Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مبادئی توحید ربوبیت قسط: (۲)

    اس مضمون کی پہلی قسط مئی ۲۰۲۱ء کے شمارے میں ملاحظہ کریں، بعض اسباب و وجوہات کی بنا پر یہ عقدی سلسلہ منقطع ہوگیا تھا ،اب دوبارہ اس کا آغاز ہورہاہے ۔ الحمد للہ (ادارہ)

    سادساً: وجود الہٰی کے چند دلائل :
    ۱۔ دلیل خلق وایجاد ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {ذَٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْئٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ وَكِيْلٌ}
    ’’یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، (اور وہی) ہر چیز کا پیداکرنے والا (ہے)، تو اسی کی عبادت کرو، اور وہ ہر چیز کا نگراں ہے‘‘
    [الانعام:۱۰۲]
    چنانچہ جو لوگ وجود الٰہی یا اس کی خالقیت کا انکار کرتے ہیں، ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
    {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْئٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ}
    ’’کیا یہ کسی کے پیدا کیے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں، یا یہ خود کو پیدا کرنے والے ہیں‘‘
    [الطور:۳۵]
    اس اعتبار سے یہ تین حال سے خالی نہیں ہے:
    (أ) انہیں عدم نے پیدا کیا ہے، جو محال ہے۔
    (ب) انہوں نے خود کو پیدا کیا ہے، یہ بھی محال ہے۔
    (ج) انہیں کسی نے پیدا کیا ہے، اور یقیناً وہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی ذات مقدسہ ہے۔
    لہٰذا دنیا اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی تو ہے جو انہیں پیدا کرنے والا ہے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اکیلا ہر قسم کی عبادتوں کا مستحق ہے۔
    علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’فإنهم لم يخلقوا نفوسهم ولم يخلقوا السموات والأرض وأن الواحد القهار الذى لا إله غيره ولا رب سواه هو الذى خلقهم وخلق السموات والأرض فهو المتفرد يخلق المسكن والسكن…‘‘
    ’’انہوں نے خود کو پیدا کیا، اور نہ ہی آسمان و زمین کو پیدا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ (ذات) جو تنہا غالب ہے، جس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے سوا کوئی پروردگار ہے، اسی نے ان کو وجود میں لایا ہے، اور آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، اور وہی مسکن (دنیا) و ساکن (بسنے والے) (دونوں) کو پیدا کرنے میں منفرد ہے…‘‘
    [الصواعق المرسلۃ:۲؍۴۹۲]
    ۲۔ دلیل ملکیت عامہ ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْئٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُون}
    ’’کہہ دیں کہ ( اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ) وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا ہے‘‘
    [سورۃ المؤمنون:۸۸]
    جب اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے تو وہی پوری کائنات کا مالک بھی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ}
    ’’اور آسمانوں اور زمین کی ملکیت صرف اللہ کی ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘
    [سورۃ آل عمران:۱۸۹]
    چنانچہ اس کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا ہے، جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’فما شاء كان، وما لم يشأ لم يكن، ولا تتحرك ذرة إلا بإذنه، ولا يجري حادث إلا بمشيئته، ولا تسقط ورقة إلا بعلمه، ولا يعزب عن مثقال ذرة فى السموات والأرض ولا أصغر ذلك ولا أكبر إلا أحصاها علمه، وأحاطت قدرته، ونفذت بها مشيئته، واقتضتها حكمته، فهذا جمع توحيد الربوبية‘‘
    ’’پس جو چاہا ہوا، اور جو نہیں چاہا نہیں ہوا، اور اس کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی نہیں حرکت کر سکتا ہے، اور نہ اس کی مشیئت کے بغیر کوئی حادثہ واقع ہوتا ہے، اور نہ اس کے علم کے بغیر کوئی پتہ (بھی) گر سکتا ہے، اور آسمان و زمین کا چھوٹا یا بڑا کوئی بھی ذرہ اس کے علم سے باہر نہیں ہے، اور اس کی قدرت نے اسے گھیر رکھا ہے، اور اسی سے اس کی مشیئت نافذ ہوتی ہے، اور جسے اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے، تو یقیناً یہی توحید ربوبیت کی جامع (دلیل) ہے‘‘
    [مدارج السالکین:۳؍۴۷۱]
    ۳۔ دلیل ربوبیت عامہ ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}
    ’’ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کو (سزاوار) ہے، جو پوری کائنات کا پروردگار ہے‘‘
    [الفاتحہ:۲]
    چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مومن، کافراور فاسق و فاجر سب کو پیدا فرمایا، ان کے لیے رزق مقدر کیا، انہیں نفع بخش چیزوں کی طرف رہمنائی کی اور ضرر و نقصان دہ چیزوں سے آگاہ بھی فرمایا: دیکھیں:
    [تفسیر السعدی:ص:۹۴۵]
    اور یہی وجہ ہے کہ تمام لوگ اللہ تعالیٰ کی اس ربوبیت عامہ کا اقرار کرتے ہیں۔
    سدی فرماتے ہیں:
    ’’ليس فى الأرض أحد من ولد آدم إلا وهو يعرف أن ربه اللّٰه‘‘
    ’’روئے زمین میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے کوئی ایسا نہیں جو یہ نہ جانتا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا رب ہے‘‘
    [تفسیر طبری :۱۱۶]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’أهل الفطر كلهم متفقون على الإقرار بالصانع‘‘
    ’’فطرت (سلیم) والے سب کے سب صانع (رب کی ربوبیت) کے اقرار پر متفق ہیں‘‘
    [الفتاویٰ الکبریٰ:۶؍ ۳۶۸]
    مزید فرماتے ہیں:
    ’’إن الإقرار بالخالق وكماله يكون فطرياً ضرورياً فى حق من سلمت فطرته‘‘
    ’’بے شک خالق اور اس کے کمال کا اقرار ان تمام لوگوں کے حق میں فطری و ضروری (امر) ہے جن کی فطرت سلیم ہو‘‘
    [مجموع الفتاویٰ:۶؍۷۳]
    ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
    ’’فعلم أن أصل الإقرار بالصانع والاعتراف به مستقر فى قلوب جميع الإنس والجن وأنه من لوازم خلقه، ضروري فيهم‘‘
    ’’تو معلوم ہوا کہ صانع (رب کے وجود، اور اس کی ربوبیت) کا اقرار کرنے، اور اس کا اعتراف کرنے کی اصل تمام انسان و جن کے دلوں میں مستقر ہے، اور یقینا یہ اس کی تخلیق کے لوازم میں سے ہے، (جو) ان میں (ایک) ضروری (امر ہے)‘‘
    [درء تعارض العقل والنقل:۸؍۴۸۲]
    ۴۔ دلیل تدبیرِ کون ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    { وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّٰهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ}
    ’’اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے، تو ضرور یہ کہیں گے اللہ، لہٰذا (ان سے) کہہ دیں کہ پھر تم (اللہ سے) ڈرتے کیوں نہیں؟‘‘!
    [سورۃ یونس:۳۱]
    دنیا میں پائی جانے والی مخلوقات کے لیے خالق کا پایا جانا ضروری ہے، بغیر خالق کے ان کا وجود میں آنا امر محال ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
    {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْئٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ}
    ’’کیا وہ خود سے پیدا ہوگئے یا خود کو پیدا کرنے والے ہیں؟‘‘
    [الطور:۳۵]
    اور ان مخلوقات کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مدبر ہو، جو ان کے معاملات میں تدبیر کرے، رب کا یہ فرمان اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے:
    {أَمَّنْ هٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ بَل لَّجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ}
    ’’بھلا وہ کون ہے جو تمہیں رزق دے اگر وہ اپنا رزق بند کر دے؟ کچھ نہیں بلکہ وہ سرکشی اور نفرت میں اڑے ہوئے ہیں‘‘
    [الملک:۲۱]
    اور مذکورہ دونوں اسباب (بقاء وجود اور تدبیر امر) کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں ذکر فرمایا ہے:
    {أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ}
    ’’بھلا کون پہلی بار خلقت کو پیدا کرتا ہے، پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے، اور تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے؟‘‘
    [النمل:۶۴]
    ’’أَمَّن یَبْدَأُ الْخَلْقَ‘‘کہہ کر پہلی وجہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ہر مخلوق خالق کا محتاج ہے، جبکہ ’’وَمَن یَرْزُقُکُم‘‘ سے یہ واضح فرمایا ہے کہ ہر مخلوق مدبر کا محتاج ہے، اور یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ ہے۔دیکھیں:
    [ الربوبیۃ للدکتور أبی سیف الجہنی :ص:۳۶۔۵۶]
    ابن ابی العز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’و انتظام أمر العالم كله وإحكام أمره، من أدل دليل علٰي أن مدبره إله واحد، وملك واحد، و رب واحد، لا إله للخلق غيره، ولا رب لهم سواه‘‘
    ’’اور پوری دنیا کا انتظام و انصرام اور اس کے امر محکم سب سے واضح و بین دلیل ہے کہ اس کا مدبر ایک ہی معبود ہے، اور ایک مالک ہے، اور ایک پروردگار ہے، اور اس کے علاوہ مخلوقات کا کوئی معبود برحق نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے سوا کوئی ان کا پروردگار ہے‘‘
    [شرح العقیدۃ الطحاویۃ :۱؍۳۸]
    ۵۔ دلیل آفاق ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّيٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَيٰ كُلِّ شَيْئٍ شَهِيدٌ}
    ’’ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں اور خود ان کی ذات میں (بھی) اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان کے لیے ظاہر ہوجائے گا کہ (قرآن) حق ہے، کیا یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے‘‘؟
    [سورۃ فصلت:۵۳]
    عطاء اور ابن زید رحمہما اللہ فرماتے ہیں:
    ’’(فی الآفاق) یعنی:
    أقطار السماء والأرض من الشمس والقمر والنجوم والنبات والأشجار والأنهار۔
    (وفي أنفسهم) من لطيف الصنعة وبديع الحكمة، حتي يتبين لهم أنه الحق‘‘
    ’’(اطراف عالم میں) یعنی: آسمان و زمین کے چاروں اطراف سورج، چاند، ستارے، نباتات، درخت، اور نہریں ہیں (یہ سب اللہ کی ایسی نشانیاں ہیں جو اس کے جود پر دلالت کرتی ہیں)
    (اور ان کے نفس میں:یعنی: ( ان کے اندر جو) باریک بناوٹ، اور بے مثال حکمت (موجود) ہے (اگر انہی پر یہ غور کر لیں) تو ان کے لیے یہ واضح ہو جائے گا کہ وہی برحق ہے‘‘
    [تفسیر البغوی:۴؍۱۳۷]
    کائنات کے چاروں طرف پھیلی ہوئی رب کی یہ مختلف نشانیاں:آسمان و زمین، شجر و حجر، بحروبر ، شمس و قمر، پہاڑ و پربت اور خود انسانوں کا وجود یہ سب آیات کونیہ اللہ کے وجود پر دلالت کرتی ہیں، کیونکہ ایک معمولی سی عمارت خود بخود وجود میں نہیں آسکتی ہے تو بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ یہ ساری مخلوقات خود بخود وجود میں آگئی ہوں؟
    علامہ ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے:
    ’’کیا انسان کا وجدان یہ باور کر سکتا ہے کہ نظام ربوبیت کا یہ پورا کارخانہ خود بخود وجود میں آجائے، اور کوئی زندگی، اور کوئی ارادہ، کوئی حکمت اس کے اندر کارفرما نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس کارخانۂ ہستی کی ہر چیز میں ایک بولتی ہوئی پروردگاری اور ابھری ہوئی کارساز موجود ہو، مگر کوئی پروردگار، کوئی کارساز موجود نہ ہو؟…!
    پروردگاری موجود ہے مگر پروردگار موجود نہیں، کارسازی موجود ہے مگر کوئی کارساز موجود نہیں…!انسان کی فطرت کبھی یہ باور نہیں کر سکتی ہے…‘‘
    (ترجمان القرآن:۱؍۸۶)
    ۶۔ دلیل نفس، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ}
    ’’اور خود تمہارے وجود میں (ایسی نشانیاں ہیں) کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘
    [ الذاریات:۲۱]
    انسانی وجود کے اندر ایسی بے شمار نشانیاں موجود ہیں جو اللہ عزوجل کے وجود پر دلالت کرتی ہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص صرف اپنے ہی جسمانی نظام پر غور کر لے تو وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہو جائے گا۔
    جیسا کہ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وفي أنفسكم أيضا أيها الناس آيات وعِبر تدلُّكم علٰي وحدانية صانعكم، وأنه لا إله لكم سواه، إذ كان لا شيء يقدر على أن يخلق مثل خلقه إياكم ( أَفَلا تُبْصِرُونَ ) يقول: أفلا تنظرون فى ذلك فتتفكروا فيه، فتعلموا حقيقة وحدانية خالقكم‘‘
    ’’اور تمہارے نفس میں بھی اے لوگو! ایسی نشانیاں اور عبرت (کی چیزیں موجود) ہیں جو تمہیں تمہارے خالق کی وحدانیت پر رہمنائی کرتی ہیں، اور یہ کہ اس کے سوا تمہارا کوئی سچا معبود نہیں ہے، کیونکہ کوئی ایسی شی نہیں جو اس بات پر قدرت رکھے کہ وہ اسی طرح (کسی کو) وجود میں لائے جس طرح اس (اللہ) نے تمہیں وجود میں لایا ہے‘‘
    [تفسیر الطبری:۲۲؍۴۲۰]
    لہٰذا’’انسان کے لیے حقیقت شناسی کی راہ یہی ہے کہ خدا کی دی ہوئی عقل و بصیرت سے کام لے اور اپنے وجود کے اندر اور اپنے وجود کے باہر جو کچھ محسوس کر سکتا ہے، اس میں تدبر و تفکر کرے‘‘
    [ترجمان القرآن:۱؍۸۲ ]
    تو وہ اسی نتیجے تک پہنچے گا کہ اس کارخانۂ ہستی کا کوئی پروردگار ہے جس کی تدبیر سے یہ نظامِ ربوبیت قائم ہے، اور یقینا وہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی ذات مقدسہ ہے۔
    جاری ہے……
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings