-
والدین کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں قسط (۳) محترم قارئین : اولاد کی تربیت اور تعلیم بڑا مہتم بالشان کام ہے،ایک کامیاب مربی بننے کے لیے والدین کا چند خوبیوں اور بنیادی صفات سے متصف ہونا لازمی ہے،تاکہ وہ اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھا سکیں۔
۱۔ احساس ذمہ داری: اولاد کی تعلیم وتربیت کے اصل ذمہ دار والدین ہی ہیں،کیونکہ بچہ اپنے تعمیری عمر کا قیمتی وقت ان کے پاس ہی گزارتا ہے،جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے وضاحت فرمائی ہے:
’’وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَي أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَي أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ‘‘
’’مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا‘‘
[صحیح البخاری :۷۱۳۸]
اس دنیا میں بچوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار والدین ہی ہیں،اور جواب دہ بھی۔اس لیے والدین کی اپنی ذمہ داری کے تعلق سے جس قدر سمجھ زیادہ ہوگی، مقصد واضح ہوگا،اسی کے بقدر یہ کام آسان بھی ہوگا، بسا اوقات والدین کی لاپرواہی اور غفلت بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے،بچوں کی دنیا اور وآخرت برباد ہوجاتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرد کو قوّام بنایا ہے،جس کا مقصد بیوی بچوں کی حفاظت،ضروریات کی تکمیل اور بچوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام ہے، ایک مومن کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے نجات دلائے،اور ان کو سچا مسلمان بنائے، اب اگر والدین اپنی یہ ذمہ داری نہ نبھائیں تو انہیں آخرت کے عذاب سے ڈرنا چاہیے، کیونکہ پیارے نبی ﷺ نے یہ وعید سنائی ہے:
’’مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللّٰهُ، رَعِيَّةً يَمُوتُ، يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ‘‘
’’کوئی بندہ ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ رعیت دے پھر وہ مرے اس حالت میں کہ وہ خیانت کرتا ہو اپنی رعیت کے حقوق میں مگر اللہ حرام کر دے گا اس پر جنت کو‘‘
[صحیح مسلم :۱۴۲]
اولاد کی تعلیم وتربیت سے غفلت ان کے ساتھ خیانت ہے کیونکہ اولاد والدین کے کندھوں پر امانت ہے،لہٰذا والدین کو اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنا چاہیے۔
۲۔ اخلاص: ہر قسم کی عبادت میں اخلاصِ نیت شرط ہے۔اولاد کی تعلیم وتربیت میں بھی اخلاص مطلوب ہے،اس میں اخلاص کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اولاد کی تعلیم وتربیت اس لیے کررہے ہیں کیونکہ یہی اللہ ورسول کا حکم ہے،اور یہ کام والدین اللہ کی رضا کے لیے انجام دیں، تعلیم و تربیت کا مقصد ریاکاری،شہرت اور دوسرے دنیاوی اور مادی مقاصد بالکل نہ ہوں، اللہ نے اخلاص کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
{قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ}
’’آپ کہہ دیجیے! کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ اسی کے لیے عبادت کو خالص کرلوں‘‘
[ الزمر: ۱۱]
اس کے دو بڑے فائدے ہیں:
ایک اخلاص کی وجہ سے تربیت اولاد پر کی جانے والی تمام محنتوں کو اللہ قبول فرمائے گا، اور اس پراجر بھی عطا فرمائے گا،کیونکہ اللہ تعالیٰ وہی عمل قبول فرماتا ہے جو صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’إِنَّ اللّٰهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا، وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ‘‘
’’اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو، اور اس سے اللہ کی رضا مقصود و مطلوب ہو‘‘
[سنن نسائی :۳۱۴۲]
یقیناً والدین کا اپنے بچوں سے گہرا فطری تعلق اور طبعی محبت ہوتی ہے،اسی بے پناہ اور یک طرفہ فطری محبت اور الفت کی وجہ سے اولاد کے لیے قربانیاں پیش کرنا آسان ہوجاتا ہے، لیکن اخلاص کے ساتھ اولاد کی تعلیم وتربیت ایک عبادت کا درجہ پالیتی ہے، اور والدین اپنے اس عمل میں اخلاص کی وجہ سے اجر وثواب کے مستحق ہوجاتے ہیں جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے بیوی کو لقمہ کھلانے پر اجر کا وعدہ کیا ہے لیکن یہ وعدہ اخلاص نیت کے ساتھ مشروط ہے۔نبی رحمت ﷺنے فرمایا :
’’إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللّٰهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّي مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ‘‘
’’بیشک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے‘‘
[صحیح البخاری :۵۶]
دوسرا اگر تربیت کے باوجود اولادبگڑجائے،والدین کے حقوق بھی نہ ادا کرے، ان کے احسان کا بدلہ ظلم اور بے رخی سے دے،اس وقت غم ہلکا ہوجاتا ہے کیونکہ آپ نے بچوں کی تربیت اللہ کے لیے کی تھی اور تعلیم وتربیت کی محنتیں اللہ نے قبول کرلی ہیں،اس کا اجر بھی آپ کو ضرور ملے گا، ایسے والدین کامیاب ہیں، انہیں مطمئن رہنا چاہیے، لیکن اگر آپ نے اپنے بچوں کی تربیت اللہ کے لیے نہیں بلکہ اپنے دنیوی مفاد کے لیے کی ہے، پڑھایا لکھایا،اپنا وقت، پیسہ،زندگی سب کچھ اس لیے لگایا تاکہ یہ آپ کا دنیا میں سہارا بنے،آپ کے احسان کا بدلہ دنیا میں اچھائی سے دے لیکن اب یہ بگڑ گیا ہے، احسان فراموش ہوگیا ہے،آپ کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا ہے، تو پھر آپ کو کئی گنا زیادہ دکھ ہوگا، تکلیف ہوگی، اور اللہ کے یہاں اس کا ثواب بھی نہیں ملے گا،اس لیے تمام والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں اخلاص کو اپنائیں،اور اپنے ہر عمل میں صرف اللہ کی خوشی تلاش کریں، اللہ کے صالح بندے ایسا ہی کرتے ہیں، جب کسی کے ساتھ احسان کرتے ہیں تو فقط اللہ کے لیے کرتے ہیں، ان سے کسی نفع یا شکریہ کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں:
{إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَائً وَّلَا شُكُورًا}
’’ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری‘‘
[الدہر: ۹]
۳۔ نرمی : اللہ نرم خو ہے، ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے،نرمی اللہ کی رحمت کا حصہ ہے، والدین کا اخلاق، مزاج، سلوک اور اسلوبِ کلام نرم ہونا چاہئے،اللہ نے نرمی میں خوب خوب برکت اور بھلائی رکھ دی ہے،نبی اکرم ﷺ کی ایک اہم اور عظیم خوبی نرمی بھی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنتَ لَهُمْ}
’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں‘‘
[آل عمران :۱۵۹]
حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ کے حسن اخلاق اور نرم مزاجی کا ذکر کرتے ہوئے فرما تے ہیں:
’’خَدَمْتُ النَّبِيَّ ﷺَ عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ وَلَا لِمَ صَنَعْتَ وَلَا أَلَّا صَنَعْتَ‘‘
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال تک خدمت کی لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا‘‘
نرمی ہر معاملے میں اللہ کو پسند ہے، ہر داعی اور معلم کو نرم خو ہونا لازم ہے، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ وہارون علیہما السلام کو فرعون کے ساتھ نرم انداز میں گفتگو کرنے کی تعلیم دی تھی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اذْهَبَا إِلٰي فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغٰي۔ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَي}
’’ تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے، اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے‘‘
[طہ: ۴۳،۴۴]
اللہ تعالیٰ جس گھرانے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو ان کے درمیان نرمی داخل کردیتا ہے۔گھر کا ہر فرد دوسرے کے ساتھ نرم انداز سے ملتا ہے،یہی نرمی ان کی زندگی کو خیر وبھلائی سے بھر دیتی ہے،جیسا کہ نبی رحمت ﷺکا ارشاد ہے :
’’يا عائشةَ! ارْفُقِي ؛ فإنَّ اللّٰهَ إذا أرادَ بأهلِ بيتٍ خيرًا أدخلَ عليهِمُ الرِّفقُ ‘‘
’’اے عائشہ!(رضی اللہ عنہا) نرمی اختیار کرو، کیونکہ یقیناً اللہ تعالیٰ جب کسی گھرانے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو ان میں نرمی داخل کردیتا ہے‘‘
[صحیح الترغیب والترہیب :۲۶۶۹]
محترم والدین! بچہ آپ کو دیکھتا ہے، اور آپ کی ویڈیو بنا کر اپنے ذہن میں اس کی عکاسی کرتا رہتا ہے، اور ویسے ہی کرتا ہے جیسے آپ کرتے ہیں،آپ اپنے بچوں کے ساتھ نرم رہیں بچے بھی آپ کے ساتھ نرم رہیں گے،جیسا آپ کریں گے بچے بھی ویسے ہی کریں گے،آپ کی زندگی آئینہ ہے،بچے آپ کا ہر رویہ نقل کرتے ہیں،آپ کی عملی زندگی کا اثر ہر حال میں قبول کرتے ہیں۔نرمی سے جو اصلاح ہوتی ہے وہ سختی سے ممکن نہیں ہے، مصلح کبھی متشدد نہیں ہو سکتا ہے،لہٰذا ہمیں ایک نرم خو، نرم دل اور خوش مزاج انسان بن کر زندگی گزارنا ہے۔
