Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • دو عظیم اور فائدے مند کام

    محترم قارئین! ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کرنا مذہب اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ہے،قرآن و حدیث کے نصوص یہ بتاتے ہیں کہ غریب و مسکین کی مدد، یتیم کے ساتھ حسن سلوک اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا یا اس کے کسی کام آ جانا اللہ کے نزدیک بڑی فضیلت والا عمل ہے، جو لوگ صاحب استطاعت ہیں ان کا فریضہ ہے کہ وہ کمزوروں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں، نبی کریم ﷺاس حوالے سے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور اسی صفت کی بنا پر اللہ نے انصار مدینہ کی تعریف کی اور فرمایا:
    {وَيُؤْثِرُونَ عَلٰي أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ }
    ’’کہ وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں گرچہ انہیں اس کی زیادہ ضرورت ہو‘‘
    [سورۃ الحشر:۹]
    تعاون کی ان قسموں میں سے ایک قسم بھوکے کو کھانا کھلانا اور پیاسے کو پانی پلانا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
    چنانچہ ہم اگر قرآن مجید کی تلاوت کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ نے جہنمیوں کے جہنم میں جانے کے جو اسباب بتائے ہیں ان میں ایک بنیادی سبب یہ بیان کیا ہے کہ یہ لوگ مسکینوں اور غریبوں کا خیال نہیں رکھتے تھے اور انہیں کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ اس حوالے سے سورہ مدثراور سورہ حاقہ کی آیتوں سمیت کئی آیتیں دلیل کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں،جیسا کہ اللہ نے ایک جگہ فرمایا:
    {إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِيمِ ۔ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِينِ}
    ’’بے شک یہ (جہنمی) عظمت والے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور مسکین کے کھلانے پر رغبت نہیں دلاتا تھا‘‘
    [سورۃ الحآقۃ:۳۳۔۳۴]
    ایک دوسری جگہ اللہ نے فرمایا:
    {فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاء َلُونَ۔ عَنِ الْمُجْرِمِينَ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ۔قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ۔ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ۔ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ۔ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ۔ حَتَّي أَتَانَا الْيَقِينُ}
    ’’جنتی لوگ جنت میں سوال کریں گے مجرمین (جہنمیوں )سے،کہ تمہیں جہنم میں کس چیز نے ڈالا، تو وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہیں تھے،نہ مسکینوں کو کھلاتے تھے، اور ہم بحث کرنے والوں کا ساتھ دے کر بحث و مباحثے میں مشغول رہا کرتے تھے، اور ہم بدلے کے دن کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی۔
    [سورۃ المدثر:۴۰۔۴۷]
    ان دونوں آیتوں میں اگر آ پ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جہنمی خود اپنی زبان سے جہنم میں جانے کے جو اسباب بتا رہے ہیں ان میں سے ایک اہم اور بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ ضرورت مندوں، محتاجوں اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔
    مزید اس عمل کی اہمیت معلوم کرنا ہو تو آپ دیکھیں کہ جہاں کہیں بھی کسی بھی غلطی یا گناہ پر کفارے کا ذکر آیا ہے وہاں اللہ نے کفارہ ادا کرنے والے کے سامنے یہ آپشن بھی رکھا ہے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلا دے، چاہے وہ ظہار کا کفارہ ہو یا قسم کا یا پھر رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے جماع کے کفارے کا مسئلہ وغیرہ، شریعت نے ہر صورت میں ایک آپشن یہ دیا ہے کہ کفارہ ادا کرنے والا کھانا کھلا کر اپنے آپ کو اس قید سے آزاد کر لے۔
    احادیث رسول اگر دیکھیں تو یہاں بھی اس طرح کی چیزوں کا علم ہوگا ،جیسے کہ یہ حدیث دیکھیں:
    عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ قَالَ: ’’تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلامَ عَلٰي مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ‘‘
    حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺسے ایک شخص نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! کون سا اسلام بہتر ہے؟( یعنی اسلام کی بہترین تعلیم کون سی ہے؟) تو آپ ﷺنے جواب دیا اور فرمایا: ’’کھانا کھلانا اور سلام کرنا اس کو بھی جس کو پہچانتے ہو اور اس کو بھی جس کو نہیں پہچانتے ہو‘‘۔ (اسلام کی بہترین تعلیمات میں سے ہیں)
    [صحیح بخاری:۱۲]
    اور ایک حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ بندے سے اس دن پوچھے گا کہ :
    ’’يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ، فَلَمْ تَسْقِنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي‘‘
    ’’اے آدم کے بیٹے!میں بیمار ہوا تو نے میری خبر نہ لی؟ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری کیونکر خبر لیتا تو تو مالک ہے سارے جہاں کا۔ پروردگار فرمائے گا:تجھ کو معلوم نہیں میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا تو نے اس کی خبر نہ لی ،اگر تو اس کی خبر لیتا تو مجھ کو اس کے نزدیک پاتا۔ اے آدم کے بیٹے!میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھ کو کھانا نہ دیا،وہ کہے گا: اے رب! میں تجھ کو کیسے کھلاتا، تو تو مالک ہے سارے جہاں کا،پروردگار فرمائے گا:کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے اس کو نہ کھلایا ،اگر تو اس کو کھلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا۔ اے آدم بیٹے کے!میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھ کو پانی نہ پلایا، بندہ بولے گا: میں تجھے کیونکر پلاتا ،تو تو مالک ہے سارے جہان کا،پروردگار فرمائے گا:میرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگا تو نے اس کو نہیں پلایا، اگر پلاتا تو اس کا بدلہ میرے پاس پاتا‘‘
    [صحیح مسلم:۲۵۶۹]
    اور وہ حدیث اس باب میں روشن دلیل ہے کہ جس میں اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ :
    ’’غُفِرَ لِامْرَأَةٍ مُومِسَةٍ، مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَي رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ، قَالَ: كَادَ يَقْتُلُهُ العَطَشُ، فَنَزَعَتْ خُفَّهَا، فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا، فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ المَائِ، فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ‘‘
    ’’ایک فاحشہ عورت صرف اس وجہ سے بخشی گئی کہ وہ ایک کتے کے قریب سے گزر رہی تھی، جو ایک کنویں کے قریب کھڑا پیاسا ہانپ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ابھی مر جائے گا۔ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اور اس میں اپنا دوپٹہ باندھ کر پانی نکالا اور اس کتے کو پلا دیا، تو اس کی بخشش اسی (نیکی ) کی وجہ سے ہو گئی‘‘
    [صحیح بخاری:۳۳۲۱]
    اس کے برعکس اس عورت کا بھی ذکر دیکھیں کہ جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
    ’’دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ‘‘
    ’’ ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی، اس نے بلی کو قید کر دیا، اسے کھلایا پلایا نہیں اور نہ ہی آزاد کیاکہ وہ جائے کچھ کھا لے‘‘
    [صحیح بخاری:۳۳۱۸]
    نتیجتاً وہ بلی مر گئی تو اللہ نے اس عورت کے اس غلط عمل کی وجہ سے اسے جہنم میں ڈال دیا۔
    یہ اور اس طرح کے کئی نصوص ہیں جو ہمیں اس بہترین کام پر ابھارتے ہیں، غور کریں کہ بھوکوں کو کھانا کھلانا اور پیاسوں کو پانی پلانا اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ نے اسے جنت میں داخلے کا سبب بتایا ہے اور بصورت دیگر اسے جہنم میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب کے طور پر ذکر کیا ہے، لیکن ہم مسلمان اس عمل کو اتنی اہمیت نہیں دیتے، ہماری نگاہوں میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے، ہم نبی کی اس بہترین سنت کو بھی بھولے ہوئے ہیں، اس سنت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، بھوکوں کو کھلاؤ اور پیاسوں کو پلاؤ تو اللہ تمہیں بھی کھلائے گا پلائے گا اور تمہاری زندگیوں میں برکت بھر دے گا، بصورت دیگر معاملہ یقیناً بد سے بدترین ہوگا۔
    اللہ رب العالمین ہمیں ان دونوں عظیم کاموں کو کرنے کی توفیق دے۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings