Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • ردِّبدعت کے چاراصول قرآن وحدیث کی روشنی میں

    قرآنی آیات اوراحادیثِ صحیحہ میں چاراصول ایسے بیان ہوئے ہیں کہ اگرکوئی بھی شخص ان اصولوں کو سمجھ لے تودین میں کسی بھی قسم کی بدعت نکالنے کی جرأت نہیں کرسکتا خواہ بدعت سیئہ ہویا بدعت حسنہ ، ذیل میں یہ چاروں اصول قرآن وحدیث کے دلائل کے ساتھ پیش خدمت ہیں:
    پہلااصول:
    دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے۔
    قرآن سے دلیل:
    الله تعالىٰ كا ارشادهے:
    {أَمْ لَهُمْ شُرَكَائُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللّٰهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ}
    ’’کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں اگر فیصلے کا دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کر دیا جاتا یقیناً (ان) ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘
    [الشوری:۲۱]
    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ دین بنانا اوراحکام دین مقررکرنا یہ صرف اللہ کا حق ہے، اوراگرکوئی شخص اللہ کے علاوہ یہ حق کسی دوسرے انسان کو بھی دیتا ہے تو وہ اللہ کے حق میں کسی اورکو شریک مانتاہے، ایسا شخص ظالم ہے اوراللہ نے اس کے لیے دردناک عذاب تیار کررکھاہے۔
    اس آیت سے یہ اصول واضح ہوگیا کہ دین بنانا صرف اورصرف اللہ کا حق ہے۔
    نیزاللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
    {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّٰهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ}
    ’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے‘‘
    [التوبۃ:۳۱]
    اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل روایت ملتی ہے:
    عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ:’’أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ۔ فَقَالَ:يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ ، وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَائَ ةٌ:(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّٰهِ)، قَالَ:أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ ‘‘
    صحابیٔ رسول عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: عدی! اس بت کو اپنے سے دور کر دو پھر میں نے آپ ﷺ کو سورت برأۃ کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا {اِتَّخَذُوْ ا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ} ’’انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے‘‘پھر آپ ﷺنے فرمایا: کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لیے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے ‘‘
    [سنن الترمذی ت شاکر :۵؍۲۷۸،رقم:۳۰۹۵،حکم الألبانی :حسن]
    معلوم ہوا حلال وحرام کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے یہی حق اگرکوئی کسی اورکے اندرتسلیم کرتاہے تواس کامطلب یہ ہے کہ اس نے اس کواپنا رب بنالیاہے اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے جویہ سمجھتے ہیں کہ علمائے دین بھی دین میں بدعت حسنہ کا اضافہ کرسکتے ہیں ،کیونکہ دین میں کوئی بھی چیزمقررکرنا صرف اللہ کا حق ہے اس میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔
    حدیث سے دلیل:
    بخاری میں معراج رسول سے متعلق صحابیٔ رسول ابوذررضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں یہ مذکورہے کہ :
    ’’۔۔۔ فَفَرَضَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَي أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلاَةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ، حَتَّي مَرَرْتُ عَلٰي مُوسَي، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللّٰهُ لَكَ عَلٰي أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلاَةً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَي رَبِّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ، فَوَضَعَ شَطْرَهَا۔۔۔‘‘ الحديث
    ’’ ۔۔۔اللہ تعالیٰ نے میری امت پرپچاس وقت کی نمازفرض کی ،پھرمیں اسے لے کرواپس ہوا یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرہوا توانہوں نے کہا :اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی ہے؟تومیں نے کہا:پچاس وقت کی نمازفرض کی ہے ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا:آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں ، کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکتی ۔۔۔‘‘ الحدیث
    [صحیح البخاری:۱؍۷۹رقم:۳۴۹]
    قارئین! بخاری کی اس حدیث میں غورکیجیے، اس سے ثابت ہوتاہے کہ دین بنانے کا حق توکسی نبی کوبھی نہیں دیا گیا ہے عام علماء کا اس کا حقدارہونا تودورکی بات ہے ۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ اے محمدﷺ آپ نمازکی تعدادکوپچاس کے بجائے کم کردیجیے بلکہ یہ کہا کہ آپ اللہ کے پاس واپس جائیے اوراللہ سے یہ تعدادکم کرائیے ، اوریہ مشورہ کئی باردیا۔
    ساتھ ہی اس حدیث سے بدعت حسنہ کی جڑبھی کٹ جاتی ہے ، یعنی کسی عالم یا ولی کے لیے جائزنہیں کہ وہ کوئی کام اچھا سمجھ کردین میں اپنی پسندسے داخل کردے۔
    اگرایساجائزہوتاتوموسیٰ علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کواللہ کے پاس نہ بھیجتے بلکہ خود ہی پچاس وقت کی نماز کو کم کرنے کا مشورہ دیتے ۔
    غورکریں کی دوجلیل القدرنبی موسیٰ علیہ السلام اورمحمد ﷺ اس بات کو اچھا سمجھ رہے تھے کہ نمازپچاس وقت سے کم ہونی چاہئے لیکن اس کے باوجودبھی انہیں اختیارنہیں کہ کسی چیز کو اچھا سمجھ کراپنی طرف سے دین بنالیں۔
    نیز جب اللہ تعالیٰ نے پچاس وقت کی نمازکوکم کرکے پانچ وقت کردیا تواس کے بعدبھی موسیٰ علیہ السلام نے یہ اچھامشورہ دیا کہ ابھی بھی مزید کم کرائیے اوراللہ کے نبی ﷺ نے بھی اس مشورہ کواچھا سمجھا ،اسے غلط نہیں قراردیا، بلکہ یہ کہا کہ اب مزید کم کرانے سے مجھے شرم آتی ہے۔
    گویاکہ نماز پانچ وقت سے بھی کم ہونی چاہیے یہ چیز موسیٰ علیہ السلام اورمحمدﷺدونوں کی نظرمیں اچھی تھی لیکن ان دونوں انبیاء کے اچھا سمجھنے کے باوجودیہ چیز دین اس لیے نہ بن سکی کیونکہ یہ اللہ کا فیصلہ نہیں تھا۔
    معلوم ہواکہ انبیاء علیہ السلام حتیٰ کہ رسول اکرم ﷺکو بھی اس بات کا اختیارنہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیزکواچھا سمجھ کردیں میں داخل کریں اسی لیے اللہ کے نبی ﷺ نے بھی اپنی طرف سے دین کی کوئی تعلیم نہیں پیش کی ہے بلکہ پورادین اللہ کا بنا یا ہواہے اوراسے اللہ کے رسولﷺ نے امت تک پہنچایا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
    {وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَي ۔إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَي}
    ’’اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں،وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ‘‘
    [النجم:۳۔۴]
    الغرض قرآن وحدیث کے مذکورہ دلائل سے معلوم ہواکہ دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے اوراس معاملے میں انبیاء تک کویہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے اچھا سمجھتے ہوئے دین میں کوئی بات داخل کریں توپھردیگرانسانوں کویہ حق کہاں سے مل سکتاہے؟
    دوسرا اصول:
    اللہ اپنا یہ حق ادا کرچکاہے۔
    اس سے پہلے بتلایا گیا کہ دین بنانا یہ صرف اللہ کا کام ہے، اب یہ بھی جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا یہ کام مکمل کر چکاہے، اس میں کسی اورکے کرنے کے لیے کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے،قرآن وحدیث سے اس کے دلائل ملاحظہ ہوں:
    قرآن سے دلیل:
    اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
    {اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ}
    ’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا‘‘
    [المائدۃ:۳]
    اس آیت سے معلوم ہواکہ دین بنانا جواللہ کا کام تھا تو اللہ اپنا یہ کام مکمل کرچکاہے۔
    حدیث سے دلیل:
    عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ إِنَّهُ لَيْسَ شَيْء ٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ،وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ ،وَلَيْسَ شَيْء ٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ،وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ ‘‘
    صحابیٔ رسول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’کوئی بھی ایسی چیزباقی نہیں ہے جوتمہیں جنت سے قریب کرے اورجہنم سے دورکرے مگرمیں تمہیں اس کا حکم دے چکاہوں ، اورکوئی بھی ایسی چیزباقی نہیں جوتمہیں جہنم سے قریب کرے اورجنت سے دورکرے مگرمیں تمہیں اس سے منع کرچکاہوں‘‘
    [شعب الإیمان:۱۳؍۱۹رقم :۹۸۹۱صحیح بالشواہد:انظرالصحیحۃ :رقم:۱۸۰۳ایضا رقم:۲۸۶۶]
    اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ رب العالمین نے نبی اکرم ﷺکی زبان سے دین کی تکمیل کردی ہے۔
    لہٰذا جب دین مکمل ہوچکا ہے ، اس میں اضافہ کے لیے کچھ باقی ہی نہیں بچا ہے توپھریہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اپنی طرف سے اچھا سمجھ کردین میں کوئی نئی چیز داخل کی جائے؟
    تیسرا اصول:
    اللہ نے کسی اورکو یہ کام کرنے سے منع کردیاہے۔
    قرآن وحدیث میں جہاں یہ اصول بتلایا گیا ہے کہ دین بنانا اللہ کا حق ہے اوراللہ اپنا یہ حق ادا کرچکا ہے وہیں ایک تیسرا اصول بھی پیش کیا گیا ہے کہ تمام لوگوں کویہ کام انجام دینے سے صراحۃً منع بھی کردیا گیاہے۔
    قرآن سے دلیل:
    اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ}
    ’’اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے‘‘
    [الحجرات:۱]
    اس آیت میں سب کو اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ اللہ ورسول سے ایک قدم بھی کوئی آگے بڑھائے ، یعنی اللہ ورسول کے زبانی جودین پیش کیا گیا ہے اس میں اپنی طرف سے کوئی بھی اضافہ نہ کرے۔
    حدیث سے دلیل:
    صحابیٔ رسول عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت مروی ہے جس میں آپ ﷺارشاد فرماتے ہیں:
    ’’ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ‘‘
    ’’اے لوگو!تم دین میں نئی چیزیں لانے سے بچو، کیونکہ دین میں ہرنئی چیز بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے ‘‘
    [سنن أبی داؤد:۴؍۲۰۱رقم:۴۶۰۷حکم الألبانی صحیح]
    قرآن وحدیث سے معلوم ہوا کہ دین میں نئی چیزلانے سے سب کو منع بھی کردیا گیا ہے۔
    چوتھا اصول:
    اگرکسی نے دین میں کوئی نیا عمل ایجادکیا تووہ عمل مردودہے۔
    قرآن وحدیث میں جہاں یہ اصول پیش کیا گیا ہے کہ دین بنانا صرف اللہ کا حق ہے، اوراللہ اپنا یہ حق مکمل ادا کرچکا ہے، اوردوسروں کویہ حق اداکرنے سے منع کردیا گیا ہے۔
    وہیں پرایک چوتھا اصول یہ بھی ہے کہ اگرکسی نے یہ حق اداکرنے کی کوشش کی یعنی دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا عمل ایجاد کیا تواس کا یہ عمل باطل ہے اورمردودہے۔
    قرآن وحدیث سے اس کی دلیل ملاحظہ ہو:
    قرآن سے دلیل:
    اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ}
    ’’اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو باطل وبرباد نہ کرو‘‘
    [محمد:۳۳]
    حدیث سے دلیل:
    عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ ‘‘
    ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ : ’’ جس نے ہمارے اس معاملے (دین ) میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جواس میں نہ تھی تووہ مردود ہے‘‘
    [صحیح البخاری :۳؍۱۸۴رقم :۲۶۹۷]
    اس حدیث میں ’’امرنا‘‘ سے مراد’’ دیننا‘‘ہے جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے ،چنانچہ امام ابوجعفر، محمد بن سلیمان، لوین المصیصی رحمہ اللہ فرماتے :
    حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:’’مَنْ أَحْدَثَ فِي دِينِنَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘
    ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ:’’ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جواس میں نہ تھی تووہ مردود ہے‘‘
    [جزء لوین :ص:۸۳رقم :۷۱ واسنادہ صحیح ]
    معلوم ہواکہ اگرکوئی شخص گزشتہ تینوں اصولی باتوں سے غافل ہوکردین میں کوئی نیا عمل ایجادکرلے تووہ مردود ہے ۔
    خلاصۂ کلام یہ کہ اگرکوئی شخص یہ چاراصول یعنی یہ چاربنیادی باتیں سمجھ لے تووہ کبھی بھی بدعت ایجادکرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔
    پہلی بات یہ کہ دین بنانا اللہ کا حق ہے ، اورجب یہ اللہ کا حق ہے تودوسروں کو اس کی اجازت ہرگزنہیں ہوسکتی۔
    دوسری بات یہ کہ اللہ اپنا یہ حق اداکرچکاہے یعنی اللہ نے دین مکمل کردیاہے، لہٰذا جب دین مکمل ہوگیا ہے تواس میں نئی چیزکی گنجائش ہی باقی نہیں ہے۔
    تیسری بات یہ کہ تمام لوگوں کو دین میں نئی چیز ایجاد کرنے سے منع کردیاگیاہے، لہٰذا جب یہ چیزمنع ہے تواس کے جوازکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
    چوتھی بات یہ کہ اگرکوئی شخص نادانی یا سرکشی کی بناپردین میں نئی چیزایجادکرتاہے تووہ مردودہے، لہٰذا جوچیزمردود اورلایعنی ہے اسے ایجاد کرنا حماقت ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو بدعات وخرافات سے بچائے ۔ آمین۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings