-
سلام کے فضائل و محاسن اس دار فانی میں رہنے والا ہر انسان اپنی زندگی کے ہر ہر لمحہ میں اللہ کی طرف سے ملنے والے امن اور سلامتی کا محتاج ہے ، اس کے بغیر انسان کی زندگی خواہ دنیاوی ہو یا اخروی کسی عذاب سے کم نہیں ، کیونکہ حقیقی معنوں میں امن وسلامتی عطا کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ رب العالمین ہی کی ذات ہے، اسی وجہ سے اللہ کے اسماء حسنیٰ میں ’’المؤمن‘‘ اور’’ السلام ‘‘بھی شامل ہیں ، اور اس کائنات کے انسانوں میں پوری انسانیت کے لیے امن وسلامتی والے لوگ بالخصوص اللہ کے مومن بندے ہی ہیں ، جو پوری انسانیت کو اپنے قول و کردار اور گفتار سے اسلام کے امن وشانتی اور اخوت و ہمدردی کا پیغام ہر وقت بانٹتے رہتے ہیں ، جیساکہ محمدعربی رسول رحمت ﷺنے مومنوں کی پہچان بیان کرتے ہوئے فرمایا:
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:’’الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ اَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰي دِمَائِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ ہوں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال کے بارے میں اطمینان رکھیں‘‘
[سنن نسائی:۴۹۹۵ قال الالبانی صحیح]
رحمۃ للعالمین محمد عربیﷺنے اپنے ماننے والے جملہ اہل اسلام کو اس بات کا تاکید ی حکم دیا ہے کہ جب وہ ایک دوسرے کو ملیں تو آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کریں مگر اس کے باوجود مسلم اکثریت دن بدن سلام جیسی عظیم سنت سے دور ہوتی جارہی ہے اور دورحاضر میں اکثر مسلمان صرف اور صرف اپنے جان پہچان والے ہی کو سلام کرتے ہیں ، جسے محمد رسول اللہ ﷺنے قیامت کی نشانی قرار دیا ہے ،اس لیے میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں سلام کے فضائل و محاسن سے متعلق چند باتوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ جو مسلمان سلام کرنے کو اپنے اوپر ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور آپس میں سلام کرنے سے بدکتے ہیں ، یا کسی کو سلام کرنے میں اپنی حقارت اور توہین سمجھتے ہیں ، وہ اس مضمون کے ذریعہ سلام کی اہمیت وفضیلت اور اس کے مقام کو سمجھ کر سلام جیسے عظیم الشان تحفہ ء محبت کو مسلم سماج و معاشرہ میں عام کرنے والے بن سکیں۔
سلام کا لغوی معنیٰ: سلام عربی لغت میں مصدر ہے’’ سلم ‘‘سے جو ناپسندیدہ چیزوں سے امان اور نجات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے :’’سلم من الامر فلاں‘‘’’فلاں شخص معاملہ سے نجات پا گیا‘‘
[معجم مقاییس اللغۃ: ج:۳، ص:۶۸، ابن فارس]
سلام کا شرعی معنیٰ: شریعت میں سلام ایسا لفظ ہے جس کے ذریعہ عیوب سے برات کا معامہ مراد لیا جاتاہے ۔ [بدائع الفوائد لابن قیم الجوزیۃ: ج:۲، ص:۹۹،ط عالم الفوائد]
اسی طرح کلمہ ء سلام تحیہ کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے ، جیسے کہ اسلا م کا تحیہ ، اہل جنت کا تحیہ۔
جب کوئی مسلمان شخص لوگوں سے ملاقات کرتا ہے یا انہیں الوداع کہتا ہے تو کہتا ہے’’السلام علیکم‘‘ جس کا معنیٰ ہوتا ہے، اے میرے بھائی تمہارے لیے میری طرف سے سلامتی ہے ، اس کے بعد سلام کیا جانے والا شخص بھی اپنے سلام کرنے والے بھائی کے لیے ’’وعلیکم السلام‘‘ کہتا ہے۔
اور جب علیہ السلام کہا جاتا ہے تو اس کا معنیٰ ہوتا ہے کہ فلاں شخص پر اللہ کی رحمت وسلامتی ہو۔
اسی طرح سلام اللہ کے اسماء حسنی ٰمیں سے بھی ہے ، جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:
{هُوَ اللّٰهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ }
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ بادشاہ ہے ،نہایت پاک ہے ،سب عیبوں سے صاف ہے‘‘
[ سورۃ الحشر: ۲۳]
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ رب العالمین نے اپنے آپ کو ’’سلام‘‘ کہا ہے جس کامعنیٰ یہ ہے کہ مخلوقات کے اندر جو عیوب و نقائص پائے جاتے ہیں اللہ کی ذات ان تمام طرح کے عیوب و نقائص سے بالکل پاک ہے ۔
سلام کے صیغے : السلام علیکم ،ورحمۃ اللّٰہ، وبرکاتہ۔
سلام کے مذکورہ صیغوں میں سے ہر ایک صیغہ پر دس نیکی ملتی ہے۔دلیل :
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ ’’جَائَ رَجُلٌ إِلَي النَّبِيِّ ﷺَ فَقَالَ:السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺَ:عَشْرٌ ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَالَ:عِشْرُونَ ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَقَال:السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَال: ثَلَاثُونَ‘‘
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:’’ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے ’’السلام علیکم ‘‘ کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا:اس کو دس نیکیاں ملیں پھر ایک اور شخص آیا، اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ ‘‘کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا:اس کو بیس نیکیاں ملیں پھر ایک اور شخص آیا اس نے’’ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ‘‘ کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا:اسے تیس نیکیاں ملیں‘‘
[سنن ابی داؤد:۵۱۹۵،قال الالبانی صحیح]
سلام کی تاریخ: سب سے پہلے سلام آدم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فرشتوں کو کیا ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:’’خَلَقَ اللّٰهُ آدَمَ عَلٰي صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَال:اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلٰي أُولَئِكَ، النَّفَرِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، فَقَالَ:السَََّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا:السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ، فَزَادُوهُ:وَرَحْمَةُ اللّٰهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الجَنَّةَ عَلٰي صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّي الآنَ‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام نے کہا:السلام علیکم!فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ، انہوں نے آدم کے سلام پر ورحمۃ اللہ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد و قامت کم ہوتا گیا، اب تک ایسا ہی ہوتا رہا‘‘
[صحیح بخاری :۶۲۲۷]
سلام کے فضائل وفوائد :
۱۔ سلام اللہ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے ۔جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:
{هُوَ اللّٰهُ الَّذِي لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ }
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بادشاہ ہے نہایت پاک ہے ،سب عیبوں سے صاف ہے‘‘
[الحشر: ۲۳]
۲۔ سلام کرنا محمدرسول اللہﷺ کی سنت ہے۔
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا، حَتَّي تُفْهَمَ عَنْهُ، وَإِذَا أَتَي عَلٰي قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلاَثًا‘‘
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبیﷺسے روایت کرتے ہیں کہ:’’ جب آپ ﷺ کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار لوٹاتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔ اور جب کچھ لوگوں کے پاس آپ ﷺ تشریف لاتے اور انہیں سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے‘‘
[صحیح بخاری :۹۵]
۳۔سلام اسلام کی عمدہ تعلیمات میں سے ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَيُّ الإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَال:’’تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلٰي مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ‘‘
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ:’’ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی سلام کرو‘‘
[صحیح البخاری :۱۲]
۴۔سلام کرنا مسلمانوں کے باہمی حقوق میں سے ہے ۔
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’خَمْسٌ تَجِبُ لِلْمُسْلِمِ عَلٰي اَخِيهِ رَدُّ السَّلَامِ، وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’پانچ حق ہیں مسلمان کے اس کے مسلمان بھائی پر۔ سلام کا جواب دینا اور چھینکنے والے کا جواب دینا اور دعوت قبول کرنا اور بیمار کی خبرگیری کرنا اور جنازے کے ساتھ جانا‘‘۔
[صحیح مسلم :۲۱۶۲]
۵۔ سلام کرنادخولِ جنت کے اسباب میں سے ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ:’’لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَقِيلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدِمَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدِمَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِاَنْظُرَ إِلَيْهِ فَلَمَّا اسْتَثْبَتُّ وَجْهَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ اَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، وَكَانَ اَوَّلُ شَيْئٍ تَكَلَّمَ بِهِ اَنْ قَال: اَيُّهَا النَّاسُ اَفْشُوا السَّلَامَ، وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ ‘‘
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:’’ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور کہنے لگے :اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں، پھر جب میں نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا، اور سب سے پہلی بات جو آپ نے کہی وہ یہ تھی لوگو!سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے‘‘
[سنن ترمذی:۲۴۸۵،قال الالبانی صحیح]
۶۔سلام مسلمانوں کے درمیان محبت پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّي تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّي تَحَابُّوا، اَوَلَا اَدُلُّكُمْ عَلٰي شَيْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم بہشت میں نہ جاؤ گے۔ جب تک ایمان نہ لاؤ گے اور ایماندار نہ بنو گے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو گے اور میں تم کو وہ چیز نہ بتلا دوں جب تم اس کو کرو تو تم آپس میں محبت کرنے لگو، سلام کو آپس میں عام کرو‘‘
[ صحیح مسلم :۵۴]
۷۔ سلام کرکے گھر میں داخل ہونے والے کو اللہ کی طرف سے خصوصی سلامتی ملتی ہے ۔
عَنْ اَبِي اُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’ثَلَاثَةٌ كُلُّهُمْ ضَامِنٌ عَلَي اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ فَهُوَضَامِنٌ عَلَي اللّٰهِ حَتَّي يَتَوَفَّاهُ، فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ اَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ اَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ رَاحَ إِلَي الْمَسْجِدِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَي اللّٰهِ حَتَّي يَتَوَفَّاهُ، فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ اَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ اَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ دَخَلَ بَيْتَهُ بِسَلَامٍ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَي اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تین قسم کے افراد ایسے ہیں جن کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے: ایک وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، دوسرا وہ شخص جو مسجد کی طرف چلا، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، تیسرا وہ شخص جو اپنے گھر میں سلام کر کے داخل ہوا، اللہ اس کا بھی ضامن ہے‘‘
[ سنن ابی داؤد: ۲۴۹۴،قال الالبانی صحیح]
مذکورہ روایت میں رسول اللہ ﷺنے تین ایسے خوش نصیب بندوں کا ذکر کیا ہے،جن کی حفاظت کی اللہ نے ذمہ داری لی ہے ، انہی تین خوش نصیب بندوں میں سے تیسرا وہ شخص ہے جو اپنے گھر میں سلام کرکے داخل ہوتا ہے ۔
نوٹ: دور حاضر میں ہمارے گھروں میں فتنوں کے داخل ہونے کاایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگ گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے گھر والوں کو سلام نہیں کرتے۔
۸۔ سلام ایک ساتھ تیس نیکیوں کے کمانے کابالکل آسان ذریعہ ہے ۔
اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ چند سیکنڈ میں تیس نیکیاں کمالے اور کسی بھائی کو سلامی رحمت وبرکت کی دعا بھی دے دے تو اسے چاہیے کہ سلام کرتے وہ تینوں صیغوں کا استعمال کرے۔دلیل :
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: ’’جَائَ رَجُلٌ إِلَي النَّبِيِّ ﷺ فَقَال:السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:عَشْرٌ ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَقَالَ:السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَال: عِشْرُونَ ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَقَال:السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَال: ثَلَاثُونَ‘‘
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:’’ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے ’’السلام علیکم ‘‘ کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:اس کو دس نیکیاں ملیں پھر ایک اور شخص آیا، اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ‘‘کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا:اس کو بیس نیکیاں ملیں پھر ایک اور شخص آیا اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ ‘‘کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا:اسے تیس نیکیاں ملیں‘‘
[سنن ابی داؤد:۵۱۹۵ ،قال الالبانی صحیح]
۹۔ جنت میں فرشتے جنتیوں کو سلام کریں گے ۔
{وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَي الدَّارِ}
’’ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے داخل ہوں گے کہیں گے تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کے بدلے کیا ہی اچھا بدلہ ہے اس دار آخرت کا ‘‘
[ سورۃ الرعد:۲۳۔۲۴]
۱۰۔جنت میں جنتی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے ۔
{لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا}
’’ وہاں وہ لوگ کوئی لغو بات نہیں سنیں گے صرف سلام ہی سلام سنیں گے ، ان کے لیے وہاں صبح و شام ان کا رزق ہوگا ‘‘
[سورہ مریم : ۶۲]
۱۱۔ جنت میں اللہ کی طرف سے جنتیوں کو سلام کہا جائے گا ۔
{سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ }
’’مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا ‘‘
[سورہ یاسین :۵۷]
علامہ قشیری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
۱۔ چونکہ جنتی جنت میں اللہ کا کلام وسلام ڈائریکٹ بلا کسی واسطہ کے سنیں گے اس لئے سلام کے بعد قولا کا تذکرہ کرکے اس کی مزید تاکید کردی ہے ۔ ۲۔ اللہ رب العالمین نے مذکورہ آیت کریمہ میں ’’من رب‘‘ کا تذکرہ کرکے اس بات کی بھر پور تاکید کردی کہ یہ سلام کوئی عام سلام نہیں ہے جیسے کوئی سفیر وغیرہ ملاقات کے وقت سلام کرتے رہتے ہیں ۔ بلکہ یہ سارے جہاں کے رب کی طرف سے سلام کہا جا رہا ہے ۔۳۔ اللہ رب العالمین نے رب کے ساتھ رحیم کا تذکرہ اس لیے فرمادیا کہ یہ اہل جنت کے لیے رب کے دیدار کا موقع ہوگا اس وقت اللہ ان کو سلام بھی کہے گا اپنی طرف سے تاکہ نعمت کی تکمیل ہوجائے ۔ ۴۔اللہ رب العالمین جنتیوں کو اپنا دیدارکراتے وقت سلام کرتے وقت اپنی رحمت کاتذکرہ اس لیے کیا ہے تاکہ دیدار کے وقت جنتیوں کو خوف و دہشت و حیرانی لا حق نہ ہو
۔[تفسیر القشیری:ج: ۳، ص:۲۲۲]
دعا ہے کہ رب کریم ہم تمام مسلمانوں کو اپنے درمیان سلام کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین