Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • نبی کریم ﷺ کے کثرتِ نکاح کے اسباب

    نبی کریمﷺ نے اپنی زندگی میں کل گیارہ ۱۱ شادیاں کیں اور آپ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے عقد میںنو ( ۹)بیویاں موجود تھیں، دو بیویوں کا انتقال آپ کی زندگی میں ہو چکا تھا، یہ تمام نکاح آپ نے مختلف اسباب اور مقاصد کے تحت کیے لیکن بعض مخالفینِ اسلام نبی کریم ﷺ کی شخصیت اور ذاتِ گرامی پر اعتراض کرتے ہوئے اس حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اتنے زیادہ نکاح اس لیے کیے کیونکہ وہ شہوت پرست تھے۔معاذ اللہ، ہم اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے تعلق سے ایسا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن اگر کوئی مخالف اس طرح کی سوچ رکھتا ہے یا ایسی باتیں معاشرے میں لوگوں کے درمیان پھیلاتا ہے تو اس کا جواب دینا ہماری ذمہ داری ہے، اسی مقصد کے پیش نظر ذیل کے سطور میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اتنے نکاح کیوں کیے؟ اس کے پیچھے کیا اسباب و وجوہات اور کون سے مقاصد پوشیدہ تھے؟
    ۱۔ اللہ کی طرف سے اس کی اجازت تھی: گویا کہ جو بھی تھا وہ اللہ کی طرف سے تھا، نبی کریم ﷺنے اپنی طرف سے نہیں کیا، اور جب تک یہ اجازت تھی آپ ﷺ نے نکاح کیا اور جب اللہ نے اس اجازت کو اٹھا لیا تو آپ ﷺ نے مزید کوئی اور نکاح نہیں کیا ،جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
    {لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ رَقِيبًا}
    ’’اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں اور نہ یہ (درست ہے)کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے (نکاح کریں)اگر چہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو مگر جو آپ کی مملوکہ ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (پورا)نگہبان ہے‘‘
    [الاحزاب: ۵۲]
    اور یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ جب اللہ نے کسی چیز کی اجازت یا کسی کام کا حکم دے دیا ہو تو پھر بندے کو چوں چرا کرنے یا اس پر سوالیہ نشان لگانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ ﷺ کو جب اللہ نے منع کر دیا تو پھر اس کے بعد آپ نے مزید کوئی نکاح نہیں کیا، اگر معاذ اللہ نبی کریم ﷺ شہوت پرست ہی تھے تو پھر آپ نے مزید کوئی اور نکاح کیوں نہیں کیا؟ اگر چاہتے تو کر لیتے لیکن چونکہ اللہ کی طرف سے منع ہو گیا تھا اس لیے آپ ﷺ نے نہیں کیا۔سمجھنے والوں کے لیے یہی بات کافی ہے۔
    ۲۔ نبی کریم ﷺ کے تعلق سے اس طرح کی بات سوچنا بھی اپنے آپ میں گستاخی ہے، جن کی شان اتنی بلند ہے کہ رب بھی ان کی تعریف کرتا ہوتو ان کے بارے میں اس طرح کے غلط تبصرے یا لا یعنی الفاظ کا استعمال گستاخی کے سوا کچھ نہیں، بطورِ خاص ایک مسلمان کو اس طرح کی ادنیٰ سی چیز بھی اپنے دماغ میں نہیں لانا چاہیے کیونکہ نبی کریمﷺ ہر اعتبار سے کامل و مکمل تھے اور آپ ﷺ شہوت پرست ہوں نعوذ باللہ ایسا سوچنا حماقت، بے وقوفی اور سراسر گستاخی ہے جس پر بندے کا ایمان خطرے میں پڑ سکتا ہے اور پڑ جاتا ہے۔
    ۳۔ جوانی کا سنہرا دور صرف ایک بیوی کے ساتھ گزار دیا: آپ تصور کریں کہ معاذ اللہ جس شخصیت کے تعلق سے شہوت پرستی کا الزام لگایا جا رہا ہے کیا وہ اپنی جوانی کے پچیس( ۲۵)بیش قیمت اور انمول سال صرف ایک عورت سے گزار سکتے ہیں؟ پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ نبی کریم ﷺنے پچیس(۲۵)سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اورپچاس(۵۰)سال کی عمر تک انہی کے ساتھ رہ گئے اور ان کے رہتے ہوئے آپ نے مزید کوئی نکاح نہیں کیا۔اگر سمجھنا ہے تو یہ ایک بات سمجھنے والے کے لیے کافی ہے ورنہ دلائل کا انبار بھی کسی نا سمجھ کے لیے کافی نہیں ہوتا ہے۔
    ۴۔ پہلا نکاح بھی ایک بیوہ خاتون سے کیا: وہ نبی جو اپنے صحابہ کو بسا اوقات یہ تعلیم دیتے ہوں کہ کنواری لڑکی سے شادی کرو کیونکہ اس میں لذت و سرور زیادہ ہے لیکن وہی نبی جب خود نکاح کریں اور وہ بھی زندگی کا پہلا نکاح تو ایک بیوہ خاتون سے کریں، کیا کبھی کوئی شہوت پرست انسان ایسا سوچ سکتا ہے؟ ایک کنوارا بلکہ ایک شادی شدہ انسان بھی کنواری لڑکی ہی تلاش کرتا ہے مگر قربان جائیں کہ نبی کریم ﷺ اپنا پہلا نکاح ایک بیوہ خاتون سے کر کے دنیا کو اور اپنی امت کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ میں محسنِ انسانیت ہوں، رحمۃ للعالمین ہوں، آسانیاں کرنے والا ہوں، لوگوں کا خیال رکھنے والا ہوں، شہوت پرست یا نادان نہیں۔
    ۵۔ ایک کے سوا کوئی بیوی کنواری نہیں تھی: آپ ﷺ نے جتنے نکاح کیے ان میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا تمام عورتیں طلاق شدہ تھیں یا ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا، اگر نبی کریم ﷺشہوت پرست تھے معاذ اللہ! تو کیا وہ ایسا کرنے کی سوچ بھی سکتے تھے؟ نہیں اور یقیناً نہیں، پتہ یہ چلا کہ نبی کریم ﷺ اللہ کے فضل سے بالکل پاک اور بہترین انسان تھے اور اسی انسانیت کی بنا پر آپ ﷺ نے اس طرح کی عورتوں سے نکاح کرنے کو مقدم رکھا۔
    اگر یہیں پر رک کر ایک اور چیز پر بات کریں تو بعض لوگ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے نکاح کے معاملے کو بھی مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ نو سال کی بچی سے انہوں نے کیسے اور کیوں نکاح کر لیا؟ جبکہ اگر غور کیا جائے تو رسول اللہ ﷺ کے کردار کے حساب سے یہ ایشو بنتا ہی نہیں ہے اور اگر بنتا ہے تو اعتراض کرنے اور اسے مسئلہ بنانے کا سب سے پہلا حق مشرکین مکہ، آپ کے مخالفین اور اُس دور کے دشمنان اسلام کا ہوتا ہے لیکن تاریخ اور سیرت کی کتابیں بتاتی ہیں کہ عہدِ نبوی میں موجود ان تمام طرح کے لوگوں میں سے اس حوالے سے کسی نے بھی آپ ﷺ کی شخصیت پر سوال نہیں اٹھایا نہ ہی اعتراض کیا کیونکہ ان کے یہاں یہ عام رواج تھا کہ لڑکی اس عمر تک پہنچنے تک بالغ ہو جاتی تھی اور اس کا نکاح کر دیا جاتا تھا، ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے چھ (۶)سال کی عمر میں نکاح کیا اورنو(۹)سال کی عمر میں رخصت ہو کر وہ آپ ﷺ کے پاس آ گئیں، یہ کسی بھی زاویے سے اعتراض اور ایشو کا پہلو نہیں تھا اسی لیے مشرکین مکہ اور یہودیوں کی طرف سے اس طرح کا کوئی معاملہ نظر بھی نہیں آتا ہے۔
    ۶۔ مصاہرت اور سسرالی رشتے کے ذریعے لوگوں سے اپنے تعلقات مضبوط کرنا مقصود تھا: عرب کے لوگ سسرالی رشتوں کا بڑا احترام کیا کرتے تھے، ان کے یہاں اس رشتے کی بڑی قدر اور عزت تھی، نبی کریم ﷺ نے بھی مختلف شادیاں کیں تاکہ جب کسی خاندان سے سسرالی رشتہ قائم ہو جائے گا تو ان سے تعلقات بھی مضبوط ہو جائیں گے اور پھر ایسی صورت میں ان کے درمیان دعوت و تبلیغ کا کام کرنا بھی آسان ہو جائے گا اور اگر ان کی طرف سے کوئی خطرہ درپیش ہے تو وہ کم یا ختم ہو جائے گا، اور اس میں بہت حد تک کامیابی بھی ملی اور مقصود حاصل بھی ہوا۔
    ۷۔ اعلیٰ خاندان کا ہونے کے باوجود الگ الگ قبائل کی عورتوں سے نکاح کیا: نبی کریم ﷺ سب سے بہترین خاندان کے فرد تھے، قبیلہء قریش کی معزز شاخ بنو ہاشم سے آپ کا تعلق تھا لیکن سب سے اعلیٰ خاندان کا فرد ہونے کے باوجود نبی کریم ﷺ نے مختلف قبائل کی عورتوں سے نکاح کیا تاکہ الگ الگ خاندان اور قبیلے سے جڑ کر اور ان سے رابطہ مضبوط رکھ کر اپنی بنیاد مضبوط رکھا جائے اور اس طریقے سے دشمنوں کی جانب سے بھی ہماری مدد ہو جائے گی کہ دشمن حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔اگر معاذ اللہ نبی کریمﷺ شہوت پرست ہوتے یا آپ نعوذ باللہ عورتوں کے بھوکے ہوتے تو کیا آپ گیارہ (۱۱)پر اکتفا کرتے یا مختلف قبیلوں میں جا کر نکاح کیوں کرتے؟آپ ﷺ نے مختلف خاندان کی عورتوں سے نکاح کر کے یہ پیغام دیا کہ نکاح کے لیے اپنے ہی خاندان کی لڑکی یا لڑکا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ دین داری اور عمدہ اخلاق کی بنیاد پر نکاح ہونا چاہیے اور آپ ﷺ نے اسی کی تعلیم بھی دی۔
    ۸۔ معلمات کی ایک ٹیم تیار کرنا مقصد تھا کہ جو عورتوں کے مخصوص مسائل سیکھیں اور عورتوں کے درمیان بیان کریں: نبی کریم ﷺ لیڈر تھے، معلم تھے، استاد تھے، مربی تھے، رہنما اور گائڈ تھے، لوگ آپ کے پاس آ آ کر اپنے مسائل کا حل پوچھ لیا کرتے تھے، عورتیں بھی آتی تھیں لیکن عورتوں کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے یہاں شرم و حیا زیادہ ہوتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں ان کے مخصوص مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں، کبھی کوئی مسئلہ ہوا تو کس کے پاس جائیں کس سے سوال کریں، نبی کے پاس جائیں تو ان کا اپنا مقام، پھر شرم و حیا اور سوال بھی ایسا جو پرائیویٹ ہے، اس لیے نبی کریم ﷺ نے اتنے نکاح کیے تاکہ خواتین کو تعلیم و تربیت دینے کے لیے معلمات کی ایک ٹیم تیار ہو جائے جو ان کے نجی اور مخصوص مسائل براہِ راست بیان کر سکے، اور ہوا بھی ایسا کہ آپ احادیث اٹھا کر دیکھیں تو عورتوں سے متعلق بیشتر مسائل نبی کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور بطورِ خاص اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں، آپﷺ کی زندگی کے بعد عورتیں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے پاس آتی تھیں اور اپنے مسائل کا حل معلوم کر لیا کرتی تھیں، نتیجہ یہ نکلا کہ نبی کریم ﷺنے اپنی ازواج کے ذریعے اور بطورِ خاص عورتوں کو معلمات کی ایک بہترین ٹیم فراہم کر دیا کہ جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے عورتوں کے مخصوص مسائل کو سیکھا اور انہیں بیان کیا۔
    ۹۔ دینی مصلحت کہ جس کے ذریعے جاہلیت کے بعض غلط رسوم ورواج کا خاتمہ مقصود تھا: زمانہء جاہلیت میں بہت سے ایسے رسوم و رواج تھے جو خود ساختہ تھے جنہیں معاشرے میں بہت بڑی حیثیت حاصل ہو چکی تھی، ایسی ہی ایک رسم تھی یا رواج تھا کہ لوگ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے جیسی حیثیت دیتے تھے، اس کو وراثت میں حصہ دار سمجھتے تھے اور اگر اس کا انتقال ہو جاتا تو اس کی بیوی سے شادی کو حرام سمجھتے تھے، اب اللہ نے نبی کریم ﷺ کے ذریعے اس غلط چیز کو ختم کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے اسباب بھی پیدا کر دئیے، ہوا یہ کہ نبی کریمﷺنے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کر دیا، لیکن چونکہ دونوں کے خاندان اور مزاج میں بہت فرق تھا اس لیے ان دونوں کے درمیان طلاق کی نوبت آ گئی، لیکن اللہ رب العزت نے اب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے پیارے پیغمبر ﷺ سے کر دیا اور قرآن نے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۳۷میں اس کا مکمل نقشہ کھینچا ہے کہ نبی کریم ﷺ معاشرے کے لوگوں سے ڈر رہے تھے کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ میں منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کر لوں جو کہ اس معاشرے میں حرام کے درجے پر ہے لیکن اللہ نے اس غلط رسم کو ختم کر دیا اور کہا کہ آپ کو لوگوں سے نہیں بلکہ اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اس رسم کی کوئی حقیقت نہیں۔اس طریقے سے یہ نکاح ایک غلط رواج کے خاتمے کا ذریعہ اور سبب بن گیا۔
    ۱۰۔ سیاسی مصلحت تاکہ دیگر قبائل کے لوگ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں: آپ ﷺ ایک قائد اور رہنما تھے، سماج کے لوگوں کے درمیان ہی آپ کو زندگی گزارنا تھا اور اللہ کی طرف سے آپ ایک مشن پر تھے، اب اس مشن کو مکمل کیسے کیا جائے، اس کے لیے کیا طریقے اختیار کیا جائیں، کون سی مصلحت اور حکمت کو اپنایا جائے کہ یہ مشن مکمل ہو اور لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں، یہ ساری چیزیں نبی کریم ﷺ سوچتے تھے اور اسی بنا پر آپ ﷺ نے اتنے نکاح بھی کیے تاکہ جس قبیلے سے ہمارا تعلق بن جائے گا تو ممکن ہے اس قبیلے کے لوگ ایمان لے آئیں یا اسلام کے تعلق سے نرم پڑ جائیں اور اس طریقے پر آپ ﷺ کو کامیابی بھی ملی اور کئی قبیلے دائرۂ اسلام میں داخل بھی ہوئے۔
    دل کی بات: اعتراض کرنے والے کرتے ہیں، ہفوات بکنے والے بکتے رہتے ہیں، سمجھنے والوں کے لیے بس ایک بات یا دلیل کافی ہوتی ہے اور نہ سمجھنے والوں کے لیے دلائل کا ذخیرہ بھی کسی کام کا نہیں، ایسے معترضین ہر دور اور ہر زمانے میں رہے ہیں جو نبی کریم ﷺ کی شخصیت پر کسی نہ کسی پہلو سے بولتے بلکہ بھونکتے رہے ہیں، ہمیں تو ایسے لوگوں کو منہ بھی نہیں لگانا چاہیے، ایسے لوگ خود ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں اور ان کے کچھ بول دینے سے نبی کریم ﷺ کی شان میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ اللہ نے تو آپ کی شان اور ذکر کو بلند کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اور وہ بلند کرتا رہتا ہے، اور یہ بات بھی کہ عرش والا ایسے تمام گستاخوں کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن چونکہ بات ہے ہمارے رسول ﷺ کی اس لیے آپ کی محبت میں ایسے لوگوں کا جواب دینا ضروری بن جاتا ہے، اور پھر آپ ﷺ کے ہمارے اوپر عائد حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم آپ ﷺ کی طرف سے دفاع کریں، آپ کی حفاظت کریں، آپ کی عزت پر کوئی داغ لگے تو اس کا بھرپور اور مکمل جواب دیں، آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو لوگوں کے درمیان عام کریں اور سیرت کا پیغام دنیا والوں کو سمجھائیں۔
    اللہ کی طرف سے نبی پاک ﷺ پر لاکھوں کروڑوں درود و سلام نازل ہوں۔
    وصلي الله على نبينا محمد صلى الله عليه وسلم وعلي آله وصحبه أجمعين وسلم تسليما كثيرا إلى يوم الدين

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings