Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • ایصالِ ثواب سے متعلق ضعیف ومردود روایات

    کچھ لوگ اپنی بعض نیکیوں کے ثواب کو فوت شدہ لوگوں کے لیے ہدیہ کرتے ہیں اوراسے ایصالِ ثواب کا نام دیتے ہیں ،اوراپنے اس عمل کودرست ثابت کرنے کے لیے کچھ روایات پیش کرتے ہیں،ذیل میں ان تمام روایات کی حقیقت بیان کی جارہی ہے ،سب سے پہلے یہ تمام روایت ایک ساتھ ملاحظہ فرمالیں:
    ء ۱: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے میں ان کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں ، کون سا صدقہ افضل ہوگا۔ آپ ﷺنے فرمایا: پانی۔ چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا: یہ ام سعد کے لیے ہے۔
    [سنن ابی داؤد:۔ ج: ۲،ص::۱۸۰، حدیث:۱۶۸۱]۔
    ء ۲: فرمانِ رسولﷺہے: جو قبرستان میں گیا ، گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھ کر مردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کرے گا تو مردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کو اس کا اجر ملے گا۔
    [کشف الخفاء:۔ ج:۲، ص: ۲۵۲، حدیث:۲۶۲۹]۔
    ء ۳: فرمانِ رسولﷺہے کہ جو کوئی تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے اللہ اس کے لیے ہر مومن مرد وعورت کے عوض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔
    [مجمع الزوائد:۔ ج:۱۵، ص:۳۵۲، حدیث‘ ۱۷۵۹۸ ]۔
    ء ۴: فرمانِ رسول ﷺہے کہ مردہ کا حال ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یا کسی دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا اسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہوتی ہے ۔ اللہ قبروالوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہدیہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانند عطافرماتا ہے ،زندوں کا ہدیہ (یعنی تحفہ) مردوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا ہے۔[شعب الایمان:۔ ج:۴، ص: ۲۵۳، حدیث:۷۸۰۵]۔
    ء ۵: فرمانِ نبویﷺ ہے کہ جب تم میں سے کوئی کچھ نفل خیرات کرے تو چاہیے کہ اسے اپنے ماں باپ کی طرف سے کرے کہ اس کا ثواب انہیں ملے گا اور اس کے (یعنی خیرات کرنے والے کے)ثواب میں کوئی بھی کمی نہیں آئے گی۔
    [شعب الایمان:۔ ج:۴، ص:۲۰۵، حدیث:۷۹۱۱]۔
    ء ۶: فرمانِ رسولﷺہے:بندہ جب والدین کے لیے دعا ترک کردیتا ہے تواس کا رزق قطع ہوجاتا ہے۔
    [کنز العمال:۔ ج:۱۴، ص:۲۰۱، حدیث:۴۵۵۴۸]۔
    ء ۷: فرمانِ رسولﷺہے : اگر کوئی آدمی مر جاتاہے اور اس کے گھر والے اس کی طرف سے موت کے بعد صدقہ کریں تو جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کو ایک نورانی طبق میں رکھ کر صاحبِ قبر سے کہتے ہیں: اے قبر والے :یہ ہدیہ ہے جو تیرے گھر والوں نے تیری طرف بھیجا ہے ۔[ طبرانی]۔
    ء ۸: امام طاؤس رحمہ اللہ نے کہا:جب کوئی فوت ہوتا ہے ۷دن قبر میں اس کی بڑی آزمائش ہوتی ہے، صحابہ، تابعین اس زمانے کے پہلے لوگ مستحب سمجھتے تھے کہ ۷دن تک ان کے نام سے کھانے پکاکر ایصال ثواب کرتے تھے۔
    [حلیۃ الاولیاء :۔جلد:۴صفحہ :۱۱]۔
    اب اگلی سطور میں ان تمام روایات کی حقیقت بالتفصیل ملاحظہ ہو:
     پہلی روایت:
    ۱: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺمیری ماں کا انتقال ہوگیا ہے میں ان کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں ، کون سا صدقہ افضل ہوگا۔ آپﷺنے فرمایا:پانی۔ چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا:یہ ام سعد کے لیے ہے۔
    [سنن ابی داؤد:۔ ج:۲، ص::۱۸۰، حدیث:۱۶۸۱]۔
    اصل الفاظ یہ ہیں:
    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ رَجُلٍ،عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، أَنَّهُ قَالَ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ، فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟، قَال:الْمَائُ ، قَالَ:فَحَفَرَ بِئْرًا، وَقَالَ:هَذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ۔
    [سنن أبی داؤد:۔۲؍۱۳۰،رقم:۱۶۸۱۴ ]۔
    یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سندمنقطع ہے ۔کیونکہ رجل سعید ابن المسیب یا حسن البصری کی ملاقات سعدبن عبادہ سے ثابت نہیں ہے ۔
    امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے کہا:
    قُلْتُ:لَا فَإنَّه غَيْرُ مُتَّصلٍ ۔
    [تلخیص المستدرک للحاکم:۔ ج:۱،ص:۴۱۴]۔
     دوسری روایت:
    ۲: فرمان ِرسولﷺہے: جو قبرستان میں گیا ، گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھ کر مردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کرے گا تو مردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کو اس کا اجر ملے گا۔
    [کشف الخفاء: ج:۲، ص:۲۵۲، حدیث: ۲۶۲۹]۔
    اصل الفاظ یہ ہیں:
    مَنْ مَرَّ بِالْمَقَابِرِ فَقَرَأ إحْديٰ عَشرَةَ مَرَّةً ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ أحَد‘‘، ثُمَّ وَهَبَ أجْرَهُ الأمْوَاتَ، اُعْطِيَ مِنْ الأجرِ بِعدَدِ الأمْوَاتِ رَوَاهُ الرَّافِعِيُّ فِي تَارِيخِهِ عَنْ عَلِي۔
    [کشف الخفاء:۔۲؍ ۳۳۹]۔
    مصنف نے حوالہ دیا ہے کہ اس کی تخریج رافعی نے کی ہے اب اصل رافعی کی کتاب سے یہ روایت مع سند ومتن ملاحظہ ہو:
    ابو القاسم الرافعی القزوینی فرماتے ہیں:
    قَرأتُ عَلَي وَالِدي رَحِمَهُ اللّٰه لَيْلَةَ الْخَمِيْسِ التَّاسِعِ عَشَرَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنةَ خَمس وَسِتِّينَ وَخَمسَ مِائة أَخْبَرَكُمْ أَبُو الْفَضْلِ عَبْدُ الْمَلِكِ بْن سعد بْن عنتر التميمي أنبأ أبو عثمان إسماعيل ابن مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد الْوَاعِظُ أَنْبَأَ الْخَطِيبُ أَبُو مَنْصُورٍ عَبْدُ الرَّزَّاقِ بن أحمد ابن عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْغَزَّالُ ثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ ابن مُحَمَّدِ بْنِ مَهْرَوَيْهِ وَأَبُو سَهْلٍ إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ لْوَهَّابِ ِقَزْوِينَ سنة ثلاثين وثلاثمائة ثنا داؤد بْنُ سُلَيْمَانَ الْغَازِيُّ۔ أَنْبَأَ عَلِيُّ بْنُ مُوسَي الرِّضَا حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَي بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ:’’مَنْ مَرَّ عَلَي الْمَقَابِرِ فَقَرَأَ فِيهَا إِحْدَي عَشَرَ مَرَّةٍ قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ ثُمَّ وَهَبَ أَجْرَهُ الأَمْوَاتَ أُعْطِيَ مِنَ الأَجْرِ بِعَدَدِ الأَمْوَاتِ۔‘‘
    [التدوین فی أخبار قزوین:۔۲؍۲۹۷]۔
    یہ روایت موضوع من گھڑت ہے اسے داؤد بن سلیمان الغازی نے گھڑا ہے ، اس کذاب نے علی بن موسیٰ الرضا کے نام پر ایک پورا نسخہ وضع کررکھا تھا اوراس روایت کو وہ اپنے اسی خودساختہ نسخہ سے روایت کررہا ہے لہٰذا اس روایت کے موضوع ہونے میں ذرا بھی شک نہیں ۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    داؤد بن سليمان الجرجاني الغازي۔عن على بن موسي الرضا وغيره۔كذبه يحيي بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال فهو شيخ كذاب له نسخة موضوعة على الرضا رواها على بن محمد بن مهرويه القزويني الصدوق عنه، قال: حدثنا على بن موسي، أخبرنا أبي (عن أبيه )عن جده، عن على بن الحسين، عن أبيه، عن على مرفوعا: اختنوا أولادكم يوم السابع، فإنه أطهر وأسرع نبتا للحم، إن الارض تنجس من بول الاقلف أربعين يوما۔
    [میزان الاعتدال:۔۲؍۸]۔
    نیز ملاحظہ ہو:[الجرح والتعدیل :۔۳؍۴۱۳]۔
    اسی روایت کو ابو محمدالخلال نے بھی روایت کیا ہے فرماتے ہیں:
    حدثنا أحمد بن إبراهيم بن شاذان ، ثنا عبد اللّٰه بن عامر الطائي ، حدثني أبي ، ثنا على بن موسي، عن أبيه ، موسي ، عن أبيه ، جعفر ، عن أبيه ، محمد ، عن أبيه ، على ، عن أبيه الحسين ، عن أبيه على بن أبي طالب قال : قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من مر على المقابر وقرأ قل هو اللّٰه أحد إحدي عشرة مرة ، ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات ۔
    [ضائل سورۃ الإخلاص للحسن الخلال :۔ص:۵۴]۔
    عبداللہ بن عامر اور اس کے باپ عامر طائی دونوں کذاب ہیں ، اوریہ بھی اسی من گھڑت اور خود ساختہ نسخہ کی روایت کرتے ہیں:
    امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۹۷ ھ)نے کہا:
    عبداللّٰه ابن أحمد بن عامر أو أبوه فإنهما يرويان نسخة عن أهل البيت كلها باطلة۔
    [الموضوعات :۔۲؍۲۸۹]۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)نے کہا:
    عبداللّٰه بن أحمد بن عامر، عن أبيه، عن على الرضا، عن آبائه بتلك النسخة الموضوعة الباطلة، ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه۔
    [میزان الاعتدال :۔۲؍۳۹۰]۔
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ)نے کہا:
    عبد اللّٰه بن احمد بن عامر عن أبيه عن على الرضا عن آبائه بتلك النسخة الموضوعة الباطلة ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه قال الحسن بن على الزهري وكان أميا لم يكن بالمرضي وروي عنه الجعابي وابن شاهين وجماعة مات سنة أربع وعشرين وثلاث مائة ۔
    [لسان المیزان :۔۳؍۲۵۲]۔
    امام ابن العراق الکنانی رحمہ اللہ (المتوفی:۹۶۳ھ)نے کہا:
    عبد اللّٰه بن أحمد بن عامر له عن أبيه عن أهل البيت نسخة باطلة ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه۔
    [تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ :۔۱؍۷۱]۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ، کشف الخفاء کا پورا نام ہی یہی ہے
    ’’كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس‘‘۔
    نیز اس روایت سے ملتی روایت کو محمدطاہر الفتنی رحمہ اللہ نے بھی موضوعات میں نقل کیا ہے اورانہوں نے بھی یہ صراحت کردی ہے کہ یہ روایت من گھڑت نسخہ سے روایت کی گئی ہے ، ملاحظہ ہو اس کتاب کے الفاظ:
    من مر بالمقابر فقرأ الإخلاص إحدي وعشرين مرة ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات من نسخة عبد اللّٰه بن أحمد الموضوعة۔
    [تذکرۃ الموضوعات:۔ ص:۲۲۰]۔
     تیسری روایت:
    ۳: فرمان رسول ﷺہے: کہ جو کوئی تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے اللہ اس کے لیے ہر مومن مرد وعورت کے عوض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔
    [مجمع الزوائد:۔ ج: ۱۵، ص:۳۵۲، حدیث:۱۷۵۹۸]۔
    اصل الفاظ یہ ہیں:
    وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَنِ اسْتَغْفَرَ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ بِكُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ حَسَنَةً ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَإِسْنَادُهُ جَيِّدٌ ۔
    [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:۔۱۰؍۲۱۰]۔
    اسے طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے اب طبرانی کے اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:
    حدثنا عمرو بن أبي الطاهر بن السرح، ثنا عبد الغفار بن داؤد أبو صالح الحراني، ثنا موسي بن أعين، عن بكر بن خنيس، عن عتبة بن حميد، عن عيسي بن سنان، عن يعلي بن شداد بن أوس، عن عبادة بن الصامت، قال: سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يقول:من استغفر للمؤمنين والمؤمنات كتب اللّٰه له بكل مؤمن ومؤمنة حسنة۔
    [مسند الشامیین للطبرانی :۔۳؍۲۳۴]۔
    اس کی سند میں عیسیٰ بن سنان الحنفی ہیں اوریہ ضعیف ہیں ، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
    امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی:۔۲۳۳ھ)نے کہا:
    ضعیف۔ [تاریخ ابن معین ۔روایۃ الدوری :۔۳؍۳۳۵]۔
    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی:۲۴۱ھ)نے کہا:
    ضعیف۔[الجرح والتعدیل :۔۶؍۲۷۷ وسندہ صحیح]۔
    امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:۔۲۷۷ھ)نے کہا:
    لیس بقوی فی الحدیث۔[الجرح والتعدیل :۔۶؍۲۷۷]۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)نے کہا:
    ضعفہ أحمد، وابن معین، وہو ممن یکتب حدیثہ علی لینہ۔[میزان الاعتدال:۔ ۳؍۳۱۲]۔
    ایک دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
    ضعیف الحدیث وقواہ بعضہم۔[المغنی فی الضعفاء للذہبی :۔ص: ۱۰۹]۔
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ)نے کہا:
    لین الحدیث۔[تقریب التہذیب:۔۱؍۳۵۴]۔
    خلاصہ یہ کہ یہ روایت ضعیف ہے اس میں اور علتیں بھی ہیں ۔
     تنبیہ:
    مذکورہ روایت کا ایک شاہد بھی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔
    امام طبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۰ھ)نے کہا:
    حدثنا محمد بن زكريا ثنا قحطبة بن عرابة ثنا أبو أمية بن يعلي عن سعيد بن أبي الحسن عن أمه عن أم سلمة قالت قال النبى صلى اللّٰه عليه و سلم: (من قال كل يوم اللهم اغفر لي وللمؤمنين والمؤمنات الحق به من كل مؤمن حسنة ۔
    [معجم الکبیر:۔۲۳؍۳۷۰]۔
    اس کی سند میں ابو امیہ ضعیف ہے۔
    امام ہیثمی فرماتے ہیں:
    وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ قَالَ كُلَّ يَوْمٍ:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، أُتْحِفَ بِهِ مِنْ كُلِّ مُؤْمِنٍ حَسَنَةً ۔رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ أَبُو أُمَيَّةَ بْنُ يَعْلَي، وَهُوَ ضَعِيفٌ۔
    [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد :۔۱۰؍۲۱۰]۔
     چوتھی روایت:
    ۴: فرمانِ رسول ﷺہے کہ مردہ کا حال ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یا کسی دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا اسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سے بہتر ہوتی ہے ۔ اللہ قبروالوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہدیہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانند عطا فرماتا ہے زندوں کا ہدیہ (یعنی تحفہ)مردوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا ہے۔
    [شعب الایمان:۔ ج:۴، ص:۲۵۳، حدیث:۷۸۰۵]۔
    اصل کتاب کے الفاظ یہ ہیں:
    أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْأُشْنَانِيُّ، أنا أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، نا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَنْطَاكِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ الْمِصِّيصِيُّ، نا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، نا يَعْقُوبُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ، يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ، فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَإِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُدْخِلُ عَلَي أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَائِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَائِ إِلَي الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ ‘‘ قَالَ أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ:’’ وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، لَمْ يَقَعْ عِنْدَ أَهْلِ خُرَاسَانَ، وَلَمْ أَكْتُبْهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الشَّيْخِ ‘‘ ، قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ رَحِمَهُ اللّٰهُ: قَدْ رَوَاهُ بِبَعْضِ مَعْنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ خُزَيْمَةَ الْبَصْرِيُّ أَبُو بَكْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَابْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، يَنْفَرِدُ بِهِ، وَاللّٰهُ أَعْلَمُ ۔
    [شعب الإیمان:۔۱۰؍۳۰۰و۱۱؍۴۷۲]۔
    اسے ضیاء الدین ،المقدسی نے بھی [المنتقی من حدیث الأمیر أبی أحمد وغیرہ:۔۱؍۲۶۸]۔
    اور [السنن :۔۲؍۸۶]۔ میں ابن شاذان:حدثنا محمد بن الفضل العطار کے طریق سے اسی سندکے ساتھ روایت کیا ہے۔
    یہ روایت بھی موضوع و من گھڑت ہے اس کی سند میں الفضل بن محمد بن عبد اللہ بن الحارث بن سلیمان الانطاکی ہے یہ کذاب راوی ہے۔
    امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۵ھ)نے کہا:
    حَدَّثَنَا بأحاديث لم نكتبها عن غيره وأوصل أحاديث وسرق أحاديث وزاد فِي المتون۔
    [الکامل فی ضعفاء الرجال :۔۷؍۱۲۶]۔
    نیزامام ابن عدی نے اسے کذاب بھی کہا ہے ، حمزۃ بن یوسف السہمی کہتے ہیں:
    سمعت بن عدي والدارقطني وغيرهما يقولون إنه كذاب لا يساوي شيئا۔
    [سؤالات حمزۃ :۔ ص:۲۴۸]۔
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:۔۳۸۵ھ)نے کہا:
    فضل بن محمد العطار الأحدب، حدثونا عنه، كذاب۔
    [کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنی ص:۱۹فی الاصل فطر والصواب فضل]۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)نے کہا:
    الفضل بن محمد العطار عن مصعب بن عبد اللّٰه قال الدارقطني كان يضع الحديث۔
    [المغنی فی الضعفاء للذہبی :۔ص: ۱۱۷]۔
    حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی اس کے کذاب اوروضاع ہونے سے متعلق اقوال نقل کیے ہیں۔
    [لسان المیزان:۔۴؍۴۴۸]۔
    اس کے علاوہ سند میں موجود محمد بن جابر بن ابی عیاش المصیصی بھی مجہول ہے ۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)نے کہا:
    محمد بن جابر بن أبي عياش المصيصي لا أعرفه۔
    [میزان الاعتدال:۔۳؍۴۹۶]۔
     تنبیہ:
    ایک روایت میں بعض الفاظ کے ساتھ احمد بن محمد العسانی کے ذریعہ فضل بن محمد العطار کی متابعت منقول ہے۔
    چنانچہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۹۷ھ)نے کہا:
    أخبرنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَسُّونٍ، قَالَ:أَنْبَأَ الْمُبَارَكُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، قَال: أَنْبَأَ عَبْدُ الْعَزِيزِ الْأَرْجِيُّ، قثنا أَبُو بَكْرٍ الْمُفِيدُ، قثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَسَّانِيُّ، قثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، قثنا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قثنا يَعْقُوبُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَدِيَّةُ الأَحْيَائِ إِلَي الأَمْوَاتِ الاسْتِغْفَارُ لَهُمْ، وَإِنَّ اللّٰهَ تَعَالَي لَيُدْخِلُ عَلَي أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَائِ الدُّورِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ۔
    [البر والصلۃ لابن الجوزی :۔ص:۱۳۲]۔
    لیکن اول تو اس روایت کا دارومدار بھی محمد بن جابر پرہے جس کے بارے میں امام ذہبی کا قول پیش کیا جاچکاہے کہ یہ نامعلوم شخص ہے۔
    دوم اس سند میں بھی کذاب اوروضاع راوی محمد بن احمد بن محمد ابو بکر المفید موجودہے۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)نے کہا:
    محمد بن أحمد بن محمد أبو بكر المفيد محدث مشهور مجمع على ضعفه واتهم ۔
    [المغنی فی الضعفاء للذہبی :۔ص:۴]۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے نیزامام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)نے کہا:
    محمد بن جابر بن أبي عياش المصيصي۔لا أعرفه۔وخبره منكر جدا۔روي الفضل بن محمد الباهلي، وعبد اللّٰه بن خالد الرازي، عنه، قال:حدثنا ابن المبارك، عن يعقوب بن القعقاع، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: ما الميت فى قبره إلا كالغريق ينتظر دعوة تلحقه من أب أو أم أو صديق، وإن اللّٰه ليدخل من الدعاء على أهل القبور كأمثال الجبال، وإن هدية الاحياء إلى الاموات الاستغفار لهم۔زاد الرازي:والصدقة عنهم۔
    [میزان الاعتدال :۔۳؍۴۹۶]۔
    علامہ محمد طاہر قطنی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو موضوعات میں نقل کیا ہے ،ملاحظہ ہو:[تذکرۃ الموضوعات:۔ ص:۲۱۶]۔
     پانچویں روایت:
    ۵: فرمان نبوی ﷺہے کہ جب تم میں سے کوئی کچھ نفل خیرات کرے تو چاہیے کہ اسے اپنے ماں باپ کی طرف سے کرے کہ اس کا ثواب انہیں ملے گا اور اس کے (یعنی خیرات کرنے والے کے) ثواب میں کوئی بھی کمی نہیں آئے گی۔
    [شعب الایمان:۔ ج:۴، ص:۲۰۵، حدیث:۷۹۱۱]۔
    اصل الفاظ یہ ہیں :
    أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، نا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ شَوْذَبٍ، إِمْلَائً بِوَاسِطَ، نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْعَوَّامِ، نا مَنْصُورُ بْنُ صُقَيْرٍ، نا مُوسَي بْنُ أَعْيَنَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي: إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَتَصَدَّقَ صَدَقَةً فَاجْعَلْهَا عَنْ أَبَوَيْكَ، فَإِنَّهُ يَلْحَقُهُمَا، وَلَا يُنْتَقَصُ مِنْ أَجْرِكَ شَيْئًا ۔
    [شعب الإیمان :۔۱۰؍۳۰۴]۔
    یہ روایت بھی موضوع ومن گھڑت ہے، سند میں عباد بن کثیر راوی ہے۔
    ض امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ (المتوفی:۱۶۰ھ)نے کہا:
    فاحذروا روایتہ۔[الکامل فی الضعفاء :۔۴؍۳۳۳وسندہ صحیح]۔
    امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۳ھ)نے کہا:
    لیس بشیء فی الحدیث۔[تاریخ ابن معین روایۃ الدارمی :۔ص: ۱۴۶]۔
    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی:۲۴۱ھ)نے کہا:
    عباد بن کثیر اسوأ حالا من الحسن بن عمارۃ وأبی شیبۃ إبراہیم بن عثمان روی أحادیث کاذبۃ لم یسمعہا۔
    [الجرح والتعدیل موافق:۔۶؍۸۴]۔
    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۶ھ)نے کہا:
    عباد بن کثیر الثقفی البصری: سکن مکۃ، ترکوہ۔
    [الضعفاء للبخاری۔مکتبۃ ابن عباس:۔ ص:۸۹]۔
    امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۰۳ھ)نے کہا:
    عباد بن کثیر البصری کان بمکۃ متروک الحدیث۔ [الضعفاء والمتروکین :۔ص:۷۴]۔
    امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۴ھ)نے کہا:
    لم یکن بشیء وہو من أہل البَصْرَۃ۔[سؤالات محمد بن عثمان بن أبی شیبۃ لعلی بن المدینی :۔ ص: ۵۰]۔
    امام ابو زرعۃ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۶۴ھ)نے کہا:
    لا یکتب حدیثہ ،وکان لا یضبط الحدیث۔
    [الجرح والتعدیل موافق :۔۶؍۸۴وسندہ صحیح]۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)نے کہا:
    عبادِ بن کثیر واہ۔[تنقیح التحقیق فی أحادیث التعلیق :۔۱؍۱۲۷]۔
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ)نے کہا:
    عباد بن کثیر الثقفی البصری متروک قال أحمد روی أحادیث کذب۔
    [تقریب التہذیب موافق رقم :۔۱؍۲۰۵]۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عباد بن منصور جھوٹی حدیثیں بیان کرتا تھا ، لہٰذا مذکورہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ، نیزسندمیں دیگراورعلتیں بھی ہیں۔
     چھٹی روایت:
    ۶: فرمان رسولﷺہے:بندہ جب والدین کے لیے دعا ترک کردیتا ہے تواس کا رزق قطع ہوجاتا ہے۔
    [کنز العمال:۔ ج:۱۴، ص:۲۰۱، حدیث:۴۵۵۴۸]۔
    اصل الفاظ یہ ہیں:
    إذا ترك العبد الدعاء للوالدين فإنه ينقطع عنه الرزق۔[ك فى التاريخ والديلمي ۔عن أنس ]۔
    [کنز العمال :۔۱۶؍۶۷۵]۔
    امام حاکم اور امام دیلمی کی سند ایک ہی ہے ۔چنانچہ:
    امام شہردار بن شیرویہ بن شہردار الدیلمی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۵۸ھ) نے کہا:
    أخبرنا أحمد بن خلف كتابة ، أخبرنا الحاكم ، حدثنا محمد بن أحمد بن سعيد الرازي ، حدثنا العباس بن حمزة حدثنا أحمد بن خالد الشيباني ، حدثنا الحسن بن أحمد ، حدثنا يزيد بن عقبة بن المغيرة النوفلي ، حدثنا الحسن البصري بمكة ، سمعت أنس بن مالك ، قال : قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم :’’إذا ترك العبد الدعاء للوالدين فإنه ينقطع عنه الرزق فى الدنيا۔‘‘
    [الغرائب الملتقطۃ من مسند الفردوس لابن حجر ۔ مخطوط (ن) ص:۳۲۲]
    امام ابن الجوزی نے اس کی سند کو اس طرح بیان کیا ہے:
    أَنْبَأَنَا زَاهِرُ بْنُ طَاهِرٍ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْبَيْهَقِيُّ أَنْبَأَنَا أَبُو عبد اللّٰه مُحَمَّدابْن عبد اللّٰه الْحَاكِمُ أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّيْبَانِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَرِّيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ النَوْفَلِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’إِذَا تَرَكَ الْعَبْدُ الدُّعَائَ لِلْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يَنْقَطِعُ عَلَي الْوَالِدِ الرِّزْقُ فِي الدُّنْيَا۔‘‘
    [الموضوعات لابن الجوزی:۔۳؍۸۶]۔
    یہ روایت بھی موضوع و من گھڑت ہے ، سند میں احمد بن خالد الشیبانی الجویباری ہے ۔
    ض امام ابن الجوزی نے اسی راوی کو اس روایت کے سلسلے میں متہم قرار دیا ہے ، فرماتے ہیں:
    هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ عَنْ رَسُول اللّٰه صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔وَالْمُتَّهَم بِهِ الجويباري۔
    [الموضوعات لابن الجوزی :۔۳؍۸۶]۔
    واضح رہے کہ جب موضوعات کی کتاب میں لَا یَصِحُّ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ روایت موضوع ہے۔
    امام دارقطنی نے بھی اس راوی کو متروکین میں شمار کیا ہے۔[الضعفاء والمتروکون للدارقطنی :۔ص:۹]۔
    موضوعات پر لکھنے والے کئی اہل علم نے اس روایت کو موضوعات میں شمارکیا ہے ۔مثلاً ملاحظہ ہو:[ اللآلء المصنوعۃ :۔۲؍۲۹۵، وتنزیہ الشریعۃ :۔۲؍۲۸۱، رقم:۷، والفوائد المجموعۃ:۔ص:۲۳۱]۔
    معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی موضوع و من گھڑت ہے۔
     ساتویں روایت:
    ۷: فرمانِ رسولﷺہے: اگر کوئی آدمی مر جاتاہے اور اس کے گھر والے اس کی طرف سے موت کے بعد صدقہ کریں تو جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کو ایک نورانی طبق میں رکھ کر صاحب ِقبر سے کہتے ہیں :اے قبر والے !یہ ہدیہ ہے جو تیرے گھر والوں نے تیری طرف بھیجا ہے۔ [طبرانی]۔
    امام طبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۰ھ)نے کہا:
    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ أَسْلَمَ الصَّدَفِيُّ، نا عُبَيْدُ اللّٰهِ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ الْمُنْكَدِرِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ قَالَ:سَمِعْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ الشَّامِيَّ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَذْكُرُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَمُوتُ مِنْهُمْ مَيِّتٌ فَيَتَصَدَّقُونَ عَنْهُ بَعْدَ مَوْتِهِ، إِلَّا أَهْدَاهَا إِلَيْهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَي طَبَقٍ مِنْ نُورٍ، ثُمَّ يَقِفُ عَلَي شَفِيرِ الْقَبْرِ، فَيَقُولُ: يَا صَاحِبَ الْقَبْرِ الْعَمِيقِ، هَذِهِ هَدِيَّةٌ أَهْدَاهَا إِلَيْكَ أَهْلُكَ فَاقْبَلْهَا، فَيَدْخُلُ عَلَيْهِ، فَيَفُرَحُ بِهَا وَيَسْتَبْشِرُ، وَيَحْزَنُ جِيرَانُهُ الَّذِينَ لَا يُهْدَي إِلَيْهِمْ بِشَيْئٍ لَا يُرْوَي هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ۔
    [المعجم الأوسط:۔۶؍۳۱۴،رقم : ۶۵۰۴]۔
    یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔
    اس میں دو علتیں ہیں:
    پہلی علت:
    اس کی سند میں ابو محمد الشامی ہے ۔
    امام ازدی نے اسے کذاب کہا ہے:
    ض امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۹۷ھ)نے کہا:
    أبو محمد الشامی یروی عن التابعین قال الأزدی کذاب مجہول ۔[الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی:۔۳؍۲۳۹]۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)نے کہا:
    أبو محمد الشامی۔روی حدیثا عن بعض التابعین منکرا۔قال الازدی:کذاب۔[میزان الاعتدال :۔ ۴؍۵۷۰]۔
    امام ہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۰۷ھ)نے کہا:
    رواہ الطبرانی فی الأوسط وفیہ أبو محمد الشامی قال عنہ الأزدی کذاب۔[مجمع الزوائد :۔ ۳؍ ۱۸۳]۔
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ)نے کہا:
    أبو محمد الشامی روی حدیثا عن بعض التابعین منکرا قال الأزدی کذاب۔[لسان المیزان:۔ ۷؍ ۱۰۲]۔
    امام ابن العراق الکنانی رحمہ اللہ (المتوفی:۹۶۳ھ)نے کہا:
    أبو محمد الشامی عن بعض التابعین قال الأزدی کذاب مجہول۔[تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ :۔ ۱؍ ۱۳۳]۔
    گویا کہ تمام محدثین نے امام ازدی کی بات سے اتفاق کیا ہے لہٰذا یہ راوی کذاب ہے۔
    دوسری علت:
    امام طبرانی کے شیخ محمد بن داؤد بن اسلم الصدفی کے حالات نامعلوم ہیں ، شیوخ طبرانی پر کتاب لکھنے والے نایف بن صلاح بن علی المنصوری نے کہا:
    مات فی ربیع الأول سنۃ سبع وتسعین ومائتین۔ [فتح الباب :۔۴۶۱۴، تاریخ الإسلام :۔۲۲؍۲۶۷، المقفی الکبیر:۔۵؍۶۴۵]۔
    قلت:مجہول الحال۔[إرشاد القاصی والدانی إلی تراجم شیوخ الطبرانی:۔ ص:۵۴۷]۔
    ء آٹھویں روایت:
    ۸: امام طاؤس رحمہ اللہ نے کہا: جب کوئی فوت ہوتا ہے تو۷دن قبر میں اس کی بڑی آزمائش ہوتی ہے، صحابہ ، تابعین اس زمانے کے پہلے لوگ مستحب سمجھتے تھے کہ ۷دن تک ان کے نام سے کھانے پکاکر ایصال ثواب کرتے تھے ۔ [حلیۃ الاولیاء:۔ج:۴،ص:۱۱]۔
    اصل الفاظ ملاحظہ ہوں۔
    حدثنا أبو بکر بن مالک، ثنا عبد اللّٰہ بن أحمد بن حنبل، ثنا أبی، ثنا ہاشم بن القاسم، ثنا الأشجعی، عن سفیان، قال:قال طاؤس:إن الموتی یفتنون فی قبورہم سبعا، فکانوا یستحبون أن یطعم عنہم تلک الأیام۔[حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :۔۴؍۱۱]۔
    یہ کوئی قرآن کی آیت یا حدیث نہیں بلکہ امام طاؤس کا قول ہے ، لہٰذا یہ شرعی دلیل نہیں ۔
    نیز امام طاؤس سے یہ ثابت بھی نہیں کیونکہ ان کے حوالہ سے یہ بات نقل کرنے والے سفیان ثوری رحمہ اللہ نے عن سے روایت کیا اور یہ مدلس ہیں ۔[الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین:۔ص:۳۹]۔
    ز تنبیہ:
    بعض لوگ امام طاؤس کے اس قول کو امام سفیان ثور ی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اس لیے واضح رہے کہ مذکورہ قول امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا نہیں ہے نیز اگر ان کا قول ہوتا بھی توبھی یہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتی۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings