Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • امت محمدیہ کی خصوصیات و فضائل

    دور حاضر میں امت مسلمہ کا سیاسی وجود تقریباً ختم ہو چکا ہے، ان کی اقتصادیات غیر اقوام پر منحصر ہے،جہاں اقلیت میں ہیں وہاں ہم وطنوں کے ظلم کا شکار ہیں اور جہاں اکثریت میں ہیں وہاں ایک دوسرے کے قاتل خود بنے ہوتے ہیں۔دنیا کی ہر قوم امت ِمسلمہ پر ایسے ہی جھپٹ رہی ہے جیسے بھوکا شکاری اپنے پسندیدہ شکار پر آکر ،مسلمان ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو ان پر دہشت گردی کا الزام عائد کرکے مزید ظلم کا جواز پیدا کر لیتے ہیں۔
    قارئین کرام! یہ سورتیں کس لیے درپیش ہے؟ کیونکہ ہم نے اپنے مقام کو پہچانا نہیں،آلام و مصائب سے متعلق حکمت الہٰی کو سمجھا نہیں،امت مسلمہ کی حقیقت کو پہچانا نہیں،اللہ نے ہمارے اوپر کیا کیا انعامات کیے ہیں اسے جانا نہیں،اس امت کے کیا فضائل ہیں ہم نے غور کیا نہیں،اس زیرِ بحث مضمون میں صحیح احادیث کی روشنی میں بعض اہم اور قابل غور فضائل کو ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
    ۱۔ امت محمدیہ افضل ترین امت ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    {كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ}
    ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کو نیک بات کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکنے کے لیے پیدا کیے گئے ہو‘‘
    [آل عمران:۱۱۰]
    ابتدائے دنیا سے بہت سی امتیں پیدا ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و عدل سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی، جیسے بنواسرائیل اپنے وقت کی سب سے بہتر امت تھی لیکن انہوں نے معصیتِ الٰہی کا ارتکاب کرکے نعمتوں کو گنوا دیا ، پھر اللہ نے امتِ محمدیہ کو خیرِ امت کے لقب سے ملقب کر کے اس دنیا میں بھیجا۔
    ۲۔ آپ کا دور بنی آدم کا سب سے بہتر دور تھا:
    آپ ﷺنے فرمایا:
    ’’بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ، قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّي كُنْتُ مِنَ القَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ‘‘
    ’’مجھے انسانوں کے سب سے بہتر دور میں مبعوث کیا گیا چنانچہ صدی در صدی گزرتی گئی یہاں تک کہ وہ زمانہ آگیا جس میں میری بعثت ہوئی‘‘
    [صحیح البخاری:۳۵۵۷]
    گویا اس حدیث سے واضح پتہ چلتا ہے کہ امت محمدیہ کا دور دیگر انبیاء کے ادوار سے بہتر اور افضل ہے۔
    ۳۔ یوم جمعہ کی برکت سے نوازا:
    آپ ﷺ نے فرمایا:
    ’’مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلٰي يَوْمٍ خَيْرٍ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، هَدَانَا اللّٰهُ لَهُ وَأَضَلَّ النَّاسَ عَنْهُ‘‘
    ’’جمعہ کے دن سے بہتر کسی اور دن پر نہ سورج طلوع ہوتا ہے اور نہ ہی غروب ہوتا ہے اللہ نے ہمیں اس دن کے اہتمام کی توفیق بخشی اور دوسری امتوں کو اس سے محروم رکھا‘‘
    [مسند احمد:۱۰۷۲۳،صحیح]
    اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو جمعہ جیسا مبارک دن عطا فرمایا جو فضیلت دوسری امتوں کو حاصل نہیں تھا اور جمعہ کے دن کی فضیلت کسی شخص سے مخفی نہیں ہے۔
    ۴۔ امتِ محمدیہ کو آسان دین عطا فرمایا:
    وہ تمام سختیاں اور بوجھ جو اللہ کی طرف سے بطورِ آزمائش دیگر امتوں پر ڈالی گئی تھیں ان تمام امور سے امت محمدیہ آزاد ہے،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيْمَ }
    ’’اس نے تم کو برگزیدہ بنایا اور تم پر اس کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی (اس لیے) اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر جمے رہو‘‘
    [الحج :۷۸]
    ۵۔ امتِ محمدیہ کا حساب و کتاب سب سے پہلے ہوگا:
    آپ ﷺ نے فرمایا:
    ’’نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ، وَأَوَّلُ مَنْ يُحَاسَبُ، يُقَال:أَيْنَ الْأُمَّةُ الْأُمِّيَّةُ، وَنَبِيُّهَا؟ فَنَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ ‘‘
    ’’وجود کے اعتبار سے ہم سب سے آخری امت ہیں اور ہمارا حساب سب سے پہلے کیا جائے گا،قیامت کے دن پکارا جائے گا کہ کہاں ہیں اُمی امت اور اس کے نبی؟چنانچہ ہم زمانہ کے لحاظ سے تو سب سے آخر میں آئے ہیں لیکن ہمارا حساب سب سے پہلے ہوگا‘‘
    [سنن ابن ماجۃ:۴۲۹۰،صحیح]
    ۶۔ سب سے پہلے امتِ محمدیہ پل صراط پار کرے گی:
    نبی کریم ﷺنے فرمایا:
    ’’وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُهَا‘‘
    ’’جہنم کی پشت پر پل رکھا جائے گا میں اور میری امتی سب سے پہلے اس پر سے گزریں گے‘‘
    [صحیح البخاری: ۷۴۳۷]
    ۶۔ جہنم میں داخلہ سب سے پہلے امت محمدیہ کو حاصل ہوگا۔
    اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو جن فضائل سے نوازا ہے ان میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ جب اس امت کا حساب و کتاب سب سے پہلے ہوگا،پل صراط پر گزر سب سے پہلے ہوگا تو اس کے بعد کا مرحلہ یعنی دخول جنت میں بھی سبقت اسی امت کو حاصل ہوگی،آپ ﷺنے فرمایا:
    ’’نَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَنَحْنُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ‘‘
    ’’زمانے کے لحاظ سے تو ہم آخر میں آنے والے ہیں البتہ قیامت کے دن ہمارا فیصلہ سب سے پہلے ہوگا اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ‘‘
    [صحیح مسلم:۸۵۵]
    ۸۔ جنت میں آدھے لوگ امتِ محمدیہ کے ہوں گے:
    نبی کریم ﷺنے فرمایا:
    ’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، فَقَالَ:أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا ‘‘
    ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم (امت مسلمہ) تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہو گے۔ پھر ہم نے اللہ اکبر کہا ،تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہو گے پھر ہم نے اللہ اکبر کہا‘‘
    [صحیح البخاری: ۳۳۴۸]
    قارئین کرام! جنت جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے۔
    [آل عمران:۱۳۳]
    جنت جس کے دروازے کے دنوں پٹوںکے درمیان کی مسافت چالیس سال کی دوری ہے۔
    [مسند احمد: ۲۰۰۲۵،حسن]
    جنت جس کی لمبائی اور چوڑائی اس قدر ہے اور اس کے آدھی امت محمدیہ کے لوگ ہوں گے،ان تمام خصوص سے اس امت کی ایک بہت بڑی فضیلت کا پتہ چلتا ہے۔
    ۹۔ امت محمدیہ کے ستر ہزار سے زیادہ لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے:
    آپﷺ نے فرمایا:
    ’’هٰؤُلَائِ أُمَّتُكَ، وَمَعَ هَؤُلَائِ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ‘‘
    ’’یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بے حساب جنت میں داخل کیے جائیں گے ‘‘
    [صحیح البخاری: ۵۷۵۲]
    دوسری حدیث میں ہے کہ:
    ’’وَعَدَنِي رَبِّي سُبْحَانَهُ أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا، لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ، وَلَا عَذَابَ، مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا، وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ‘‘
    ’’ میرے رب نے وعدہ کیا ہے کہ میری امت کے ستر ہزار لوگوں کو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل کرے گا اور ہزار کے ساتھ ستر ہزار مزید ہوں گے اور مزید برآں میرے رب کے تین لپ اور بھی بلا حساب و کتاب جنت میں جائیں گے‘‘
    [سنن ابن ماجہ:۴۲۸۶،صحیح]
    ۱۰۔ امت محمدیہ امت مرحومہ ہیں:
    اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا جتنا حصہ اس امت کے لیے خاص فرمایا ہے کسی اور دوسری امت کو عطا نہیں فرمایا ہے۔
    آپ ﷺنے فرمایا:
    ’’أُمَّتِي هَذِهِ أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، لَيْسَ عَلَيْهَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَةِ، عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا الْفِتَنُ، وَالزَّلَازِلُ، وَالْقَتْلُ‘‘
    ’’میری امت پر اللہ کی خصوصی رحمت ہے،اس پر آخرت میں عذاب نہیں ہیں جیسا دوسری امتوں پر ہے،اس کا عذاب دنیا ہی میں باہمی جھگڑے،زلزلے اور قتل ہو جانے کی شکلوں میں ہے‘‘
    [سنن ابی داؤد:۴۲۷۸،صحیح]
    ۱۱۔ جنت میں عورتوں،بزرگوں اور جوانوں کے سردار امت محمدیہ کے افراد ہوں گے:
    امت محمدیہ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ جنت میں عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، نوجوانوں کے سردار حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما،اور بوڑھوں کے سردار حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہوں گے۔
    آپ ﷺ نے فرمایا:
    ’’أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ‘‘
    ’’ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے ادھیڑ عمر والے جنتیوں کے سردار ہوں گے‘‘
    [سنن ابن ماجہ:۹۵،صحیح]
    اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ با اعتبار دنیا جن کی موت بڑھاپے کی حالت میں ہوگی ان تمام کے سردار آپ دونوں ہوں گے،ورنہ جنت میں کوئی بوڑھا نہیں ہوگا۔اسی طرح آپ ﷺنے فرمایا:
    ’’أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَائِ أَهْلِ الجَنَّةِ‘‘
    ’’اے فاطمہ کیا تم کو یہ بات خوش نہیں کرتی ہے کہ تم جنت میں عورتوں کی سردار ہو‘‘؟
    [صحیح البخاری:۳۶۲۴]
    اسی طرح آپ ﷺنے فرمایا:
    ’’الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ‘‘
    ’’حسن و حسین اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہوں گے‘‘
    [سنن ترمذی:۳۷۶۸،ابن ماجۃ:۱۱۸،صحیح]
    ۱۲۔ امتِ محمدیہ کے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے اور مالِ غنیمت حلال ہے:
    آپ ﷺنے فرمایا:
    ’’أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي:نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْيُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِي المَغَانِمُ‘‘
    ’’مجھے پانچ خصلتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملی۔میرے لیے تمام روئے زمین کو نماز کی جگہ ہے اور پاکی کا ذریعہ بنایا گیا ہے،میرے لیے مال غنیمت کو حلال کیا گیا ہے ۔
    [صحیح البخاری:۳۳۵]
    ۱۳۔ امتِ محمدیہ مکمل گمراہ نہیں ہوسکتی:
    یہ عین ممکن ہے کہ سنت کے متبعین اور پیروکاروں کی تعداد کم ہو لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ پوری امت گمراہی کے راستے پر چل پڑے۔آپﷺ نے فرمایا:
    ’’إِنَّ اللّٰهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلٰي ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللّٰهِ مَعَ الجَمَاعَةِ‘‘
    ’’اللہ تعالیٰ میری امت کو کسی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے‘‘
    [سنن ترمذی: ۲۱۶۷، صحیح ]
    ۱۴۔ عمل کی مقدار کم لیکن اجر زیادہ ملے گا:
    اس امت کے لیے ایک بڑی نوازش یہ ہے کہ تھوڑے عمل کے بدلے اللہ تعالیٰ بہت بڑے اجر و ثواب سے نوازتا ہے۔مثلاً لیلۃ القدر کی عبادت کو ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر کیا۔(سورۃ القدر)یوم عرفہ کا روزہ رکھنے والوں کو دو سال کے گناہوں کا کفارہ عطا فرمایا ۔(سنن ابن ماجہ:۱۷۳۱ )
    جو شخص رمضان کے روزے مکمل کرنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اسے صیام الدہر کے اجر سے نوازا ۔ (صحیح مسلم:۱۱۶۴ )
    جس شخص نے عاشورہ کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے ایک سال کا گناہ معاف کر دیتا ہے۔ (مسلم:۱۱۶۲) حرم مکی کی ایک نماز دیگر جگہوں کی ایک لاکھ نماز سے افضل ہے،مسجد نبوی کی ایک نماز دیگر جگہوں (حرم مکی کے علاوہ) کی ایک ہزار نماز سے افضل ہے۔ (مسند احمد: ۱۵۲۷۱، اسنادہ صحیح علی شرط البخاری)
    امت محمدیہ پر پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی لیکن اس کا اجر پچاس نمازوں کے برابر قرار دیا ہے۔(صحیح مسلم باب الاسراء بالرسول۔۱۶۲)
    ۱۵ ۔ امتِ محمدیہ کو صفحہ ہستی سے کوئی نہیں مٹا سکتا:
    بہت سی ایسی قومیں ہیں کہ ان کا نام صرف تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں لیکن امت محمدیہ کو دنیا کی کوئی بھی طاقت مکمل نیست و نابود نہیں کرسکتی،تمام مشرکانہ اور ملحدانہ طاقت اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف اکٹھا ہوگئی ہیں لیکن اس کے باوجود اسلام نام کتنی تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے کسی سے مخفی نہیں ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے :صحیح مسلم: کتاب الفتن:حدیث نمبر:۲۸۸۹)
    ۱۶۔ امت محمدیہ کو فرشتوں جیسی صف بندی عطا کی:
    آپ ﷺنے فرمایا:
    ’’فُضِّلْنَا عَلَي النَّاسِ بِثَلَاثٍ: جُعِلَتْ صُفُوفُنَا كَصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ‘‘
    ’’ہمیں تین چیزوں میں دیگر امتوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح رکھی گئی ہیں‘
    [صحیح مسلم:۵۲۲]
    قارئین کرام! مذکورہ بالا صفات و فضائل کے علاوہ اور بھی بہت ساری خصوصیات ہیں لیکن ان تمام خوبیوں کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ہے۔
    امتِ محمدیہ کا فرد ہونا اور افضل الانبیاء کی امتی ہونا یہ محض فضل الٰہی ہے:
    {وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَائُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ}
    ’’اور تمہارا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ان میں سے کسی کو اختیار نہیں ہے‘‘
    [القصص:۶۸]
    لہٰذا ہمیں اس عظیم نعمت پر اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور خیرِ امت ہونے کا کا تقاضہ جو امر بالمعروف و النہی عن المنکر ہے اسے پورا کرنا چاہیے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں شکر گزاری اور بحسن وخوبی فریضے کی ادائیگی کی توفیق بخشے۔ آمین
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings