-
اہانت رسولﷺ کے موجودہ زہر کا تریاق شانِ رسالت میں گستاخی اس خطرناک عناد اور نفرت کا شاخسانہ ہے جو نبی اور ان کے لائے ہوئے دین سے اسلام دشمنوں کو ہوتی ہے،بظاہر نارمل نظر آنے والے انسانوں کے اندر بھی نفرت کا آتش فشاں بھڑک رہا ہوتا ہے جو موقع پاکر بہہ پڑتا ہے،ادھر چند سالوں میں کفر کے گماشتوں کے حوصلے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں کیونکہ انہیں وقت کے کج کلاہوں کی پشت پناہی حاصل ہے،مسلمان کبھی کسی کے دین ومذہب کے بارے میں گستاخانہ کلمات نہیں کہتا،اگر کہتا ہے تو وہ شریعت کی تعلیمات کے خلاف کرتا ہے،جس رسول کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا جاتا ہے اسی رسول نے دوسرے مذاہب کا احترام اور ان کے معبودوں کی شان میں غیر شائستہ کلام کرنے سے منع کیا ہے،اساطیری دین ومذہب کے ماننے والے محمد رسول اللہ ﷺکی شان کیا جانیں؟آپ کی ذاتِ مقدسہ ومبارکہ انسانیت وشرافت کے اس مقام بلند پر فائز ہے جہاں آج تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکا،آپ نے اپنے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کے ساتھ بھی عفو و درگزر کا معاملہ کیا ہے،آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا،میدانِ جنگ میں بھی اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا،انسان تو انسان ہیں جانوروں پر بھی آپ نے ترس کھایا ہے،آپ کے اعلیٰ اخلاق کے فیض سے اپنے اور غیر سب مستفید ہوئے،کتنے غیر مسلم ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہﷺ کی عظمتِ شان اور رفعتِ مقام کا قصیدہ پڑھا ہے،گویا آپ ’’الفضل ماشهدت به الأعداء ‘‘ کے حقیقی مصداق ہیں،یعنی فضیلت کا حقیقی سزاوار وہ ہے جس کی عظمت کی شہادت اس کے دشمن دے دیں،کتنے ہیں جو آپ سے مذہبی اختلاف کے باوجود آپ کے تیرِ اخلاق سے گھائل ہیں،آپ کی پارسائی،آپ کی دریا دلی،آپ کی شرافت، آپ کی تواضع اور نرم خوئی نے ان پر غیرمعمولی اثر قائم کیا ہے،آپ کی عظمتِ شان پر انہوں نے کتابیں لکھی ہیں،آپ کی بلندئیِ کردار کا اعتراف وہ اپنی تقریر وتحریر میں مسلسل کرتے آئے ہیں،سچ تو یہ ہے کہ آپ کے مداح غیر مسلموں کے اگرصرف نام کا تذکرہ کیاجائے تو تحریر کئی صفحات پر پھیل جائے گی،مائیکل ہارٹ،برنارڈ شاہ ،سر ولیم میور،گوئٹے،لا مارٹین،رام کرشنا راؤاور گاندھی جی جیسے سیکڑوں غیرمسلمین نے آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے،ایک بڑی تعداد ان غیر مسلم نعت گو شعراء کی بھی ہے جنہوں نے اپنے خوبصورت تاثرات کو اشعار کا جامہ پہنایا ہے،سلسلہ ہنوز جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا،کتنے ہیں جو سیرت نبوی پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔
نبی کی شان میں گستاخی اس گمراہ کن پروپیگنڈہ کا اثر ہے جو ایک عرصے سے منظم انداز میں پھیلایا گیا ہے،موجودہ دور میں اس مقصد کے لیے ذرائعِ ابلاغ کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے،افسوسناک امر یہ ہے کہ شر کے علمبردار شر کی اشاعت میں جتنے سرگرم ہیں خیر کے داعی اس کے مقابلے میں بہت کمزور ثابت ہوئے،امت کی ذمے داری تھی کہ اس زہر کا تریاق اسی اندازمیں لاتے جس انداز میں باطل پیش کر رہا ہے،گمراہ کن اعتراضات کا جواب اسی محاذ سے دیتے جس محاذ کا استعمال باطل نے کیا ہے،لیکن ہم نے اردو زبان میں خطبۂ جمعہ دے کر اور نعت اور قوالی کے اسٹیج سجا کرسمجھ لیا کہ ہم نے شر وتخریب کے زہریلے سانپ کا سر کچل دیا ہے،ہم نے اردو میں کتاب لکھ کر اور اخبارات میں آرٹیکل چھاپ کر یہ فیصلہ کرلیا کہ ہم نے ان شکوک وشبہات کے تارپود بکھیر دیئے جو سیرتِ طیبہ کے گرد منڈلا رہے تھے، جبکہ سچائی یہ ہے کہ ہم شر کے سرکش موجوں کے سامنے ریت کی دیوار کھڑی کرنے میں لگے ہیں،بین الاقوامی زبان اور میڈیا کی سطح پر ہمارے دفاع کا تناسب بہت معمولی ہے،ہم اس بلندی پر جاکر باطل سے دودو ہاتھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جس بلندی سے یہ ہمارے دین اور رسول کی عصمت پر حملہ آور ہیں،سیرت کے متعلق صحیح انفارمیشن اس عقیدت کو جنم دیتا ہے جس کے قرار واقعی مستحق ہمارے نبی ﷺ ہیں،اس کی ایک شاندار نظیر بخاری میں مذکور نبی کریم ﷺ کی طویل حدیث ہے،جس میں ہرقل بادشاہ کو دعوت اسلام دینے کی سرگزشت لکھی ہے،اس کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے۔
ہرقل اعظم کو جب نبی ﷺ کا دعوتی خط موصول ہوتا ہے تو وہ مکہ کے ابو سفیان اور بعض لوگوں کو بلاکر نبی کے بارے میں تحقیقِ حال کرتا ہے،وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اس تک نبی کے بارے میں جو معلومات پہنچے وہ حقیقت کے معیار پر کھری اتریں،وہ اللہ کے نبی کے سب سے قریبی شخص یعنی ابو سفیان کا انتخاب کرتا ہے،قافلے کے کچھ اور لوگوں کو بھی ان کے پیچھے بٹھادیتا ہے،اپنے ترجمان سے کہہ دیتا ہے کہ پیچھے بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہہ دو کہ ابو سفیان ذرا بھی غلط بیانی سے کام لے گا تو تم لوگ اسے جھٹلا دینا،ابو سفیان کہتے ہیں کہ اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ لوگ مجھے غلط بیانی پر ٹوک دیں گے تو میں ضرور غلط بیانی کرتا،ہرقل کی اس پیش بندی کا فائدہ یہ ہوا کہ ہرقل کو اللہ کے نبی ﷺ کے بارے میں صحیح اور کھری معلومات دستیاب ہوئیں،بس کیا تھا ؟ شہنشاہ ِروم ہرقل آپ کے بارے میں سچ سن کر آپ کا گرویدہ ہوگیا اور شان رسالت میں وہ شاندار کلمات ارشاد فرمائے جس سے آپ کی قبائے عظمت ہمیشہ جگمگاتی رہے گی،صحیح بخاری حدیث نمبر ۷ کے حوالے سے راوی اس کا قول بیان کرتے ہیں:
’’فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاء َهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ‘‘
’’اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ (پیغمبر) آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا‘‘۔
نبی کی سیرت اپنے اندر وہ کیمیائی اثر رکھتی ہے کہ اس کی صحیح ترسیل دل ودماغ کو مسخر کیے بغیر نہ رہے،شکوک وشبہات اور منفی تصویر اس وقت ابھرتی ہے جب ابلاغ وترسیل میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہو۔
ظاہر سی بات ہے ہرقل کی طرح ہر آدمی صحیح معلومات تک رسائی کی تدبیر نہیں کرسکتا،اس لیے ابلاغ وترسیل کی شفافیت کا کام نبی کی امت کو کرنا ہوگا،یہ نبی رحمت ﷺ کا ہم پر حق ہے،بہت زیادہ ضروری ہے کہ سیرت کے سچ سے انسانیت کو ہمکنار کیاجائے،ذرائع ابلاغ میں پائی جانے والے غبار کو صاف کرنے کی پیش رفت کی جائے،اسلام دشمنوں نے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر تشکیک کی ایک خطرناک مہم چھیڑی ہے،ذہنوں کو گمراہ کرنے کے لیے ہرممکن کوشش جاری ہے،اس لیے جلسوں اور کانفرنسوں سے آگے بڑھ کر میڈیا پر کمند ڈالنا ہوگا،ایک ایسا طاقتور میڈیا جو باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے،لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، اس فکری جنگ کا مقابلہ فکری محاذ پر کرنا ہوگا، جنگ تبوک کے بعد نبی نے کہا تھا کہ اب دشمن میدان جنگ میں ہمارا سامنا نہیں کریں گے بلکہ وہ دوسرے طریقوں سے ہم پر یلغار کریں گے،وہ طریقہ ہتھیاروں کے بغیر لڑی جانے والی جنگ تھا،یعنی خطابت اور شعر وشاعری کے ذریعہ اسلام کے خلاف مہم جوئی تھی،چند دنوں کے بعد دیکھا گیا کہ کفار نے اپنے خطیبوں اور شاعروں کو میدان میں اتار دیا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی اشعار میں کردار کشی شروع کی،پروپیگنڈے کی اس یلغار کے سامنے نبی نے ہتھیار نہیں ڈالا بلکہ مسلمانوں میں موجود شعراء صحابہ کی خدمات حاصل کیں،حضرت حسان بن ثابت،حضرت کعب بن مالک،حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کو اسلام کے دفاع کے لیے آگے بڑھایا،چنانچہ اس فکری جنگ میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی خدمات کا تذکرہ بڑے اہتمام سے صحابہ نے کیا ہے،نبی نے ایک موقع پر کہا،حسان کفار کو جواب دو،جبرئیل تمہارے ساتھ ہیں،حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عصمتِ رسول کے دفاع کی ذمے داری اس وقت کے میڈیا کے ذریعہ کی،اسی موقع پرآپ کا جذبۂ حب رسول ان لازوال اشعار میں ڈھل کر آپ کی زبان پر رواں ہوا جو آج تک اہلِ ایمان کے قلوب کو گرما رہاہے اور وہ یادگار ابیات حبِ رسول،دفاعِ رسول اور عظمتِ رسول ﷺ کا اعلامیہ بن گئے ہیں،حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وَأَحسَنُ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عَيني وَأَجمَلُ مِنكَ لَم تَلِدِ النِساء ُ
خُلِقتَ مُبَرَّء ً مِن كُلِّ عَيبٍ كَأَنَّكَ قَد خُلِقتَ كَما تَشاء ُ
حسان بن ثابت کی روایت کو موجودہ دور کے معیار پر اتر کر آگے بڑھانا ہوگا،ان وقتی ہواؤں سے سراسیمہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ حوصلے کے ساتھ دفاع رسول کی مہم کو تیز کرنے کی ضرورت ہے،کفر کی سازش ناکام ہوگی کیونکہ اس تجسس اور تحقیقی مزاج کو سیرت کے حقائق تک پہنچنے سے کون روکے گا جس کو موجودہ پروپیگنڈے نے مہمیز کیا ہے، اسلام کی فطرت میں لچک ہے،یہ دبانے سے اور ابھرتی ہے،اس سے پہلے کہ تلاش غلط رخ اختیار کرے ہم کو سیرت کا سچ ان کے روبرو کردینا چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا اس کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