۴۔ صبر وتحمل: اولاد کی تربیت اور تعلیم بڑا پُر مشقت کام ہے، دل اور خون جلانے والا کام ہے، یہ انبیائے کرام کے کام ہیں، اسی لیے مربی کو صابر اور جفاکش ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو اولوالعزم رسولوں کی طرح صبر کرنے کا حکم دیا کیونکہ صبر کے بغیر دعوتی راہ پر ثابت قدم رہنا ممکن نہیں تھا۔
{فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ}
’’پس (اے پیغمبر) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا‘‘
[الأحقاف :۳۵]
اولاد کو دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے والے والدین کاصابر ہونا ضروری ہے،لمبے عرصے تک صبر کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺکو یہ حکم دیا کہ آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی نماز پر صبر کریں، پھر روزی اور جنت کی بشارت سنائی ہے۔
{وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَيٰ}
’’اپنے گھرانے کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں آخر میں بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے‘‘
[سورۃ طٰہ:۱۳۲]
اولاد آزمائش ہے،ان کی طرف سے آنے والی تکلیفوں پر بھی صبر کی ضرورت ہے، اور ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت پر بھی صبر لازم ہے، صبر بہت بڑی اخلاقی خوبی ہے، اس سے بڑی اور کشادہ خوبی کوئی نہیں ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا:
’’وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللّٰهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَائً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ‘‘
’’اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں خیر نہیں ملا۔ (صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے)‘‘
[صحیح البخاری :۱۴۶۹]
لہٰذا والدین صبر کی خوبی پیدا کریں،اللہ کے لیے اپنے آپ پر کنٹرول کرنا سیکھیں۔
اس کے دو عظیم فائدے ہیں۔
ایک صبر کرنے والوں کو قیامت کے دن بے حساب اجر عطا کیا جائے گا ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{إِنَّمَا يُوَفَّي الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ}
’’صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے‘‘
[الزمر:۱۰]
دوسرے صبر کی وجہ سے اللہ کی مدد، توفیق، رحمت اور معیت نصیب ہوتی ہے، مشکل ترین کام اور حالات کو جھیلنا آسان ہوجاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِينَ}
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو۔اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے‘‘
[البقرۃ :۱۵۳]
۵۔ رحم دل: رحم دل انسان اللہ کو محبوب ہوتا ہے،لوگوں کا پسندیدہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ دوسروں کی تکلیفیں محسوس کرتا ہے، ان کے غم میں شریک ہوتا ہے،خیر خواہ ہوتا ہے، لوگوں کو آرام پہنچاتا ہے، یہ سب صفات رحم دلی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، اس لیے والدین کا رحم دل ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ اپنے بچوں کے محبوب بن جائیں،ان کے مسائل کو محبت سے سنیں اور حل کریں، ان پر رحم کریں، ان کو ضرر نہ پہنچائیں، نرم دلی اور زبان کی مٹھاس سے بچے ا ن کے قریب رہیں گے، سخت دلی، بدزبانی اور سختی سے بچے دور رہیں گے، والدین کے ہر سلوک میں رحمت وشفقت کا غلبہ رہنا چاہیے، یہی اسلام کی تعلیم ہے۔حدیث بغور مطالعہ کریں :
قَبَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَعِنْدَهُ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ جَالِسًا، فَقَالَ الْأَقْرَعُ:إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:’’مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَم‘‘
رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا۔ نبی کریم ﷺ کے پاس اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اقرع رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ :’’جو اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا‘‘
[صحیح البخاری :۵۹۹۷]
نبی رحمت نے کس طرح بچوں سے پیار کو رحمت سے جوڑ دیا اور بچوں سے شفقت ورحمت کو نرم دلی اور رحمت کی علامت قرار دیا،یہی سنتِ رسول ہے، یہی کامیاب اسلوبِ تربیت ہے۔
جاری……