-
حوض کوثر کی شرعی وضاحت عبد الکریم رواب علی السنابلیالخبر :سعودی عرب
روزقیامت جب اللہ تعالیٰ کی تجلی کا ظہور ہوگا ، سورج لوگوں کے سروں کے بالکل قریب ہوگا ، لوگ پیاس کی شدت سے تڑپ رہے ہوں گے ، پسینوں میں شرابور ہوں گے اورحساب و کتاب کی شدت سے منتفل ہوں گے توایسی صورت میں اللہ تعالیٰ انبیاء کرام کو حوض سے نوازے گا ، ہر نبی کا اپنا جدا جداحوض ہوگا جس سے نبی خود سیراب ہو ں گے اور اپنے امتیوں کو بھی سیراب کریں گے ۔
حوض کی کیا حقیقت ہے ؟ حوض اور حوضِ کوثر میں کیا فرق ہے ؟ حوضِ کوثرکی کیا صفات ہیں ؟ کون اس سے سیراب ہوں گے اور کون محروم ہوں گے ؟ ان تمام باتوں پردرج ذیل مضمون میں اختصار کے ساتھ بحث کی گئی ہے ۔
حوض کی لغوی تعریف:
حوض کی جمع احواض ہے ۔ جس کا معنی ہے : ’’مجمع الماء‘‘ ’’پانی ٹھہرنے کی جگہ ‘‘۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ’’قوله باب في الحوض ‘‘ کے ضمن میں لکھا ہے کہ حوض سے مراد آپﷺ کا حوض ہے۔ اس کی جمع ’’حیاض‘‘ اور ’’احوض‘‘ ہے جس کا معنی ہے ’’مجمع الماء‘‘ ’’پانی اکٹھا ہونے کی جگہ ‘‘۔
حوض سے مراد:
عمومی طور پر حوض سے مراد وہ حوض ہے جو آ پ ﷺ کو روز محشر میں عطا کیا جائے گا ، جس میں پانی نہر کوثر سے بہتا ہوا آئے گا اور نہر کو ثر جنت کے اندر ہوگا ۔
حوض اور کوثر میں فرق اور اس کا محل ِ وقوع:
دراصل روزِ محشر سارے انبیاء کو الگ الگ حوض عطا کیا جائے گا جس سے خود نبی اور ان کی امت کے لوگ سیراب ہوں گے ، جس کا عام نام حوض ہوگا اور کوثر دراصل اس حوض کا نام ہے جو آ پﷺ کو عطا کیا جائے گا ، حوض کوثر کا محل وقوع میدان محشر ہوگا، اس حوض میں پانی نہرِ کوثر سے پرنالوں کی شکل میں مسلسل جاری ہوگا،کوثر جنت کے ایک نہر کا نام ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’يَغُتُّ فِيهِ مِيزَابَانِ يَمُدَّانِهِ مِنَ الْجَنَّةِ، أَحَدُهُمَا مِنْ ذَهَبٍ، وَالْآخَرُ مِنْ وَرِقٍ‘‘
’’دو پرنالے جن میں ایک سونے کا اور دوسرا چاندی کا ،اس حوض میں تیزی سے مسلسل جاری ہوں گے جن کا ربط جنت سے ہوگاجو جنت کے اندر موجود ہوگا‘‘
[صحیح مسلم : ۲۳۰۱]
حوضِ کوثر پر تعداد زیادہ ہوگی:
روزِ محشر تمام انبیاء کرام کو حوض سے نوازا جائے گا لیکن آ پ ﷺ کو جو حوض بخشا جائے گا اس کا نا م حوضِ کوثر ہوگا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا وَإِنَّهُمْ يَتَبَاهَوْنَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ وَارِدَةً‘‘
’’ہر نبی کا ایک حوض ہوگا اورسارے انبیاء اپنی امتیوں کی تعداد کے بارے میں فخر کریں گے اور مجھے امید ہے کہ امتی کی تعداد کے تعلق سے میں سب سے زیادہ ہوں گا‘‘
[سنن الترمذی: ۲۴۴۳،صحیح]
اس حدیث سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ امت محمدیہ کی تعداد دیگر امتیوں کے بالمقابل زیادہ ہوگی۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث ہے آپ ﷺ نے فرمایا :
’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَآنِيَتُهُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ النُّجُومِ…الخ‘‘
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، حوض کوثر پہ پیالیوں کی تعداد ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہوگی…‘‘
[سنن ابن ماجۃ:۴۳۰۲،صحیح]
گویا اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح آسمان میں ستارے بے شمار اور ان گنت ہیں ویسے ہی میرے امتیوں کی تعداد بھی ان گنت ہوگی جو ان بے شمار موجود پیالیوں سے سیراب ہو ں گے ۔
اسی طرح آ پ ﷺ نے فرمایا :
’’أَلَا وَإِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَي الْحَوْضِ، وَأُكَاثِرُ بِكُمُ الْأُمَمَ، فَلَا تُسَوِّدُوا وَجْهِيْ ‘‘
’’میں تم لوگوں کو حوضِ کوثر کی طرف لے کر جاؤں گا اور اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا لہٰذا میرے چہرے کو سیاہ مت ہونے دینا ‘‘
[سنن ابن ماجہ:۳۰۵۷،صحیح]
اس حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اپنی امت کو آپ ﷺ حوض کی طرف لے کر جائیں گے اور امت محمدیہ کی تعداد دیگر امتیوں کے مقابل میںاتنی زیادہ ہوگی کہ آ پ ﷺ کو فخر محسوس ہوگا ۔
حوضِ کوثر کی صفات :
حوضِ کوثر کی صفات دیگر انبیاء کے حوضوں کے بالمقابل اعلیٰ اور بالاتر ہیں ، یہ حوض بہت ہی کشادہ اور عظیم ہوگا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’إِنَّ قَدْرَ حَوْضِي كَمَا بَيْنَ أَيْلَةَ وَصَنْعَائَ مِنَ اليَمَنِ، وَإِنَّ فِيهِ مِنَ الأَبَارِيقِ كَعَدَدِ نُجُومِ السَّمَائِ‘‘’’میرے حوض کی کشادگی ایلہ (شام کا ایک شہر) سے صنعاء (یمن کا ایک شہر)تک کی مسافت کے برابر ہوگی اور پیالیوں کی تعداد آسمان کے ستاروں کے بقدر ہوگی ‘‘
[صحیح البخاری: ۶۵۸۰]
یعنی حوض کا فی بڑا ہوگا اور پیالیاں بھی بے شمار ہوں گی۔ اسی طرح آ پ ﷺ نے حوضِ کوثر کی صفات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :
’’أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَي مِنَ الْعَسَلِ، يَغُتُّ فِيهِ مِيزَابَانِ يَمُدَّانِهِ مِنَ الْجَنَّةِ، أَحَدُهُمَا مِنْ ذَهَبٍ، وَالْآخَرُ مِنْ وَرِقٍ‘‘
’’حوضِ کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا ، دو پرنالے جن میں ایک سونے کا اور دوسرا چاندی کا اس حوض میں تیزی سے مسلسل جاری ہوں گے جن کا ربط جنت سے ہوگا‘‘۔
[صحیح مسلم :۲۳۰۱]
گویا اس کے اندر کمال درجے کی سفیدی اور اعلیٰ درجے کی مٹھاس پائی جائے گی ، اسی طرح دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا : ’’وريحه أطيب من المسك‘‘
’’اس پانی کی خوشبو مشک سے زیادہ خوشبودار ہوگی‘‘
[صحیح البخاری: ۶۵۷۹]
مزید پانی کے اوصاف کی وضاحت کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :
’’مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا‘‘
’’جو شخص اس میں سے ایک گھونٹ پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہو گا‘‘
[سنن ابن ماجۃ:۴۳۰۳،صحیح]
اسی طرح آ پ ﷺنے فرمایا :
’’مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلٰي حَوْضِيْ‘‘
’’میرے گھر اور منبر کے درمیان کا حصہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے اور میرا منبر حوض پر رکھا جائے گا‘‘
[صحیح البخاری:۱۱۹۶]
گویا رسول اللہ ﷺ جس منبر پر دنیا میں خطبہ دیا کرتے تھے اسے روز محشر میں حوضِ کوثر پر رکھا جائے گا۔
حوضِ کوثر سے کس کو سیرابی اور کس کو محرومی ؟
ایک مومن بندہ دنیاوی زندگی اللہ کی تابعداری اور رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری میں گزارتا ہے تاکہ آخرت میں اسے ایسی نعمتوں کا حصول ہو جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا :
’’مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلٰي قَلْبِ بَشَرٍ‘‘
’’ان نعمتوں کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی کسی دل میں ان نعمتوں کے تعلق سے احساس تک ہوا ہے‘‘
[صحیح البخاری:۴۷۷۹]
انہی نوازشات میں سے ایک بہت بڑا احسان و تکریم حوضِ کوثر کی شکل میں ہوگا جسے اللہ تعالیٰ تمام انبیاء پر برتری دیتے ہوئے آپ کو بخشے گا ، یہ ایسا حوضِ کوثر ہوگا جس سے سیرابی اس شخص کو حاصل ہوگی جو شرک و بدعت اور اوہام و خرافات سے بچتے ہوئے ایمان ِ خالص کے ساتھ اللہ کا مطیع رہا اور دین محمدی میں بغیر کسی آمیز ش اور اختراع پردازی کے آپ کی سنتوں پر عمل پیرا رہا ۔
گویا یہ حوضِ کوثر ان لوگوں کے لیے نہیں ہوگاجنہوں نے نفس پرستی کی ، سنت کی مخالفت کی ، دین میں نئی چیزوں کو ایجاد کیا ، مرتد ہوگئے ، اہل حق کو ذلیل کیا اور بدعت و خرافات کی ترویج کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَي الْحَوْضِ، لَيُرْفَعَنَّ إِلَيَّ رِجَالٌ مِنْكُمْ، حَتَّي إِذَا أَهْوَيْتُ لِأُنَاوِلَهُمُ اخْتُلِجُوا دُونِي، فَأَقُولُ:أَيْ رَبِّ، أَصْحَابِي، يَقُولُ: لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ‘‘
’’ حوض کوثر پر تم لوگوں کا پیش خیمہ ہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میری طرف آئیں گے جب میں انہیں (حوض کا پانی) دینے کے لیے جھکوں گا تو انہیں میرے سامنے سے کھینچ لیا جائے گا۔ میں کہوں گا اے میرے رب!یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی باتیں نکال لی تھیں‘‘۔
[صحیح البخاری:۷۰۴۹]
گویا اہل بدعت و خرافات کلی طور پر حوض کوثر سے محروم ہوں گے ۔
امام قرطبی اپنی کتاب ’’التذکرۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے علماء کا کہنا ہے کہ دین سے مرتد ہونے والے ، دین میں نئی چیزوں کا ایجاد کرنے والے حوضِ کوثر سے دھتکار دئے جائیں گے اور ان سے بری طرح وہ لوگ دھتکار دیئے جائیں گے جنہوں نے مسلمانوں کی جماعت کی مخالفت کی ، ان کے راستوں سے علیحدگی اختیار کی جیسے خوارج اور معتزلہ ، اسی طرح جو روظلم کرنے والے ، حق کو دبانے والے ، گناہ کبیرہ کو اعلانیہ طور پر کرنے والے، گناہ صغیرہ کو حقیر سمجھنے والے اور نفس پر ستی کرنے والے بھی حوضِ کوثر سے محروم ہوں گے‘‘
[التذکرۃ للامام قرطبی]
اسی طرح امام حافظ عبد البر فرماتے ہیں :’’کل من احدث فی الدین فھو من المطر و دین عن الحوض کالخوارج والروافض و سائر أصحاب الأھواء…‘‘الخ’’جس شخص نے بھی دین کے اندر نئی بات ایجاد کی وہ حوضِ کوثر سے محروم رہے گا جیسے خوارج اور روافضہ اور دیگر نفس پرستی کرنے والے لوگ‘‘۔
سب سے پہلے سیرابی کس کو نصیب ہوگی ؟
بلاشبہ تمام سنت نبویہ کے پیروکاروں کو حوض ِ کوثر سے سیرابی نصیب ہوگی، لیکن امت محمدیہ میں جسے سیرابی میں اولیت اور سبقت حاصل ہوگی وہ ایسے صحابۂ کرام ہیں جو غربت و وحشت کی کیفیت میں سابقین و اولین کی صورت میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور دنیاوی لذتوں سے آشنا نہیں ہو سکے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’أَوَّلُ النَّاسِ وُرُودًا عَلَيْهِ فُقَرَائُ المُهَاجِرِينَ، الشُّعْثُ رُئُ وسًا، الدُّنْسُ ثِيَابًا الَّذِينَ لَا يَنْكِحُونَ المُتَنَعِّمَاتِ وَلَا تُفْتَحُ لَهُمُ أَبْوَابُ السُّدَدِ‘‘
’’سب سے پہلے جو حوض کوثر پر وارد ہوں گے وہ مہاجرین کے فقراء و مساکین ہو ں گے جو پراگندہ بالوں والے اور میلے کپڑے والے ہوں گے جنہوں نے کسی مال و ثروت والی عورت سے شادی نہیں کی ہوگی اور خستہ حالات سے دوچار رہے ہوں گے ‘‘
[سنن الترمذی:۲۴۴۴،صحیح]
گویا وہ صحابۂ کرام جنہوں نے اول وہلہ میں اسلام کو قبول کیا ،دنیاوی آسائشوں سے آشنا نہیں ہو سکے ،خستہ حالی میں زندگی گزارتے ہوئے اسلام کی نشر واشاعت میں دنیا سے فوت کر گئے وہ سب سے پہلے حوضِ کوثر پر وارد ہوں گے ۔
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا :
’’أَذُودُ النَّاسَ لِأَهْلِ الْيَمَنِ أَضْرِبُ بِعَصَايَ حَتَّي يَرْفَضَّ عَلَيْهِمْ‘‘
’’المنہاج شرح صحیح مسلم ‘‘میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ :
’’هذه كرامة لأهل اليمن فى تقدمهم فى الشرب منه مجازاة لهم بحسن صنيعهم و تقدمهم فى الاسلام والانصار من اليمن فيدفع غيرهم حتي يشربوا كما رفعوا فى الدنيا عن النبى ﷺ اعداء ة والمكروهات ‘‘
’’اہل یمن کو حوض کوثرکا پانی پینے میں سبقت حاصل ہونا یہ ان کے لئے فضل ہے جو ان کے بہترین اعمال کا بدلہ ہے۔ جیسے قبول اسلام میں ان کا سبقت کرنا ۔ لہٰذا آپ ﷺ دوسروں کو ہٹا کر پہلے انہیں پانی پلائیں گے جس طرح انہوں نے دنیا میں رسول اللہ ﷺ کی دشمن اور مکروہات سے مدافعت کی ‘‘
قارئین کرام ! گویا دوقسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں حوضِ کوثر کی سیرابی سب سے پہلے نصیب ہوگی ۔ پہلی قسم مہاجرین و فقراء کی ہے اور دوسری قسم اہل یمن یعنی انصارکی ہے ۔
اعمال جن کی ادائیگی سے حوضِ کوثر کا شرف حاصل ہو سکتا ہے :
(۱) بدعات و خرافات اور گناہ کبیرہ سے بچتے ہوئے کتاب و سنت کو لازم پکڑنا اور اس پر ثابت قدم رہنا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ: كِتَابُ اللّٰهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَائِ إِلَي الأَرْضِ۔وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الحَوْضَ‘‘
’’میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے:ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری ’’عترت‘‘ یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے‘‘
[سنن الترمذی:۳۷۸۸،صحیح]
(۲) دوسرا عمل جس سے حوض کوثر کا شرف حاصل ہوگا وہ ہے کہ ظالم و قاہر حکمراں کی مدد نہ کی جائے ، آپ ﷺ نے کعب بن عجرہ سے کہا :’’أعاذك اللّٰه من امارة السفهاء‘‘’’اللہ تعالیٰ تمہیں نا سمجھوں کی حکومت سے محفوظ رکھے‘‘، کعب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نا سمجھوں کی حکومت سے کیا مراد ہے ؟ آ پ نے فرمایا کہ میرے بعد ایسے لیڈر اور قائد پیدا ہوں گے جو میرے نقش قدم پر نہیں چلیں گے اور نہ ہی میری سنت پر عمل پیرا ہوں گے ،لہٰذا جس نے ان کی جھوٹ باتو ں کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر مدد کی وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور نہ ہی میں ان لوگوں میں سے ہوں اور نہ ہی میرے حوض کوثر پر ان کی آمد ہو سکتی ہے ‘‘
[مسنداحمد:۱۴۴۴۱]
گویا ظلم کی مددکرنا حوض کوثر سے دوری کا سبب بن سکتا ہے ۔
(۳) صبرو استقامت بھی ایسا عمل ہے جو حوض کوثر کے شرف کا باعث بنے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’سَتَجِدُونَ أُثْرَةً شَدِيدَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّي تَلْقَوُا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ﷺ فَإِنِّي عَلَي الحَوْضِِ‘‘
’’میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس وقت صبر کرنا، یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول سے آ ملو۔ میں حوض کوثر پر ملوں گا‘‘
[صحیح البخاری :۴۳۳۱]
قارئین کرام ! گویا اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ لوگوں کو ان کا حق نہیں ملے گا ،بلکہ ان کا حق نا اہلوں کو دے دیا جائے گا، ایسی صورت میں آ پ ﷺ نے نصیحت کی کہ صبر و استقامت سے کام لینا یہاں تک کہ تمہاری وفات ہوجائے اور اگر ایسی صورت میں تم فوت ہوتے ہو تو میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار کروں گا۔
(۴) وضوپر مداومت برتنا: صحابۂ کرام نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میدان محشر میں تمام انبیاء کے امتی موجود ہوں گے ، آپ کیسے تفریق کریں گے ؟ آ پ ﷺ نے فرمایا :
’’نَعَمْ لَكُمْ سِيمَا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ مِنَ الْأُمَمِ تَرِدُونَ عَلَيَّ غُرًّا، مُحَجَّلِينَ مِنْ أَثَرِ الْوُضُوئِ‘‘
’’تمہاری ایک نشانی ہوگی جو دوسری امتیوں میں نہیں ہوگی،تم میرے پاس ایسی حالت میں آؤ گے کہ اعضائِ وضو چمک رہے ہوں گے‘‘
[صحیح مسلم :۲۴۶]
گویا وضو کرنے سے اعضاء وضو چمک رہے ہوں گے اور اسی چمک سے آ پ ﷺ پہچان کر امت محمدیہ کو حوض کوثر سے سیرا ب کریں گے ۔
منکرین حوض اور سلف صالحین کا موقف :
حوض کوثران غیبی امور میں سے ایک ہے جس کا ثبوت احادیث میں ۳۰ صحابۂ کرام سے زیادہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے، اس کاتعلق ان امور میں سے ہے جس پر ایمان واجب ہے ۔ لفظِ حوض تمام انبیاء کے ساتھ عام ہے اور کوثر صرف محمد ﷺ کے ساتھ خاص ہے ۔
امام طحاوی اپنی کتاب’’شرح العقیدۃ الطحاویۃ ‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’الذين انكرواالحوض هم طائفة قليلة من أهل البدع و الضلال و بعض فرق الخوارج و بعض المعتزلة‘‘
’’حوض کے منکرین اہل بدعت کی چھوٹی سی جماعت بعض خوارج کے فرقے اور بعض معتزلہ ہیں ‘‘
انہوں نے ان احادیث کی تاویل کرتے ہوئے کہا ہے کہ حوض کوثر سے کنایہ ہے کرم و بخشش یعنی اللہ تعالیٰ ہر ایک کو کرم و فضل سے نوازے گا ۔
مزیدامام طحاوی نے رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایسا خیا ل ہے جس کے بارے میں عقلی ، نقلی یا منطقی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ روز محشر جب لوگ پسینوں میں شرابور ہوں گے،سورج سرکے اوپر ہوگا ایسی کیفیت میں اللہ تعالیٰ آ پ کو حوضِ کوثر سے نوازے گا ۔ مزید لکھا ہے کہ :
’’أن منكره بعد قيام الحجة عليه كافر فمن أنكره فقد أنكره أمرامعلوما بالتواتر ‘‘
’’دلائل سے ثابت ہوجانے کے بعد اگر کوئی حوض کا منکر ہے تو وہ کافر ہے اور ایک ایسے امر کا انکار کرتا ہے جو تواتر سے ثابت ہے ۔
اللہ رب العالمین ہمیں بدعات و اوہام سے اجتناب کرتے ہوئے سنت نبویہ پر عمل پیرا ہوکر زندگی گزارنے کی توفیق بخشے اور روز محشر کو حوض کوثر سے سیرابی نصیب فرمائے ۔ آمین