-
وقف، معنیٰ و مفہوم-ایک تجزیاتی مطالعہ (قسط اول) -1 وقف اسلامی قانون(Islamic Law) کا ایک اہم جزء اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن باب ہے۔
عہد نبوی ﷺ سے لے کر آج تک ہر دور میں اس کارِخیر( pious) اور فلاحی پروگرام(welfare & charitable endowment ) کو مختلف انداز سے رواج دیا گیا ہے۔
یہ موضوع کافی اہم ہونے کے ساتھ قدر مشکل بھی ہے ، احکام حج کی طرح وقف کے مسائل بھی جدت پذیر ہیں ، علماء کرام اور فقہائے عظام(Muslim Jurists) کے مابین وقف کے مسائل کو لے کر کافی اختلافات نظر آتے ہیں، اس لیے وقف کے معنیٰ اور مفہوم کو باریکی سے سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ امت کو در پیش مسائل بالخصوص وقف سے متعلق ہندوستان میں رونما ہونے والے مسائل کو اسلامی شریعت(Islamic Jurisprudence) اور ہندوستانی قانون (The Waqf Act, 1995 As amended by The Wakf (amendment) Act, 2013 کے مطابق حل کیا جا سکے ۔
1.1 وقف کا لغوی (literally) معنیٰ :
وقف تخفیف کے ساتھ عربی زبان کا مصدر ہے ، وقف(spelled as Waqf, not wakf) کی جمع اوقاف اور وقوف( plural: Awqaf and Waquf) ہے ۔(حوالہ: القاموس المحیط، اور معجم مقاییس اللغہ مادہ:وقف)
وقف سے مراد کوئی بھی شیٔ جس کو وقف کیا گیا ہو۔ (یعنی موقوف al-mawquf)اور وقف کرنے والے کو واقف( al-Waqif)کہا جاتا ہے ۔
اہل لغت نے اس کو دو افعال سے مشتق بتلایا ہے، ایک’’ اوقف یوقف ایقافا‘‘، جو کہ بہت ہی کمزور و شاذ لغت ہے۔ دوسرا’’ وقف یقف وقفا‘‘ سے ہے ۔
عربی زبان کی مشہور ڈکشنری مثلاً لسان العرب اورالمصباح المنیر وغیرہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ لغت کے اندر وقف کے مندرجہ ذیل متعدد معانی( synonymous of waqf ) ہیں ۔
1 – حبس یعنی کسی چیز کو روکنا، قید کرنا ۔( Hold still , Not to let go)
-2 المنع: منع کرنا(Prohibition)
-3 التسبیل: یعنی اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ۔(dedicating something for the sake of Allah)
-4 السکون : یعنی ٹھہرنا(stop) ، اس کے علاوہ التعلیق(Hanging) و التاخیر( delay) وغیرہ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
-2 وقف کی اصطلاحی تعریف(Definition of Waqf in Islamic Jurisprudence)
وقف کے شرائط اور چند احکام و مسائل میں فقہاء( Jurists) کے مابین قدر اختلاف ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں وقف کی تعریف ڈائریکٹ اور واضح انداز میں نہیں بیان کی گئی ہے ۔ بلکہ اس کے احکام و مسائل کو مختلف الفاظ مثلاً صدقہ و خیرات وغیرہ کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ، اس لیے مختلف فقہاء کے یہاں مندرجہ ذیل تعریفات ہیں :
2.1 فقہ حنفی( Hanafi Jurisprudence) کے مطابق وقف کی اصطلاحی تعریف:
مشہور امام خطیب تمرتاشی، امام نسلی اور مشہور حنفی عالم ابو الحسن برہان الدین المرغینانی رحمہ اللہ اپنی کتاب’’ الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی‘‘ میں ر قم طراز ہیں کہ وقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق یہ ہے کہ :
’’حبس العين على ملك الواقف، والتصدق بالمنفعة مع بقاء العين بمنزلة العارية‘‘
ترجمہ:
’’کسی معین مال کی اصل ملکیت اپنے نام رکھنا اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو صدقہ کردینا یا جن لوگوں پر چاہے خرچ کردینا ‘‘۔ اس کی مثال کرائے( rent)پر دیے گئے اُس مال کی طرح ہے جس کا اصل مالک تو کرائے پر دینے والا ہوتا ہے مگر اس مال سے فائدہ کرایہ دار اٹھاتا ہے۔
فقہ حنفی کے مشہور فقہاء صاحبین یعنی امام محمد اور امام یوسف رحمہم اللہ کے مطابق وقف کہتے ہیں :
’’حبس العين على حكم ملك اللّٰه تعالي، والتصدق بالمنفعة‘‘
ترجمہ:’’کسی معین مال کی ملکیت کو اللہ تعالیٰ کے نام منتقل کردینا اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو خیر و بھلائی (pious) کے کاموں میں خرچ کردیا جائے۔
ملاحظہ کریں:
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، فخر الدين الزيلعي الحنفي اور ردالمحتار على الدر المختار لابن عابدين الحنفي۔
وقف کی مذکورہ تعریفات کے تجزیہ( anylize) کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق وقف کرنے سے واقف کی ملکیت ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ ایک کرائے( rent) پر دئیے گئے مال کی طرح وقف کئے گئے مال کا اصل مالک واقف ہی رہے گااور اس سے حاصل شدہ فائدے کو صدقہ کردیا جائے گا ۔ جبکہ امام محمد اور امام یوسف رحمہم اللہ جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد خاص بلکہ فقہ حنفی کے اہم ستون ہیں، ان کے مطابق وقف کرنے سے واقف کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے اور ملکیت اللہ رب العالمین کے نام منتقل ہو جاتی ہے ۔
امام سرخسی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’المبسوط‘‘ میں وضاحت کرتے ہیں کہ : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق چونکہ مال موقوف کا مالک واقف ہے، سوائے مسجد کے، وہ جب چاہے اسے ختم کر سکتا ہے۔ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کو بیچ سکتا ہے اور دیگر تصرفات بھی کرسکتا ہے۔ اگر واقف کا انتقال ہو جائے تو اس وقت اس کے وارثین( legal heir) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ہاں حاکم ِوقت اگر چاہے یا وفات پانے والے شخص کی کوئی شرط ہو تو تقسیم سے روکا جا سکتا ہے۔
جبکہ صاحبین کے مطابق اس طرح کے تمام تصرفات جائز نہیں ہیں کیونکہ اب یہ مال اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ۔ مال موقوف کو بیچنا(sale) ، ہبہ کرنا(gift)، رہن رکھنا اور میراث(mortgage) کرنا بالکل ناجائز ہے ۔
فقہ حنفی کے اندر صاحبین کے قول کے مطابق عمل ہے اور یہی مفتی بہ قول ہے ۔
2.2 فقہ مالکی(Maliki Jurisprudence )کے مطابق وقف کی اصطلاحی تعریف :
مواہب الجلیل ، شرح الخرشی کے مؤلفین رقم طراز ہیں کہ فقہائے مالکیہ(Maliki Jurists )کے مطابق وقف کی تعریف میں امام خلیل مالکی لکھتے ہیں:
’’ جعل الملك منفعة مملوكة، ولوكان مملوكا بأجرة، أو جعل غلاة كدراهم لمستحق بصيغة مدة ما يراه المحبس‘‘
ترجمہ:
’’کوئی اپنی ملکیت کے منافع خواہ اجرت ہو یا پیداوار اس کو درہم کی طرح جتنی مدت کے لیے چاہے کسی مستحق کو دے دے ‘‘
امام ابن عرفہ مزید کہتے ہیں :
’’هو إعطاء منفعة شيء مدة وجوده لازما بقائه فى ملك معطيه ولو تقديرا ‘‘
ترجمہ:
’’ کوئی اپنی ملکیت کے منافع ہمیشہ کے لیے کسی مستحق کو دے دے، اور مال موقوف کا مالک(Owner) واقف ہی رہے, چاہے عارضی ہی کیوں نہ ہو‘‘
اس تعریف سے ثابت ہو تا ہے کہ مالکی مسلک میں صرف منافع دئیے جاتے ہیں۔ اصل مال واقف ہی کی ملکیت (Ownership) میں رہتا ہے ۔ اس کو امام ابو حنیفہ کی طرح اعارہ ( Rent) یعنی ادھار نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس لیے کہ’’ مدۃ وجودۃ‘‘ کے الفاظ ثابت کر تے ہیں کہ جب تک وہ (مال موجود رہے) اس کے منافع مالک کو نہیں ملیں گے، ادھار میں یہ شرط نہیں ہوتی بلکہ کچھ وقت بعد ادھار میں دیئے گئے مال کے منافع بھی اصل مالک کو واپس مل جاتے ہیں ۔
مالکیہ کے مطابق وقف لازم ہے ،ایک بار وقف کرنے کے بعد ختم نہیں کیا جا سکتا یعنی ہمیشہ وقف ہی رہے گا ایک قول کے مطابق ۔ جبکہ امام خلیل مالکی کے مطابق تابید یعنی ہمیشہ کے لیے وقف کیا جائے یہ ضروری نہیں ہے بلکہ ایک معین مدت کے لیے بھی وقف کیا جا سکتا ہے ۔
امام ابو حنیفہ کی طرح مالکیہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ موقوف کا مالک(Owner) واقف ہی رہے گا مگر مالکیہ کے مطابق واقف کو کسی بھی طرح کا تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہوگا ۔ جبکہ ابو حنیفہ کے نزدیک تصرفات مثلاً بیع(sale)، ہبہ(gift)اور میراث( mortgage)کی تقسیم کا اختیار دیا گیا ہے ۔
2.3 فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کے( Shafie and Hambli Jurisprudence) مطابق وقف کی اصطلاحی تعریف :
امام طبری شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب’’شرح المزنی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وقف کہتے ہیں:
’’تحبيس الأصل وتسبيل المنفعة‘‘
ترجمہ:
’’ اصل مال کو وقف کردینا اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو صدقہ کردینا‘‘
فقہ شافعی کے نامور امام ماوردی، امام بغوی، امام رافعی اور امام شربینی رحمہم اللہ وقف کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حبس مال يمكن الانتفاع به مع بقاء عينه، بقطع التصرف فى رقبته على مصرف مباح موجود‘‘
ترجمہ:
’’ وقف ایسے مال کو روکے رکھنے کا نام ہے جس سے نفع اٹھانا ممکن ہو، مگر اصل مال باقی رہے اور اس کا مصروف موجود اور جائز ہو ‘‘
امام یحییٰ بن شرف الدین نووی اور امام مناوی رحمہم اللہ مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’کہ مال موقوف کے اندر تصرف کرنے کا اختیار واقف کو نہیں رہتا ہے یعنی مال موقوف کی بیع(sale)جائز نہیں، ہبہ (gift) اور میراث (mortgage) میں انتقال سب ناجائز ہے۔
2.4 ابن قدامہ الحنبلی( Humbali Jurist) اپنی کتاب ’’المغنی ‘‘میں وقف کی تعریف میں ر قم طراز ہیں :
’’ تحبیس الأصل وتسبیل الثمرۃ أو المنفعۃ ‘‘
ترجمہ:’’کسی مال کو وقف کردینا اور اس کی پیداوار یا اس سے حاصل ہونے والے فائدہ کو صدقہ کردینا وقف کہلاتا ہے‘‘
یہی الفاظ نبی اکرم محمدﷺ سے منقول ہیں۔ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مال غنیمت میں حاصل ارض خیبر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا تھا :
’’إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ‘‘
ترجمہ:
’’اگر چاہے تو اصل جائیداد اپنے قبضے میں روک رکھ اور اس کے منافع کو خیرات کر دے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے اور نہ وراثت میں کسی کو ملے‘‘
(رواہ البخاری:۲۷۷۲، ومسلم:۱۶۳۲)
مطلب:’’ آپ چاہو تو زمین کو روکے رکھو (یعنی وقف کردو) اور اس کی پیداوار کو صدقہ کردو۔ وقف کرنے کے بعد اس کو نہ تو بیچنا( sale) جائز ہوگا اور نہ ہی ہبہ(gift) اور میراث( mortgage)میں انتقال جائز ہوگا بلکہ تمام تصرفات ناجائز ہو ں گے‘‘
فقہائے شافعیہ اور فقہائے حنابلہ اور اسی طرح فقہائے احناف کے مفتی بہ قول امام محمد اور امام یوسف کی تعریفات کے تجزیاتی مطالعہ اور علماء کے راجح اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مطابق مال موقوف کی ملکیت( Ownership) اللہ تعالیٰ کے نام منتقل ہو جاتی ہے اور واقف کے لیے تمام قسم کے تصرفات ناجائز ہوتے ہیں ۔ ان کے مطابق وقف کا مالک صرف اللہ رب العالمین ہے۔
2.5فقہ شیعہ( Shia’a Jurisprudence)کے مطابق وقف کی تعریف:
اس موضوع پر شیعہ فقہ کا موقف جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہندوستان کے اندر کافی جائیداد شیعہ وقف ریکارڈ میں درج ہیں ۔ اسی لیے ہندوستان کے وقف قانون(Waqf laws) میں وقف بورڈوں کی تشکیل میں شیعہ بورڈ یا ایک شیعہ ممبر کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے ۔
ابو جعفر الطوسی اپنی کتاب ’’ المبسوط فی فقہ الامامیہ‘‘ میں وقف کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ :
’’الوقف ہو تحبیس الأصل وتسبیل المنفعۃ‘‘ جبکہ ’’ مفتاح الکرام فی شرح قواعد العلامہ السید العاملی ‘‘میں بعینہٖ یہی تعریف لفظ ’’عقد‘‘ کے اضافہ کے ساتھ منقول ہے ۔
مذکورہ تعریف کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شیعہ فقہ کے اندر بھی وقف کی تعریف جمہور سنی فقہاء کے مطابق ہی ہے ۔
2.6 وقف کی راجح تعریف:( Preferable Definition of Waqf)
دیگر محققین علماء کرام(Prominent Muslim Scholar) کی آراء اور مذکورہ تعریفات کے مطالعہ کے بعد میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جمہور فقہاء( Majority of Jurists of Islamic Jurisprudence) کے قول کے مطابق وقف کی جامع اور مانع تعریف یہ ہے کہ:
’’حبس العين على حكم ملك اللّٰه تعالي والتصدق بالمنفعة على جهة البر ابتداء أو انتهاء فقط‘‘
ترجمہ:
’’ اصل مال کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت( Ownership)میں منتقل کردینا شروع میں یا آخر میں، اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو خیر و بھلائی( pious and charity) کے اس مصرف میں خرچ کردینا جس کے لیے وقف کیا گیا ہے ۔
نوٹ: تعریف میں موجود لفظ’’ابتداء ا أو انتہاء ا‘‘ ترجمہ:’’ شروع میں یا آخر میں‘‘ کے الفاظ ایک فقہی اختلاف کی طرف اشارہ ہے جس کو ماہرین فن جانتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واقف نے اپنی جائیداد کو اللہ کی ملکیت میں چاہے شروع یعنی وقف کرتے وقت ہی منتقل کر دیا ہو یا پھر شروع میں اولاد کے نام وقف کیا ہو یا کسی رشتہ دار یا اپنے ہی نام رکھا ہو اس شرط کے ساتھ کہ مرنے کے بعد یہ جائیداد’’انتھاء ا‘‘ یعنی آخر میں اللہ کے نام وقف کہلائے وغیرہ ۔ چنانچہ کوئی بھی جائیداد ان الفاظ کے ساتھ وقف شمار کی جائے گی۔ مستقل کسی مضمون میں اس کی مزید تفصیل بیان کی جائے گی ۔ ان شاء اللہ۔
3.0 وقف کی تعریفات کا تجزیہ اور متعلقہ مسائل کی وضاحت( Clarification of few issues in the light of definition of Waqf )
وقف سے متعلق تمام مسالک کے فقہائے کرام کی مختلف تعریفات ہیں، اس کی بنیادی وجہ وقف کے مندرجہ ذیل مسائل میں اختلاف ہے۔
-1 دوام واستمرار:(Perpetual) کیا ایک بار وقف ہمیشہ کے لئے وقف مانا جائے گا؟ یا متعینہ مدت کے لیے بھی وقف کیا جا سکتا ہے؟
جمہور فقہاء کے مطابق دوام واستمرار شرط ہے۔ چنانچہ ایک بار وقف ہمیشہ کے لیے وقف تصور کیا جائے گا۔ متعینہ مدت کے لئے وقف کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ وقف کی تعریفات سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے۔ یہی راجح قول بھی ہے ۔ (Once a Waqf is always Waqf) ہندوستان کی سپریم کورٹ بھی اسی قول کی پابند ہے اور اسی پر ہندوستان میں عمل درآمد ہے ۔
جبکہ فقہائے مالکیہ کے مطابق ایک متعینہ مدت یا کسی مال کو واقف کی وفات تک وقف کرنا جائز ہے ۔
-2ملکیت وقف:(Ownership of waqf) یعنی وقف کا مالک واقف ہوگا یا اللہ تعالیٰ کی ملکیت کہلائے گا ؟ جیسا کہ میں نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ جمہور علماء مثلاً امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور فقہ حنفی کا مفتی بہ قول امام یوسف اور امام محمد بن حسن، ظاہریہ اور دیگر فقہاء کے مطابق وقف کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔یہی قول راجح اور معتبر ہے ۔
جبکہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کے مطابق وقف کا مالک واقف ہی رہے گا ۔ مگر امام ابو حنیفہ ، مال موقوف میں کسی بھی طرح کے تصرفات کو ناجائز قرار دیتے ہیں ۔
اور فقہائے مالکیہ تمام قسم کے تصرفات مثلاً بیع(sale)، ہبہ(gift) اور میراث( mortgage) میں تقسیم یا مشروط متعینہ مدت کے لیے وقف کرنے کو جائز تصور کرتے ہیں ۔
ملکیت کے تعلق سے ایک تیسرا قول بعض شوافع اور امامیہ کا بھی ہے کہ وقف کے مالک وہ لوگ ہوں گے جن کے لیے مال کو وقف کیا گیا ہے۔
-3 وقف لازم اور غیر لازم:
فقہاء کی اصطلاح میں لازم کہتے ہیں ایسے عقد( contract) کو جس کو کسی بھی فریق کے ذریعہ ختم نہیں کیا جا سکتا ہو ۔
The necessary contract is enforceable as a matter of inevitability, meaning that none of the contracting parties has the right to cancel it.
جمہور فقہاء( Majority of Jurists)کا کہنا یہ ہے کہ وقف لازم ہے ۔ ایک بار وقف کرنے کے بعد کسی بھی حال میں وقف کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح مالِ موقوف کے مستحقین(beneficiaries) کو بھی نہیں ختم کیا جا سکتا ہے ،جس مقصد کے لیے وقف ہے ہمیشہ اسی کے لیے رہے گا ۔
یہی راجح قول ہے اور اسی پر عمل ہے ۔
جبکہ امام ابو حنیفہ کے مطابق وقف غیر لازم ہے ۔ یعنی وقف کو امام مالک کی طرح کسی بھی وقت ختم کیا جا سکتا ہے ۔
جاری ہے……