Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • وقت فرصت ہے کہاں،کام ابھی باقی ہے

    قارئین کرام!
    مجلہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچنے تک بچوں کی چھٹیوں کا دور شروع ہوچکا ہوگا،اس لیے تعطیل کے بارے میں چند باتیں گوش گزار کی جاتی ہیں،در اصل چھٹی اور تعطیل ہمارے معمول کی زندگی کا حصہ ہیں،تعطیل سے تازگی اور بشاشت آتی ہے،تکان کی جگہ ایک نیا جوش اور ولولہ عود کرآتا ہے،عمل مسلسل سے پیدا ہونے والی کبیدگی اور افسردگی جاتی رہتی ہے،بچے بھی تعلیمی مصروفیات سے فارغ ہوکر نئے تعلیمی مرحلے کے لیے تفریح و نشاط سے بھرپور ہوتے ہیں،قید وبند سے آزادی ملتی ہے اور روح کھلی فضا میں پرواز کرتی ہے،واضح رہے کہ چھٹی صرف وقت گزاری کا نام نہیں ہے جیسا کہ آج سمجھ لیا گیا ہے،نبی رحمت ﷺ نے بھی اس انسانی افتاد طبع کا تذکرہ اپنے فرمان میں کیا ہے،آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
    ’’نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ‘‘
    ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ،صحت اور فراغت ‘‘۔
    [بخاری :کتاب الرقاق: باب ماجاء فی الصحۃ والفراغ]
    مشاہدہ کہتا ہے کہ چھٹی ایک بے ہنگم دورانیہ بن کر ہمارے زندگی میں رہ گئی ہے،وقت، مال اور صحت کی بربادی کا دوسرا نام چھٹی ہے،آپ ہائی سوسائٹی کی چھٹیوں پر نظر ڈالیں گے تو مال کے اسراف کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ جائیں گے،پھر وہ خبر بھی مسئلے کی سنگینی کو بتاتی ہے جو مہاراشٹر کے ایک فارم ہاؤس میں ڈرگس کے ساتھ نوجوان طلبہ کے پکڑے جانے سے متعلق ہے،تذکرہ اس لیے کہ ان میں ایک بڑی تعداد مسلم بچوں اور بچیوں کی تھی،ویکیشن کلچر ترقی کرتے ہوئے کہاں پہنچ چکا ہے آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے؟ ہم مانتے ہیں کہ طویل مصروفیات طبیعت کو سیر وتفریح کی طرف راغب کرتے ہیں،جسم کی کسل مندی گھومنے پھرنے کی متقاضی ہوتی ہے،مختلف مقامات کی زیارت اور رشتے داروں سے ملاقات سے جسم و روح میں تازگی کے نوع بہ نوع پھول کھلتے جاتے ہیں،دل ودماغ پر پڑی دھند کافور ہوجاتی ہے،یہاں تک تو بات ٹھیک تھی،لیکن پوری تعطیل بس اسی طرح کی وقت گزاری کی نذر ہوجائے،تعطیل بس ایک تعطل بن کر رہ جائے،ہر چہار جانب انارکی اور انتشار کا غلبہ ہو،پوری بستی کھیل کے میدان میں تبدیل ہوجائے ، سوسائٹی بچوں کے شور و ہنگامے سے ہلتی ہوئی محسوس ہو،دروازے اور کھڑکیوں کے شیشے ان کے خوف سے لرزاں و ترساں ہوں،راہ گیروں کے عینک اور بزرگوں کے منحنی پیکر ان کے آوارہ گیندوں سے محفوظ نہ ہوں،گلی محلوں کا سکون غارت ہوجائے،بچے گھر کا رخ صرف کھانے اور سونے کے لیے کرتے ہوں،باقی اوقات گھر سے باہر کی مٹرگشتی میں برباد کر رہے ہوں،یہ تو ان بچوں کی کہانی ہے جو گھر کی چہار دیواری میں سامان عیش و طرب نہ پاتے ہوں۔
    جرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن
    پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو
    بسمل عظیم آبادی
    البتہ جنہوں نے اپنے بچوں کو موبائل اور دوسرے آلات دے رکھے ہیں،ان کی کہانی ذرا الگ قسم کی ہے،وہ دن رات موبائل کی اسکرین سے چپکے رہتے ہیں،یہاں تک کہ جو کچھ باہر کی دنیا میں ہورہا تھا وہ موبائل کی اسکرین پر ہونے لگتا ہے،الغرض جو بچے موبائل اور ٹیب سے محروم ہیں وہ گلی اور میدانوں میں خوار ہوتے ہیں اور جو اس نعمت سے سرفراز ہیں وہ جدید دور کی برکت سے باہر کی دل آرامیاں گھر کی چہار دیواری میں سمیٹ لاتے ہیں،موبائل کے جنون نے بچوں کو کس راہ پر ڈال دیا ہے؟یہ بڑی تشویش کی بات ہے،ذرا تصور کیجیے کہ آپ کے بچوں کے وقت اور تعلیم کا اس ایجاد نے کیا حشر کیا ہے؟آپ کیا کریں گے؟جب بچہ گھر سے نماز کے لیے نکلتا ہے لیکن مسجد اور گھر کے درمیان کسی کمین گاہ میں موبائل سے شوق پورا کرنے لگتا ہے،آپ سمجھتے ہیں وہ نماز کو گیا ہے حالانکہ وہ چھپ کر موبائل کی اسکرین پر اپنی شرافت اور آپ کے اعتماد کو جلاکر خاکستر کررہا ہے،آپ کیا کرسکتے ہیں؟جب بچہ بظاہر چادر ولحاف میں سورہا ہے لیکن چادر اور لحاف کے نیچے موبائل کی اسکرین چم چم کررہی ہے،مسئلے کی سنگینی کو سمجھئے اور اس اخلاقی بحران سے نئی نسل کو نکالنے کی کوشش کیجیے۔
    میں کہہ یہ رہا تھا کہ کیا چھٹی صرف اپنے وقت کو بے رحمی سے ضائع کردینے کے لیے ہے؟اس کا کوئی مفید مصرف نہیں ہے؟کوئی بھی صحت مند اور سلیم الفطرت شخص اسے درست نہیں کہہ سکتا ہے،اسلام نے وقت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے،اس کی قدر وقیمت کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے،اللہ کے نبی ﷺ کی ایک حدیث سے بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
    ’’لَا تزولُ قَدَمَا عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّي يُسألَ عن أربعٍ عَن عُمُرِه فيما أفناهُ، وعن جسدِهِ فيما أبلاهُ، وعن عِلمِهِ ماذا عَمِلَ فيه،ِ وعن مالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وفيما أنفقَهُ‘‘
    ’’آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے۔اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا‘‘
    [ ترمذی: ۲۴۱۶،صحیح]
    عمر اور جوانی کے بارے میں سوال دراصل وقت کی بابت سوال ہے،لہٰذا ہم اپنی زندگی کے ہر پل کے بارے میں اللہ کے یہاں مسئول ہیں خواہ وہ مشغولیت ہو یا تعطیل کے ایام ہوں،یعنی ہماری چھٹیاں بھی سوال کے گھیرے میں آتی ہیں،اس لیے چھٹی کو وقت گزاری سے بچاتے ہوئے مفید کام میں لگانا چاہیے،بچوں کی چھٹیوں کو چند امور بروئے کار لا کر مفید بنایا جاسکتا ہے۔
    (۱) چھٹی کے دنوں میں بچوں کی دینی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دینا چاہیے،اسکول کے دنوں میں اسکول اور کلاسیز کے چکر میں بچہ بمشکل تمام ناظرہ قرآن کے لیے وقت نکال سکتا ہے،جبکہ دینی تعلیم اس سے بھی آگے کی چیز ہے،اسکول کی تعطیل نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ آپ بچے کو کما حقہ دینی تعلیم سے روشناس کرسکیں،ایک بہترین ٹیوٹر کے ذریعے ٹھوس دینی تعلیم کا بندوبست کرنا چاہیے،بچے کوعقیدہ، قرآن،وضو،نماز ،اسلام کی بنیادیں،سیرت اور اسلامی واقعات کی تعلیم سے آراستہ پیراستہ کرنا چاہیے۔
    (۲) پنج وقتہ نمازوں کی پابندی اور اس پر عمل درآمد کرانا بہت ضروری ہے،اس میں بہرصورت کوتاہی سے بچے کو پوری طرح سے بچائیں،گھر سے مسجد تک بچے کی نگرانی ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب والدین بھی صوم وصلاۃ کے پابند ہوں۔
    (۳) بچوں کی بہترین صحت کے لیے ورزش اور بدنی ریاضت بھی بہت ضروری ہے،بلکہ کوشش ہوکہ ایک وقت متعین کرکے اپنے اسکول اور پڑھائی کے دنوں میں ہمیشہ ورزش کرتے رہنا چاہیے،اس سے بدن مضبوط ہوگا،جسم توانا ہوگا،سلف اپنے بچوں کو مضبوط اور قوی بنایا کرتے تھے،وقت کے رائج کھیل کود کے فن سے بقدر ضرورت انہیں وابستہ رکھتے تھے،مگر کھیل وہی منتخب کیا جائے جو محنت طلب ہو،جسم کو مشقت میں ڈالنے والا ہو،صرف تفریح مقصود نہ ہو،یہ ہماری روایت ہے،ہم اس سے پہلو تہی نہیں کرسکتے۔
    (۴) بچوں کو کلی طور پر تعلیم سے لاتعلق رکھنا عقلمندی نہیں ہے،چھٹی ہے تو کیا ہوا،اسکول سے چھٹی ہے پڑھائی سے تو چھٹی نہیں ہے،بعض اسکولوں میں چھٹی کا ہوم ورک دیتے ہیں،دینا بھی چاہیے،ساتھ ہی بچوں کو غیر نصابی کتابوں کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے کیونکہ پڑھائی کے ایام میں ایک طالب علم نصاب کی چہار دیواری میں بند ہوکر زندگی گزارتا ہے ، نصاب سے باہر کی دنیا سے وہ کیسے واقف ہوگا؟خارجی مطالعہ سے ہی ایک طالب علم کتاب کے حصار سے باہر دیکھ پاتا ہے۔
    (۵) ایک اہم کام چھٹی میں یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کسی ایسے مضمون اور سبجیکٹ میں طالب اضافی محنت کرے جس میں وہ کمزور واقع ہوا ہے،بعض طالب علم کسی کسی سبجیکٹ میں نسبتاً کمزور ہوتے ہیں،چھٹی میں اگر کسی ٹیوٹر یا تعلیم یافتہ ماں باپ کی نگرانی میں محنت کرلیا جائے تو کمزوری دور ہوسکتی ہے،ظاہر ہے عام دنوں میں طالب اس سبجیکٹ میں خصوصی محنت نہیں کرسکتا،اس کے لیے طویل چھٹیاں ہی بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔
    (۶) سمر کیمپ بھی ویکیشن کا مفید مصرف ہیں،طلبہ کو مستند اداروں کی طرف سے منعقد کیے گئے سمر کیمپ میں باقاعدگی سے شریک ہونا چاہیے،وہاں کی ہدایات کے مطابق عمل کرنا چاہیے،ادھر چند سالوں سے چھٹیوں میں سمر کیمپ کے انعقاد کا مفید سلسلہ چلا ہے،الحمدللہ اس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
    (۷) چھٹیوں میں دینی پروگراموں اور مجالس سے استفادہ بھی حسب استطاعت ہونا چاہیے،پروگرامز تعلیم و تربیت اور شخصیت سازی کا بہترین ذریعہ ہیں،مختصر وقت میں اجلہ علماء اور معیاری دروس سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
    مدارس کے طلبہ بھی ان تجاویز سے مستفید ہوسکتے ہیں،مدارس کے طلبہ بھی چھٹی کو ضائع کرنے کے بجائے اسے کار آمد بنانے کی کوشش کریں،پوری چھٹی تعلیم سے لاتعلق ہوکر گزارنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پڑھی ہوئی چیزیں ذہن سے ایسے محو ہوجائیں گی جیسے کبھی پڑھا نہیں تھا،فراغت کو غنیمت سمجھتے ہوئے احادیث حفظ کرلیں،قرآن کی سورتیں یاد کریں جو مستقبل میں قدم قدم پر کام آنے والی ہیں،میں تو کہتا ہوں کہ اہل مدارس طلبہ کو ایام تعطیل کا حساب لگا کر ہوم ورک دے دیا کریں، پھر واپسی پر امتحان لے کر اس کی افادیت کو یقینی بنائیں،وقت کی قدر و قیمت مسلم ہے،اس سے جتنی غفلت برتی جائے گی وہ اسی قدر خسارے کا ذریعہ ہوگا،گزرا وقت ایک ایسا خسارہ ہے جس کی بھرپائی ممکن نہیں ہے،یہ آپ کو کچھ دے کر جاتا ہے یا آپ سے کچھ چھین کر جاتا ہے،اس کی رفتار کو توڑا نہیں جاسکتا ہے اور نہ اس کے بڑھتے قدموں کو روکا جا سکتا ہے،اس کے دیئے گئے زخموں کا کوئی مرہم نہیں اور اس کی طرف سے پہنچائے گئے تلخیوں کا کوئی تریاق نہیں ہے، بس وقت کی رفتار اور چال کو کمال ہوشمندی سے اپنے حق میں ڈھالنے کی ضرورت ہے،اس شعر کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں۔
    سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
    گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings