-
تین طلاق اور صحیح مسلم کی حد یث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما (بارہویں قسط ) متن پردوسرا اعتراض :
متن کے محکم ہونے پر اعتراض
(الف) متن کے نسخ کا دعویٰ :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی صحیح مسلم والی حدیث منسوخ ہے ۔یہ اعتراض امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام شافعی سے نقل کرکے اس کی تائید کرنے کی کوشش کی ہے۔
[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۳۶۴، السنن الکبریٰ للبیہقی، ط الہند:۷؍۳۳۸]
امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی نسخ کی بات کہی ہے۔ دیکھیں :
[شرح معانی الآثار، ت النجار:۳؍۵۶]
عرض ہے کہ :
یہ اتنی کمزور اور بے کار بات ہے کہ زاہد کوثری جیسے متعصب حنفی شخص نے بھی اس بات کررد کردیا ہے ،چنانچہ لکھا:
’’ولم أتعرض لإحتمال النسخ لأنه احتمال ضعيف جدا وإنما تعرض له الشافعي ‘‘
’’میں نے نسخ کا احتمال پیش نہیں کیا کیونکہ یہ احتمال بہت ضعیف ہے ، اسے امام شافعی نے پیش کیا ہے‘‘
[الإشفاق فی أحکام الطلاق :ص:۴۸]
دراصل منسوخ کا دعویٰ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس صحیح سند سے ناسخ موجود ہو اور یہاں صحیح سند تو دور کی بات کسی ضعیف سند سے بھی ناسخ موجود نہیں ہے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ (المتوفی۷۵۱) فرماتے ہیں:
’’وأما دعواكم نسخ الحديث، فموقوفة على ثبوت معارض مقاوم متراخ، فأين هذا؟ ‘‘
’’رہا تمہارا حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ ، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ متاخر اور ثابت شدہ ناسخ موجود ہو ، لیکن اس کا وجود ہی کہاں ہے؟‘‘
[زاد المعاد، ن مؤسسۃ الرسالۃ:۵؍۲۴۳]
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اجماع اس کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے۔
عرض ہے کہ:
اول تو تین طلاق کے تین ہونے پر اجماع ہوا ہی نہیں ، بلکہ تین طلاق کے ایک ہونے پر اجماع ہواہے۔
دوسرے یہ کہ اجماع امت اور مخلوق کی طرف سے ہوتا ہے اور دین خالق یعنی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کے دین کو مخلوق یعنی امت منسوخ نہیں کرسکتی ، یہ واضح بات ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ : اجماع بذات خود ناسخ نہیں ہے لیکن یہ ناسخ کے وجود پر دلالت کرتا ہے ، یعنی عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ ناسخ تھا ،یہ اور بات ہے کہ ہم تک یہ نہیں پہنچ سکا۔
عرض ہے کہ: اول تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں قدیم حکم کے منسوخ ہونے کا فیصلہ تھا ہی نہیں ، بلکہ انہوں نے تو صاف اعتراف کیا کہ اس معاملے میں تمہارے لیے مہلت تھی لیکن تمہاری لا پرواہی کے سبب بطور سزا یہ مہلت ختم کی جارہی اور اب طلاقِ بدعت نافذ کردی جائے گی۔
دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور دین قرآن و حدیث دونوں پر مشتمل ہے اس لیے دین سے متعلق قرآن کی کوئی آیت یا اللہ کے نبی ﷺکی کوئی حدیث قطعاً گم نہیں ہوسکتی ، بلکہ قیامت تک محفوظ رہے گی جیسے قرآن محفوظ رہے گا۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ (المتوفی۴۵۶) نے کہا:
’’أن اللّٰه تعالي قد قال (إنا نحن نزلنا لذكر وإنا له لحافظون) فمضمون عند كل من يؤمن باللّٰه واليوم الآخر أن ما تكفل اللّٰه عز وجل بحفظه فهو غير ضائع أبدا لا يشك فى ذلك مسلم وكلام النبى صلى اللّٰه عليه وسلم كله وحي بقوله تعالي{وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَي ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَي}(النجم:۳۔۴) والوحي ذكر بإجماع الأمة كلها والذكر محفوظ بالنص فكلامه عليه السلام محفوظ بحفظ الله عز وجل ضرورة منقول كله إلينا لا بد من ذلك فلو كان هذا الحديث الذى ادعي هذا القائل أنه مجمع على تركه وأنه منسوخ كما ذكر لكان ناسخه الذى اتفقوا عليه قد ضاع ولم يحفظ وهذا تكذيب لله عز وجل فى أنه حافظ للذكر كله ولو كان ذلك لسقط كثير مما بلغ عليه السلام عن ربه وقد أبطل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فى قوله فى حجة الوداع اللهم هل بلغت ‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے کہہ رکھا ہے کہ :(ذکرکو ہم نے ہی نازل کیا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کریں گے )(الحجر:۹) اس آیت کی بنا پر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہرشخص کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے جس چیز کی حفاظت کا ذمہ لے لیا وہ کبھی بھی ضائع نہیں ہوسکتی ، اس میں کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں ہے اور نبی ﷺ کی احادیث بھی سب کی سب وحی ہیں جیساکہ اللہ نے کہا:(آپ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے بلکہ جو کچھ بھی بولتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے وحی ہوتا ہے) (النجم:۳۔۴) اور وحی بھی ذکر ہے جیساکہ اس پر ساری امت کااجماع ہے اور ذکر کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے لیا ہے ، تو نبی ﷺ کی احادیث بھی محفوظ ہیں ، اللہ نے ان کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لی ہے ، ان ساری احادیث کا امت تک پہنچنا ضروری ہے ۔تو یہ حدیث جس کے بارے میں اس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے ترک کرنے پراور اس کے منسوخ ہونے پر لوگوں کا اتفاق ہے جیساکہ یہ شخص کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اس منسوخ حدیث کا جو ناسخ ہے وہ گم ہوگیا اور اس کی حفاظت نہیں ہوسکی ! اور ایسا کہنا اللہ تعالیٰ کی اس بات کو جھٹلانا ہے کہ اس نے ہرذکر کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ، اگر اس طرح کی باتیں مان لی جائیں تو اللہ کے نبی ﷺنے اپنے رب کے دین کاجو حصہ امت تک پہنچایا ہے ان میں سے اکثر حصہ ساقط قرار پائے گا ، نیز حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ کے اس فرمان کا بھی کوئی معنیٰ نہیں رہ جائے گا کہ اللہ گواہ رہ میں نے دین لوگوں تک پہنچا دیا ہے‘‘
[الإحکام فی أصول الأحکام لابن حزم :۲؍۷۱]
حدیث کے محفوظ ہونے سے متعلق یہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی کہہ رکھی ہے اور عصر حاضر کے عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی وضاحت کی ہے ۔دیکھیے:
[جامع المسائل لابن تیمیۃ:۴؍۱۶۲، التوسل أنواعہ وأحکامہ :ص:۱۱۴]
معلوم ہوا کہ اجماع بھی ناسخ کے وجود پر دلیل نہیں ہے کیونکہ اگر کسی ناسخ کا وجود ہوتا تو وہ ناسخ گم نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اللہ اسے محفوظ رکھتا ۔واضح رہے کہ اجماع کا یہ دعویٰ بھی محض خیالی ہے اس کی کوئی سچائی نہیں ہے ، جیساکہ آگے تفصیل آرہی ہے ۔
نسخ کی دلیل کے لیے پیش کی جانے والی ابوداؤد کی حدیث کا جائزہ:
بعض لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول سے نسخ پراستدلال کرنے کی کوشش کی ہے ، امام ابوداؤدرحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵) نے کہا:
حدثنا أحمد بن محمد المروزي، حدثني على بن حسين بن واقد، عن أبيه، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس قال:’’(والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء ، ولا يحل لهن أن يكتمن ما خلق اللّٰه فى أرحامهن) الآية، وذلك أن الرجل كان إذا طلق امرأته، فهو أحق برجعتها، وإن طلقها ثلاثا، فنسخ ذلك، وقال:{الطلاق مرتان}
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہے وہ تین طہر تک ٹھہری رہیں اور ان کے لیے حلال نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو پیدا کر دیا ہے اسے چھپائیں) یہ اس وجہ سے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو رجعت کا وہ زیادہ حقدار رہتا تھا گرچہ اس نے تین طلاقیں دے دی ہوں پھر اسے منسوخ کر دیا گیا اور ارشاد ہوا ’’الطلاق مرتان‘‘ یعنی طلاق کا اختیار صرف دو بار ہے‘‘
[سنن أبی داؤد:۲؍۲۵۹رقم :۲۱۹۵]
ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کو بعض لوگوں نے اس بات کی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے کہ طلاق ثلاثہ کو ایک ماننے والی بات منسوخ ہے۔
[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۳۶۴، السنن الکبری للبیہقی، ط الہند:۷؍۳۳۸]
عرض ہے کہ:
اولاً:
اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ پہلے لوگوں کے لیے طلاق دینے کی تعداد مقرر نہیں تھی ، اور ایک شخص بار بار طلاق دے کر بار بار رجوع کرتا رہتا، خواہ وہ الگ الگ زمانے میں ہی طلاق دیتا تھا ، مثلاً ایک شخص نے ایک طلاق دے کر رجوع کیا ، پھر ایک مدت کے بعد دوسری طلاق دے کر پھر رجوع کیا ، پھر ایک مدت کے بعد تیسری طلاق دیا تو اس سے بھی رجوع کرسکتا تھا ، حتیٰ کہ اس کے بعد چوتھی طلاق دے کر اس سے بھی رجوع کرسکتا تھا ، یعنی اسی طرح زندگی بھر وہ طلاق اور رجوع کا سلسلہ جاری رکھ سکتا تھا ، خواہ ہر طلاق الگ الگ زمانہ میں ہی دی ہو ، تو اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ پر روک لگائی ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اسی حدیث میں آگے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:
فنسخ ذلك، وقال:{(الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ}
پھر یہ چیز منسوخ کردی گئی اور اللہ نے کہا:(طلاق (رجعی) دوبار ہی ہے)
[سنن أبی داؤد :رقم:۲۱۹۵]
اور ان دو کے بعد تیسری بار طلاق دے گا تو بیوی حرام ہوجائے گی، جیساکہ اس آیت کے بعد فورا ًہے :
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}
’’(اگر اس کے بعد پھر(یعنی تیسری بار) طلاق دے گا تو اس کی بیوی حرام ہوجائے گی جب تک دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے)
‘‘[البقرۃ:۲۳۰]
معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی للہ عنہما یہاں جس چیز کو منسوخ بتارہے ہیں وہ بغیر کسی حد کے بار بار طلاق اور بار بار رجوع کا معاملہ ہے نہ کہ بیک وقت تین طلاق کو ایک ماننے کا معاملہ ۔
اور ناسخ اس حکم کو بتارہے ہیں کہ اس کے بعد تین طلاق کی حد متعین کردی گئی ، یعنی اب اگر کوئی دو بار طلاق دے کر رجوع کرلیا ، تو تیسری بار طلاق کی صورت میں اسے رجوع کاحق نہیں ملے گا بلکہ اس کی بیوی اس کے لیے حرام ہوجائے گی۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ (المتوفی۷۷۴)رحمہ اللہ نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے، چنانچہ کہا:
’’هذه الآية الكريمة رافعة لما كان عليه الأمر فى ابتداء الإسلام، من أن الرجل كان أحق برجعة امرأته، وإن طلقها مائة مرة ما دامت فى العدة، فلما كان هذا فيه ضرر على الزوجات قصرهم اللّٰه عز وجل إلى ثلاث طلقات، وأباح الرجعة فى المرة والثنتين، وأبانها بالكلية فى الثالثة، فقال:{الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ}
’’یہ آیت کریمہ اس حکم کو ختم کرتی ہے جو ابتدائے اسلام میں تھا ، اس طرح کہ ایک آدمی طلاق دینے کے بعد عدت میں رجوع کرسکتا تھا خواہ سینکڑوں بار طلاق دے چکا ہو ، لیکن اس میں بیویوں کے لیے مصیبت تھی ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے تین طلاق تک حد مقرر کردی اور پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہی رجوع کا اختیار دیا ، اور تیسری بار طلاق دینے پر عورت کو کلی طور سے جدا کردیا، چنانچہ فرمایا:(طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرایک کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے)
[تفسیر ابن کثیر ؍دار طیبۃ :۱؍۶۱۰]
یہ کہنے کے فوراً بعد امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اسی حدیث کو پیش کیا ہے ، جس سے واضح ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس حدیث کا یہی مفہوم سمجھا ہے ۔
بلکہ ایک دوسری مرسل حدیث سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے چنانچہ:
امام مالک رحمہ اللہ (المتوفی۱۷۹) نے کہا:
عن هشام بن عروة، عن أبيه أنه قال:’’كان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعها قبل أن تنقضي عدتها، كان ذلك له، وإن طلقها ألف مرة فعمد رجل إلى امرأته فطلقها حتي إذا شارفت انقضاء عدتها راجعها، ثم طلقها، ثم قال لا واللّٰه لا آويك إلي، ولا تحلين أبدا، فأنزل اللّٰه تبارك وتعالي (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ) فاستقبل الناس الطلاق جديدا من يومئذ، من كان طلق منهم أو لم يطلق ‘‘
عروہ بن زبیر فرماتے ہیں:’’ کہ پہلے ایک آدمی جب اپنی بیوی کوطلاق دیتا تھا اور عدت ختم ہونے سے قبل رجوع کرلیتا تھا ،تو اس کے لیے یہ جائز تھا خواہ وہ ہزار بار ایسا کرے ، تو ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا یہاں تک کہ جب اس عدت کے اختتام کا وقت آیا تو پھر سے رجوع کرلیا ، اور اس کے بعد پھر طلاق دے دیا اور کہا کہ :اللہ کی قسم میں تجھے نہیں اپناؤں گا اور تو کبھی حلال بھی نہیں ہوسکتی ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:(طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرایک کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے) پھر اس دن کے بعد سے لوگوں نے نئے طریقہ پر طلاق دینا شروع کیا ، جو پہلے طلاق دے چکے تھے وہ بھی اور جنہوں نے نہیں دیا انہوں نے بھی ‘‘
[موطأ مالک ت عبد الباقی:۲؍۵۸۸،وإسنادہ صحیح إلی عروۃ]
عروہ تک اس کی سند صحیح ہے۔
لیکن عروۃ نے اسے مرسلا ًبیان کیا ہے اور مرسل حدیث احناف کے یہاں حجت ہوتی ہے۔
بہرحال ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں بیک وقت تین طلاق کو ایک ماننے والے مسئلہ کو منسوخ نہیں بتایا ہے بلکہ ابتدائے اسلام میں لا محدود طلاق دینے اور رجوع کرنے کے حکم کو منسوخ بتایا ہے۔
اس کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ فرمانِ فاروقی والی حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہی صراحت کی ہے کہ عہدِرسالت ، عہدِ صدیقی اور عہدِ فاروقی کے ابتدائی دوسال تک تین طلاق کو ایک مانا جاتا تھا، اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیک وقت تین طلاق کے ایک ماننے کو منسوخ نہیں جانتے تھے۔
ثانیاً:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ضعیف ہے۔سند میں علی بن حسین بن واقد ضعیف راوی ہے ۔
امام نسائی نے ’’لیس بہ بأس‘‘ کا قول منقول ہے لیکن ان سے بسند صحیح ثابت نہیں ہے ۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے لیکن کوئی صریح توثیق نہیں کی ہے۔
اس کے مقابل میں امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷)نے کہا:
’’ضعیف الحدیث ‘‘، ’’یہ ضعیف الحدیث ہے‘‘
[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۶؍۱۷۹،وإسنادہ صحیح]
امام ابوحاتم رحمہ اللہ کی اس صریح تضعیف کے مد مقابل کوئی بھی توثیق موجود نہیں ہے ۔
متاخرین میں بعض نے اسے سچا کہا ہے لیکن حفظ وضبط کے لحاظ سے اسے ثقہ نہیں مانا ہے مثلا ًامام ذہبی(المتوفی۷۴۸) رحمہ اللہ نے کہا:
’’صدوق وثق ‘‘، ’’یہ سچا ہے اس کی کمزور توثیق کی گئی ہے‘‘
[المغنی فی الضعفاء للذہبی، ت نور:۲؍۴۴۵]
امام ذہبی رحمہ اللہ صیغۂ تمریض کے ساتھ ’’وثق‘‘ اس راوی کے بارے میں کہتے ہیں جسے ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ذکر کیا ہو اور اس کی کوئی معتبر توثیق موجود نہ ہو۔
مثلا ًعبد اللہ بن ابی الجعد کو ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا اور باقی کسی نے ان کو ثقہ نہیں کہا ہے تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
’’عبد اللّٰه هذا وإن كان قد وثق ففيه جهالة ‘‘
’’ عبداللہ ، اس کی گرچہ کمزور توثیق کی گئی ہے لیکن اس کے اندر جہالت ہے‘‘
[میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی:۲؍۴۰۰]
اس سے واضح ہوتا ہے کہ صیغۂ تمریض کے ساتھ ’’وثق‘‘ کا لفظ امام ذہبی رحمہ اللہ کی خاص اصطلاح ہے جس سے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکرکیاہے اور یہ کمزور توثیق ہے ، جیساکہ ان کی ساری کتابوں سے یہ واضح ہے ۔
بہرحال اس روای کی کوئی بھی ایسی توثیق موجود نہیں ہے جو امام ابوحاتم رحمہ اللہ جیسے زبردست ناقد ومتقدم امام کی صریح تضعیف کا مقابلہ کرسکے اس لیے یہ راوی ضعیف ہی ہے۔
’’تحریر التقریب ‘‘کی مؤلفین (دکتور بشار عواد اور شعیب ارنؤوط):
’’ضعيفٌ يعتبر به فى المتابعات والشواهد ‘‘
’’ یہ ضعیف ہے ، متابعات اور شواہد میں اس کا اعتبار کیا جاسکتا ہے‘‘
[تحریر تقریب التہذیب :رقم :۴۷۱۷]
نوٹ: علامہ البانی رحمہ اللہ نے مؤطا کی عروہ بن زبیر والی مرسل حدیث کو اس کا شاہد بناکراسے صحیح کہا ہے یعنی دونوں کے مفہوم کو ایک جانا ہے۔
لیکن فریق مخالف ان دونوں کے مفہوم کو ایک نہیں مانتے ،اس لیے ان کے فہم کے اعتبار سے عروہ بن زبیر والی مرسل حدیث اس کے لیے شاہد نہیں ہوسکتی ۔ لہٰذا وہ ضعیف ہی رہے گی ۔نیز دیکھیے:
[الحکم المشروع فی الطلاق المجموع للمعلمی:ص:۶۱۔۶۲]
نسخ پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فتویٰ سے استدلال:
بعض لوگوں نے اپنے مطلب کے لیے یہ اصول بنا رکھا ہے کہ صحابی اگر اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتویٰ دے تو وہ حدیث منسوخ ہوگی ، ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ ان کی اس حدیث کے خلاف ہے ،اس لیے یہ حدیث منسوخ ہے۔
عرض ہے کہ :
اولاً:
یہ اصول باطل ہے کیونکہ مرفوع حدیث وحی ہے جو خالق کی طرف سے ہے ، جبکہ صحابی کاعمل وحی نہیں ہے اور مخلوق کی طرف سے ہے، پھر خالق کی بات کو مخلوق کی بات کیسے منسوخ کرسکتی ہے ؟
اگرکہا جائے کہ صحابی کا عمل ناسخ نہیں ہے لیکن صحابی کے علم میں نسخ کی دلیل ہوگی، اسی لیے انہوں نے حدیث کے خلاف عمل کیا ، تو عرض ہے کہ اگر کسی ناسخ کا وجود ہوتا تو وہ ناسخ گم نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اللہ اسے محفوظ رکھتا ، جیساکہ ماقبل میں وضاحت کی جاچکی ہے۔نیز صحابی کا اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل حالات یا کسی مصلحت کے سبب بھی ہوسکتا ہے ، اس لیے نسخ کی دلیل قطعاً نہیں ہوسکتا ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲) نے کہا:
’’وأن الصحابي إذا عمل بخلاف ما رواه لا يكون كافيا فى الحكم بنسخ مرويه ‘‘
’’صحابی جب اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرے تو یہ چیز اس کی حدیث کے منسوخ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے‘‘
[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۳؍۱۰۶]
ثانیاً:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مفہوم کی حدیث روایت کی ہے کہ لونڈی کو آزاد کرنا طلاق نہیں ہے ، اور پھر اس کے خلاف انہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ لونڈی کو آزاد کرنا طلاق ہے ، لیکن کسی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فتویٰ کے سبب ان کی روایت کردہ حدیث کو منسوخ نہیں کہا ہے، جیساکہ تفصیل گزرچکی ہے ۔
نیز اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ’’لبن الفحل‘‘ سے متعلق حرمت رضاعت والی حدیث نقل کی ہے اوراس کے خلاف خود اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل وموقف یہ تھا کہ لبن الفحل کا اعتبار نہیں ہے ، اور احناف اس مسئلہ میں بھی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فتویٰ چھوڑ کر ان کی حدیث کو لیتے ۔
ثالثاً:
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے صحیح مسلم والی اپنی اس حدیث کے موافق بھی فتویٰ دیا ہے جیساکہ اس سلسلے میں ان سے دس روایات آگے پیش کی جائیں گے ۔
مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی فرماتے ہیں:
مزید برآں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے الفاظ اس جواب کو قبول نہیں کرتے ، آپ فرماتے ہیں:
’’إن الناس قد استعجلوا فى أمر قد كانت لهم فيه أناة‘‘ ( یقینا لوگوں نے جلدی کرنا شروع کیا اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی ) ان الفاظ پر غور کیجیے اور بتایئے کہ کیا منسوخ حکم میں بھی کوئی مہلت ہوا کرتی ہے ؟ حکم تو منسوخ ہوچکا ، اس پرعمل پیرا ہونے سے روک دیا گیا اب اس میں مہلت کا کیا معنیٰ ؟ تو معلوم ہوا کہ یہ حکم منسوخ نہ تھا ورنہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ یہ نہ فرماتے۔(دعوت فکرونظر:مطبوع در مجموعہ مقالات ص:۲۳۸)