-
یہ مدرسہ ہے ترا میکدہ نہیں ساقی مدارس کی عظمت،اہمیت اور کارناموں کا معاملہ اس قدر عیاں اور بیاں ہے کہ اس پر مزید خامہ فرسائی تحصیل لا حاصل ہے،مدارس کی ایک شاندار تاریخ ہے جو اسلام کے ساڑھے چودہ سو سالہ فکری سرمایہ کی حفاظت وصیانت،تصادم اورکشمکش،نشر واشاعت کی ولولہ انگیز داستان ہے،ایک ایسے وقت میں جبکہ اسلامی فکر و منہج پر چوطرفہ یلغار ہورہی ہو، ایمان کے چمن پر ارتداد کا موسم اتر رہا ہو، اس کی ضرورت اور اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
مدارس کیا ہیں؟ قرآن کی آیت: { فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي لدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوٓاْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ} کا اس روئے زمین پر حقیقی مصداق ہیں،یہ اس اسلامی تراث کے امین ہیں جسے نبی اور سلف نے آنے والی نسلوں کے سپردکیا تھا،یہ ’’طلب العلم فريضة علٰي كل مسلم‘‘ کا امتداد ہیں،یہ اس وصیت’’اقرأ‘‘ کا عملی سفر ہے جسے لے کر جبریل علیہ السلام نبی ﷺکے دل پر اترے تھے،یہ اس مشکاۃِ توحید کا عکس ِجمیل ہے جسے تاریخ میں’’صفہ‘‘ سے موسوم کیا گیا۔
مدارس غیروں کی آنکھوں میں کیوں کھٹکتے ہیں؟ اس لیے کہ حق وباطل کے معرکے میں مدارس مقدمۃ الجیش کا رول پلے کررہے ہیں، یہ اسلام کے پاسبان اور وحی آسمانی کے حقیقی امین ہیں،اگر یہ غیر مفید اور لا یعنی ہوتے تو اسلام دشمنوں کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا،مدارس دین اسلام کے لیے پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتے ہیں،یہاں سے نکلنے والے فضلاء باطل قوتوں اور طاغوتی مقاصد کے لیے سب سے بڑا روڑا ہیں، مدارس کی ٹوٹی چٹائیوں پر وہ ہستیاں پروان چڑھی ہیں جنہوں نے اپنے زبان وقلم سے کفر کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کیا ہے،الحاد،دہریت ،تشکیک،جدت پسندی،مادہ پرستی،اباحیت اور ان جیسے تمام فتنوں کی سرکوبی واستیصال کے لیے یہی طبقہ سب سے پہلے کمربستہ ہوا ہے، اس لیے یہ ہمیشہ فرقہ پرستوں کے نشانے پر رہے ہیں،مدارس اپنے آغاز سے لے کر اب تک ایک غیرمعمولی چیلنج سے گزررہے ہیں،افسوس اس بات کا نہیں ہے کہ مدارس باطل قوتوں کی طرف سے مسلسل سازشوں اور جارحیت کا سامنا کررہے ہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ مدارس اپنوں کی مخالفت اور ہرزہ سرائیوں سے بھی چوٹ کھاتے رہتے ہیں اور نت نئے دن ایک طبقہ ان پر اپنے ترکش خالی کرتا رہتا ہے،جن کی رگوں میں دوڑنے والے خون میں مدارس کا نمک شامل ہے وہ بھی مشورے اور تجویز کے نام پر مدارس کے جسم وروح کو اپنے نشتر سے زخمی کرتے رہتے ہیں،کبھی نزلہ نصابِ تعلیم پر گرتاہے،کبھی نظامِ تعلیم پر گہرافشانی کی جاتی ہے،کبھی ماڈرنائیزیشن اور تجدید کاری کا شوشہ چھوڑاجاتا ہے اور اول تا آخر اس کے پورے خاکے کو تبدیل کرنے کی بات کی جاتی ہے،دراصل یہ مدارس کے تعلیمی سسٹم میں ایک ایسا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں جو آگے چل کر مدارس کی دینی روح کو دنیا کی چمک دمک میں گم کردے گا،تبدیلیوں کی یہ رت مدارس کو اس کے مقصد، اس کی ترجیحات اور اس کی روح سے بہت دور کردے گی،یونیورسٹیوں کی جو مخلوق یہ صدا بلند کررہی ہے،وہ خود اپنے تشخص،فکر اور کلچر سے بھٹک چکی ہے،مدارس کی نشانی کے نام پر ایک پلاسٹک نما داڑھی کی کالی پٹی رخساروں پر چپکائی ہوتی ہے باقی سب کچھ یونیورسٹی کی فضاؤں میں تحلیل ہوچکا ہوتا ہے،کچھ لوگ تو یہ بوجھ بھی برداشت نہیں کرپاتے اور اس کالی پٹی سے بھی آزاد ہوجاتے ہیں،پہلے سوال ان سے ہونا چاہیے کہ آپ اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں،آپ کی زندگی میں اس علم کی باقیات کیا ہیں جو آپ نے مدارس میں آٹھ یا دس سال حاصل کیا تھا، جدید ماحول اور اس کی چمک دمک سے مرعوبیت کا انجام یہ ہوگیا کہ آٹھ سالہ مدرسے کی تربیت ان کے وجود میں پگھل کر رہ جاتی ہے،مدرسے میں گزارا ہوا ان کا ماضی انہیں اپنی شخصیت پر ایک کلنک سا محسوس ہوتا ہے،کبھی کبھار تو یہ بھی چھپا جاتے ہیں کہ وہ کسی مدرسے کے پروڈکٹ ہیں،یہ تو مدرسے سے نکل کر مکمل بدل گئے اس لیے یہ مدارس کو بھی بدل دینا چاہتے ہیں تاکہ ثابت کرسکیں کہ ہم غلط نہیں ہیں۔
ناز کیا اس پر جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
کاش مدارس کے یہ فضلاء یونیورسٹی میں اگر اپنے دین وکلچر کو بڑھاوا نہیں دے سکتے تھے تو اپنے وجود میں اس کو باقی تو رکھ پاتے،اپنی دانشوری مدارس پر بگھارنے کی بجائے وہاں کی لادینی ہواؤں کے لیے تریاق ثابت ہوتے،وہاں کی بے دینی اور اباحیت کے ازالے کے لیے کوئی ٹھوس اور منصوبہ بند کام کرتے،لیکچر میں پروفیسروں کے زہریلے الزامات کا منطقی جواب دے کر خاموش کرنے کی کوشش کرتے،ان کے ذہنوں میں پائے جانے والے انحرافات کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی موثر اقدام کرتے،اپنے دینی تشخص کو جدید کلچر کی دہلیز پر بھینٹ چڑھانے کی بجائے اس کی بقاء کے لیے سب کچھ بھینٹ چڑھا دیتے،جو خود اپنے فکر وعمل کی حفاظت نہ کرسکے اور اس سیلاب میں خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے وہ جب مدارس میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو بات مضحکہ خیز ہی لگتی ہے،ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے یونیورسٹی میں کیا تبدیلی پیدا کی؟وہاں آپ نے اپنی نام نہاد دانشوری کا کون سا جادو جگایا؟وہاں آپ نے مسلم طلبہ پر کیا چھاپ چھوڑا اور غیر مسلم طلبہ میں آپ نے کیا قابلِ ذکر کام کیا ؟یا پھر وہاں سب سرسبز و شاداب ہے،وہاں کسی اصلاح اور ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔
مدارس کا مشن علوم اسلامیہ کی بقاء واشاعت اور اسلامی تشخص کی حفاظت ہے،وہ یہ کام بساط بھر کررہے ہیں،یہی نہیں بلکہ رزم اور بزم دونوں میدانوں میں انہوں نے دفاع حق کا محاذ سنبھالا ہے،صرف 1857 کی قربانیوں پر نظر ڈالیے تو پتہ چلے گا کہ دامے درمے قدمے سخنے اس طبقے نے رزم گاہوں میں بھی ملک وملت کی پاسبانی کی ہے۔
اب آیئے اس بات کا جائزہ لیں کہ مدارس میں موجودہ تبدیلی کے مضمرات کیا ہوں گے؟سنیے، جوچند لوگ مدارس کا رخ کرتے ہیں ان میں بھی بس چند لوگ فراغت تک باقی رہ جاتے ہیں،ان میں بھی کچھ لوگ یونیورسٹی چلے جاتے ہیں،باقی جو رہ جاتے ہیں ان میں بھی کچھ لوگ دنیاوی میدانوں کا رخ کرلیتے ہیں،پھر ان چند لوگوں میں ان اعلیٰ دماغوں کا تناسب بہت کم ہوتا ہے جو دین ودعوت کے محاذ پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں،اسی لیے قحط الرجال کا بحران تمام دینی اداروں میں محسوس کیا جارہا ہے،فرمان رسولﷺ ’’يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ‘‘ ’’علم ختم ہوجائے گا علماء کے ختم ہوجانے سے‘‘میں جو بات کہی گئی ہے ،اس سلسلے کی شروعات ہوچکی ہے،اب بچے کھچے طلباء کی تعداد میں بھی نقب لگانے کے لیے احباب پریشان ہیں،ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد کو لوگ سندوں کو ٹین پلس ٹو کرکے میدان دعوت وتبلیغ سے اچک لینا چاہتے ہیں،جب سندوں کو سرکاری مانیتا مل جائے گی تو کتنے لوگ آگے کی تعلیم مدرسہ میں پوری کریں گے؟کیا یہ طلبہ بھی یونیورسٹی کے طلباء کی طرح دین ودعوت کو خیر باد نہیں کہیں گے؟وہ بھی طلبہ ہوتے ہیں باہر کی ہریالی اور چمک دمک ان پر بھی اثرنداز ہوگی،پرکشش تنخواہ اور خوبصورت مستقبل کا دھوکہ انہیں بھی لگے گا،سندوں کو قانونی حیثیت دینے کے بعد کیا آپ نصاب تعلیم کو سرکاری تصرفات سے بچاپائیں گے،کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹین پلس ٹو کے ساتھ گیتا اور یوگا بھی آپ پر تھوپ دیا جائے،کچھ اگر ان سے لیا ہے تو کچھ دینا بھی پڑ جائے، سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے نتیجے میں اگر تمہارا حجاب کھٹک رہا ہے تو کیا مشکاۃ اور بلوغ المرام انہیں نہیں کھٹکے گا جو حجاب سے اوپر کی چیز ہے،اگر دیدۂ بینا ہے تو آج کا ڈسپلے بھی بہت کچھ بیان کررہا ہے،آسام کی صورتحال تو دگرگوں ہے،اب یوپی میں بھی رقوم زکوٰۃ سے بنے مدارس پر بہت کچھ تھوپنے کی تیاری شروع ہوچکی ہے،اب کون انہیں روک سکے گا؟آپ نے فائدہ اٹھایا ہے تو قیمت تو ادا کرنی پڑے گی،ایک دن وہ بھی آئے گا کہ یہی دانشور کہیں گے،مدارس کے نصاب کو پڑھ کر مدارس کے طلبہ میں عصری مضامین کی صلاحیت معیار مطلوب پر نہیں ہوتی ہے،اس لیے نصاب پر نظر ثانی کرکے عصری مضامین کی صلاحیت کو یقینی بنایا جائے،پھر ٹین پلس ٹو کی برکت یہ ہوگی کہ اسلامی اداروں میں دینی مضامین کا وہی حشر ہوگا جو عصری اداروں میں دینی مضمون کا حشر پہلے سے چلا آرہا ہے،رقوم زکوٰۃ سے بننے والے دینی اداروں میں دین یا تو خود اجنبی بن جائے گا یا شوپیس کی طرح رہ جائے گا،یعنی وہ آواز عمل کا روپ دھار چکی ہوگی جس کی بازگشت مسلسل یونیورسٹی کی چہار دیواری میں سنائی دیتی ہے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں؟ مادہ پرستانہ دانشوری کا سفر یہیں پر ختم ہو جائے گا؟ہر گز نہیں ،کل کو یہ بھی کہا جائے گا کہ قوم کی گاڑھی کمائی سے تعمیر ہونے والا مسجد کا اسٹرکچر صرف جمعہ وجماعت کے لیے خاص ہو؟اتنی بڑی عمارت صرف جزوقتی مصرف کے لیے رکھی جائے؟مسجد کا اسٹرکچر عصری تعلیم کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے،شادی ہال کا بھی یہ کام دے سکتا ہے، بس نمازوں کے اوقات کا خیال کرلیا جائے،مساجد آخر قوم کے نونہالوں کی مصلحت اورپبلک کے مفاد میں نہیں استعمال ہوں گے تو یہ اور کس مرض کی دوا ہیں؟پھر ایک طبقہ اس کی افادیت میں اردو اور انگریزی الفاظ کی ایسی کھچڑی پکائے گا کہ مسجدیں بھی داؤ پر لگ جائیں گی اور تعلیم کے نام پر تجارت مسجدوں میں فروغ پائے گی۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ آپ کے پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ کے مسئلے کے لیے دوسرے حل موجود ہیں،وہ استعمال کیجیے،مدارس کے ذمے داران طلبہ کو فاصلاتی تعلیم کی اجازت دیں اور امتحان کے لیے رخصت بھی دیں،بہت سے ادارے دے بھی رہے ہیں،یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ اپنی اس ضرورت کے لیے مدارس کو آزمائش میں ڈالیں جس کا متبادل آپ کے پاس موجود ہے،یہ آپ کا اپنا غم ہے اور مدارس پوری قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں۔
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد درد تنہا مرا غم غم زمانہ
اس پورے مقدمے کی بنیاد دنیاوی حرص و ہوس ہے،دین اور آخرت کا پہلو اس معاملے میں سرے سے مفقود نظر آتا ہے،جب کہ علم دین کا معاملہ اس عظیم جذبہ آخرت سے منسلک ہے جسے اللہ کی رضا اور خوشنودی کہاجاتاہے،تاہم گزر بسر کے لیے انسان مال ومنال سے بے نیاز نہیں ہوسکتا،لہٰذا علماء بھی بقدر ضرورت تنخواہ پاتے ہیں جسے بہت معقول تو نہیں کہاجاسکتا ہے لیکن بہت خراب بھی نہیں کہاجاسکتا ہے،دھیرے دھیرے دینی دائرے میں رہتے ہوئے ان کے لیے بھی راہیں کھل رہی ہیں،بعض علماء اپنی محنت اور صلاحیت کے ذریعے بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں، خوشحال اور آسودگی انہیں میسر ہے،لیکن سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم ترک دنیا کی دعوت دے رہے ہیں،رہبانیت کو پرموٹ کررہے ہیں،خدمت دین کے ساتھ ضرورت بھر رزق میسر آجانا یہ بہتر ہے یا خدمت دین ودعوت جیسے انبیائی مشن سے لاتعلق ہوکر دنیا کسبی کو مطمح نظر بنا لینا اچھا ہے؟اگر نبی اور خلفائے راشدین اور اصحاب صفہ نے زہد وقناعت کی زندگی کو ترجیح دی ہے تو ایک طبقے کو نبی کے اس اسوے پر قائم رہنے دیا جائے،طالبان علوم نبوت اس نبوی اسوے کے حقیقی امین ہیں جو احادیث میں بڑے تواتر سے بیان ہوئی ہیں،کئی دنوں تک نبی کے گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا،دو کالی چیزوں کھجور اور پانی پر گزارہ ہوتا تھا،حضرت عمر کے کپڑے میں بارہ پیوند ہوا کرتے تھے،کیا ان کی زندگیاں یکسر صرف کتابوں کے اوراق میں سمٹ جائیں گی؟یا دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہونے چاہیے جو ان مثالوں کے مصداق نظر آئیں،ماناکہ حالات اب بہت بدل چکے ہیں لیکن فراوانی کے اس ترقی یافتہ دور میں علماء کی معاشی ابتری انہی عظیم الشان مثالوں سے جوڑ کھاتی ہے ،علم دین جیسے اخروی معاملے میں دنیاوی حرص وہوس کی وکالت کرنا اور دعوت دینا زندگی کے اصل مقصد سے چشم پوشی کرنا ہے،تاریخ کے ہر دور میں علم دین کی خدمت کے سا تھ فقر ومسکنت کو اپنا شعار بنایا گیا ہے،اس نبوی روایت کا یہی فطری تسلسل ہے جس کے چند نمونے ہر زمانے اور ہر دور میں زندگی کا حصہ نظر آتے ہیں،اس لئے یہ تجاویز اس نظام میں گھس پیٹھ کے ہم معنی ہے جو اللہ کی حکمت تخلیق کا حصہ ہے۔
خوبصورت مستقبل کا سبز باغ دکھا کر ایک بڑی تعداد کو اگر مدارس سے پھیر دیا گیا تو خدمت دین کے مناصب اور پیشۂ تدریس کے مسندوں کو ویران ہونے سے کون بچائے گا؟کیا یہ فکر اورتشویش کی چیز نہیں ہے؟کیا امامت، دعوت اور تدریس کے مناصب کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟عصری علوم کی فصل تو لہلہارہی ہے،اس کے فضائل گنانے کی ضرورت نہیں ہے،لوگ جوق در جوق آرہے ہیں،لمبی چوڑی فیسیں بھی دے رہے ہیں لیکن مدارس میں طلبہ کی گھٹتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اس طرح کی غیر دانشمندانہ بحثیں اندھیرے کو مزید گہرا کرتی ہیں،مدارس کے لیے ایک نئے بحران کو دعوت دیتی ہیں،مشورہ دینے والے یہ بھی تو مدنظر رکھیں کہ مدارس کے اہل حل وعقد بھی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں،ان میں بھی تو مدارس کے معاملات ومسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہے،کیوں نا یہ معاملہ ان پر ہی چھوڑ دیا جائے،ان کے تئیں حسن ظن رکھا جائے،آپ ہمارے لیے مفت کے مشورے اس تحکم کے ساتھ دے رہے ہو کہ اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے تو ہمارے بھی آپ کی نام نہاد دانش گاہوں کے بارے میں ملاحظات ہیں،کیا آپ کے ارباب حل وعقد ان کو خاطر میں لائیں گے،اگر نہیں تو آپ بھی یہ شعر گنگنائیے اور سوچئے کہ مدارس کو آپ کے نایاب مشوروں پر کیوں عمل کرنا چاہیے؟
یہ مدرسہ ہے ترا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں
٭٭٭