Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • آزمائش :رحمت یازحمت (قسط ثانی)

    محترم قارئین : اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس کا ہر فیصلہ حکمت پر مبنی ہوتا ہے،ہماری تخلیق کا بھی ایک مقصد ہے، اور بے مقصد کام کرنا نقص اور عیب کی بات ہے،اور اللہ تعالیٰ کی شان بے کار اور بے مقصد کاموں سے پاک ہے۔اللہ نے ارشاد فرمایا:
    {أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ۔فَتَعَالَي اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ}
    ’’کیا تم یہ گمان کیے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے،اللہ تعالیٰ سچا بادشاہ ہے وہ بڑی بلندی والاہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے ‘‘
    [المؤمنون:۱۱۵۔۱۱۶]
    بالکل اسی طرح ہمارے ارد گرد جو فتنے اور آزمائشیں موجود ہیں، ان کی تخلیق بھی حکمت پر مبنی ہے،ان کے الگ الگ مقاصد ہیں، یہ آزمائشیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں،ان آزمائشوں میں بعض شرِ محض ہیں، ان میں بھلائی کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے ،جیسے دجال کا فتنہ، شیطان کا فتنہ وغیرہ ۔اور بعض ایسی آزمائشیں ہیں جن میں خیر وشر، رحمت اور زحمت کے دونوں پہلو موجود ہیں،ان کے ساتھ ہمارا جو رویہ ہے وہ بہت اہم ہے، کیونکہ ہمارا رویہ اور سلوک اس آزمائش کو رحمت بنادیتا ہے اور ہمارا برا کردار اسے ہمارے لیے زحمت بنادیتا ہے۔کیونکہ ہر آزمائش اللہ کے حکم اور اجازت سے ہی نازل ہوتی ہے اور تقدیر کا حصہ ہے۔اللہ نے فرمایا:
    {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ وَمَنْ يُّؤْمِنْ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْئٍ عَلِيمٌ}
    ’’کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی، جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے‘‘
    [التغابن :۶۴]
    اور نبی ﷺنے فرمایا:
    ’’عِظَمُ الْجَزَائِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَائِ،وَإِنَّ اللّٰهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ،فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا،وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السُّخْطُ‘‘
    ’’جتنی بڑی مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا ثواب ہوتا ہے، اور بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے، پھر جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے، اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جاتا ہے‘‘
    [سنن إبن ماجۃ :۴۰۳۱،حسن ]
    محترم قارئین : جتنے بھی فتنے اور آزمائشیں ہیں، ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
    ایک شبہات کا فتنہ،دوسرے شہوات کا فتنہ
    فتنۂ شبہات : اس کا مطلب ایسے امور جو انسان کے دل میں دین وایمان کے تعلق سے شک اور شبہ پیدا کر دیں،شرک وکفر میں داخل کردیں، حق وباطل، سنت وبدعت ،سچ وجھوٹ،صحیح وغلط کی تمیز ختم کردیں، جو انسان کے دین وآخرت کو خلط ملط کردیں۔ایسے لوگ سب سے زیادہ نقصان میں ہیں، کیونکہ ان کا عقیدہ اور منہج، فکر وعمل سب شبہات کی نذر ہوجاتا ہے پھر بھی اپنے آپ کو سب سے بہترین اور ہدایت پر سمجھتے ہیں، ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے:
    {قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا۔الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا}
    ’’کہہ دیجیے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟وہ ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں‘‘
    [الکہف: ۱۰۳۔۱۰۴]
    اس فتنے کاعلاج علم نافع ہے جو کتاب وسنت کی تعلیم اور فہم ومنہج صحابہ پر مبنی ہو۔
    فتنۂ شہوات : اس کا مطلب ایسی مادی چیزوں کی لالچ ہو، جن کی محبت میں انسان اپنے دین وایمان کو نقصان پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
    {زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَائِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّٰهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ}
    ’’مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے‘‘
    [آل عمران:۱۴]
    ان فتنوں کا علاج اللہ کا تقویٰ اور آخرت پر ایمان ویقین ہے۔
    محترم قارئین ! ایک مومن ہمیشہ ان دونوں حالتوں میں فتنوں سے مقابلہ کرتے ہوئے بہترین زندگی گزارتا ہے ، اور خیر ہی خیر پاتا ہے۔
    ایک انسان کو اللہ تعالیٰ دو اعتبار سے آزماتا ہے، اسے نعمت دیتا ہے اور مصیبت دیتا ہے تاکہ اس کی آزمائش کرے، اس میں گھبرانا نہیں ہے بلکہ دو صفات اپنے اندر پیدا کرنا ہے، کیونکہ یہ دونوں صفات بندے کے اندر بصیرت اور سنجیدگی پیدا کرتی ہیں،صبر وشکر سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ نے ان دونوں خوبیوں کا ایک ساتھ کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ {إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ}’’بلاشبہ ہر ایک صبروشکر کرنے والے کے لیے اس (ماجرے)میں بہت سی عبرتیں ہیں‘‘
    [سورۃ سبأ:۱۹]
    پیارے نبیﷺ نے ایک مومن کی یہی دونوں خوبیاں ذکر کی ہے کہ وہ صبر اور شکر کے ذریعے آزمائش کا مقابلہ کرتا ہے اور ہمیشہ خیر میں رہتا ہے۔
    ’’عَجَبًا لأَمْرِ المُؤْمِنِ، إنَّ أمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وليسَ ذاكَ لأَحَدٍ إلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إنْ أصابَتْهُ سَرَّاء ُ شَكَرَ، فَكانَ خَيْرًا له، وإنْ أصابَتْهُ ضَرَّائُ، صَبَرَ فَكانَ خَيْرًا لَه‘‘
    ’’مومن کا بھی عجب حال ہے اس کا ثواب کہیں نہیں گیا۔ یہ بات کسی کو حاصل نہیں ہے اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو وہ شکر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے‘‘
    [صحیح مسلم: ۲۹۹۹]
    جب ایک شخص کو اللہ کی طرف سے نعمت ملے تو اسے رب العالمین کا شکر گزار ہونا چاہیے، اس نعمت کو رب کی طرف منسوب کرنا چاہیے،تواضع اختیار کرنا چاہیے، نعمت کو اللہ کی اطاعت اور نیکی میں استعمال کرنا چاہیے،اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا چاہیے،نعمت کو رب کا فضل وکرم اور احسان ماننا چاہیے،اور سب کے حقوق ادا کرنا چاہیے،یہی شکرگزاری اس آزمائش کو بندے کے لیے سراپا خیر وبھلائی بنادیتی ہے، کیونکہ اس سے رب خوش ہوتا ہے اور نعمتوں میں اضافہ کرتا ہے، اور نعمتیں باقی بھی رکھتا ہے،اللہ تعالیٰ نے بندوں سے یوں وعدہ فرمایا ہے: {وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ}’اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا ‘‘
    [ابراہیم:۷]
    اوراللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم الشان پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کو شکرگزار بندہ کا خطاب عطا فرمایا ہے:
    {ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا}
    ’’اے ان لوگوں کی اولاد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کردیا تھا، وہ ہمارا بڑا ہی شکرگزار بندہ تھا‘‘
    [الإسراء :۳]
    تمام نعمتوں کے تعلق سے انبیاء کرام اور اہل ایمان کا یہی رویہ اور سلوک رہتا ہے، اسی لیے نعمتیں ان کے لیے رحمت بن جاتی ہیں، اور وہ اس آزمائش میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اس کے برعکس بعض افراد اور قومیں نعمت کی آزمائش میں فیل ہوجاتی ہیں، کیونکہ وہ کفر اور ناشکری کرتی ہیں، اور نعمتوں کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت بنالیتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے شدید عذاب کی وعید سنائی ہے۔ {وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ}’’اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘
    [ إبراہیم:۷]
    حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو رب کی نعمتیں یاد دلائیں، شکر وعبادت کی ترغیب دی، لیکن انہوں نے شکر کا راستہ نہیں اپنایا تو اللہ نے ان کو تباہ وبرباد کردیا کیونکہ ناشکری بربادی کا راستہ ہے،ان کی نعمتیں ان کے لیے زحمت اور عذاب بن گئیں ۔ارشاد باری تعالیٰ :
    {وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَائَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُوا آلَائَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
    ’’اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ نے تم کو قوم نوح کے بعد جانشین بنایا اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ زیادہ دیا، سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم کو فلاح ہو‘‘
    [الاعراف:۶۹]
    اہل ایمان کی راہ ذکر وشکر کی راہ ہے وہ رب کے اس فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔
    {فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ}
    ’’اس لیے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو‘‘
    [البقرۃ:۱۵۲]
    یہ خوبی بڑی عظیم ہے،اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی صفت کے طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
    {شَاكِرًا لِّاَ نْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ}
    ’’اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سجھا دی تھی ‘‘
    [النحل : ۱۲۱]
    اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جب ملکۂ سبا کا تخت چشم زدن میں حاضر کردیا گیا تو انہوں نے اس نعمت کو رب کا فضل کہا اور تواضع اختیار کیا،رب کا شکر ادا کیا، تکبر وبڑائی سے دور رہے، اللہ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
    {قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُر}
    ’’جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں۔ جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری‘‘
    [النمل :۴۰]
    محترم قارئین : نعمت بھی فتنہ وآزمائش ہے، اور ہر نعمت جو آپ کے پاس ہے وہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے:’’وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ‘‘’‘اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے‘‘[النحل :۵۳]
    بلکہ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو اس کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کا جسم اور کان آنکھیں اور دل سب اللہ تعالیٰ دے کر بھیجتا ہے تاکہ انسان رب کا شکر ادا کرے، انسان کا اپنا وجود بھی اللہ کا عطیہ ہے اسے اپنے رب کا احسان مند ہوناچاہیے، رب کی شکر گزاری انسان کا فطری حق اور پیدائشی ذمہ داری ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَاللّٰهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ}’’اور اللہ نے تمہیں
    تمہاری مائوں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دیے، تاکہ تم شکر کرو‘‘۔
    [النحل:۷۸]
    شکر بھی ان اعمال میں سے ہے جو انسان کو رب کے عذاب سے نجات دلاتے ہیں ۔اللہ نے ارشاد فرمایا:
    {مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيمًا}
    ’’اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا؟ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور باایمان رہو، اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والااور پورا علم رکھنے والاہے‘‘
    [النساء:۱۴۷]
    اور ایسے شکرگزار بندے بہت ہی کم ہیں: {وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ} ’’میرے بندوں میں سے شکرگزار بندے کم ہی ہوتے ہیں‘‘
    [سبا :۳۴]
    اللہ کے انعام اور فضل وکرم پر شکر گزاری سے اللہ خوش ہوتا ہے،اور اللہ کی خوشی سے بڑی کوئی نعمت ہے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ}’اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا ‘‘
    [الزمر:۷]
    اور ناشکری اللہ کو بالکل پسند نہیں ہے: {وَلَا يَرْضَي لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ}’اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں‘‘
    [الزمر :۷]
    اور شکر گزاری کا پورا فائدہ خود بندے کو ہی ملتا ہے: {وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ}’شکر گزار اپنے ہی نفع کے لیے شکر گزاری کرتا ہے‘‘
    [النمل:۴۰]
    ناشکری کے انجام بد کو سمجھنے کے لیے فرعون، قارون، نمرود،قوم عاد، قوم ثمود، قوم سبا وغیرہ کی قرآنی مثالیں کافی ہیں۔
    اس لیے انبیاء کرام اور اہل ایمان کی طرح شکرگزار بنیں تاکہ خوشحالی اور نعمتوں کی آزمائش میں کامیابی حاصل کرسکیں، اور دنیا وآخرت میں انعام واکرام کی زندگی گزارسکیںاور رب کے خاص بندوں میں شامل ہو جائیں۔
    جاری ہے……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings