Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ (دسویں قسط )

    (ب): متن میں اضطراب کا دعویٰ
     ابو العباس القرطبی (المتوفی۶۵۶)کا اعتراض :
    ابو العباس القرطبی نے زیر بحث روایت کی سند پر جو اعتراض کیا تھا اس کا جواب سند کی بحث میں دیا جاچکا ہے ، انہوں نے اس کے متن میں بھی اضطراب کا اعتراض کیا ہے ،چنانچہ موصوف نے سنن ابی داؤدسے ابن عباس رضی اللہ عنہ  کی وہ روایت پیش کی جس میں غیر مدخولہ کا ذکر ہے اس کے بعد فرماتے ہیں:
    ’’فقد اضطرب فيه أبو الصهباء عن ابن عباس فى لفظه كما تري‘‘
    ’’اس میں ابوالصہباء ابن عباس کے الفاظ بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہوا ہے جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں‘‘

    [المفہم للقرطبی:۱۳؍۷۹]
    عرض ہے کہ:
    یہ غیر مدخولہ والی روایت ثابت ہی نہیں ہے ، بلکہ ضعیف ومردود ہے ، لہٰذا ایک ضعیف ومردود روایت کو لیکر اضطراب کا اعتراض کرنا باطل ہے ۔اس غیر مدخولہ والی روایت پر تفصیلی بحث آگے آرہی ہے ۔واضح رہے کہ ابوالصہباء نے کسی بھی سند میں اس روایت کو ابن عباس سے بیان نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے صرف سوال کیا تھا اور اصل حدیث کو امام طاؤس نے ہی بیان کیا ہے، جیساکہ سند کی بحث میں ہم نے ابو العباس القرطبی کی اس غلط فہمی کی تردید کردی ہے۔
    امام شوکانی رحمہ اللہ (المتوفی۱۲۵۰) فرماتے ہیں:
    ’’ومن الأجوبة دعوي الاضطراب كما زعمه القرطبي فى المفهم، وهو زعم فاسد لا وجه له ‘‘
    ’’اس حدیث کا ایک جواب دیتے ہوئے اس میں اضطراب کا دعویٰ کیا گیا ہے ، جیساکہ قرطبی نے المفہم میں گمان کیا ہے اور یہ گمان فاسد ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے‘‘
    [نیل الأوطار:۶؍۲۷۷]
     تنبیہ :
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ابوالعباس القرطبی سے اضطراب کا اعتراض نقل کرتے ہوئے کہا:
    ’’قال القرطبي فى المفهم وقع فيه مع الاختلاف على بن عباس الاضطراب فى لفظه وظاهر سياقه يقتضي النقل عن جميعهم …‘‘
    ’’قرطبی نے ’’المفہم‘‘ میں کہا ہے کہ اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے میں اختلاف کے ساتھ ساتھ اس کے الفاظ میں اضطراب بھی واقع ہوا ہے اور اس کے سیاق کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ یہ بات اس وقت کے تمام لوگوں سے نقل ہونی چاہیے …‘‘
    [ فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍ ۳۶۴]
    عرض ہے کہ:
    ابن حجررحمہ اللہ سے نقل میں چوک ہوئی کیونکہ ان الفاظ میں اضطراب کا اعتراض نہیں بلکہ تفرد کا اعتراض ہے جیساکہ ابوالعباس القرطبی کی کتاب میں ہے بلکہ ان الفاظ سے پہلے ابوالعباس القرطبی نے صاف لفظوں میں لکھا ہے:
    ’’لو سلمنا سلامته من الاضطراب …‘‘
    ’’اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ یہ حدیث اضطراب سے محفوظ ہے یعنی مضطرب نہیں ہے تو …‘‘
    [المفہم للقرطبی: ۱۳؍ ۸۱]
    اس کے بعد ابوالعباس نے مذکورہ اعتراض پیش کیا ہے جس سے واضح ہے کہ ان الفاظ میں اضطراب کا اعتراض نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پر تفرد کا اعتراض ہے اور اس کا جواب شروع میں دیا جاچکا ہے۔
     بعض معاصر دیوبندی حضرات کا اعتراض :
    خ عصر حاضر کے بعض دیوبندی حضرات اس روایت پر اضطراب کا اعتراض اس طرح کرتے ہیں کہ :
    ایک روایت میں عہد فارقی کی مدت ذکر نہیں ہے۔
    ایک روایت میں عہد فاروقی کے تین سال کا ذکر ہے۔
    ایک روایت میں عہد فاروقی کے دس سال کا ذکر ہے ۔
    جواباً عرض ہے کہ:
     اولاً :
    اگر بالفرض اس کو اضطراب مان بھی لیں تو اس روایت میں صرف عہد فاروقی کی مدت کی مقدار والی بات مضطرب ہوگی باقی عہد فاروقی کا ذکر نیز روایت کے دوسرے حصوں کا ثبوت برقرار رہے گا کیونکہ ان میں ساری روایات کا متن یکساں ہے، اور یہ یکساں متن ہی محل شاہد ہے جو کہ اضطراب والے اعتراض کی زد سے محفوظ ہے ، لہٰذا محض مدت عہد فاروقی کی مقدار پر اضطراب کا اعتراض فضول ہے کیونکہ اس سے اصل متن حدیث پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
     ثانیاً:
    مدت عہد فاروقی کے بیان میں مذکورہ تینوں باتوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے کیونکہ پہلی بات میں اجمال اوربقیہ میں تفصیل ہے اور اجمال اور تفصیل میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ۔ رہی دوسری اور تیسری بات تو اہل عرب کا معمول تھا کہ وہ مدت بتاتے وقت کسر(Fraction)کو کبھی مکمل کرکے بتاتے ، کبھی کسر (Fraction)کوختم کرکے بتاتے، یعنی انہیں اگر ایک سال اور نصف سال ، یعنی ڈیڑھ سال کی مدت بتانی ہو تو وہ کبھی کسر (Fraction)کو مکمل کرکے دوسال ذکر کرتے ، اورکبھی کسر(Frرحمہ اللہ cرضی اللہ عنہ (Fraction)کو ختم کرکے ایک سال ذکر کرتے ، یہی معاملہ اس حدیث میں بھی ہے کیونکہ عہدفارقی کی مدت دوسال سے کچھ زائد ہے اس بناپر:
    جس روایت میں صرف عہد کا ذکر ہے اس میں اجمال ہے ۔
    جس روایت میں تین سال کا ذکر ہے اس میں کسر کو مکمل کردیاگیا ہے ۔
    اور جس روایت میںدو سال کا ذکر ہے اس میں کسر کو ختم کردیا گیا ہے ۔
    بطور مثال عرض ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی رضی اللہ عنہ  کی نو سال کچھ ماہ خدمت کی ہے ، لیکن انس رضی اللہ عنہ جب اس خدمت کا تذکرہ کرتے تو کبھی اجمالاً ذکر کرتے ، اور جب مدت کی تفصیل بتاتے تو کبھی کسر(Fraction)کو مکمل کرتے ہوئے دس سال بتاتے ، کبھی کسر (Fraction)کوختم کرکے نو سال بتاتے ۔چنانچہ:
    1 ایک روایت میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
    ’’فخدمته فى السفر والحضر‘‘
    ’’میں نے حضر اور سفر میں نبی ﷺ کی خدمت کی ہے ‘‘
    [صحیح بخاری: رقم:۶۹۱۱، صحیح مسلم :رقم: ۲۳۰۹]
    2 ایک دوسری روایت میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
    ’’خدمت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عشر سنين ‘‘
    ’’میں نے نبی ﷺ کی دس سال خدمت کی ہے ‘‘
    [صحیح بخاری :رقم ۶۰۳۸صحیح مسلم ۲۳۰۹]
    3 ایک تیسری روایت میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
    ’’خدمت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم تسع سنين ‘‘
    ’’ میں نے نبی ﷺ کی نو سال خدمت کی ہے ‘‘
    [صحیح مسلم :رقم ۲۳۰۹،مسند احمد :رقم ۱۱۹۷۴]
    ان روایات میں کوئی اضطراب نہیں ہے بلکہ اہل عرب کے معمول کے مطابق انس رضی للہ عنہ نے الگ الگ انداز میں یہ بیان کیا ہے چنانچہ پہلی بات میں اجمالاً خدمت کا ذکر ہے اوربقیہ میں تفصیل ہے ، اوراجمال اور تفصیل میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
    رہی دوسری اور تیسری روایت تو دوسری روایت میں کسر(Fraction)کو مکمل کرکے ذکر کیا ہے اورتیسری روایت میں کسر( Fraction)کو ختم کرکے ذکر کیا ہے ۔ حافظ ابن حجرر حمہ اللہ یہی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’ولا منافاة بين الروايتين فإن مدة خدمته كانت تسع سنين و بعض أشهر فألغي الزيادة تارة وجبر الكسر أخري‘‘
    دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کی خدمت کی مدت نوسال کچھ ماہ تھی ، تو کبھی انہوں نے کسر(Fraction)کو ختم کرکے بیان کیا اور کبھی کسر(Fraction)کو مکمل کرکے بیان کیا۔
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۲۳۱]
     ثالثاً:
    فریق مخالف طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں صحابہ کے فتاویٰ سے متعلق جو روایات پیش کرتے ہیں ان میں تو طلاق کی عدد وغیرہ کو لیکر اس سے بھی کہیں زیادہ اختلاف موجود ہے ، پھر اگر ان کے اضطراب والی پالیسی سے ان فتاویٰ والی روایات کو دیکھا جائے تو ان میں سے ایک روایت بھی اضطراب کی زد سے نہیں بچ پائے گی۔
    مثلاً تین طلاق کو تین بتانے سے متعلق فریق مخالف ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ کو پیش کرتے ہیں جسے ان سے ان کے شاگرد سعید بن جبیر نے روایت کیا اب اس کے متن میں اختلاف دیکھیں:
    ٭ دارقطنی کی روایت میں ہے:
    ’’طلق امرأته مائة ‘‘
    ’’اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی‘‘
    [سنن الدارقطنی:۵؍۲۴]
    ٭ عبدالرزاق کی روایت میں ہے:
    ’’طلقت امرأتي ألفا ‘‘
    ’’ میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دے دی‘‘
    [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمی: ۶؍ ۳۹۷]
    ٭ دارقطنی کی ایک اور روایت میں ہے:
    ’’أن رجلا طلق امرأته عدد النجوم ‘‘
    ’’ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ستاروں کے مانند طلاق دے دی‘‘
    [سنن الدارقطنی :۵؍۳۸]
    نوٹ: – پہلی یعنی دارقطنی والی روایت کی سند ضعیف ہے لیکن ہم الزاماً اسے پیش کررہے ہیں کیونکہ فریق مخالف نے اضطراب دکھانے کے لئے ہرطرح کی سندوں کو پیش کیاہے ، البتہ مؤخر الذکر دونوں روایات کی سند صحیح ہے۔
    ملاحظہ فرمائیں:
    ٭پہلی روایت میں (سو طلا ق)کا ذکر ہے۔
    ٭دوسری میں اس سے دس گنا زائد یعنی(ہزار طلاق)کا ذکر ہے ۔
    ٭اور تیسری میں تو بے شمار یعنی (ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق)کا ذکر ہے۔
    لیکن فریق مخالف اس قدر اختلاف کے باوجود بھی ایسی روایت کو مضطرب نہیں کہتے ، ہم ان حضرات سے عرض کرتے ہیں کہ اگر آپ (سو)، (ہزار)اور (ستاروں کی تعداد)جیسے تین مختلف بیانات کو بھی اضطراب کی دلیل نہیں مانتے تو صرف تین سال اور دو سال جیسے معمولی اختلاف کو کس منہ سے اضطراب کی دلیل بنائے پھرتے ہیں؟
    ایک دیوبندی مولانا منیر احمد منور صاحب نے دارقطنی کی سنن کی ایک روایت کاحوالہ دیتے ہوئے اضطراب کی ایک اور شکل بتاتے ہوئے کہا کہ( صحیح مسلم:۱؍۴۷۸)کی روایت میں ہے ابوالصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’هات من هناتك‘‘ اور (سنن دارقطنی:۵؍۸۰)کی روایت میں کہ ابن عباس نے ابوالصہباء سے یہی کہاہے۔
    (حرام کاری سے بچئے :ص۳۳۲)
    عرض ہے کہ :
     اولاً:
    اگر یہ اضطراب ثابت بھی ہوجائے تو اس روایت میں صرف یہ بات مشکوک ہوگی کہ یہ جملہ کس نے کہا لیکن اس کا اثر اس روایت کے دوسرے مضمون پر نہیں پڑے گا کیونکہ دوسرے مضمون میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔اور یہ دوسرا مضمون ہی استدلال کا محل ہے ، اور شروع کا جملہ کس نے کہا اس سے استدلال میں کچھ لینا دینا نہیں ، لہٰذا اس پر اضطراب کا اعتراض فضول ہے۔
     ثانیاً:
    علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ نے ’’التعلق المغنی‘‘ میں دارقطنی کی روایت اور مسلم کی روایت میں تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ:
    ’’ولا تعارض بين رواية المصنف ورواية مسلم ، فإنه يمكن أن ابن عباس سأله أولا عن أخبار و أموركانت عنده فأجابه بما يستلزم السؤال عن هنات ابن عباس‘‘
    ’’مصنف (دارقطنی )کی روایت اور مسلم کی روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پہلے ابوالصھباء سے ان کے پاس موجود اخبار وامور سے متعلق پوچھا ہو پھر انہوں نے جواب دینے کے بعد اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا ہو‘‘
    [سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط:۵؍۸۰۔۸۱]
    ۃ فائدۃ
    مولانا منیر احمد منور صاحب نے یہ روایت دارقطنی کی سنن سے نقل کی ہے اور دارقطنی کی سند اس طرح ہے:
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    نا ابن مبشر،نا أحمد بن سنان،نا محمد بن أبي نعيم ،نا حماد بن زيد،نا أيوب ،عن إبراهيم بن ميسرة ،عن طاؤس ،أن أبا الصهباء جاء إلى ابن عباس ،فقال له ابن عباس: هات من هنيئاتك ومن صدرك ومما جمعت…الخ
    [سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط:۵؍۸۰]
    اس کی سند میں محمد بن ابی نعیم ہے ، اکثر محدثین نے اس کی توثیق کی ہے ۔چنانچہ:
    امام احمد بن سنان رحمہ اللہ (المتوفی۲۵۹)نے کہا:
    ’’ثقۃ صدوق ‘‘ ’’یہ ثقہ وصدوق ہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۸؍۸۳وإسنادہ صحیح]
    ض امام ابو زرعۃ الرازیرحمہ اللہ (المتوفی۲۶۴)نے ان سے روایت کیا۔
    [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۸؍۸۳]
    اور یہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔
    امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷)نے کہا:
    ’’صدوق ‘‘’’ یہ صدوق ہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۸؍۸۳]
    ان سب کے برخلاف امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۳)نے ان پر شدید جرح کرتے ہوئے کہا:
    ’’کذاب خبیث ‘‘’’ یہ بہت بڑا جھوٹا اور خبیث ہے ‘‘[الکامل لابن عدی طبعۃ الرشد:۹؍۳۵۸وإسنادہ صحیح]
    لیکن امام ابوحاتم نے بذات خود ابن معین سے سخت جرح نقل کرنے کے باوجود خود اسے صدوق کہا ہے۔[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی: ۸؍۸۳]
    جس سے اشارہ ملتا ہے کہ ابن معین رحمہ اللہ کی جرح مقبول نہیں ہے ۔
    شاید یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ابن معین کی جرح کو رد کرتے ہوئے اسے صدوق قرار دیتے ہوئے کہا:
    ’’صدوق لكن طرحه بن معين‘‘
    ’’ یہ صدوق ہے لیکن ابن معین نے اس پرسخت جرح کی ہے‘‘
    [تقریب التہذیب لابن حجر:رقم :۶۳۳۷]
    بنابریں ہمارے نزدیک بھی راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ راوی صدوق ہے ۔
    علامہ البانی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں:’’وابن أبي نعيم صدوق ‘‘’’ ابن ابی نعیم صدوق ہے‘‘[سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ:۳؍۲۷۱]
    بہرحال یہ الفاظ اصل حدیث کے مضطرب ہونے پر دلالت نہیں کرتے کیونکہ تطبیق پیش کی جاچکی ہے ، نیز اصل حدیث سے ان الفاظ کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے جیساکہ وضاحت کی جاچکی ہے۔
    جاری ہے۔۔۔۔۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings