Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فَتَبَیَّنُوا(بدگمانی ایک مذموم صفت)

    بد گمانی بڑی ہی بے رحم، قاتل اور سفّاک صفت ہے، یہ بڑی بے رحمی سے مضبوط سے مضبوط تعلقات پر چھری پھیرتی اور رشتوں ناطوں کی لہلہاتی فصل پر درانتی چلا دیتی ہے۔ بد گمانی محبت کرنے والے دلوں کو پارہ پارہ اور چاہنے والوں کے جگر کو پاش پاش کر دیتی ہے۔ بد گمانی دلوں کو زخمی اور کلیجوں کو چھلنی کر ڈالتی ہے۔ بد گمانی نفرت کا ایسا بیج بوتی ہے جس کی فصل دیکھتے ہی دیکھتے لہلہاتے قلوب واذہان کو لہو لہان کرنے لگتی ہے اور پھردھیرے دھیرے محبت کے برگ وبار ٹوٹ ٹوٹ کر اور الفت کے شجر سایہ دار سوکھ سوکھ کر خود بخود گرنے لگتے ہیں۔
    اجتماعی زندگی کے لیے بد گمانی زہر ہلاہل سے کم نہیں۔ بدگمانی کا سرطان ہنستی مسکراتی اجتماعی زندگی کو دیکھتے ہی دیکھتے چٹ کر جاتا ہے۔ اہلِ خرد کے تجربات و مشاہدات دونوں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بد گمانی آپسی تعلقات کو تہس نہس اور ریزہ ریزہ کردیتی ہے۔ بد گمانی احباب کی ہنستی مسکراتی گل گلزار زندگی کے لیے موت ثابت ہوتی ہے۔
    بد گمانی اور سوء ظن رکھنے والا شخص اپنے تصورات کی گندی دنیا میں پوری ناول لکھ ڈالتا ہے اور خود اس کا ہیرو بن کر باقی سارے کرداروں کو وِلن بنا دیتا ہے۔ بد گمان شخص رائی کو پہاڑ اور حَبّہ کو قُبّہ بنا کر اپنی اس مذموم اور مہلک صفت کو غذا فراہم کرتا اور سوسائٹی کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
    سوء ظن کا حامل در اصل ہوائے نفس کے دوش پر سوار ہوتا ہے، اور وہ وہی بات قبول وتسلیم کرتا ہے جو اس کی بد گمانی کے عین مطابق ہو، بھلے ہی حقیقت میں اس کی کوئی حیثیت نہ ہو۔ بد گمانی ایک مرض ہے جس کا تعلق دل ودماغ دونوں سے ہے، یہ خطرناک اور مہلک ومفسد مرض جب کسی پر اپنا پنجہ گاڑ دیتا ہے تو اسے حق بات قبول کرنے سے روک دیتا ہے اور پھر وہ شخص وہی بات پسند فرماتا اور قبول کرتا ہے جو اس کے من کے موافق ہو، چاہے وہ حق سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بعض امراضِ قلب پر گفتگو کرتے ہوئے حسبِ عادت وحسبِ توقع بڑی ہی معنی خیزاور واقعیت سے بھرپور نکتہ آفرینی کی ہے: ’’مَنْ فی قَلبِہ مرضٌ یأخذُ مِنْ کُلِّ کلامٍ ما یناسبُ مرضَہ) ۔ ایسا شخص وہ بات ہرگز نہیں قبول کر سکتا جس سے اس کی بیماری کو غذا اور تقویت نہ ملتی ہو۔ بھلے ہی اس میں اس کے مرض کے لیے شفا ہی کیوں نہ ہو۔ بد گمانی کے مرض کا شکار شخص بھی عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔
    بار ہا یہ دیکھا گیا ہے کہ بدگمان شخص کی بات جب صدق وصفا کے میزان پر تولی جاتی ہے، یا حقیقت کی کسوٹی پراسے پرکھا جاتا ہے تو اس کی وہ بات یا تو بالکل جھوٹ اور فراڈ نکلتی ہے یا پھر بات کچھ اور ہوتی ہے، سیاق وسباق کچھ اور ہوتا ہے مگر بدگمانی نے اسے کچھ اور بنا رکھا ہوتا ہے، پھر اگر اس کا ضمیر زندہ ہے تو حسرت و ندامت کے سوا اسے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اسی لیے شریعتِ مطہرہ نے خبروں کی تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے، تاکہ سوء ظن پر لگام کسی جا سکے اور حسرت وندامت سے بچا جا سکے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاء كُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ}
    ’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ‘‘
    [الحجرات:۶]
    تاہم اگر کسی کا ضمیر مردہ ہوجائے، دماغ شیطان کا گھونسلہ بن جائے اور وہ ابلیس کا آلۂ کار بن کر خود ہی مختلف انداز میں جھوٹ وفراڈ کی نشر واشاعت کرنے لگے تو اس کا حکم دوسرا ہے، اسے نہ ندامت ہوتی ہے نہ ہی حسرت، البتہ اللہ تعالیٰ بسا اوقات اس سے توبہ وانابت کی توفیق چھین لیتا ہے اور پھر جب پاپ کا گھڑا لبالب بھر جاتا ہے تو اسے اللہ رب العزت اپنی حکمت ومشیت سے آخرت سے پہلے دنیا ہی میں ذلیل ورسوا کردیتا ہے:
    {كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ}
    ’’ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کو تباہ کر ڈالا انہوں نے ہر چند چیخ وپکار کی لیکن وہ وقت چھٹکارے کا نہ تھا‘‘
    [ص:۳]
    شریعتِ مطہرہ نے بد گمانی کو جھوٹ کی بدترین شکل قرار دے کر اس سے منع کیا ہے:
    ’’إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحَدِيثِ‘‘
    ’’کہ بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے‘‘
    [صحیح البخاری:۵۱۴۳]
    اور پوری صراحت کے ساتھ اسے عین گناہ قرار دے کر نہایت سختی سے اس سے روک دیا ہے:
    {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ }
    ’’اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں‘‘
    [الحجرات: ۱۲]
    سوء ظن رکھنے والا آنکھیں رکھتے ہوئے بھی ایسا اندھا بن جاتا ہے کی اسے اس کی ہوائے نفس کے خلاف سورج بھی نظر نہیں آتا۔ ہاں تاریک رات میں چلنے والی سیاہ چیونٹی کو وہ اپنے سوء ظن کی آنکھوں سے دیکھتا اور اس کی تحلیل کرتا رہتاہے۔ بدگمان شخص کے متناقض طبیعت اور عقلی اختلال وذہنی مرض کا عالم یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات وہ جس سے بد گمان ہوتا ہے اس کے ذاتی حسن سلوک اور شخصی تعامل کو تو وہ بڑی آسانی سے پوری طرح نظر انداز کر جاتا ہے، مگر اس کے تئیں دور دراز سے آئی اور سنی سنائی باتوںکو جو اس کے اس مرض کی تائید کرتی ہیں بنا تحقیق بلکہ بلا تامل پوری طرح تصدیق کرتا ہے، گویا یہ بیماری اس کو اس لائق نہیں چھوڑتی کہ وہ اپنے ذاتی حواس اور عقل وخرد پر بھروسہ کر سکے۔
    بد گمانی در حقیقت کئی برائیوں کا مجموعہ اور متعدد معاصی کا سبب بنتی ہے، اسی لیے اس کی شناعت اہل شرع کے یہاں مسلّم اور اس کی قباحت اہلِ دانش وبینش کے یہاں متفق علیہ ہے۔ بدگمانی انسان کو غیبت، چغل خوری، کینہ کپٹ، حقد وحسد، بغض، نفرت، انتقام، جھوٹ، نفاق، عناد، ڈھٹائی، بے شرمی وبے حیائی، تہمت، ایذا رسانی، ظلم وزیادتی اور نہ جانے کتنی برائیوں اور بد عملیوں پر آمادہ کرتی اور اس کے نامۂ اعمال کی سیاہی کا سبب بنتی ہے۔ بدگمانی کے چلتے کسی مسلمان کو ایذاء پہنچانا ہی اس کی شناعت پر مہر ہے۔
    {وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا }
    ’’اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وہ (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘
    [الاحزاب:۵۸]
    یہ بیماری کسی بھی معاشرہ کی وحدت کے لیے سمِّ قاتل اور امت کی اجتماعیت کے لیے زہرِ ہلاہل ہے۔ وہ معاشرہ جسے یہ تعلیم دی گئی ہو کہ ایک مسلمان کو تکلیف ہو تو اس کا درد دوسرا مسلمان اپنے جسم وجان پر محسوس کرے، وہاں اس کی شناعت کا اندازہ لگائیں! بد گمانی اس نازک احساس کے جڑ ہی کو کاٹ کر پھینک دیتی ہے اور اس کی بنیاد پر اس قدر کاری ضرب لگاتی ہے کہ یہ حسین احساس ہی الٹ جاتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدگمان انسان اپنے بھائی کا درد محسوس کرنے کے بجائے شماتت کا شکار ہوجاتا ہے اور بسا اوقات اس کی تکلیف پر خوشی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔
    اس لیے بھی اپنے مسلمان بھائی کے لیے حتی الامکان عذر تلاش کرنے کے لئے کہا گیا ہے تاکہ اس امت کی شرعی وحدت اور دینی محبت کو ٹھیس نہ پہنچے اور یہ اجتماعیت پارہ پارہ نہ ہو۔ ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا:
    ’’إذا بلغك عن أخيك شيء فالتمس له عذرا ، فإنْ لم تَجِدْ له عذرا ً ، فقل: لعلّ له عذراً ‘‘۔
    ’’جب تمہارے بھائی کے تعلق سے کچھ تم تک پہنچے تو اس کے لئے عذر تلاش کرو، اگر عذر نہ ملے ،تو کہو کچھ تو عذر ہوگا‘‘۔
    محمد بن جعفر رحمہ اللہ نے اسی چیز کو مزید وضاحت سے اس طرح کہا ہے:
    ’’إذا بلغك عن أخيك شيء تنكره، فالتمس له عذرا واحدا إلى سبعين عذرا، فإن أصبته، وإلا قل: لعلّ له عذراً لا أعرفه‘‘۔
    ’’جب تمہارے بھائی کی طرف سے تم تک کوئی نا پسندیدہ چیز(خبر) پہنچے ،تو اس کے لئے ایک سے ستّر عذر تلاش کرو، اگر عذر مل جائے تو ٹھیک ہے ، ورنہ یہ کہو: کہ شاید اس کے پاس کوئی عذر ہوگا جسے میں نہیںجانتا‘‘
    اور عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت نے تو اسے عقل ودانش کا میزان ہی قرار دے دیا ہے:
    ’’أعقلُ الناسِ أعذرُهم لهم‘‘۔
    ’’لوگوں کے لئے سب سے زیادہ عذر تلاش کرنے والا سب سے زیادہ عقل مندہے‘‘
    سوء ظن در اصل انسان کی بد عملی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور ’’بد گمانی عموماً بد عملی کے پیٹ سے جنم لیتی ہے۔ زندگی کے بیشتر معاملات میں انسان دوسروں کو اپنی ذات پر قیاس کرتا ہے۔ جس کا کردار وعمل خود سیاہ ہوتا ہے وہ عموماً اپنے کردار وعمل کے اسی سیاہ چشمہ سے دوسروں کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس لیے بدگمانی کا ایک نہایت اہم علاج یہ بھی ہے کہ انسان خود اپنے کردار وعمل کی اصلاح کرے‘‘۔
    ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب’’مفتاح دار السعادۃ‘‘ میں روافض کو خنازیر سے تشبیہ دی ہے اور اس کی حسب معہود بہت ہی جامع اور نفیس تحلیل وتعلیل کی ہے۔ آپ نے بتایا ہے کہ یہ روافض کس طرح اپنے بعض عادات واطوار میں اس نجس حیوان سے مشابہت رکھتے ہیں۔ خنزیر کی نجاست اور اس کے گوشت کے مفاسد پر گفتگو کرتے ہوئے بعض اہل علم نے اس کی دو رذیل صفات بڑی تفصیل سے ذکر کی ہیں: پہلی صفت اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو چھوڑ گندگی کی طرف لپکنا اور اسے اپنی غذا بنانا ۔ دوسری صفت اپنے قریب ترین بلکہ محارم (ماں، بہن، بیٹی وغیرہ) تک کے ساتھ جفتی کرنا۔ پہلی صفت کی بنا پر ہی ابن القیم رحمہ اللہ نے روافض کو خنزیر سے تشبیہ دی ہے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کے بغض پر کلام کرتے ہوئے اس صفت کی جامع تحلیل کی ہے ۔جبکہ دوسری صفت کو اہل علم نے دیوثیت کے وجود اور غیرت کے فقدان کا سبب گردانا ہے جو اس نجس جانور کا گوشت کھانے والوں میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس دوسری صفت پر اگر آپ غور کریں گے تو سوء ظن کا حامل بھی آپ کو خنزیر صفت نظر آئے گا، کیونکہ اس کے بھی شکار سب سے پہلے اس کے قریبی لوگ ہی ہوتے ہیں اورسوء ظن کی بنا پر وہ عموماً اپنوں ہی کو اذیت سے دوچار کرتا رہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سوء ظن کا حامل اور بد عملی و بد گمانی کا سفیر اپنے چاہنے والوں کا ہی دشمن بن جاتا ہے اور اپنے مخلصین ہی کے خلاف میدانِ کارزار سجا لیتا ہے۔
    بھلا بدگمانی کی قباحت کے لیے یہی کیا کم ہے کہ ایک انسان اپنے مخلصین کو کھودے؟ اپنے چاہنے والوں سے ہاتھ دھو بیٹھے؟ اور اپنے ان بھائیوں سے دور چلا جائے جو اس کے سکھ دکھ اور خوشی وغم کے حقیقی ساتھی ، نیز زندگی کے معرکوں میں اس کا اصل ہتھیار ہوتے ہیں:
    أخاكَ أخاكَ إنَّ مَنْ لا أخاً لَهُ كساعٍ إلى الهَيجا بغَير سلَاح
    اور پھر ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ بدگمان شخص کا دماغ بغض وحسد کا اڈہ اور نفرت وعداوت کا گھونسلہ بن جاتا ہے اور اس پر ہر نصیحت بے اثر ہونے لگتی ہے۔ پھر آخر میں ہوتا یہ ہے کہ وہ ظنون واوہام کی تاریکیوں میں سفر کرتے کرتے بالآخر خود کو شکوک وشبہات کی کال کوٹھری میں بند کرلیتا ہے:
    إذا ساء َ فعلُ المرئِ ساء تْ ظنونُه
    وصدَّق ما يعتادُه مِن توهُّمِ
    وعادَي مُحبّيه بقولِ عُداته
    وأصبحَ فى شكٍّ منَ الليل مُظلمِ
    اللهم إنا نعوذبك من منكرات الأخلاق والأعمال والأهواء والأدواء .
    اللهم إنا نعوذبك من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا.
    اللهم إنا نسألك الهدي والتقي والعفاف والغني.
    اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عنا

    Ayatul Kursi is one of the most popular and well-known verses from the Holy Quran. It is often recited by Muslims as a form of protection and guidance, and is also used as a decorative element in Islamic metal wall art. The verse itself speaks of the power and greatness of Allah, and how He is the only one worthy of worship. It is a beautiful reminder of our faith, and its message is one that resonates with many Muslims around the world. You should have a metal Ayatul Kursi outside your home or inside, Islamic Art Ltd is the best shop to buy them from you can see their Ayatul Kursi here .

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings