Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ (گیارہویں قسط )

    (ج): متن کے مرفوع ہونے سے انکار
    بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ متن مرفوع نہیں ہے۔کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ کے زمانے میں ایسا ہونے سے یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ تک بھی یہ بات پہنچی ہو اور آپ ﷺنے اس کا اقرار کیا ہو ، ابن حجررحمہ اللہ نے بعض کہہ کر یہ اعتراض نقل کیا ہے لیکن معترض کے نام کی صراحت نہیں کی ہے۔[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۳۶۵]
    جواباً عرض ہے کہ:
    اولاً:
    امام ابن القیم رحمہ اللہ (المتوفی۷۵۱) اس کا جوب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’هذا بهتان عظيم أن يستمر هذا الجعل الحرام المتضمن لتغيير شرع اللّٰه ودينه، وإباحة الفرج لمن هو عليه حرام، وتحريمه على من هو عليه حلال، على عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأصحابه خير الخلق، وهم يفعلونه، ولا يعلمونه، ولا يعلمه هو، والوحي ينزل عليه، وهو يقرهم عليه، فهب أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم – لم يكن يعلمه، وكان الصحابة يعلمونه، ويبدلون دينه وشرعه، واللّٰه يعلم ذلك، ولا يوحيه إلى رسوله، ولا يعلمه به، ثم يتوفي اللّٰه رسوله صلى اللّٰه عليه وسلم والأمر على ذلك، فيستمر هذا الضلال العظيم، والخطأ المبين عندكم مدة خلافة الصديق كلها يعمل به ولا يغير إلى أن فارق الصديق الدنيا، واستمر الخطأ والضلال المركب صدرا من خلافة عمر، حتي ر أى بعد ذلك برأيه أن يلزم الناس بالصواب فهل فى الجهل بالصحابة، وما كانوا عليه فى عهد نبيهم وخلفائه أقبح من هذا ‘‘
    ’’یہ بہت بڑا بہتان ہے کہ نبی ﷺ کے دور میں اللہ کی شریعت اور دین کی تبدیلی پر مبنی یہ حرام کام ہوتا رہا اور جو شرم گاہ جس پر حرام تھی اسے اس کے لیے حلال کیا جاتا رہا اور جس کے لیے حلال تھی اس کے لیے حرام کیا جاتارہا، یہ سب صحابہ کرتے رہے اورانہیں اس کے حرام ہونے کا علم نہ ہوا ،اور نہ ہی نبی ﷺ کو اس کی خبر ہوئی اور وحی نازل ہوتی رہی اور آپ ﷺ اس کا اقرار کرتے رہے ، ذرا فرض کیجیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو اس بات کا علم نہیں ہوا اور صحابہ اس مسئلہ کو ایسے ہی سمجھتے رہے اور اللہ کے دین و شریعت کو بدلتے رہے اور اللہ ان باتوں کو جانتا تھا لیکن اپنے رسول پر وحی کرکے ان باتوں سے باخبر و آگاہ نہیں کیا ، پھر آپ ﷺ کی وفات ہوجاتی ہے اور معاملہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے، اور تمہارے بقول یہ سنگین گمراہی اور واضح غلطی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پورے دورِ خلافت تک جاری رہتی ہے ، اس پر عمل کیا جارہا ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ان کی اصلاح نہیں کرتے ، یہاں تک کہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ، اور اس غلطی اور گمراہی کا سلسلہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور تک چلتا رہتا ہے ، اس کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو توفیق ملتی ہے کہ وہ اپنی رائے سے لوگوں کی اصلاح کریں ، تو بتلائیے کہ صحابہ کی لاعلمی اور عہدِرسالت اور عہد ِخلفاء میں صحابہ کی بدعملی کی اس سے بدترین کوئی مثال ہوسکتی ہے ؟‘‘
    [زاد المعاد، ن مؤسسۃ الرسالۃ:۵؍۲۴۶]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’وتعقب بأن قول الصحابي كنا نفعل كذا فى عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى حكم الرفع على الراجح حملا على أنه اطلع على ذلك فأقره ‘‘
    ’’اور اس اعتراض کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ صحابی کا یہ کہنا کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں ایسا کرتے تھے یہ راجح قول کے مطابق مرفوع کے حکم میں ہے ،یہ اس بات پر محمول ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی اور آپ ﷺ نے اس کا اقرار کیا ‘‘
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۳۶۵]
    محمود عالم صفدر اوکاڑوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
    (أنهم كانوا يفعلون فى زمان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم كذا) یہ بھی حکماً مرفوع ہی ہے ، یہ اس لیے کہ چونکہ صحابہ کو دینی امور کے متعلق آں حضرت ﷺ سے تحقیق کرنے کا نہایت شغف تھا ۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ آپ کو اطلاع کیے بغیر انہوں نے اس فعل کو کیا ہو ، علاوہ اس کے وہ وحی کا زمانہ تھا اس لیے اگر وہ فعل ناجائز ہوتا تو ممکن نہیں صحابہ اس کو ہمیشہ کریں اور بذریعہ ٔوحی روکے نہ جائیں ۔
    [قطرات العطر:ص:۲۴۸۔۲۴۹]
    عصر حاضر کے بعض دیوبندیوں نے اعتراض کرتے ہوئے یہ مثال دی ہے کہ عہدرسالت میں ایک موقع پر عماربن یاسر رضی اللہ عنہ نے جنابت کے بعد تیمم کرتے وقت پورے بدن پر مٹی ملی اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پانی نہ ملے پر نماز ہی نہیں پڑھی جیساکہ( صحیح بخاری حدیث نمبر ۳۳۸)میں ہے ۔
    عرض ہے کہ:
    یہ مثال خود ان کے خلاف ہے کیونکہ اسی حدیث میں یہ مذکور ہے کہ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی پھر آپ ﷺ نے تیمم کا صحیح طریقہ سکھایا، چنانچہ اس حدیث میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں:
    ’’فذكرت للنبي صلى اللّٰه عليه وسلم، فقال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم :إنما كان يكفيك هكذا فضرب النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بكفيه الأرض، ونفخ فيهما، ثم مسح بهما وجهه وكفيه ‘‘
    ’’تو میں نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے کہا:تمہارے لیے کافی تھا کہ تم اس طرح کرلیتے ، پھر آپ ﷺنے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پرمارا پھر ان میں پھونکا ،پھر انہیں چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر پھیرا‘‘
    [صحیح البخاری :۱؍۷۵رقم :۳۳۸]
    یہ حدیث تو اس بات کی دلیل ہے کہ نبی ﷺ کے زمانے میں صحابہ جو کرتے تھے اس کی اطلاع نبی ﷺ کو دی جاتی تھی اور اگر وہ کام غلط ہوتا تو نبی ﷺ اس کی اصلاح کرتے ۔
    ثانیاً:
    احناف یہ مانتے ہیں کہ فطرہ میں گیہوں کی مقدار نصف صاع ہے اور یہی صحیح بھی ہے ، امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش کیا ہے:
    امام طحاوی رحمہ اللہ (المتوفی۳۲۱)نے کہا:
    حدثنا فهد بن سليمان، وعلي بن عبد الرحمٰن قال:حدثنا ابن أبي مريم قال:أخبرني يحيي بن أيوب أن هشام بن عروة حدثه عن أبيه أن أسماء ابنة أبي بكر أخبرته :’’أنها كانت تخرج على عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عن أهلها الحر منهم والمملوك مدين من حنطة أو صاعا من تمر‘‘
    اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا :’’کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ کے دور میں اپنے گھرانے میں ہرایک کی طرف سے خواہ آزاد ہوں یا غلام ، دو مد (یعنی آدھا صاع )گیہوں یا ایک صاع کھجور نکالتی تھیں ‘‘
    [شرح مشکل الآثار:۹؍۲۷،رقم۳۴۰۸قال الالبانی اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین وھو کذلک]
    اس حدیث میں دیکھئے کہ اسماء رضی اللہ عنہا کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ عہد رسالت میں نصف صاع گیہوں فطرہ میں دیتی تھیں ، لیکن یہاں یہ دعویٰ نہیں کیا جاتا کہ اللہ کے نبی ﷺ کو اس کی اطلاع نہیں ملی بلکہ عہد رسالت کے حوالے کی بناپر اسے مرفوع ہی مانا جاتا ہے ، یہی معاملہ طلاق والی صحیح مسلم کی اس حدیث کا بھی ہے۔
    نیز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فطرہ میں اللہ کے نبیﷺکے حوالے سے صرف دو چیز کھجو راور جو کا ذکر کیا ہے۔
    [صحیح البخاری: ۲؍ ۱۳۰، رقم: ۱۵۰۳]
    لیکن ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
    ’’كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام، أو صاعا من شعير، أو صاعا من تمر، أو صاعا من أقط، أو صاعا من زبيب ‘‘
    ’’ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع طعام یعنی ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (کشمش)نکالا کرتے تھے‘‘
    [صحیح البخاری :۲؍۱۳۱،رقم:۱۵۰۶]
    یہاں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے عہدِ رسالت میں بطور فطرہ پنیر اور کشمش دینے کا بھی ذکرکیا ہے ، اور ابن حزم ظاہری نے اس پر بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ پنیر اور کشمش دینا اللہ کے نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے اور اس حدیث کے بارے میں کہا :
    ’’وهذا غير مسند ‘‘
    ’’ یہ حدیث مرفوع نہیں ہے ‘‘
    [المحلی لابن حزم، ت بیروت:۴؍۲۴۵]
    اور دوسری جگہ کہا:
    ’’إنه ليس من هذا كله خبر مسند، لأنه ليس فى شيء منه أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم علم بذلك فأقره ‘‘
    ’’ان میں سے کوئی حدیث مرفوع نہیں ہے کیونکہ ان میں سے کسی حدیث میں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺکو اس کا علم ہوا اور آپ ﷺنے اس کا اقرار کیا‘‘
    [المحلی لابن حزم، ت بیروت:۴؍۲۴۶]
    کیا خیال ہے ؟
    کیا اہل تقلید ابن حزم رحمہ اللہ کی طرح فطرہ میں صرف کھجور اور جو ہی دینے کو مرفوعاً ثابت مانیں گے اور پنیر ، کشمش اورگیہوں والی احادیث کے مرفوع ہونے کا انکار کردیں گے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر صحیح مسلم کی اس حدیث کے مرفوع ہونے کا انکار بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
    ثالثاً:
    اس بات کا صراحتاً ثبوت موجود ہے کہ نبی ﷺکے دور میں تین طلاق دی گئی اور آپﷺ کو اس کی اطلاع بھی ملی اور خود آپ ﷺ نے ان تینوں طلاقوں کو ایک قرار دیا،چنانچہ:
    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱)نے کہا:
    حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولي ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال:’’طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا فى مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: كيف طلقتها ؟ قال :طلقتها ثلاثا ، قال: فقال: فى مجلس واحد ؟ قال: نعم قال: فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت قال :فرجعها فكان ابن عباس: يرى أنما الطلاق عند كل طهر ‘‘
    عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:’’ کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی ﷺ نے ان سے پوچھا:تم نے کیسے طلاق دی ؟ انہوں نے کہا:میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے پوچھا:کیا ایک ہی مجلس میں ؟ انہوں نے جواب دیا:جی ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا:پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتویٰ دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی ‘‘
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۱؍۲۶۵رقم :۲۳۸۷ وإسنادہ صحیح]
    اس حدیث کی استنادی حالت پر تفصیلی بحث آگے آرہی ہے ۔
    اس حدیث کے سامنے آنے کے بعد اس دعویٰ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ عہد رسالت میں تین طلاق کو ایک ماننا نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے ، کیونکہ اس حدیث میں صراحتاً اس بات کا ثبوت موجود ہے اور یہ حدیث یہ بھی واضح کردیتی ہے کہ نبی ﷺ کے فرمان ہی کی بناپر عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں تین طلاق کو ایک مانا جاتا تھا ۔
    (جاری ہے۔۔۔۔۔)
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings