Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کیا بدعتیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا فاسق وفاجر گنہگاروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بہتر ہے؟

    بعض اہل علم منہج سلف کے نام پر یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بدعتی علماء وعوام کی ہم نشینی گنہگار فاسق وفاجر کی ہم نشینی سے بہتر ہے اور اس کے لیے جذباتی استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’فی زمانہ ایک سلفی کسی سود خور زانی شرابی سے تعلق اس لیے رکھ لیتا ہے کہ اس میں بدعت نہیں ہے اور کسی فاضل عالم مجاہد سے اس لیے قطع تعلقی کرتا ہے کہ اس میں بدعت ہے حالانکہ سود خور زانی اور شرابی کا گناہ متفق علیہ ہے جبکہ بدعتی اپنی بدعت میں تاویل کر رہا ہے۔ یہ کون سی تقسیم ہے؟ قطع تعلقی کرنا ہے تو پہلے چوروں زانیوں اور شرابیوں سے کرو نہ کہ ان علماء سے کہ جن کو تاویل کی غلطی لگی ہے‘‘۔
    ویسے سننے والوں کو یہ منطقی استدلال خوب بھاتا ہے کہ ایک عالم وفاضل اور عابد وزاہد متقی انسان کا موازنہ گرچہ وہ بدعتی ہیں کس طور پر ایک سود خور زانی چور اور جھوٹے شخص سے کیا جا سکتا ہے؟ اور پھر گنہگار فاسق وفاجر کو عالم وفاضل پر کیسے ترجیح دی جا سکتی ہے؟ کہ گنہگار سے تو رسم وراہ رکھنا جائز ہے لیکن متقی وزاہد سے ممنوع، جبکہ اول الذکر تاویل کی بنیاد پر بدعت میں ملوث ہے اور ثانی الذکر واضح اور صریح احکام شرعیہ کی مخالفت کرتے ہوئے ذنوب ومعاصی کا مرتکب ہے۔چنانچہ اس طرح سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے عموماً فاسق وفاجر گنہگار سے قطع تعلق نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس سے بات چیت کی جاتی ہے، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا جاری رہتا ہے اور اس کی مصاحبت اختیار کی جاتی ہے، تو پھر جو اس سے کم تر درجے کے گناہوں کا مرتکب ہے مزید عالم وفاضل بھی ہے اس کی مجالست کیوں نہیں اختیار کی جائے گی؟ سوال کی صورت تو بڑی اچھی ہے لیکن صحتِ سوال کے لیے ضروری ہے کہ کبریٰ اور صغریٰ کی صحیح ترکیب سے درست نتیجہ نکال کر اعتراض قائم کیا گیا ہو۔
    یوں تو سلفیوں کے پاس اس منطقی سوال کے منطقی جوابات بھی ہیں لیکن چونکہ مسئلہ منہجِ سلف کا ہے اس لیے پہلے سلف صالحین کے جوابات ملاحظہ کرتے ہیں۔
    اہل السنہ والجماعہ کا متفقہ اصول ہے کہ بدعت معصیت سے زیادہ خطرناک ہے اور بدعتی شخص فاسق وعاصی شخص سے زیادہ بدترین اور برا ہے، اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں: ’’وشر الأمور محدثٰتها‘‘[بخاری:۷۲۷۷، مسلم: ۲۰۰۵]اور سب سے بدترین امور دین میں ایجاد کی ہوئی نئی چیزیں (یعنی بدعتیں) ہیں۔ نیز اہل بدعت خوارج کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’هُمْ شَرُّ الْخَلْق والْخلِيقة‘‘ [مسلم :۲۴۶۹، ۲۴۵۷] یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے بدترین لوگ ہیں۔
    بدعتوں کے گناہوں سے خطرناک ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ ایک آدمی جسے حمار کے نام سے پکارا جاتا تھا وہ بکثرت شراب پیتا تھا اور اللہ کے رسول ﷺکو ہنساتا تھا چنانچہ جب بھی اسے اللہ کے رسول کے پاس لایا جاتا آپ اسے بطور حد کوڑے لگواتے، ایک مرتبہ ایک آدمی نے اس پر لعنت کی اور کہا کہ کتنا زیادہ اسے اللہ کے رسول کے پاس لایا جاتا ہے۔ تو اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ بھیجو وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔[صحیح البخاری:۶۷۸۰]
    یہ آدمی بکثرت شراب نوشی کرتا تھا مگر چونکہ صحیح العقیدہ تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا تھا تو آپ نے اس کے لیے اس چیز کی گواہی دی اور اس پر لعنت کرنے سے منع کیا۔۔!
    جب کہ خوارج کے بارے میں فرمایا: اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلے میں، اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابلے میں اور اپنی تلاوت کو ان کی تلاوت کے مقابلے میں حقیر سمجھوگے، وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا ۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زوردار تیر جانور سے پار ہوجاتا ہے۔اگر میں نے ان کو پالیا تو ان کو اس طرح قتل کروں گا جس طرح ثمود قتل ہوئے۔بعض روایتوں میں آیا ہے’’فاقتلوهم حيث وجدتموهم‘‘’’وہ جہاں ملیں قتل کر ڈالو‘‘۔[ بخاری : ۳۶۱۰،۶۱۶۳،مسلم:۲۴۵۴]
    پس ان لوگوں کے اس قدر نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، تلاوت کرنے اور عبادت وزہد کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا اور حضرت علی اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں قتل کیا۔(اور روئے زمین کے سب سے بدترین مقتولین قرار دیا جو صرف ان کی بدعت کی وجہ سے تھا لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذنوب ومعاصی گرچہ کبائر ہی کیوں نہ ہوں بدعت سے کم تر ہیں)۔ ملاحظہ فرمائیں:[مجموع الفتاویٰ:۶؍۲۸۸بتلخیص]
    سفیان ثوری (متوفی۱۶۱ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:بدعت شیطان کو گناہ سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ گناہ سے توبہ کرلی جاتی ہے لیکن بدعت سے توبہ نہیں کی جاتی۔[شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ: ج:۱،ص:۱۴۹، رقم: ۲۳۸]
    ارطاۃ بن المنذر (متوفی۱۶۳ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میرا بیٹا فاسقوں میں سے ایک فاسق ہو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے کہ وہ بدعتی ہو‘‘[الشرح والإبانۃ لابن بطۃ رقم الفقرۃ:۸۷]
    سعید بن جبیر (متوفی۹۵ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرا بیٹا کسی فاسق شاطر سنی آدمی کے ساتھ رہے یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ وہ کسی عبادت گزار بدعتی کے ساتھ رہے۔[رواہ الأثرم فی مسائل الإمام أحمد :ق:۱؍۹۹والہروی :ق:۱؍۹۹نقلا من کتاب الشرح والإبانۃ تحقیق رضا بن نعسان معطی: ص:۱۵۳](شاطر ایسا شخص جس نے اپنی غلط حرکتوں سے اپنے گھر والوں کو پریشان کر رکھا ہو۔)
    مالک بن مغول (متوفی ۱۵۹ھ) رحمہ اللہ سے کسی نے کہا:میں نے آپ کے فرزند کو پرندوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا ہے، تو آپ نے فرمایا:کیا ہی اچھی بات ہے کہ پرندوں نے اسے کسی بدعتی کی صحبت سے دور رکھا ہے۔[الشرح والإبانۃ :رقم:۹۰]
    یونس بن عبید (متوفی۱۳۹ھ) رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے سے کہا:میں تم کو زنا چوری اور شراب سے روکتا ہوں،اس کے باوجود اگر تم اللہ سے ان چیزوں کا ارتکاب کر کے ملو یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ تم عمرو بن عبید (معتزلی قدری جو بڑا عابد وزاہد انسان تھا) اور اس کے اصحاب کی رائے اختیار کر کے ملو۔[مسند ابن الجعد :۱۳۳۰، ضعفاء العقیلی:۳؍۲۸۵، الإبانۃ:۴۶۴، سیر أعلام النبلاء:۶؍۲۹۴]
    العوام بن حوشب(متوفی ۱۴۸ھ) رحمہ اللہ اپنے بیٹے عیسیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں:’’اللہ کی قسم میں عیسیٰ کو ستار بجانے والوں، شراب نوشی کرنے والوں اور لہو ولعب میں مست رہنے والوں کی صحبت میں دیکھوں یہ مجھے زیادہ عزیز ہے اس سے کہ میں اسے مناظرہ باز بدعتیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے دیکھوں‘‘۔[البدع لابن وضاح :رقم:۱۲۳، الاعتصام للشاطبی :۱؍۱۱۴]
    احمد بن سنان (متوفی۲۵۶ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کوئی ستار باز میرا پڑوسی بنے یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے کہ کوئی بدعتی میرا پڑوسی بنے، کیونکہ میں ستار باز کو روک دوں گا اور ستار توڑ دوں گا، جبکہ بدعتی شخص دوسرے لوگوں، پڑوسیوں اور نوعمروں (کے عقائد)کو بگاڑ دے گا۔ [شرح السنۃ للبربہاری:۱۴۹، الآداب الشرعیۃ لابن مفلح :۳؍۵۷۷]
    امام شافعی (متوفی۲۰۴ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    انسان سوائے شرک کے ہر گناہ لے کر اللہ تعالیٰ سے ملے یہ اس کے حق میں بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی قسم کی بدعت کا مرتکب ہو کر ملے۔[الاعتقاد للامام البیہقی :ص:۱۵۸،رقم:۲۳۹]
    امام احمد بن حنبل (متوفی ۲۴۱ھ) فرماتے ہیں:اہل سنت میں سے جو کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہیں ان کی قبریں جنت کی کیاریاں ہیں، اور اہل بدعت کے زاہدوں کی قبریں دوزخ کے گڑھے ہیں، اہل سنت کے فاسق اللہ کے دوست ہیں اور اہل بدعت کے زاہد اللہ کے دشمن ہیں۔ [طبقات الحنابلۃ :۱؍۱۸۴، المنہج الأحمد :۱؍۲۹۶]
    یونس بن عبید (متوفی ۱۳۹ھ) رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو ایک بدعتی کے پاس سے نکلتے دیکھا تو اس سے پوچھا:بیٹا تم کہاں سے آ رہے ہو؟ بیٹے نے کہا میں فلاں(یعنی عمرو بن عبید بصری معتزلی جو بڑا عابد وزاہد انسان تھا)کے پاس سے آرہا ہوں، آپ نے فرمایا بیٹا اگر میں تمہیں کسی ہیجڑے کے پاس سے نکلتے دیکھ لیتا تو مجھے اتنا برا نہ لگتا جتنا کہ فلاں شخص کے پاس سے نکلتے ہوئے دیکھ کر لگا، یہ اس لیے کہ بیٹا! تو زانی فاسق چور اور خائن بن کر اللہ تعالیٰ سے ملے یہ بہتر ہے اس سے کہ تو فلاں شخص کے عقیدہ کے ساتھ اللہ سے ملے۔ [حلیۃ الأولیاء :۳؍۲۰، الإبانۃ الکبریٰ لابن بطۃ: رقم: ۴۷۴، تاریخ بغداد:۱۲؍۱۷۲۔۱۷۳، الشریعۃ للآجری:۲۰۲۱،سندہ صحیح]
    اس کی شرح کرتے ہوئے شیخ عبد العزیز الراجحی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: یونس بن عبید رحمہ اللہ کا مقصد گناہوں کو ہلکا کر کے پیش کرنا نہیں ہے، معاصی وکبائر تو بڑے خطرناک ہیں، بلکہ ان کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ بدعت معصیت کے مقابلے میں زیادہ سنگین ہے۔ کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ یونس بن عبید نے جان لیا کہ ہیجڑا ان کے بیٹے کو دین سے بھٹکا نہیں سکتا ہے، جبکہ بدعتی اس کو گمراہ بلکہ کافر تک بنا سکتا ہے، پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بدعت معصیت سے زیادہ خطرناک ہے اور اس کا ہیجڑے کے گھر سے نکلنا بدعتی کے گھر سے نکلنے کے مقابلے میں کم تر ہے۔[عون القاری بالتعلیق علٰی شرح اللسنۃ للبربہاری:ص:۳۶۸،۳۶۹]
    امام بربہاری(متوفی۳۲۹ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو فاسق وفاجر گناہ گار اور بھٹکا ہوا ہے، لیکن اہل سنت سے تعلق رکھتا ہے تو تم اس کی صحبت میں رہو اور اس کے ساتھ بیٹھو،کیونکہ اس کی گنہگاری تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی۔
    اور جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو خاصا عبادت گزار، پابند اور عبادت میں غرق رہنے والا ہے، لیکن وہ بدعتی ہے، تو نہ اس کی صحبت اختیار کرو، نہ اس کے ساتھ بیٹھو، نہ اس کی باتیں سنو اور نہ اس کے طریقے پر چلو، مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہیں اس کا طریقہ اچھا لگے اور تم بھی اس کے ساتھ برباد ہو جاؤ۔[شرح السنۃ للبربہاری :رقم الفقرۃ:۱۴۷]
    اس پر تعلیق لگاتے ہوئے شیخ احمد بن یحییٰ النجمی (متوفی ۱۴۲۹ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مؤلف نے یہاں جو کچھ کہا ہے وہ بدعتی اور فاسق کے مابین تقابل کے طور پر کہا ہے، پس مبتدع یہ سوچتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور اپنے راستے پر رواں دواں رہتا ہے، جبکہ فاسق اپنے آپ کو گنہگار اور ظالم سمجھتا ہے اس لیے اس سے توبہ کی امید رہتی ہے، لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب بدعتی سے زیادہ حق کے قریب ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مؤلف رحمہ اللہ فاسق کی ہم نشینی کو بدعتی کی ہم نشینی سے کم تر اور ہلکا جرم سمجھتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فاسق کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا حکم دیتے ہیں۔[إرشاد الساری إلی شرح السنۃ للبربہاری :ص:۲۲۵]
    فضیل بن عیاض(متوفی۱۸۷ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:تم یہودی ونصرانی کے ساتھ کھانا کھانا گوارہ کر لو لیکن بدعتی کے ساتھ نہیں، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے اور بدعتی کے درمیان ایک لوہے کا قلعہ رہے۔[شرح أصول أہل السنۃ: رقم:۱۱۴۹، الإبانۃ الکبریٰ لابن بطۃ: رقم:۴۷۰،سندہ صحیح]
    امام ابن تیمیہ (متوفی ۷۲۸ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سنت اور اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ اہل بدعت، شہوانی گنہگاروں سے زیادہ بدتر ہیں‘‘۔(معصیت کا ارتکاب دو وجہ سے کیا جاتا ہے ایک شبہات جس میں بدعت، نفاق ،الحاداور شرک وغیرہ امور شامل ہیں، دوسری شہوت جس میں قتل، چوری ،سود خوری، زنا کاری اور شراب نوشی وغیرہ شامل ہیں)۔ [مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ:۲۰؍۱۰۳]
    مزید فرماتے ہیں: ائمہ اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ بدعات مغلظہ ان گناہوں سے بدتر ہیں جن کو ان کے مرتکبین خود گناہ سمجھتے ہیں۔[مجموع الفتاویٰ:۲۸؍۴۷۰]
    مزید فرماتے ہیں:’’کافروں اور بدعتیوں کے زہد سے دھوکہ نہ کھاؤ، کیونکہ وہ فاسق مومن جو آخرت بھی چاہتا ہے اور دنیا کا بھی طلبگار ہے اہل بدعت اور کافروں کے زاہدوں سے بہتر ہے یا تو ان کے عقائد کے فاسد ہونے کی وجہ سے، یا ان کی نیت کی خرابی کی وجہ سے، یا دونوں کی خرابی کی وجہ سے‘‘[مجموع الفتاویٰ :۲۰؍۱۵۲]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرقہ بطائحیہ رفاعیہ (جو ایک صوفی فرقہ ہے) کے ساتھ اپنے مناظرے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اور میں نے اس چیز کی وضاحت کی کہ یہ بدعتیں جن کے یہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ مرتکب ہیں گناہوں سے زیادہ بدتر ہیں‘‘۔[مجموع الفتاویٰ:۶؍۲۸۸]
    امام محمد بن عبد الوہاب (متوفی ۱۲۰۶ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ آپ پر رحم فرمائے یقیناً اسد بن موسیٰ اور ان جیسے اسلاف کرام کے جو اقوال اہلِ بدعت وضلالت سے دشمنی کرنے کے تعلق سے وارد ہیں، وہ ایسی ضلالت کے تعلق سے ہے جو مخرج من الملہ نہیں ہے، لیکن ان حضرات نے دو وجوہ کی بنیاد پر اس سلسلے میں سختی سے کام لیا ہے اور اس سے تحذیر کیے ہیں:
    اول: بذاتِ خود دین میں بدعت کی سنگینی، پس بدعت سلف صالحین کے نزدیک کبائر سے زیادہ خطرناک ہے چنانچہ وہ بدعتیوں سے مرتکبینِ کبائر سے زیادہ سخت سلوک کرتے ہیں، جیسا کہ ہم لوگوں کے دلوں میں محسوس کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک رافضی گرچہ وہ عالم وعابد ہی کیوں نہ ہو علانیہ گناہ کرنے والے سنی سے زیادہ مبغوض اور بڑا گنہگار ہوتا ہے…‘‘[نقلا عن’’منہج الإمام محمّد بن عبد الوہاب فی کتاب التوحید ‘‘لحمد العثمان:۲؍۷۹۳]
    شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
    آپ کا کسی سنی فاسق آدمی کی صحبت اختیار کرنا اس کے اندر فسق اور معاصی ہونے کے باوجود، یہ زیادہ اچھا ہے اس سے کہ آپ کسی بدعتی آدمی کی صحبت اختیار کریں، کیونکہ گنہگار یہ جانتا ہے کہ وہ گنہگار ہے اور اس کے توبہ کرنے کی امید بھی ہوتی ہے، برخلاف بدعتی کے،کیونکہ وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے، پس وہ توبہ نہیں کرتا، بدعتی حضرات عموماً توبہ نہیں کرتے ہیں، کیونکہ وہ خود کو حق پر سمجھتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ گنہگاروں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں اور ان کی صحبت اختیار کریں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اہل سنت کے گنہگاروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بدعتیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بہتر ہے گرچہ ان کی ظاہری حالت عبادت وصلاح اور اس طرح کی چیزیں ہوں۔
    !!!(https://youtu.be/CCx93zO82J0)
    شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ اس سوال کے جواب میں کہ:زیادہ سخت عذاب کن کو ہوگاگنہگاروں کو یا بدعتیوں کو؟ فرماتے ہیں:بدعتیوں کو زیادہ سخت عذاب ہوگا،کیونکہ بدعت گناہ سے شدید تر ہے اور بدعت شیطان کو گناہ سے زیادہ محبوب ہے، کیونکہ گنہگار تو عام طور پر توبہ کر لیتا ہے، لیکن بدعتی بہت کم ہی توبہ کرتا ہے۔کیوں کہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہے ،برخلاف گنہگار کے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ گنہگار ہے، معصیت کا مرتکب ہے۔ جبکہ بدعتی سمجھتا ہے کہ وہ اطاعت گزار ہے، نیک کام کر رہا ہے، اسی لیے بدعت-اللہ کی پناہ- گناہ سے زیادہ بدتر ہے، یہی وجہ ہے کہ سلفِ صالحین بدعتیوں کی ہمنشینی سے ڈراتے اور متنبہ کرتے رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے ہم نشینوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
    پس اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعت گناہ سے بدتر ہے اور بدعتی کا خطرہ لوگوں پر گناہگار کے خطرہ سے زیادہ ہے۔ اسی لیے سلف نے کہا ہے:
    ’’اقتصاد فى سنة خير من اجتهاد فى بدعة‘‘
    ’’سنت میں میانہ روی بدعت میں جد وجہد سے بہتر ہے‘‘۔
    [الأجوبۃ المفیدۃ عن أسئلۃ المناہج الجدیدۃ :ص:۲۶]
    ان تمام نصوص اور اقوال سلف سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بدعت عابد وزاہد کی صحبت ومجالست اہل سنت فاسق وفاجر کی صحبت سے کہیں زیادہ سنگین اور خطرناک ہے، گرچہ اہلِ بدعت عالم وفاضل اور متقی و پرہیز گار ہی کیوں نہ ہو، جبکہ بعض ضرورت سے زائد انصاف پسند اہلِ علم الٹی گنگا بہاتے ہوئے فاسق وفاجر کی صحبت کو زیادہ خطرناک بتاتے ہیں اور اسی کو منہجِ سلف گردانتے ہیں،ان کا مقصد صرف اہل سنت کو اہل بدعت کی طرح قرار دینا ہے چنانچہ وہ سلف اور منہج کے نام پر ایسی ایسی چیزیں لاتے ہیں جن کا تصور تک سلف صالحین کے ہاں نہیں تھا۔
    واضح رہے سلفی حضرات تمام بدعتیوں پر ایک جیسا حکم نہیں لگاتے ہیں بلکہ بدعت میں ان کے درجات کے اعتبار سے ان پر احکام کی رعایت کرتے ہیں،کچھ بدعتی ایسے ہیں جن کی بدعت مکفرہ ہے، کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت مکفرہ تو نہیں ہے لیکن مغلظہ وشدیدہ ہے کچھ کی اس سے کم تر۔ اسی طرح بدعت کے دعاۃ، علمائے اہل بدعت اورعوام اہل بدعت بدعت پر عمل کے دوران اور عوام اہل بدعت عام احوال میں جب بدعت پر عمل نہ کر رہے ہوں،ان تمام صورتوں میں حکمت اور مصلحت کے اعتبار سے الگ الگ حکم لگاتے ہیں البتہ یہ بات مسلم ہے کہ بدعتیوں کے تعلق سے اصل ان کی صحبت اور مجالست نہ اختیار کرنا ہے گرچہ بدعتی کوئی بھی ہو۔
    مزید یہ کہ جس طرح اہل بدعت کی ہم نشینی جائز نہیں ہے اسی طرح فاسق وفاجر اصحاب معاصی کی ہم نشینی بھی جائز نہیں ہے، اوپر کی تمام تفصیلات کا مقصد محض بدعت اور معصیت کے مابین تقابل اور مفاضلہ ہے کہ چونکہ بدعت کا گناہ سنگین تر اور متعدی ہے اس لیے بدعتی کی ہم نشینی کی ممانعت بھی شدید تر ہے اور فسق و معصیت کا درجہ بدعت سے کم ہے اس لیے فاسق وعاصی کی مجالست کی ممانعت بھی اس کے مقابلے میں کم ہے علی الاطلاق نہیں۔
    اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح طور پر دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings