Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عقل کو تنقید سے فرصت نہیں

    تنقید موجودہ دور میں فن سے زیادہ فیشن بن چکا ہے،ایک غیر ذمے دارانہ عمل اور غیر معتدل طبعیتوں کا مشق ستم بن گیا ہے،اس میں شک نہیں کہ صالح تنقید سے قوموں میں زندگی کو تحریک ملتی ہے،انسانی قافلہ صحیح سمت میں سفر کرتا ہے،صالح قدریں پروان چڑھتی ہیں،روایات کی پاسداری کا جذبہ تنومند ہوتا ہے اورشرپسند رجحانات کی سرکوبی ہوتی ہے،کسی بھی قوم میں خیر و بھلائی کے بقاء کے لیے نقد واحتساب کا ہونا ضروری ہے۔
    ایک ادیب نے اپنے مضمون ’’تنقید کیا ہے‘‘ میں اچھی بات لکھی ہے:
    ’’تنقید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیتی ہے۔ تنقید وضاحت ہے، تجزیہ ہے، تنقید قدریں متعین کرتی ہیـ ، ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے ،ـ تنقید انصاف کرتی ہیـ ،ادنیٰ اور اعلیٰ، جھوٹ اور سچ، پست اور بلند کے معیار کو قائم کرتی ہے‘‘۔
    جب صحتمند جذبے سے تنقید ہو تو نہ صرف اس کی پذیرائی ہوتی ہے بلکہ خوشگوار نتائج سے فرد ومعاشرہ ہمکنار ہوتا ہے،نہ صرف یہ کہ ایسی تنقید کا استقبال ہوتا ہے بلکہ اس پر اجر وثواب بھی ملتا ہے،جذبے اور نیت میں فساد در آئے تو خیر کی جگہ شر لے لیتا ہے،فائدہ نقصان میں بدل جاتا ہے اورتعمیر تخریب کا روپ دھار لیتی ہے،عصر حاضر میں زیادہ تر تنقیدیں اسی پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں،اگر کسی سے کسی معاملے کو لے کر دشمنی ہے تو تنقید کے بہانے کردار کشی کی جاتی ہے،اگر کسی کو کسی کی ترقی سے مسئلہ ہے تو وہ تنقید کو اپنے جذبۂ نفرت کی تسکین کا ذریعہ بناتا ہے،اگر کسی کو کسی کی شہرت اور نیک نامی سے حسد ہے تو وہ بھی تنقید کے ذریعے بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتا ہے،معاصرانہ چشمک بھی بیجا تنقید کا محرک بنتی ہے،تنقید فکر ورائے سے جست لگا کر کب شخصیت پر پہنچ جاتی ہے؟پتہ بھی نہیں چلتا،یہ بیمار ذہنوں کا دلچسپ مشغلہ بن چکا ہے،ابن الوقتوں کی افتاد طبع بن چکی ہے،غیبت،عیب جوئی،نکتہ چینی اورخردہ گیری نے تنقید کا ریشمی لباس پہن لیا ہے، تنقید کے ہزار بہانے ہیں اور تنقید کے ہزاروں ستم رسیدہ ہیں،یہ اتنی سستی اور بے قیمت ہوچکی ہے کہ یوٹیوب پر چند تقریروں کا جام لنڈھانے کے بعد بعض متکبر قسم کے نوجوان ایسے بدمست ہوجاتے ہیں کہ علماء کرام پر بھی تنقید کا نشتر استعمال کرنے لگ جاتے ہیں، ان کے علم و فن پر اپنے طریقے سے اظہار خیال کرتے ہیں،ان کے خطبہ و تقریر میں کیڑے نکالتے ہیں،کوئی کہتا ہے کہ آج تو مولانا صاحب نے پورے خطبے میں صرف پکایا ہے یا بور کیا ہے،کوئی کہتا ہے کہ لگتا ہے آج شیخ بغیر تیاری کے چلے آئے تھے،کوئی کہتا ہے کہ مطالعہ کی کمی ہے،کوئی کہتا ہے کہ باڈی لینگویج زیرو ہے،سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور ان کے کھانے اور لباس پر بھی زہر خند ریمارکس دیے جاتے ہیں،کوئی اگر زیادہ جلا ہوا ہے تو وہ ہر حد کو پار کرنے لگ جاتا ہے،جو مجموعۂ نقص ہوتے ہیں،جو خود گریباں چاک ہوتے ہیں وہ اور زیادہ تنقید کے خوگر ہوتے ہیں،اپنی آنکھوں کا شہتیر نظر نہیں آتا اوردوسروں کی آنکھ کا تنکا تک دیکھ لیتے ہیں۔
    تنقید حالِ غیر پر کرنے سے پیشتر خود کو نگاہِ غیر سے دیکھا کرے کوئی
    عوام تو عوام ہے علماء کو بھی اس حمام میں بے لباس ہوتے دیکھا گیاہے،کسی کو سرد وگرم تنقید کے رنگ برنگ مشاہدے کرنے ہوں تو سوشل میڈیا پر نظریں جما کے رکھے،خاص طور پر فیس بک پر چہل قدمی کرتا پھرے،کہیں نہ کہیں تنقید کو رسوا ہوتے ضرور دیکھے گا،کہیں نہ کہیں اس کی آبرو لٹتے ضرور پائے گا،کتنی پگڑیاں ہیں جو یہاں پر خاک آلود ہوئی ہیں؟کتنے تقدس مآب دامن ہیں جو یہاں پر داغدار ہوئے ہیں،کتنی قبائے عظمت ہیں جو یہاں پر تار تار ہوئے ہیں؟مولانا آزاد کے زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا لیکن موجودہ صورتحال ایک خاص نوعیت میں اس وقت بھی موجود تھی، لکھتے ہیں:
    ’’عوام وخواص میں ان کے مجاہدات کی دھوم تھی، بایں ہمہ نفس پرستی کا حال یہ تھا کہ فقیری کے سجادے پر فرعونیت کا تاج پہن کر بیٹھے تھے اور جس عالم وصوفی کی طرف لوگوں کو ذرا بھی مائل پاتے تھے فوراً اپنے مریدوں کی فوج لے کر چڑھ دوڑتے تھے، کبھی بحث ومناظرے کے زور سے، کبھی سوء اعتقاد کے الزام سے ،کبھی اور کوئی حیلہ وبہانہ پیدا کرکے، (اور اس گروہ کے پاس مکر وحیل کی کیا کمی ہے!)، اس طرح ذلیل ورسوا کردیتے کہ غریب شہر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ، ایک دنیا دار فاسق اور ایک دنیا پرست عالم میں یہی فرق ہے کہ پہلا اپنی ہویٰ پرستیوں کو اعترافِ فسق کے ساتھ انجام دیتا ہے اور دوسرا دین داری اور احتسابِ شرعی کی ظاہر فریبی کے ساتھ۔ نفس وشیطان کے خدع ومکر وفریب کے کاروبار بہت وسیع ہیں، لوگوں نے ہمیشہ اس کو میکدوں میں ہی ڈھونڈا، مدرسوں اور خانقاہوں میں ڈھونڈتے تو شاید جلد پتہ لگ جاتا‘‘۔ ( تذکرہ آزاد:ص:۶۳،۶۴ بریکٹ اور اس کے الفاظ مولانا آزاد ہی کے ہیں)
    کس طرح اس سماجی واخلاقی المیے سے بڑے بڑے مفکر جوجھتے رہے ہیں؟تحریر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
    ایک اور نام نہاد مغربی سوچ ہے جس نے تنقید کی فصل کو کھاد فراہم کیا ہے،وہ آزادیٔ اظہار رائے کا مطلق العنان اور سکہ رائج الوقت داعیہ ہے،آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر تمام قسم کی گستاخیوں کو جائز کرلیا جاتا ہے،خواہ شخصیت مسخ ہورہی ہو،خواہ عقیدہ و منہج پر آنچ آرہی ہو،خواہ روایات پامال ہورہی ہوں،خواہ عزتیں داغدار ہورہی ہوں،خواہ کروڑوں لوگوں کا دل مجروح ہورہا ہو،آزادیٔ اظہار رائے کی مغربی سوچ دیوانے کی تلوار ہے وہ جسے چاہے زخمی کرے اور جسے چاہے لہو لہان کرے۔
    ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اسلام اس کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے،مگر اس کا موقع و محل اور حدود وآداب بھی بتاتا ہے،اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر آپ شرفاء کی پگڑیاں اچھالیں، آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر آپ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں،آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر لوگوں کی خلوتوں کا اشتہار بیچ چوراہے پر لگادیں اورجلوتوں کے ظاہری بیاض پر کلنک پوت دیں،آزادیٔ اظہار رائے کی پاسداری اسلام سے زیادہ کون کرے گا؟میں اگر یہ کہوں کہ مغرب نے یہ نظریہ بھی اسلام اور اسلامی تاریخ سے لیا ہے تو غلط نہ ہوگا،یادکیجیے،جب عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک یہودی لڑکے کو اس لیے مارا تھا کہ اس کا گھوڑا گورنر کے بیٹے سے آگے نکل گیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر سخت بازپرس کی تھی، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کے بیٹے کو ڈانٹ پلاتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہاتھا’’ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا،تم نے انہیں غلام کب سے بنا لیا‘‘۔
    تاریخ کا یہ انمٹ حوالہ بتاتا ہے کہ اسلامی ادوار میں دنیا آزادیٔ اظہار رائے کے کیسے حسین مناظر دیکھ چکی ہے،لیکن وہ آزادی بے مہار اور بے قید نہیں تھی بلکہ اصول وضوابط کی پابند تھی، قرآن کی کئی آیات سے انسان کو مثبت آزادی اظہار رائے کا درس ملتا ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    {وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا} ’’یعنی جب بھی بولیں عدل و انصاف پر مبنی بات کریں‘‘[الانعام:۱۵۳]
    ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    {وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا } ’’ یعنی صاف سیدھی اور سچی بات کہا کرو‘‘[الاحزاب:۷۱]
    ایک تیسرے مقام پر یہی پیغام ذرا اور خوبصورت انداز میں دیا گیا ہے۔
    {وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا}’’ یعنی لوگو ں سے ہمیشہ اچھی بات ہی کہا کرو‘‘[البقرہ:۸۴]
    ان آیات کریمہ سے آزادیٔ اظہار رائے کے دینی اور صحیح تصور کی حمایت ہوتی ہے۔
    تنقید کو مغربی آزادیٔ اظہار رائے کی رسد نہ ملے تو اس میدان کی دھاندلیوں اور بے اعتدالیوں پر روک لگ سکتی ہے ،یہ پورا خرابۂ تنقید باطل کے موجودہ تصور پر پروان چڑھ رہا ہے،جبکہ اسلام اس کا ایک بے ضرر اور تعمیری تصور پیش کرتا ہے،اس جامع اسلامی تصور کو مزید سمجھنے کے لیے نبی ﷺ کے ایک فرمان میں غور کرنا ہوگا،آپ ﷺ نے فرمایا:
    ’’المؤمن مرأة المؤمن‘‘ ’’مومن مومن کے لیے آئینہ ہے‘‘[سنن ابی داؤد:۴۹۱۸]
    اس حدیث پاک میں آپ نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے،اس سے زندگی کے تصورِ تنقید پر بہت عمدہ روشنی پڑتی ہے،غور کیجیے!آئینہ انسان کو اس کے چہرے کے داغ دھبے بتاتا ہے اور وہ صرف دیکھنے والے کو اس کے عیب بتاتا ہے،نہ کہ وہ دوسروں میں اس کے عیوب کا اعلان کرتا پھرتا ہے۔
    آئینہ اس شخص کے سامنے سے جانے کے بعد اس کے عیب اپنے اندر بٹھا کر نہیں رکھتا ہے بلکہ نکال دیتا ہے۔
    آئینہ صرف عیب نہیں بتاتا ہے بلکہ خوبیاں بھی دکھاتا ہے۔
    آئینہ صرف ظاہر کو بتاتا ہے،باطن پر اندازے قائم نہیں کرتا ہے۔
    آئینے کی شفافیت پیغام ہوتی ہے کہ مومن بھی اپنے بھائی کے لیے دل صاف رکھے۔
    بعینہٖ نقاد کو کدورتوں سے اپنے دل کو پاک رکھ کر تنقید کا عمل انجام دینا چاہیے تا کہ بامقصد تنقید سماج ومعاشرہ کو صحیح سمت میں آگے بڑھائے،معاشرے میں چاروں طرف الفت،محبت،اخوت، رواداری، مروت اور حسنِ معاملت کی کلیاں کھلیں اور اپنی خوشبو بکھیریں۔

     

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings