-
قوتِ بیان کا صحیح استعمال کریں عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ‘‘
ترجمہ : ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے خیر وبھلائی کی بات کہنا چاہیے یا خاموش رہنا چاہیے‘‘
[صحیح البخاری:۶۴۷۵،صحیح مسلم:۴۷]
تشریح : اللہ کی بے شمار نعمتیں ہیں اور ہر نعمت اپنی مثال آپ ہے، انسان اللہ کی نعمتوں کو شمار ہی نہیں کرسکتا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوهَا}
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کرسکتے ‘‘
[النحل:۱۸]
انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت بیان بھی ہے، جن سے انسان اپنے دل اور دماغ کے افکار وخیالات کو ظاہر کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کاذکر قرآن میں یوں کیا ہے:
{خَلَقَ الْإِنسَانَ۔عَلَّمَهُ الْبَيَانَ}
’’اسی (رحمن)نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا‘‘
[ الرحمٰن :۳۔۴]
یہ ایک بڑی خوبی اور کمال ہے اور لائقِ تعریف صفت ہے،ہر مخلوق کو گفتگو، حسنِ تکلم اور قوتِ بیان عطا نہیں کیا گیا ہے،گفتگو کرنا، بات کرنااور اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنا یہ اللہ اور فرشتوں اور انس وجن کی خوبی ہے، لہٰذا ہمیں اس پر اللہ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور زبان کا درست استعمال کرنا چاہیے، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں رہنمائی کی گئی ہے۔
زبان سے نکلنے والے کلمات بہت زود اثر ہوتے ہیں، یہ آپ کی تکریم کا سبب بنتے ہیں اور انہی کلمات سے آپ کی دنیا وآخرت دونوں برباد بھی ہوسکتی ہے،آپ کی نیکیاں ضائع ہوسکتی ہیں، بلکہ ایمان بھی ضائع ہوسکتا ہے، لہٰذا عقل مندی اور سمجھ داری اسی میں ہے کہ ہم اس کا درست استعمال سیکھ لیں۔
پیارے نبی ﷺ نے اس حدیث میں صرف خیر وبھلائی کی گفتگو کی اجازت دی ہے، کیونکہ اس میں بے شمار خیر موجود ہے جیسے کوئی شخص کسی کو اسلام کی دعوت دے اور توحید وسنت کی تعلیم دے تو اس سے بہتر کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی ہے :
{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَي اللّٰهِ }
’’اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے‘‘
[فصلت :۳۳]
ایک بندہ سبحان اللہ اور الحمد للہ کہے تو اس کا ثواب میزان کو بھر دیتا ہے۔اور ایک شخص اپنے والدین کے ساتھ نرم گفتگو کرے تو رب العزت کے حکم کی تعمیل اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔
لہٰذا زبان کو روک کر رکھیں، مختصر گفتگو کریں، بولنے سے پہلے الفاظ اور لہجے کو چانچ لیں اور صرف بھلی باتیں کریں، اور غصہ کی حالت میں بالکل خاموش ہوجائیں، بغیر علم کے کسی کے بارے میں کوئی بھی رائے نہ دیں۔ خاموشی میں ہی نجات ہے، کتنے بدنصیب ایسے ہیںجو صرف اپنے آوارہ اور بے لگام زبان کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بن جائیں گے،دنیا وآخرت کی سعادت زبان کی حفاظت میں ہے،اور جن کی زبان کنٹرول میں نہیں ہے ان کا حال ومستقبل اور آخرت سب خطرے میں ہے۔اللہ ہم سب کو خیر بولنے اور شر سے رکنے کی قوت اور توفیق عطا فرمائے ۔آمین
فوائد :
۱۔ ایمان باللہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
۲۔ آخرت پر ایمان کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔
۳۔ ایمان ایک مومن کے لیے سب سے بڑااعزاز ہے۔
۴۔ ایمان کا حوالہ دے کر نصیحت کرنا اسلامی اسلوب ہے۔
۵۔ اعمال میں بندوں کو اختیار اور طاقت ہے۔
۶۔ اسلام خیر پسند ہے اور خیر کی گفتگو کا داعی بھی ہے۔
۷۔ زبان پر کنٹرول کرنا انسانی استطاعت میں ہے۔
۸۔ قوتِ گویائی اللہ کی نعمت ہے اور اسے خیر میں استعمال کرنا شکرگزاری ہے۔
۹۔ خاموشی ایک فن ہے۔
۱۰۔ خاموشی میں نجات ہے، دنیا وآخرت میں کامیابی کا اصول یہی ہے کہ خیر بولیں یا خاموش رہیں۔
٭٭٭