-
تین طلاق اور صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ (ساتویں قسط ) (ج):عبدالملک بن جریج رحمہ اللہ پر اعتراض
بعض لوگوں نے زیربحث حدیث کی ایک سندمیں موجود عبدالملک بن جریج پر لایعنی اعتراض کیا ہے مثلاً یہ کہ وہ مدلس ہیں حالانکہ اس سند میں انہوں نے سماع کی صراحت کردی ہے اور ایوب السختیانی نے ان کی متابعت بھی کی ہے ، اسی طرح ایک اور اعتراض کہ انہوں نے کئی بار متعہ کیا ، حالانکہ یہ بات جھوٹ اور بکواس ہے اور سچائی یہ ہے کہ ابن جریج رحمہ اللہ کتب ستہ کے مشہور ثقہ راوی ہیں ۔
لیکن یہاں زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ ابن جریج اس حدیث کی صرف ایک سند میں ہیں لیکن یہ حدیث دوسری صحیح اسانید سے بھی مروی ہے جس میں ابن جریج نہیں ہیں ، مثلاً ملاحظہ ہو اس کی دو مزید سندیں:
امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱)نے کہا:
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، عن أيوب السختياني، عن إبراهيم بن ميسرة، عن طاؤس، أن أبا الصهباء ، قال لابن عباس:هات من هناتك، ألم يكن الطلاق الثلاث علٰي عهد رسول اللّٰهﷺ، وأبي بكر واحدة؟ فقال:قد كان ذلك، فلما كان فى عهد عمر تتايع الناس فى الطلاق، فأجازه عليهم۔
[صحیح مسلم :۳؍۱۰۹۹ ، رقم:۱۴۷۲]
امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱)نے کہا:
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، واللفظ لابن رافع، قال إسحاق:أخبرنا، وقال ابن رافع:حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاؤس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال:’’كان الطلاق على عهد رسول اللّٰه ﷺ، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب:إن الناس قد استعجلوا فى أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم‘‘
[صحيح مسلم :۳؍۱۰۹۹،رقم:۱۴۷۲،وأخرجه عبدالرزاق فى مصنفه ت أيمن الأزهري: ۶؍ ۳۰۵،رقم :۱۱۳۸۰، و من طريق عبدالرزاق أخرجه أحمد بن حنبل فى مسنده :۱؍۳۱۴، وأخرجه أيضا البيهقي فى سننه:۷؍۵۵۰من طريق إسحاق بن منصور ، وأخرجه أيضا الدارقطني فى سننه :۵؍۸۴من طريق أحمد بن منصور الرمادي ، وأخرجه أيضا أبوعوانه فى مستخرجه :۳؍۱۵۲من طريق أحمد بن يوسف الأزدي وأيضا من طريق إسحاق بن إبراهيم الدبري ،كلهم (إسحاق بن راهويه و محمد بن رافع و أحمد بن حنبل وإسحاق بن منصور وأحمد بن منصور الرمادي وأحمد بن يوسف الأزدي وإسحاق بن إبراهيم الدبري عن عبدالرزاق به]
(د) :أبو الصہباء صہیب البصری پر اعتراض
اس روایت کو جس سند ومتن کے ساتھ ہم نے پیش کیا ہے اس میں ابوالصھباء کا تذکر ہ نہیں ، لیکن بعض طرق میں ابوالصھباء کا ذکر بطور سائل ہے، اس کی بنیاد پر بعض لوگ ابوالصھباء پر جرح کرکے اس روایت کو ضعیف قر ار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام ذہبی نے نقل کیا ہے کہ:
قال النسائی:’’بصری ضعیف ‘‘،امام نسائی نے کہا :’’یہ بصری اور ضعیف ہے‘‘
[میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی:۲؍۳۲۱]
عرض ہے کہ :
ء اولا :
ابوالصھباء کا تذکر ہ ہر روایت میں نہیں ہے اس لیے جس روایت میں ابوالصھباء کا ذکر نہیں ہے اسے بھی ابو الصھباء پر جرح کرکے ضعیف قرار دینا بہت بڑی نادانی ہے۔
ء ثانیاً :
جن روایات میں ابوالصھباء کا ذکر ہے ان میں سے کسی میں بھی بحیثیت راوی ان کا ذکر نہیں ہے ، یعنی سلسلہ سند کے رواۃ میں سے ابوالصھباء نہیں ہیں ، بلکہ بات یہ کہ ابوالصھباء نے ابن عباس سے سوال کیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو جواب دیتے ہوئے یہ حدیث بیان کی، یہ سوال وجواب امام طاؤس کے سامنے ہوا اس لیے امام طاؤس نے براہ راست ابن عباس سے روایت کیا ہے۔
ایسی صورت میں ابوالصھباء ثقہ ہوں یا ضعیف ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ وہ اس روایت کے رواۃ میں سے نہیں ہیں ۔
بطور مثال عرض ہے کہ فریق مخالف تین طلاق سے متعلق اپنی تائید میں مغیربن شعبہ رحمہ اللہ کے فتویٰ والی روایت پیش کرتے ہیں جو اس طرح ہے:
أخبرنا أبو عبد اللّٰه الحافظ، أخبرني محمد بن أحمد بن بالويه، نا محمد بن غالب، نا عبيد اللّٰه بن معاذ، نا أبي، نا شعبة، عن طارق بن عبد الرحمٰن قال:سمعت قيس بن أبي حازم قال: ’’سأل رجل المغيرة بن شعبة وأنا شاهد، عن رجل طلق امرأته مائة قال: ثلاث تحرم وسبع وتسعون فضل ‘‘
قیس بن حازم کہتے ہیں :’’کہ مغیرہ بن شعبہ رحمہ اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا اور میں موجود تھا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ، تو مغیرہ بن شعبہ رحمہ اللہ نے کہا : تین طلاق اس کی بیوی کو حرام کردے گی ، اور ننانوے طلاق زیادتی ہے ‘‘
[السنن الکبریٰ للبیہقی :۷؍۵۴۹]
اس روایت میں سوال پوچھنے والے ایک رجل شخص کا ذکر ہے جس نے مغیرہ بن شعبہ رحمہ اللہ سے سوال کیا تھا اوراسی کے جواب میں مغیرہ بن شعبہ رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا۔
لیکن اس رجل کی توثیق تو درکنار اس کا نام تک مذکور نہیں ہے تو کیا اس وجہ یہ اثر ضعیف ہوجائے گا؟
ء ثالثاً :
امام نسائی کا یہ قول ان کی کسی کتاب میں ہمیں نہیں ملا اور جنہوں نے بھی نقل کیاہے کسی نے اس کی صحیح سند ذکر نہیں کی ہے ۔
ء رابعا ً:
امام ذہبی نے نسائی سے تضعیف نقل کرنے کے ساتھ ساتھ امام ابوزرعہ سے اس کی توثیق بھی نقل کی ہے۔اور ان کی توثیق ثابت ہے چنانچہ:
’’مدینی ثقۃ‘‘ ، یہ مدینی اور ثقہ ہیں۔
[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۴؍۴۴۴]
امام عجلی رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱)نے بھی کہا:
’’تابعی، ثقۃ ،‘‘’’ یہ تابعی اور ثقہ ہیں‘‘
[تاریخ الثقات للعجلی:ص:۲۳۰]
امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴)نے بھی انہیں ثقات میں ذکر کیاہے۔ :
[الثقات لابن حبان ط االعثمانیۃ:۴؍۳۸۱]
مام ابن خلفون رحمہ اللہ (المتوفی ۶۳۶)نے بھی ثقات میں ذکر کیاہے۔
[إکمال تہذیب الکمال لمغلطای:۷؍۸]
لہٰذا ان محدثین کے خلاف امام نسائی کی تضعیف ثابت بھی ہوجائے تو غیر مقبول ہے کیونکہ وہ جرح میں متشدد ہیں جیساکہ امام ذہبی اور ابن حجر رحمہ اللہ نے کہاہے ۔ [میزان الاعتدال: ۱؍۴۳۷، مقدمۃ فتح الباری: ص:۳۸۷]
خلاصہ یہ کہ ابوالصھباء ثقہ ہیں ، نیز وہ اس حدیث کے رواۃ میں سے بھی نہیں ہیں ۔
جاری ہے ………