Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سلام کے چند اہم اسلامی آداب
      بلاشبہ سلام کو عام کرنا اسلام کی انتہائی اہم اور عظیم الشان تعلیمات میں سے ہے، سلام مسلم سماج میں امن وشانتی ، الفت و محبت اور باہمی ہمدرددی و غمگساری عام کرنے کا لاثانی وسیلہ ہے ،سلام پوری کائنات کے مسلمانوں کے لیے ربِّ رحمان کی طرف سے ایک عمدہ سوغات اور انتہائی پاکیزہ و بابرکت تحفہ ہے ،سلام مسلمانوں کے لیے آپس میں ایک دوسرے کو امن و سلامتی کی دعا دینے کا بہترین کلمہ ہے ،اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت آپس میں ایک دوسرے کو سلام نہیں کرتی اور اگر کچھ مسلمان سلام کرتے بھی ہیں تو انہیں سلام کرنے کے مسنون آداب ہی نہیں معلوم، اس لیے میں نے اپنے اس مضمون میں سلام سے متعلق چند اہم اسلامی آداب کو جمع کیا ہے تاکہ مسلم سماج ومعاشرہ میں سلام جیسی عظیم سنت کو اس کے مسنون آداب کے ساتھ عام کیا جاسکے ۔وباللہ التوفیق۔
      (۱) سلام کے لیے مسنون صیغوں کا استعمال کیا جائے۔
      سلام کے مسنون صیغے تین ہیں :
      (۱) السلام علیکم
      (۲) السلام علیکم ورحمۃ اللہ
      (۳) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
      مذکورہ تینوں صیغوں میں جو صیغہ جتنا زیادہ بڑا ہے اس کا اجر بھی زیادہ ہے ۔
      عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا: السلام علیکم۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (اس کے لیے) دس نیکیاں ہیں، پھر ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (اس کے لیے) بیس نیکیاں ہیں، پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (اس کے لیے) تیس نیکیاں ہیں۔
      [سنن ترمذی:۲۶۸۹،قال الالبانی صحیح []
      (۲) سلام کے کلمات میں وبرکاتہ کے بعد ومغفرتہ ورِضوانہ وغیرہ جیسے کلمات کا اضافہ ثابت نہیں ۔
      سنن ابی دائو دمیں اس معنیٰ کی ایک روایت ہے مگر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے ۔
      معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺکے پاس ایک شخص آیا پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ ومغفرتہ ‘‘،تو آپ ﷺنے فرمایا: اسے چالیس نیکیاں ملیں گی، اور اسی طرح (اور کلمات کے اضافے پر) نیکیاں بڑھتی جائیں گی۔
      [سنن ابی داؤد:۵۱۹۶، قال الالبانی ضعیف]
      اتبا ع سنت کا تقا ضا یہی ہے کہ سلا م کر تے وقت و بر کا تہ کہنے تک اکتفا کیا جا ئے کیوں کہ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے:’’ اے ایمان وا لو ! اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺسے آگے مت بڑھو اور اللہ سے ڈرو‘‘۔[الحجرات:۱]
      (۳) سامنے کتنی بھی بڑی شخصیت ہو اسے جھک کر یا کھڑے ہوکر سلام کرنا جائز نہیں ۔
      جھکنا اس لیے جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنا رکوع کے مشابہ ہے اور رکوع صرف اورصرف اللہ کے لیے خاص ہے ، اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ یا صحابۂ کرام میں سے کسی سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے وقت جھکتے رہے ہوں ۔
      اورکسی استاذ ، جج، ذمہ دار یا کسی بڑے عہدہ دار کی آمد پر تعظیماً کھڑے ہونا جائز نہیں ۔
      معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے سامنے (با ادب) کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے‘‘۔
      [سنن ابی داؤد:۵۲۲۹، قال الالبانی صحیح ]
      انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ کوئی شخص انہیں یعنی (صحابہ) کو رسول اللہ ﷺسے زیادہ محبوب نہ تھا ۔کہتے ہیں: (لیکن) وہ لوگ آپ کو دیکھ کر (ادباً) کھڑے نہ ہوتے تھے، اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ ﷺ اسے ناپسند کرتے ہیں۔
      [سنن ترمذی:۲۷۵۴، قال الالبانی صحیح ]
      البتہ آگے بڑھ کر استقبال کرنا یا اٹھ کر ملنا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بنوقریظہ کا فیصلہ کرنے کے لیے جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور وہ قریب پہنچے تو فرمایا :’’قُومُوا إِلٰی سَیِّدِکُمْ، اَوْ خَیْرِکُمْ۔‘‘’’کہ اپنے سردار کو لینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ یا اپنے سب سے بہتر شخص کے لیے کھڑے ہو جاؤ‘‘۔
      [صحیح بخاری:۴۱۲۱]
      (۴) سلام اور اس کا جواب دونوں بآواز بلند اور واضح الفاظ میں ہونا چاہیے ۔
      علامہ ابن قیم الجوزیۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وَكَانَ يُسْمِعُ الْمُسْلِمَ رَدَّهُ عَلَيْهِ‘‘۔’’رسول اللہ ﷺ کوجب کوئی سلام کرتا تو اس کا جواب اس قدر بلند آواز سے دیتے کہ سلام کرنے والا اسے سن لیتا‘‘[زاد المعاد فی ہدی خیر العباد:ج :۲،ص:۳۸۳ موسسۃ الرسالۃ، بیروت ]
      عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: اَتَيْتُ مَجْلِسًا فِيهِ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عُمَرَ، فَقَالَ:’’ إِذَا سَلَّمْتَ فَاَسْمِعْ؛ فَإِنَّهَا تَحِيَّةٌ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبَارَكَةً طَيْبَةً‘‘
      ثابت بن عبید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مجلس میں حاضر ہوا ،اس وقت وہ فرمارہے تھے کہ :’’جب تم کسی شخص کو سلام کرو تو (بلند آواز سے سلام کرکے ) اسے سنادیاکرو کیونکہ سلام اللہ کی طرف سے آداب بجالانے کا مبارک اور پاکیزہ طریقہ ہے‘‘
      [سورۃ النور :۶۱][صحیح الادب المفر د للالبانی :۷۷۳]
      فائدہ: کچھ لوگ اتنی پست آواز میں اپنے سامنے والے مسلمان بھائی کو سلام کرتے ہیں کہ وہ سن نہیں پاتا اور نہ سننے کی وجہ سے اگر سامنے والا جواب نہیں دیتا تو سلام کرنے والے کے دل میں بدگمانی پیدا ہوجاتی ہے کہ دیکھو میںنے فلاں شخص کو سلام کیا لیکن اسے اپنی شخصیت پر اتنا غرور ہے کہ میرے سلام کا جواب دینے میں اپنی توہین سمجھ رہا ہے ، اس طرح یہ بدگمانی دومسلمان بھائیوں کے درمیان اختلاف کا سبب بن جاتی ہے، اس لیے سلام بھی بلند آواز اور واضح الفاظ میں کرنا چاہیے اور اس کاجواب بھی بلند آوازاور واضح الفاظ میں دینا چاہیے ،اور اگر ایک بار سلام کرنے سے کوئی جواب نہ دے تواپنی آواز تھوڑی اورزیادہ بلند کرکے اور قریب ہوکر دو یاتین بار سلام کرلینا چاہیے ، اگر تین مرتبہ سلام کرنے کے بعد بھی جواب نہ ملے تو واپس لوٹ آنا چاہیے۔
      ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ :’’میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے جیسے گھبرائے ہوئے ہوں، انہوں نے کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت چاہی لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا، اس لیے واپس چلا آیا (عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا) تو انہوں نے دریافت کیا کہ (اندر آنے میں) کیا بات مانع تھی؟ میں نے کہا کہ میں نے تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت مانگی اور جب مجھے کوئی جواب نہیں ملا تو واپس چلا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی سے تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جانا چاہیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ! تمہیں اس حدیث کی تاکید کے لیے کوئی گواہ لانا ہو گا۔ (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے مجلس والوں سے پوچھا) کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث سنی ہو؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ (اس کی گواہی دینے کے لیے جماعت میں سب سے کم عمر شخص کے سوا کوئی اور نہیں کھڑا ہو گا۔ ابوسعید نے کہا اور میں ہی جماعت کا وہ سب سے کم عمر آدمی تھا میں ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو گیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ واقعی نبی کریم ﷺنے ایسا فرمایا ہے‘‘۔
      [صحیح بخاری:۶۲۴۵]
      (۵) اجنبی اور پہچان والے ہر مسلمان کو سلام کرنا چاہیے۔
      عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم ﷺسے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو‘‘۔
      [صحیح بخاری: ۱۲]
      ایک روایت میں تو محمد رسول اللہ ﷺ نے صرف جان پہچان والے کو سلام کرنا قیامت کی نشانی قراردیا ہے ۔
      عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ إِنَّ مِنْ اَشْرَاطِ السَّاعَةِ اَنْ يُسَلِّمَ الرَّجُلُ عَلَي الرَّجُلِ، لَا يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلَّا لِلْمَعْرِفَةِ ‘‘
      ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:’’ یہ بات قیامت کی علامات میں سے ہے کہ انسان صرف اپنی جان پہچان کے آدمی کو سلام کیا کرے‘‘
      [مسند احمد : ۳۴۴۸،قال الالبانی صحیح:انظر:سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۶۴۸]
      (۶) اگر سامنے ایک ہی شخص ہو تو بھی جمع کا صیغہ استعمال کیا جائے۔
      عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا:ا لسلام علیکم۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: (اس کے لیے) دس نیکیاں ہیں۔
      [سنن الترمذی:۲۶۸۹،قال الالبانی صحیح]
      (۷) سلام کرتے وقت مصافحہ کرنا گناہوں کی بخشش کا ایک اہم سبب ہے :
      دلیل: براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور (سلام) و مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے‘‘۔
      [سنن ترمذی:۲۷۲۷،قال الالبانی صحیح]
      فائدہ: مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنا اور مصافحہ کرنا اگر ایک طرف دونوں میں محبت کا باعث ہے تو دوسری جانب گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی ہے۔
      (۸) بات چیت اور گفتگو سے پہلے سلام کیا جائے۔
      جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بات چیت شروع کرنے سے پہلے سلام کیا کرو‘‘
      [سنن ترمذی :۲۶۹۹، قال الالبانی صحیح]
      فائدہ : بہت سارے لوگ عجلت یا جلد بازی میں سلام کرنے سے پہلے گفتگو شروع کردیتے ہیں جو کہ خلاف سنت ہے، ہمیں اس سے بچنا چاہیے ۔
      (۹) گھر میںداخل ہونے اور نکلنے سے پہلے گھر والوں کو سلام کیا جائے۔(خواہ اپنا گھر ہو یا دوسرے کا )
      اللہ کا فرمان ہے:
      {فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلٰي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ}
      ’’ پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرلیا کرو، دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ، یوں ہی اللہ تعالیٰ کھول کھول کر تم سے اپنے احکام بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھ لو‘‘
      [النور:۶۱]
      ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تین قسم کے افراد ایسے ہیں جن کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے: ایک وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے، اللہ اس کا ضامن ہے اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، دوسرا وہ شخص جو مسجد کی طرف چلا، اللہ اس کا ضامن ہے اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، تیسرا وہ شخص جو اپنے گھر میں سلام کر کے داخل ہوا، اللہ اس کا بھی ضامن ہے‘‘۔
      [سنن ابی داؤد: ۲۴۹۴،قال الالبانی صحیح]
      (۱۰) اگر ایسے گھر میں داخل ہونا پڑے جس میں کوئی بھی شخص موجود نہ ہوتو اس طرح سلام کرے ۔
      ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا، وَعَلٰي عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنْ‘‘
      ’’ سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر ‘‘
      [صحیح الادب المفرد :۸۱۰]
      (۱۱) کسی مسلمان بھائی سے مڈ بھیڑ ہو تو سلام میں پہل کیا جائے کیونکہ اس سے اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے ۔
      ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پوچھا گیا: ’’اللہ کے رسول! جب دو آدمی آپس میں ملیں تو سلام کرنے میں پہل کون کرے؟ آپ نے فرمایا: ان دونوں میں سے جو اللہ کے زیادہ قریب ہے (وہ پہل کرے گا)‘‘۔
      [سنن ترمذی:۲۶۹۴،قال الالبانی صحیح]
      فائدہ: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ سے جس کا زیادہ لگاؤ اور تعلق ہو گا اس میں تواضع اور خاکساری بھی زیادہ پائی جائے گی، اس لیے وہ سلام کرنے میں بھی پہل کرے گا۔
      (۱۲) کسی مسلمان بھائی سے دیوار کی اوٹ یا درخت یا پتھر حائل ہونے کے بعد دوبارہ ملاقات ہوجائے تو سلام میں تکرا رکرنا مستحب ہے ۔
      دلیل : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے، پھر اگر ان دونوں کے درمیان درخت، دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور وہ اس سے ملے (ان کا آمنا سامنا ہو) تو وہ پھر اسے سلام کرے‘‘۔
      [سنن ابی دائود : ۵۲۰۰،قال الالبانی صحیح ]
      (۱۳) کسی بڑی جماعت سے مڈبھیڑ ہو جائے تو اسے ایک مرتبہ سلام کرنا کافی اورتین مرتبہ سلام کرنا مستحب ہے۔
      انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’جب رسول اللہ ﷺ کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار لوٹاتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔ اور جب کچھ لوگوں کے پاس آپ ﷺ تشریف لاتے اور انہیں سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے‘‘۔
      [صحیح بخاری:۹۵]
      (۱۴) سواری پر چلنے والا پیدل چلنے والے کو ، گزرنے والا بیٹھے ہوئے لوگوں کو اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے ۔
      ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو‘‘۔
      [صحیح بخاری:۶۲۳۲]
      (۱۵) اگر کوئی شخص رات کے وقت کسی سوئی ہوئی جماعت کے پاس جائے تو اسے چاہیے کہ انہیں دھیمی آوازسے سلام کرے ۔
      مقداد ابن الاسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’رسول اللہ ﷺ رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے‘‘۔
      [صحیح مسلم:۲۰۵۵]
      (۱۶) بچوں کو سلام کرنا مستحب ہے ۔
      بچوں کو سلام کرنا مستحب ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بچوں کی محبت حاصل ہوتی ہے ،ان کی تربیت ہوتی ہے بچے سلام کرنا سیکھتے ہیں اور نصیحت اور تعلیم کے لیے ان کا مزاج ہموار ہوجاتا ہے ۔
      انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا اور فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے‘‘۔
      [صحیح بخاری:۶۲۴۷]
      (۱۷) یہودونصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہیں کرنا چاہیے ۔
      دلیل : سہیل بن ابی صالح کہتے ہیں کہ:’’ میں اپنے والد کے ساتھ شام گیا تو وہاں لوگوں (یعنی قافلے والوں) کا گزر نصاریٰ کے گرجا گھروں کے پاس سے ہونے لگا تو لوگ انہیں (اور ان کے پجاریوں کو) سلام کرنے لگے تو میرے والد نے کہا: تم انہیں سلام کرنے میں پہل نہ کرو کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے، آپ نے فرمایا ہے: انہیں (یعنی یہود و نصاریٰ کو) سلام کرنے میں پہل نہ کرو‘‘۔
      [سنن ابی داؤد:۵۲۰۵،قال الالبانی صحیح ]
      رسول اللہ ﷺ نے جب ہرقل کو خط لکھا تھا تو اس میں بھی ہرقل کو سلام میں پہل نہیں کیا تھا بلکہ یوں لکھا تھا:
      ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ إِلٰي هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ: سَلَامٌ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الهُدٰي، اَمَّا بَعْدُ‘‘۔
      ’’اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد ﷺ کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں‘‘۔
      [صحیح بخاری:۷]
      ابوعثمان النہدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ : ’’ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خط میں ایک راہب کو سلام کیا تو ان سے کہا گیا : کیا تم اس کافر کو سلام کہتے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا : اس نے مجھے اپنے ایک خط میں سلام لکھا تھا ۔ تو میںنے اس کے اسی سلام کے جواب میں اسے سلام کہا ہے‘‘ ۔
      [صحیح الادب المفرد:۸۴۱]
      فائدہ : مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ سلف سالحین کے یہاںیہود ونصاریٰ کو سلام میں پہل کرنے کا بالکل بھی رواج نہیں تھا ، اسی وجہ سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اپنے خط میں راہب کو سلام کہنے پر یہ صفائی پیش کرنی پڑی کہ میں نے سلام میں پہل نہیں کیا تھا بلکہ اس راہب نے پہلے مجھے سلام لکھ کر بھیجا تھا ۔
      البتہ اگر ہمیں کسی یہود ونصرانی سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ہم انہیں ان الفاظ کے ساتھ مخاطب کرسکتے ہیں : فلاں صاحب کیا حال ہے؟ تم نے صبح کیسے کی ؟ وغیرہ وغیرہ
      (۱۸) ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا یہودیو ں کا طریقہ ہے ۔
      زبان سے سلام کرنے کے بجائے صرف ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ یہودو نصاریٰ کا فعل ہے اور ایسا کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منع فرمایا ہے :
      جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کا ایک انگلی سے اشارہ کر کے سلام کرنا یہودیوں کا انداز ہے‘‘۔
      [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۱۷۸۳]
      عَنْ عَطَاء بْنِ اَبِي رَبَاحٍ قَالَ:’’كَانُوا يَكْرَهُونَ التَّسْلِيمَ بِالْيَد‘‘، اَوْ قَالَ:’’كَانَ يَكْرَهُ التَّسْلِيمَ بِالْيَدِ‘‘
      عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’سلف صالحین ہاتھ کے اشارہ کے ساتھ سلام کرناناپسند کرتے تھے‘‘ ۔
      [صحیح الادب المفرد:۷۷۲]
      خلاصۂ کلا م یہ کہ ہمیں سلام کرتے وقت سلام کے الفاظ زبان سے ادا کرنا چاہیے ،صرف ہاتھ کے اشارہ سے سلام کرنا ، سر ہلانا یا صرف ہتھیلی ہلاکر سلام کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ یہودو نصاریٰ کا طریقہ ہے اور رسول اللہ ﷺنے ا س سے منع فرمایا ہے ۔
      البتہ اگربحالتِ نماز کوئی سلام کہہ دے توہاتھ کے اشارہ سے سلام کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
      صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ نابل کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ۔إشارۃ باصبعہ۔ کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ ﷺ نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔
      [سنن ابی دائود:۹۲۵،قال الالبانی صحیح]
      (۱۹) پیشاب یاپاخانہ کرتے ہوئے شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے ۔
      مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا اور آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا یہاں تک کہ وضو کیا، پھر جب آپ نے وضو کر لیا تو ان کے سلام کا جواب دیا۔
      [سنن نسائی : ۳۸، قال الالبانی صحیح]
      (۲۰) خطیب کے لیے منبر پر چڑھنے کے بعد بیٹھنے سے پہلے جملہ سامعین کو سلام کرنا سنت ہے ۔
      جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:’’ نبی اکرم ﷺ جب منبر پر چڑھتے تو لوگوں کو سلام کرتے تھے‘‘۔
      [سنن ابن ماجہ :۱۱۰۹،قال الالبانی صحیح ]
      رہا منبر سے قریب پہنچ کر منبر پر چڑھنے سے پہلے منبر کے آس پاس کے لوگوں کو سلام کرنا تو اس معنی کی روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قراردیا ہے ۔ دیکھیے :
      [سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :۴۱۹۴]
      آخر میں دعاگوں ہوں کہ رب العالمین ہمیں سلام کو اس کے اسلامی آداب کے سا تھ رواج دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings