگر اس پر قیاس کرکے نماز قضاء عمری وغیرہ کو درست کہا جائے گا تو غلط ہوگا۔
    کیا وجہ ہے کہ نبیﷺنے کبھی ایک مرتبہ بھی گیارہ سے زائد نہ پڑھی ایک مرتبہ ہی پڑھی ہوتی تاکہ امت کی رہنمائی ہوجاتی یا اجازت ہی دے دی ہوتی؟ تاکہ سند بن جاتی، ایسا نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس سے واضح نہیں ہوتاہے کہ اصل میں اس سے زیادہ رکعات مطلوب ہی نہ تھیں اس لئے نبی ﷺنے اضافہ بیان نہ کیا نہ قولاً نہ فعلاً نہ تقریراً البتہ کمی کی جاسکتی تھی اس لئے اس کو فعلاً بیان کر دیا۔
    ۲۔ نبی ﷺایک نماز میں متعین رکعات کی عمر بھر پابندی کریں اور کبھی بھی اس سے زائد نہ پڑھیں اور ہم سمجھیں کہ ہم اس سے زیادہ پڑھ سکتے ہیں کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نبیﷺسے زیادہ اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں؟ ورنہ پھر اس ا ضافہ کا کیا مطلب ہے؟!کیا نبی ﷺکی اختیار کردہ رکعات تراویح کم ہیں کہ ان پر اضافہ کیا جائے؟ یا ہم نبی ﷺسے بڑے عابد وزاہد ہیں جو نبی ﷺکی عبادت پر اضافہ کے خواہاں ہیں؟!جب کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے:’’وايكم يطيـق ماكان رسول اللّٰه ﷺيطيـق‘‘ [بخاری:۱۹۸۷]
    ذرا غورکریں ! اضافہ کی وجہ کیا ہے ؟ کون سا جذبہ ہے جو اس پر ا ٓمادہ کررہا ہے ؟ کیوں ہم نبی ﷺسے زیادہ پڑھنا چاہتے ہیں ؟!
    ۳۔ ایک حدیث میں ہے :’’کہ نبی ﷺنے ایک کام کیا اور اس کی رخصت دی ، پھر آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اس کام سے بچتے ہیں تو آپ نے اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور فرمایا:کیا بات ہے کچھ لوگ ایسے کام سے بچنا چاہتے ہیں جس کو میں کرتاہوں، اللہ کی قسم! میںتم میں سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھنے والا اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں‘‘ [بخاری :۷۳۰۱]
    نبی ﷺکے اسوئہ حسنہ میں موجود کسی بھی جزء سے تغافل ، تحرز اور بطور ورع اس سے بچنے والے کے لئے نبی ﷺکا یہ فرمان کس قدر شدید ہے ، ذرا سوچیں!زندگی بھر نبی ﷺنے جس عدد کی پابندی کی ہے اورکبھی بھی اس پر اضافہ نہیں کیا ہے ، اس پر اضافہ کا مطلب یہی تو ہے کہ وہ عدد ہمارے لئے کافی نہیں ہے ؟ تبھی تو جذبۂ تعبدسے مغلوب ہوکر تکثیر رکعات کی کوشش کی جاتی ہے ؟ اگر یہ اسوئہ نبی ﷺہمارے لئے کافی ہے تو اس پر اضافہ آخر کیوں؟ جذبۂ تعبد ہی تواس امر کاحامل ہے ؟!مگر جذبۂ اتباع اوراسوئہ حسنہ کی پیروی کی سعادت مندی کدھر گئی؟!
    ایک مومن انسان جو کہ متبع سنت ہو وہ کیوں چاہے گا کہ نبیﷺکی نماز سے زیادہ نماز پڑھے؟کیا وجہ ہے کہ وہ زائد نماز کے بارے میں فکر مند ہے؟!اورنبی ﷺکی رکعاتِ نماز کو کافی نہیں سمجھتا؟!کہیں ایسا تو نہیں کہ اسوئہ حسنہ کو مکمل ماننے میں کہیں سے کوئی رخنہ پڑ رہا ہے؟!
    ۴۔ نماز کسوف اورنماز استسقاء کی ایک متعین صورت اورمتعین تعدادِ رکعات ثابت ہے اور بالاتفاق ان پر اضافہ ناروا سمجھا جاتاہے، کیوں؟ اس لئے کہ نبی ﷺنے کبھی اس سے زیادہ نہیں پڑھی اور تاعمر کبھی اس پرا ضافہ نہیں کیا، غورکریں!یہی حال تو تراویح کا بھی ہے کہ آپ نے کبھی بھی گیارہ سے زیادہ نہ اد ا کی، پھر اس پر اضافہ کیسے بہتر ہوگیا؟ ایک عدد کی پابندی اورمتعین رکعت پر مواظبت جب بعض نمازوں میں عدم اضافہ کی دلیل ہے تو یہی عمل یعنی متعین رکعات پرمداومت قیام اللیل اورتراویح کے سلسلے میں کیوں دلیل نہ ہوگا؟
    ۵۔ اگر کوئی آدمی سنتِ موکدہ فجرسے پہلے چار اور عشاء کے بعد چار پڑھنا چاہے تو کیا جائز ہوگا؟ ظاہرہے کہ نہیں!کیوں؟ اس لئے کہ نبی ﷺنے یہ سنتیں دو ہی پڑھی ہیں، اوران کی پابندی کی ہے اورکبھی بھی اس پر اضافہ نہیں کیا ہے!بالکل ٹھیک!یہی بات تو تراویح کے بارے میں بھی آتی ہے کہ نبی ﷺنے گیارہ رکعت کی پابندی کی ہے اورکبھی اس پراضافہ نہیں کیا ہے تو پھر ہمارے لئے اس پر اضافہ کس طرح روا ہوگا؟ امام البانی نے کہا :
    ’’فإذا استظهرنا في اذهاننا ان السنن الرواتب وغيرھا كصلاة الاستسقاء والكسوف التزم النبيﷺ ايضا فيھا جميعا عددا معينا من الركعات وكان ھذا الالتزام دليلا مسلما عندالعلماء علي انه لايجوز الزيادة عليھا فكذلك صلاة التراويح لايجوز الزيادة فيھا علي العدد المسنون، لاشتراكها مع ا لصلوات المذكورات في التزامه ﷺ عددا معينا فيھا لايزيد عليه، فمن ادعي الفرق فعليه الدليل، ودون ذلك خرط القتاد ‘‘
    [صلاۃ التراویح :۲۵۔۲۶] نیز دیکھیں:[ الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ:۲؍۱۵۵]
    ۶۔ نبی ﷺکو اللہ تعالیٰ نے متعدد آیتوں میں قیام اللیل کا حکم دیا ہے جو کہ رکعات کے اعتبار سے مجمل ہے، اور نبی ﷺنے حکم ا لٰہی کی تعمیل میں ہمیشہ گیارہ رکعات قیام اللیل کیا ہے کیوں کہ: ’’لم يثبت عن النبيﷺانه صلي التراويح اكثر من إحدي عشرة ركعة‘‘[الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ:۲؍۱۵۳]مطلب یہ کہ فعل نبی ﷺان آیتوں کا اگر بیان ہو تو چونکہ بیان اور مبیّن کاحکم ایک ہوتاہے اس لئے ایسی صورت میں اگر ہم نے اضافہ کیا توہم مخالف اتباع نہ قرارپائیں گے؟!
    اس کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ فعل نبوی حکم الٰہی کا بیان ہے اور بیان میں کبھی بھی گیارہ پر اضافہ وارد نہیں ہے تو ایسی صورت میں اگر اضافہ کیاجائے تو کیا یہ حکم الٰہی کی مخالفت نہ ہوگی؟
    صلاۃ اللیل کاحکم دینے والی آیتوں کا بیان صلاۃ اللیل کی حدیثیں ہیں اگر ان میں وارد عدد پر اضافہ ہوا تو کیا یہ براہِ راست حکم الٰہی پر اضافہ متصود نہ ہوگا ؟!ذرا اطمینان سے غور کرلیں۔
    ۷۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا : صمنا مع رسول اللّٰه ﷺ فلم يقم بنا شيئا من الشھر حتي بقي سبع فقام بنا حتي ذھب ثلث الليل، فلما كانت السادسة لم يقم بنا فلما كانت الخامسة قام بنا حتي ذھب شطرالليل فقلت يارسول اللّٰه: لو نفلتنا قيام ھذه الليلة فقال:ان الرجل إذا صلي مع الامام حتي ينصرف حسب له قيام ليلة فلما كانت الرابعة لم يقم ، فلما كانت ا لثالثة جمع اهله ونساء ه والناس ، فقام بنا، حتي خشينا ان يفوتنا الفلاح قال:قلت:ماالفلاح؟قال:السحور، ثم لم يقم بنا بقية الشهر۔
    ’’ہم نے رسول اللہﷺکے ساتھ روزہ رکھا ، آپ نے ہمیں مہینے میں ذرابھی قیام اللیل نہیں پڑھائی،یہاں تک کہ صرف سات دن بچے(اسی کو نعمان بن بشیر کی روایت میں وضاحت کے ساتھ تیئسویں رات کہا ہے)تو آپ نے ہمیں قیام اللیل پڑھائی ، یہاں تک کہ تہائی رات ختم ہوگئی ، پھر چھ رات بچی توآپ نے ہمارے ساتھ قیام ادانہ کیا اور جب پانچ راتیں بچیں تو آپ نے ہمیں قیام اللیل پڑھائی یہاں تک کہ نصف رات ہوگئی، میں نے کہا:اے اللہ کے رسول!اگر بقیہ رات بھی آپ ہمیں قیام اللیل پڑھادیتے (توبہترہوتا)آپ نے فرمایا:آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھ کر فارغ ہو تو اس کے لئے رات بھر کاقیام شمار کیاجاتاہے، پھر جب چارراتیں بچیں، توآپ نے قیام نہ پڑھائی ، مگر جب تین راتیں بچیں توآپ نے گھروالوں، بیویوں ، اورلوگوں کو جمع کیا اورہمیں قیام اللیل پڑھایا، حتیٰ کہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں فلاح نہ چھوٹ جائے، راوی نے کہا:فلاح کیا ہے ؟ فرمایا:سحری، پھر آپ نے مہینے کے باقی حصے میں ہمیں قیام اللیل نہ پڑھایا)
    [ابوداؤد:۱۳۷۵، ترمذی:۱۳۲۷،نسائی:۱۳۶۴،۱۳۶۵،ابن ماجۃ:۸۰۶](دیکھیں صلاۃ التراویح :۱۷)
    نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ واقعہ روایت کیا ہے اوراس میں تیئسویں ، پچیسویں، اورستائیسویں رات کی تعیین ہے ۔دیکھیں:[احمد:۴؍۲۷۲، نسائی:۶۰۶،صلاۃ التراویح:۱۱]
    اس حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ صحابہ نے نبیﷺسے مزید نماز پڑھانے کا مطالبہ کیا تھا مگر نبی ﷺ نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا ، اس حدیث کو جابر بن عبداللہ رضی ا للہ عنہ والی حدیث سے ملایا جائے کہ اس رات بھی آپ نے گیارہ ہی پڑھائی تھی تو مسئلہ بالکل صاف ہے، کہ نبی ﷺکا اپنی زندگی میں کسی عمل کو سبب پائے جانے اورمانع نہ ہونے کے باوجود ترک کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا ترک سنت ہے اور اسے انجام دینا بدعت ہے کیا یہ قاعدہ یہاں منطبق نہ ہوگا؟ ورنہ پھر کیا وجہ ہے کہ نبی ﷺنے صحابہ کرام کی درخواست قبول نہ کی اورنہ ہی یہ کہا کہ تم لو گ جائو تنہا تنہا پڑھ لو، یعنی اگر جماعت سے نہیں تو تنہا پڑھنے کی اجازت دینے میں کیا حرج تھا اگر یونہی مطلق طور سے رات بھر نفلی نماز پڑھنا جائز تھا؟! کیا یہ اشارۃ النص نہیں ہے کہ تم کو مزید نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ تمہیں رات بھر نماز پڑھنے والوں میں شمار کرلیا گیا ہے، یہا ں مطالبہ بھی ہے وقت بھی جذبۂ تعبد بھی ہے، شوق عبادت بھی نہ کوئی انکار ہے نہ کوئی مانع اس کے باوجود درخواست قبول نہ کی جارہی ہے بلکہ اسے رد کردیاجارہاہے، یہ کہہ کر کہ تم تو امام کے ساتھ نماز پڑھ کر فارغ ہونے کی وجہ سے شب بھر قیام کا اجر حاصل کر چکے ہو،اگرمزید رکعات کی گنجائش تھی تو صحابہ کرام کی خواہش پر بند باندھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اوریہ کہنے میں کیا مضائقہ تھا کہ تم لوگ جائو تنہا تنہا پڑھ لو ، مگر آپ ﷺنے ایسا نہیں کیا جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ آپ اس سے زیادہ پڑھنے کو بہتر نہیں سمجھتے تھے۔
    اس حدیث پراگر غورکیاجائے تو جذبۂ تعبد سے مغلوب اورنفلی نمازوں کی اجازت دینے والے لوگوں کو احساس ہوگا کہ اسوئہ نبی ﷺکے برخلاف گیارہ رکعتوں سے زیادہ کی خواہش صحابہ کرام کے دل میں بھی اٹھی تھی، مگر شارع علیہ السلام نے اس کا ذرا بھی لحاظ نہ کیا تو پھر بعد کے لوگوں کا اس کی رعایت کرنا کیا معنی رکھتاہے؟ !
    یہ حدیث بہت واضح انداز میں یہ تفہیم کر رہی ہے کہ رات میں گیارہ سے زیادہ قیام اللیل نہ تو نبی ﷺکا طریقہ ہے اورنہ ہی صحابہ کرام کا اورشاید اسی بات کا اثر ہے کہ کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوںنے کبھی گیارہ سے زیادہ نماز پڑھی ہو، امام البانی نے کہا:’’لم يثبت ان احداً من الصحابة صلاھا عشرين‘‘ اوركها: ’’ھذا كل ما وقفنا عليه من الآثار المروية عن الصحابة رضي اللّٰه عنهم في الزيادة علي ما ثبت في السنة في عدد ركعات التراويح وكلها ضعيفة لم يثبت منھا شيي‘‘[صلاۃ التراویح:۷۶،۸۲]
    میں نے بعض فضلا کو دیکھا کہ وہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کے ایک واقعہ سے استدلال کرتے ہیں کہ انہوںنے گیارہ سے زیادہ تراویح پڑھی ہے، قیس بن طلق کہتے ہیں : ’’زارنا طلق بن علي في يوم من رمضان وامسي عندنا وافطر، ثم قام بنا تلك الليلة واوتربنا ثم انحدر إلي مسجده فصلي باصحابه حتي إذا بقي الوتر قدم رجلا فقال:اوتر باصحابك فإني سمعت رسول اللّٰه ﷺيقول:لا وتران في ليلة  [ابوداؤد:۱۴۳۹، ترمذی:۴۷۰]
    (اس میں واقعہ نہیں ہے)(رمضان میں ایک دن طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے ہماری زیارت کی اورشام تک ہمارے پاس ٹھہرے اورافطار کیا، پھر ہمیں قیام اللیل اوروتر پڑھائی، پھر اپنی مسجد کی طرف گئے اوراپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی اورجب صرف وتر باقی رہ گئی تو ایک آدمی کو آگے کردیا اور کہا:اپنے اصحاب کو وترپڑھائو کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکوفرماتے ہوئے سنا ہے :ایک رات میں دو وتر نہیں ہے)
    غورکریں:
    (أ) اس حدیث میں رکعات کا تذکرہ بالکل نہیں ہے، پھر تعداد رکعات کے لئے استدلال کیسے مناسب ہوگا؟
    (ب) صحابی کا یہ عمل نبیﷺکی گزشتہ حدیث سے متعارض ہے تو دلیل تنہا صحابی کا عمل ہوگا یا فرمانِ نبی؟!
    (ج) یہ ثابت کیا جائے کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کو حدیث ابوذر معلوم تھی اس کے باوجود انہوں نے اس کی مخالفت کی اورگیارہ سے زیادہ قیام اللیل کیا؟!
    (د) یہ ایک صحابی کا عمل ہے جس کی تائید میں دوسرا کوئی صحابی موجود نہیں ہے، بلکہ یہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس خلافتی فرمان کے بھی مخالف ہے جس میں انہوں نے اپنے ائمہ کو گیارہ رکعات پڑھانے کاحکم دیا تھا۔
    (ھ) اصل بات یہ ہے کہ یہ حدیث اس مسئلہ کی دلیل ہے ہی نہیں کیوں کہ یہ استثنائی واقعہ ہے ، اس لئے کہ فرض نمازایک دن میں دومرتبہ پڑھنے سے نبی ﷺنے منع کیا ہے ،فرمایا: ’’لا تصلوا صلاة في يوم مرتين‘‘ [ابوداؤد:۵۷۹] اس کے باوجود معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نمازعشاء نبی ﷺکے ساتھ پڑھنے کے بعد جاکر اپنی قوم کی امامت کرتے تھے، [بخاری:۷۰۱،مسلم :۴۶۵] تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دو مرتبہ یہ نماز جائز ہے؟ نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جیسی استثنائی صورت میں بطور نفل رخصت ہے اسی طرح وہ جو دوسری روایت ہے کہ جنہوں نے گھر میں نماز پڑھ لیا تھا ان سے نبی ﷺنے فرمایا:دوبارہ ایسا نہ کرنا، اورجب تم گھر میں نماز پڑھ چکو اورامام کو پائو تو اس کے ساتھ پڑھ لو یہ تمہارے لئے نفل ہوجائے گی ۔[احمد:۴؍۱۶۱، ترمذی:۲۱۹]
    اس میں ایک ہی نماز کی دوبارہ ادائیگی کی اجازت ہے مگریہ قاعدہ عامہ نہیں ہے بلکہ استثنائی صورت ہے جو کہ حدیث میں مذکورہے ، اسی طرح ہماری زیر بحث حدیث میں بھی ہے کہ وہ ایک استثنائی صورت ہے کہ وہ بطور مہمان اپنے میزبانوں کی دلجوئی چاہتے تھے اور دوبارہ اپنی مسجد جس میں وہ امام تھے اس میں تو ان کونماز پڑھانا ہی تھا، اسی لئے تو لوگوں نے ان کے آنے تک ان کا انتظارکیا تھا؟! اوراسی لئے اپنی مسجد میں دوبارہ اس سے زیادہ پڑھنا یا پڑھانا خود انہیں سے ثابت نہیں ہے، اگر وہ اضافہ کو بہتر سمجھتے تو اس پر عمل کیوں نہ کرتے؟!
    ۸۔ ان تمام باتوں کو اگر نظر انداز کردیا جائے تب بھی یہ بات باقی رہے گی کہ انسان کے لئے افضل کیا ہے؟ وہ جس کی نبیﷺنے پابندی کی یا وہ جو وہ خود پسند کرتاہے؟ ظاہرہے کہ:خیرالہدی ھدی محمد ﷺ [مسلم :۸۱۷] کی موجودگی میں ایک متعبد اورنمازی کے لئے یہی اولیٰ اور افضل ہے کہ رکعات تراویح اورقیام اللیل کے سلسلے میں وہ نبی ﷺکے اسوہ کو حرزِ جاں بنائے۔
    واضح رہے کہ کثرت عبادت اور وفورِ تقویٰ میں کوئی امتی نبی ﷺکے گرد پا کو بھی نہیں پہنچ سکتا اس لئے اگر آپ ﷺ کے عمل کی کیفیت کے ساتھ ظاہری شکل و صورت کی بھی پابندی کی جائے تو یہ بہتر ہوگا۔
    حدیث میں ہے نبی ﷺسے پوچھاگیا: ’’اي الصلاة افضل ‘‘ ؟’’ کون سی نماز افضل ہے ؟ فرمایا: ’’طول القنوت‘‘ ’’ لمباقیام، نماز کو لمبی پڑھنا یہ افضل ہے، لہٰذا اگر زیادہ عبادت کا شوق ہے تو انسان رکعات میں اضافہ کے بجائے قیام میں اضافہ کرکے نماز کو لمبی کرلے، اس میں فضیلتِ تطویل اور فضیلتِ اتباع دونوں انسان کو حاصل ہوجائے گی۔
    جب ہمارے لئے نماز کو لمبی کرنے کاا سوئہ نبی قولاً وفعلاً وتقریراً تینوں موجود ہے توکیوںنہ اس کی پابندی کرکے جذبۂ تعبد کی تسکین کر لی جائے؟
    ۹۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اسی عدد پر اکتفا کیاجائے جس پر نبی ﷺنے اکتفا کیا ہے، کیوں کہ اگر اس سے زیادہ نفل جائز ہوا اور ہم نے نہ پڑھا تو کوئی سوال نہ ہوگا، لیکن اگر اس سے زیادہ پڑھنا ہمارے لئے درست نہ ہوا اور ہم پڑھتے رہے تویہ ہمارے لئے شدید حرج کی بات ہے، اور ثابت عدد میں ایک مزید فائد ہ یہ ہے کہ اسوئہ رسول کو ناقص سمجھنے کی جو تہمت وارد ہوتی ہے اس سے بھی ہمارا دامن پاک وصاف ہوجائے گا۔
    نبی ﷺسے ثابت رکعات تراویح کی پابندی ہمارے لئے دنیا وآخرت دونوں جہاں کی کامیابی کی ضامن ہے البتہ اگر اس کی موافقت نہ ہوتو پھر اس کامیابی کی ضمانت مفقود یا کم ازکم مشکوک ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں ہمارے لئے کیا بہتر ہے؟ ذرا سوچیں!
    عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گیارہ سے زیادہ قیام وتراویح کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ وہ مشکوک ہے ،درست ہے یا نہیں؟ توکیوں نہ مشکوک کو ترک کرکے متیقن کو اپنایا جائے اورنبی ﷺسے ثابت رکعات کی پابندی کی جائے!!
    یہ جو سوالات میں نے قائم کئے ہیں ان کا مطلب صرف اہل علم کو دعوتِ غوروفکر دینا ہے کسی پر انحراف وضلالت اوربدعت وگمراہی کاحکم لگانا ہرگز مقصود نہیں ہے اوربالخصوص اہلحدیثوں کو اتباع کی اہمیت یاد دلانی مقصود ہے، کہ اگر قیام اللیل میں بھی اس کی پابندی کی جائے تو کتنا اچھا ہوگا؟!
    الحمدللہ تمام اہلحدیث مساجد میں ثابت عدد کی پابندی کی جاتی ہے مگرقدر کی راتوں میں تراویح کے علاوہ مزید نوافل کو درست سمجھ کر اداکرنے کی اجازت دینا یہ محل نظر ہے، کیوں کہ نبیﷺقدر کی راتوں میں شب بیداری کرکے عبادت کاجو انداز اپناتے تھے اس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جب نبیﷺپوری رات جاگنے کے باوجود گیارہ رکعات پر اکتفا کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟!
    شبہات وجوابات:
    اس گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صلاۃ اللیل کے لئے عشاء او رفجر کے درمیان جو سنت نبوی ہے وہ ہے گیارہ رکعت کی پابندی، نبی ﷺاورکسی بھی صحابی سے اس سے زیادہ صلاۃ اللیل ثابت نہیں ہے۔
    مگر سوال یہ ہے کہ اہل علم نے اس عدد سے زیادہ نفل کی اجازت کیوں دی؟ تواس کاجواب یہ ہے کہ:
    أ۔ پہلی دلیل تو گزرچکی ہے کہ بعض تابعین عظام کا عمل، اس کا جواب بھی گزرچکا ہے کہ یہ شرعی حجت نہیں ہے۔
    ب۔ دوسری دلیل وہ عام نصوص ہیں جن میںمطلق طور سے رات کی نماز پڑھنے کا حکم ہے اورکسی متعین عدد کی پابندی کا ذکر نہیں ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا: {وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا } ’’رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لئے ہے عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا‘‘[الاسراء:۷۹]
    رات میں کتنی نماز پڑھیں اللہ نے ا س کی تعیین نہ کی معلوم ہوا کہ جتنی چاہیں پڑھ سکتے ہیں ۔
    نبی ﷺسے بعض حدیثوں میں بھی رات کی نماز کی ترغیب وار دہے مگر تعیین نہیں ہے جو اس کے مطلق اور غیرمتعین ہونے کی دلیل ہے اس لئے انسان جتنا چاہے پڑھ سکتاہے مثلاً:
    ۱۔ ’’من قام رمضان ايمانا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه‘‘ ’’جو شخص ایمان اورثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرے گا اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے‘‘ [بخاری:۳۷،مسلم:۷۵۹]
    ب۔ ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے جب نبی ﷺنے کہا : مانگو تب انہوں نے کہا :میںجنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتاہوں، اس پر نبی ﷺنے فرمایا:’’اعني علٰي نفسك بكثرة السجود‘‘’’تم کثرت سجدہ کے ذریعہ اپنے نفس کے خلاف میری مدد کرو‘‘[مسلم :۴۸۹]یعنی نوافل کی کثرت تمہاری اس خواہش کی تکمیل میں میری معاون بنے گی، اس میں نبی ﷺنے مطلق طور سے نوافل کی ترغیب دی کسی عدد کی تعیین نہ کی۔
    ج۔ عبداللہ بن عمر ِرضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبیﷺسے جب ایک آدمی نے پوچھا: ’’كيف صلاة الليل‘‘؟ ’’رات کی نماز کیسے پڑھی جائے‘‘؟ تو نبی ﷺنے فرمایا:’’صلاة الليـل مثـني مثـنـي فإذا خشي احدكم الصبح صلى ركعة واحدة توترما قد صلي‘‘’’رات کی نماز دودو رکعت ہے اور جب تم میں سے کسی کو(طلوع)صبح کا خوف ہوتو ایک رکعت نماز پڑھ لے جو اس کی پڑھی ہوئی تمام نمازوں کو وتر بنادے گی‘‘ [بخاری:۹۹۰،مسلم:۷۴۹]
    اس میں بھی نبیﷺنے مطلق طور سے دو دورکعت پڑھنے کی اجازت دی مگر کسی عدد کی تعیین نہ کی ۔
    ا س طرح کے عام نصوص سے اہل علم نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان رات میں جتنی نفلی نمازیں چاہے پڑھ سکتاہے ان کی کوئی تحدید نہیں ہے،
    مگر یہ بات درست نہیں ہے، اس لئے کہ جن نوافل کی تعیین شارع نے اپنے قول وفعل سے کردی ہے ان کو ان نصوص کی وجہ سے مطلق سمجھنا اور تحدید سے عاری قراردینا درست نہیں ہے، کیوں کہ قید، بیان اور تحدید آجانے کے بعد عام نص کو خاص اورمطلق نص کو مقید کردینا اہل علم کا متفقہ اصو ل ہے۔
    اب ہمار ے مسئلہ میں دیکھا جائے تو قیام ا للیل یا تراویح مطلق نفلی نماز نہیں ہے بلکہ وہ سنت مستحبہ یا بقول البانی سنت مؤکدہ ہے اب ایسی صورت میں اس کو مطلق سمجھنا کس طرح درست ہوگا؟!
    دوسری بات یہ ہے کہ :  بیان کے مقابل میں اجمال کو ، خاص کے مقابل میں عموم کواور مقید کے مقابل میں اطلاق کو حجت بنانے کی کوشش کرنا منہج سے انحراف ہے، جب نبی ﷺنے قول وفعل کے ذریعہ گیارہ رکعت کی پابندی کی ہے تو پھر یہ مطلق کہاں رہ گئی یہ تو گیارہ رکعت سے مقید ہوگئی اس لئے ان عمومات سے رکعاتِ تراویح کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ عام نصوص اس وقت حجت ہوتے جب نبی ﷺسے اس کی تعیین وارد نہ ہوتی اور آپ نے کسی عدد کی پابندی کرکے اس کو متعین نہ کیا ہوتا اورجب آپ نے بیان کرکے متعین کردیا تو یہ عموم واطلاق بیان کردہ صورت میں حجت نہ رہا۔
    امام البانی نے کہا :
    ’’ إن هذا تمسك واه جدا بل هي شبهة لا تساوي حكايتها كالتي قبلها ، فإن العمل بالمطلقات على إطلاقها انما يسوغ فيما لم يقيده الشارع من المطلقات، اما إذا قيدالشارع حكما مطلقا بقيد فإنه يجب التقيد به وعدم الاكتفاء بالمطلق، ولما كانت مسالتنا (صلاة الـتـراويح)ليست من النوافل المطلقة لانها صــلاة مقيدة بنص عن رسول اللّٰهﷺ۔۔۔ فلا يجوز تعطيل هذا القيد تمسكا بالمطلقات ‘‘
    [صلاۃ التراویح:۳۷، والموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ: ۲؍ ۱۵۷]
    تیسری بات یہ ہے کہ: اس طرح عام نصوص سے استدلال کرنا اور خاص نصوص کو نظر انداز کردینا بہتر نہیں ہے، اگران نصوص میں راتوں کی نماز مطلق ہے توکیا ہوا دوسری حدیثوں میں تو ان کی تعیین وارد ہے لہٰذا اس کے مقابلے میں وہ تعیین حجت اور فیصل ہوگی۔اسی لئے بعض علما ء اس جیسے استدلال کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں جیسا کہ شیخ علی محفوظ نے کہا :
    ’’وعلمت ان التمسك بالعمومات مع ا لغفلة عن بيان الرسول بفعله وتركه هو من اتباع المتشابه الذى نهي اللّٰه عنه ولوعولنا على العمومات وصرفنا النظر عن البيان لانفتح باب كبير من ابواب البدعة لايمكن سده ولايقف الاختراع فى الدين عند حد وإليك امثلة فى ذلك زيادة على ما تقدم:الاول:جاء فى حديث الطبراني الصلاة خير موضوع لوتمسكنا بعموم هذا كيف تكون صــلاة الرغائب بدعة مذمومة؟ وكيف تكون صلاة شعبان بدعة مذمومة مع دخولهما فى عموم الحديث‘‘؟
    [الإبداع:۲۵]، دیکھیں :[صلاۃ التراویح:۳۸]
    چوتھی بات یہ ہے کہ:ان احادیث میں جو ترغیب ہے اس پر نبی ﷺاورصحابہ کرام کا عمل تھا یا نہیں ؟ جواب ہوگا کہ ان کا عمل تھا، ایسی صورت میں دیکھا جائے گا ان کے عمل کی صورت کیا ہے ؟ اسی کو اپنالیا جائے گا، اس پر اضافہ کرنا یا اس سے ہٹ کر ان نصوص کا کوئی مفہوم متعین کرنا مناسب نہیں ہے۔
    ان نصوص کے اولین مخاطب تو وہی لوگ ہیں اورجو انہوں نے کیا ہے وہی ان حدیثوں کا مدعا ہے لہٰذا انہیں کے عمل کو لے کر ان نصوص پر منطبق کردیا جائے ، اسی سے ان کا مفہوم متعین ہوجائے گا، ہمیں اپنے استنباط کے ذریعہ ان احادیث کا مفہوم متعین کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
    پانچویں بات یہ ہے کہ:حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میں جودو دورکعت نماز پڑھنے کی ترغیب ہے اس کا تعلق کیفیت سے ہے، نماز کے عدد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، اسی لئے راوی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: ’’ما مثني مثنيٰ‘‘؟’’یہ دو دو کیاہے‘‘؟ فرمایا:’’ان تسلم فى كل ركعتين‘‘’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ہر دورکعت میں سلام پھیرو ‘‘[مسلم:۷۴۹] اس میں صرف یہ بیان ہے کہ رات کی نماز کیسے ادا کی جائے ، رہ گئی بات رکعت کی تو اس میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے کیوں کہ سائل نے اس کو پوچھا ہی نہیں تھا، شیخ حسین عوایشہ نے کہا :’’ان هذا لبيان الكيفية لا لبيان الكمّ،۔۔۔۔ فإن هذا الصحابي لم يسال رسول اللّٰهﷺكم صلاة الليل؟ بل كيف صلاة الليل؟ فجواب مثني مثني عن كيف لا عن كمّ‘‘[الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ: ۲؍۱۵۹]
    چھٹی بات یہ ہے کہ: اگران عام احادیث کو ان کے عموم پرمحمول کرتے ہوئے کہاجائے کہ آدمی جتنا قیام اللیل چاہے کرسکتاہے توسوال یہ ہے کہ نبی ﷺاورصحابہ کرام کا طرزِ عمل اس استدلال کی تائیدکرے گا؟!
    نبی ﷺنے جب تیسری رات یعنی ستائیسویں رمضان کو تراویح کی جماعت کروائی تھی اس میں بھی راوی ابوذر اورنعمان بن بشیررضی اللہ عنہما کہتے ہیں:’’حتي خشينا الفلاح‘‘’’ اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ سحری فوت ہوجانے کا خدشہ لاحق ہو گیا‘‘، یعنی رات میں بہت طویل قیام کیا تب بھی تعداد رکعات میں کوئی اضافہ نہ کیا ،گیارہ ہی رہی، جیساکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت گزرچکی ہے، اب ایسی صورت میں اگر ربیعہ بن کعب یا اس سائل کے بارے میں غورکیاجائے تو کیا یہ بات معقول ہے کہ وہ لوگ اسوئہ رسول سے زیادہ نماز پڑھنے کی کوشش کریں گے؟!
    عرض کرنے کامطلب یہ ہے کہ نبی ﷺنے نماز درمیانی پڑھی یا بہت لمبی پڑھی تمام صورتوں میں آپ نے گیارہ ہی کی پابندی کی اس کا مطلب یہ ہے کہ رات کی نماز کے بارے میں وارد احادیث نبویہ میں جو کثرت سجود یا کثرت صلاۃ کاذکر ہے اس سے مراد یہی کثرت ہے کہ اسے گیارہ پڑھاجائے !ورنہ یہ سمجھنا کہ ہمارے لئے توبہت ڈھیرساری رکعات مسنون ہیں، جو کہ نبی ﷺاورصحابہ کے لئے نہ تھیں، کتنی غیر معقول بات ہوگی؟!
    اسی طرح فعل کو قول کی مخالفت پر بلاوجہ محمول کرنا کون سی دانشمندی ہے ؟ یعنی نبیﷺنے اپنے اقوال میں تو بہت زیادہ رکعات پڑھنے کاحکم دیا مگر اپنے عمل میں آپ ﷺنے اورآپ کے صحابہ نے کبھی بھی گیارہ سے زیادہ نہ پڑھا یہ کہنا کیا معقول بات ہوگی؟؟ حالانکہ ہمارے پاس اصل یہ ہے کہ جب تک قول وفعل میںاتحاد کاا مکان ہو انہیں تعارض پر محمول کرنا غلط ہے۔
    یہاں صورت یہ ہے کہ عمل نبوی میں ان حدیثوں کا بیان ہے جن میں کثرت صلاۃ یا کثرت سجودکی ترغیب ہے اور اس سے مراد وہی گیارہ رکعت ہے جس پرنبیﷺنے عملی طور سے زندگی بھر مواظبت کرکے سکھائی ہے!
    عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیام اللیل اورتراویح کے سلسلے میں ان عمومات سے استدلال اوراسوئہ رسول سے اغماضِ نظر درست طرز تفکیر نہیں ہے ، بلکہ دونوں کو پیش نظر رکھاجائے تومعلوم ہوگا کہ اگر کوئی رات بھر قیام ا للیل کرنا چاہے تو نبی ﷺکی طرح گیارہ رکعت ادا کرے، کوئی نصف شب تک نماز ادا کرنا چاہے تو گیارہ رکعت ادا کرے ، کوئی اس سے بھی مختصر نماز پڑھنا چاہے تو گیارہ رکعت ادا کرے۔
    ورنہ اس سوال کا جواب تلاش کرلیاجائے کہ نبی ﷺنے ایک ہی متعین عدد کی تاعمر پابندی کیوں کی؟ اس پر کبھی بھی اضافہ کیوںنہ کیا؟ اور اہم سوال یہ ہے کہ ایک متبع کے لئے اسوئہ رسول کو کافی نہ سمجھنا اوراس پر اضافہ کی خواہش رکھنا، اس کا کیا مطلب ہے؟؟
    اسی طرح بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب نماز نبوی کی کیفیت لوگ پوری حاصل نہ کرسکے تو اس کے بدلے میں رکعات میں اضافہ کردیا یعنی نبی ﷺکی سی لمبی اورطول قنوت والی نماز جب لوگ ادا نہ کرسکے تو آسانی کے لئے تعداد رکعات بڑھالیا تاکہ قیام کی ادائیگی کے لئے نبی ﷺجو وقت صرف کرتے تھے اس کی کچھ مشابہت پیدا ہوجائے، اسے بعض اہل علم نے بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاویٰ:۱؍۱۴۸ میں۔
    میں معاصرین میں سے بعض لوگوںکے اس استدلال سے بہت حیران ہوں ، جب معاملہ یہ ہے کہ اسوئہ نبویﷺ کی پابندی ہی ہمارا ایمان ہے لہٰذا اس کی کسی بھی صورت میں مخالفت نہیں ہونی چاہیے، اور اب جب کہ سنت کے عاملین اوران کا التزام کرنے والوں کو ہر طرف سے نشانہ بنایا جارہا ہے توایسی صورت میں خود سنت کے دعاۃ ایسی دلیلوں کو پیش کرکے مسائل کااستنباط کرنا چاہیں توحیرانی نہ ہوگی؟!
    دوسرے لوگ تو ویسے ہی سنت وحدیث سے خارکھائے ہوئے ہیں، اورہر ممکن طریقے سے اس طرزِ عمل کو مٹانے اوردبانے کے درپے ہیں اب اگر خوداتباع کے علمبردار علما ء بھی ایسی بے وزن دلیلوں سے میدان میں محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کریں گے تو پھر صورت حال کس قدر سنگین ہوگی؟ کچھ اندازہ کیجئے!!
    یہ بات تو غلط ہے کہ اسلاف نے رکعات میں اضافہ اسی مقصد سے کیا تھا، کیوںکہ یہ لوگ سب سے پہلے عمررضی اللہ عنہ کانام لیتے ہیں اوران کے زمانے کی نماز کے بارے میں حدیث میں جو لفظ ہے وہ ہے کہ : ’’حتي كنا نعتمد على العصي من طول القيام وماكنا ننصرف إلا فى بزوغ الفجر ‘‘’’ہم طول قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے اوراس وقت فارغ ہوتے تھے جب طلوع فجر قریب ہوتی‘‘[الموطا:۲۴۸،بیہقی:۱؍۴۹۶] اس میں تو یہ کیفیت مذکور ہے مگر کسی بھی روایت میں اس مزعومہ عمل کا تذکرہ نہیں ہے کہ عمر کے زمانے میں لوگ بیس رکعتیں پڑھتے تھے کیوں کہ وہ لمبی نماز سے تنگ آگئے تھے، اس لئے مختصر اورہلکی نماز کے لئے رکعات میں اضافہ کرلیا تھا!!!
    دوسری بات یہ ہے کہ نبیﷺسے جب افضل نماز کے بار ے میں پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں :’’طول القنوت‘‘’’ لمبا قیام‘‘[مسلم:۷۵۶]نووی نے کہا: ’’المراد بالقنوت ھنا:القیام باتفاق العلماء فیما علمت‘‘ [شرح النووی:۶؍۳۵]
    نبیﷺطول قیام کو افضل نماز قراردیں اور ہم کثرت رکعات کو اولی ٰ باور کرائیں، دونوں میںکون بہتر ہے؟!
    تیسری بات یہ ہے کہ اگریہ قاعدہ عامہ ہے تو کیا ہر جگہ اس کی تطبیق کی اجازت دیں گے؟ مثلاً فرض نماز میں نبی ﷺ کی نماز کی جو کیفیت تھی ہم اس کو حاصل نہیں کرپارہے ہیں ، توکیا ہمارے لئے اس میں اضافۂ رکعات کرلینا درست ہوگا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ وجہ تفریق کیاہے؟ کیوں کہ کیفیت کے بدلے عددکے اضافے میں دونوں مشترک ہیں!
    سنن رواتب نبیﷺجس طرح اداکرتے تھے ہم اسے اس طرح ادا نہیں کرپارہے ہیں مثلاً ظہر کی سنت قبلیہ چار سے چھ کرلی جائے اور بعدیہ کو چارکرلیا جائے ؟ !کیوں کہ ہماری نماز میں وہ کیفیت نہیں ہے جو نبی ﷺکی نماز میں تھی اورخاص بات یہ ہے کہ دونوں نمازیں نفل ہیں!!
    ذرا غورکریں! یہ غیر ثابت اورغیر معقول قاعدہ کس قدر ضرررساں ہے مگر اسی کی بنیاد پر رکعات تراویح میں اضافہ کرنا اور اس قاعدے سے استدلال کرنا کس طرح درست ہوگا؟!
    امام البانی رحمہ اللہ نے کہا:’’ فقد ذكر غير واحد من العلماء ان مضاعفة العدد كانت عوضا عن طول القيام‘‘[صلاۃ التراویح :۷۰] لیکن اس کے باوجود اس زمانے میں قیام وتراویح کی جو کیفیت تھی اور ارکانِ نماز میں جو اطمینان تھا اسی کی وجہ سے وہ فجرکے قریب اس سے فارغ ہوتے تھے مگر آج جو صورت حال ہے جس طرح تیزی اور جلد بازی سے نماز ادا کی جاتی ہے بالخصوص گیارہ سے زیادہ ، وہ قابلِ دید ہے۔ کیا گیارہ رکعات میں اضافہ اسی لئے ہوگا تاکہ مشینی انداز میں جلدی جلدی نماز سے فراغت حاصل کرلی جائے ۔دیکھیں:[ صلاۃالتراویح:۷۰]
    چوتھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ جو نماز لمبی ہو وہ افضل نماز ہے اورہم زبان عمل سے کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ ہم دیرتک کھڑے نہیں ہوسکتے لہٰذا افضل نماز ہے کثر ت سجدہ یعنی ہم رکعات کی کثرت کو افضل عمل بنانے کی جسارت کررہے ہیں حالانکہ شریعت میں جس قدر نماز لمبی ہوگی اسی قدر افضل ہوگی کیوں کہ استحضار قلب، اطمینان اورتفکر کی کیفیت اسی میں پیدا ہوگی!
    عرض کرنے کامطلب یہ ہے کہ کوئی بھی امتی مقام ومرتبہ، علم وفضل اورزہد وورع میں کتنا ہی فائق کیوں نہ ہوجائے مگر وہ اتنا عمل نہیں کرسکتا جتنا نبی ﷺکرتے تھے، خود آپ ﷺفرماتے تھے کہ تم سارے مامورات ٭کو انجام نہیں دے سکتے لیکن تم قریب قریب رہو اور ٹھیک ٹھیک کرو کیوں کہ کسی کے پاس اتنی طاقت ہی نہیں ہے تو ایسی صورت میں اعتراف عجز کے ساتھ راستے میں لگے رہنا چاہیے اور تقصیر کے لئے معافی طلب کرنی چاہیے، ناکہ ایسا عمل کیاجائے جس سے اسوئہ رسول کو ناکافی سمجھنے کا شبہ پیداہو!
    ٭ (واضح رہے کہ مامورات کے دائرے میں صلاۃ اللیل کی گیارہ رکعات بھی شامل ہیں، کیوںکہ یہ اسوئہ نبوی ہے اور{ لقد كان لكم فى رسول اللّٰه اسوة حسنة لمن كان يرجو اللّٰه واليوم الآخر وذكرا للّٰه كثيرا } کے عموم میں یقینا داخل ہے)
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم و عمل میں شریعت کی پابندی اور اسوئہ رسول کو حرزِ جاں بنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings