-
آٹھ (۸) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ آٹھ(۸) رکعات تراویح کی روایت
مع سند ومتن
امام مالک رحمہ اللہ (المتوفی179)نے کہا:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، أَنَّہُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَتَمِیمًا الدَّارِیَّ أَنْ یَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً قَالَ: وَقَدْ کَانَ الْقَارِئُ یَقْرَأُ بِالْمِئِینَ، حَتَّی کُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَی الْعِصِیِّ مِنْ طُولِ الْقِیَامِ، وَمَا کُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِی فُرُوعِ الْفَجْرِ [موطأ مالک : 1/ 115واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ومن طریق مالک رواہ ۲؍النسائی فی السنن الکبری 3/ 113 رقم 4687 و ۳؍الطحاوی فی شرح معانی الآثار 1/ 293 رقم1741 و ۴؍ابوبکر النیسابوری فی الفوائد (مخطوط) ص 16 رقم 18 ترقیم الشاملہ و ۵؍البیہقی فی السنن الکبری 2/ 496 رقم 4392 کلھم من طریق مالک بہ]۔
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا ، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام سوسو آیتیں ایک رکعت میں پڑھتا تھا یہاں تک کہ ہم طویل قیام کی وجہ سے لکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے اورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔
یہ روایت بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے اس کی سند میں کسی علت کا نام ونشان تک نہیں ، اس روایت سے معلوم ہوا کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے آٹھ رکعات تراویح اور تین رکعات وتر ہی کا حکم دیا اوران کے دور میں آٹھ رکعات تراویح ہی ہوتی تھی ۔
اس روایت کے برخلاف کسی ایک بھی روایت میں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ عہدفاروقی میں یا اس سے قبل یا اس کے بعد کسی ایک بھی صحابی نے آٹھ رکعات سے زائد تراویح پڑھی ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ تراویح کی آٹھ رکعات ہونے پر تمام صحابہ کا اجماع تھا ۔
اب ذیل میں اس روایت کی سند پر معلومات پیش خدمت ہیں:
سندکے رجال کاتعارف
مذکورہ روایت کی سند بالکل صحیح اوربے داغ ہے ۔
اس روایت کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسے صحابی عمرفارق رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والے سائب بن یزید بھی صحابی ہیں ، رضی اللہ عنہ۔
اورپھرامام مالک اوران صحابی کے بیچ صرف ایک روای محمد بن یوسف ہیں جو بخاری ومسلم کے زبردست ثقہ راوی ہے۔
فردا فردا اس سند کے رجال کا تعارف ملاحظہ ہو:
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ۔
آپ صحابی اورخلیفہ دوم ہیں اس لئے مزید کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ۔
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ۔
آپ بھی صحابی ہیں جیساکہ بخاری کی روایت میں اس کا ثبوت ہے چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی256)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ یُونُسَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، قَالَ: حُجَّ بِی مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِینَ [صحیح البخاری:کتاب جزاء الصید:باب حج الصبیان رقم 1858]۔
محمد بن یوسف رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرایا گیا تھا۔ میں اس وقت سات سال کا تھا۔
لہٰذا جب آپ بھی صحابی ہیں تو آپ کے بھی مزید تعارف کی ضرورت نہیں ۔
محمد بن یوسف المدنی۔
آپ بخاری ومسلم کے زبردست راوی ہیں ، آپ کی ثقاہت واتقان پر اہل فن کا اتفاق ہے ،میرے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی بھی ناقد امام نے ان پرکوئی جرح نہیں کی ہے، لہذا ان کے بارے میں بھی تفصیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان سے متعلق اہل فن کے اقوال کاخلاصہ کرتے ہوئے انہیں ثقۃ ثبت کہا ہے چنانچہ:
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
محمد بن یوسف بن عبد اللہ الکندی المدنی الأعرج ثقۃ ثبت (تقریب التہذیب لابن حجر:رقم 6414)۔
امام مالک رحمہ اللہ۔
آپ ائمہ اربعہ میں سے ایک معروف امام ہیں آپ بھی محتاج تعارف نہیں ۔
معلوم ہوا کہ روایت مذکورہ بہت ہی بلندپایہ ثقہ اورمعروف و مشہور رواۃ سے منقول ہوئی ہے لہٰذا اس روایت کی سند اعلی درجہ کی صحیح ہے۔
فائدہ:
روایت مذکورہ کے تمام رجال نہ صرف یہ کہ بخاری ومسلم کے رجال میں سے ہیں بلکہ عین اسی سلسلہ سند سے بخاری ومسلم میں احادیث بھی منقول ہیں۔
سند مذکور سے بخاری میں روایت:
پہلی روایت:
امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی256)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ یُونُسَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، قَالَ: حُجَّ بِی مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِینَ [صحیح البخاری:کتاب جزاء الصید:باب حج الصبیان رقم 1858]۔
دوسری روایت:
امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی256)نے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، قَالَ: صَحِبْتُ طَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللَّہِ، وَسَعْدًا، وَالمِقْدَادَ بْنَ الأَسْوَدِ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ، فَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا مِنْہُمْ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَنِّی سَمِعْتُ طَلْحَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ یَوْمِ أُحُدٍ [صحیح البخاری:کتاب الجہاد والسیر :باب من حدث بمشاہدہ فی الحرب، رقم 2824]۔
تیسری روایت:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ یَزِیدَ، قَالَ: صَحِبْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، وَطَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللَّہِ، وَالمِقْدَادَ، وَسَعْدًا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ فَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا مِنْہُمْ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَّا أَنِّی سَمِعْتُ طَلْحَۃَ: یُحَدِّثُ عَنْ یَوْمِ أُحُدٍ [صحیح البخاری:کتاب المغازی: باب إذ ہمت طائفتان منکم ۔۔۔۔، رقم 4062]۔
سند مذکور سے مسلم میں روایت:
امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی261)نے کہا:
حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ یَزِیدَ، یُحَدِّثُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: شَرُّ الْکَسْبِ مَہْرُ الْبَغِیِّ، وَثَمَنُ الْکَلْبِ، وَکَسْبُ الْحَجَّامِ [صحیح مسلم:کتاب المساقاۃ: باب تحریم ثمن الکلب، وحلوان الکاہن۔۔۔، رقم1568]۔
لطائف سند
اول: صحابی عن صحابی
صحابی سے روایت کرنے والے بھی صحابی ہیں۔
دوم: سلسلہ الذھب
امام مالک رحمہ اللہ اورصحابی کے بیچ صرف ایک روای کا فاصلہ ہے، یعنی یہ سند سلسلۃ الذھب ہے۔
سوم:مدنی سند
بشمول امام مالک سند کے تمام رجال مدنی ہیں ، یعنی مذکورہ روایت مدنی سند سے منقول ہے۔
گھرکی شہادت
محمدبن علی النیموی الحنفی (المتوفی1322ھ) نے روایت مذکورہ کی سند کو صحیح قراردیتے ہوئے کہا:
اسنادہ صحیح (آثارالسنن:ج ۲ص:۲۵۰)۔
یعنی اس کی سند صحیح ہے۔
روایت مذکورہ پر اعتراضات
اس روایت پر دوقسم کے اعتراضات کئے جاتے ہیں:
پہلی قسم : متن پراعتراض۔
دوسری قسم: رواۃ پراعتراض۔
ذیل میں ہم دونوں قسموں پرمشتمل اعتراضات کی حقیقت بیان کرتے ہیں :
اعتراض کی پہلی قسم
(متن پراعتراض)
متن پرپہلااعتراض
(تعداد رکعات کے بیان میں اختلاف)
کہا جاتا ہے کہ اس روایت میں رکعات تراویح کی تعداد کے بیان میں اضطراب ہے کسی میں گیارہ کی تعداد بتائی گئی ہے تو کسی میں تیرہ کی ، کسی میں اکیس کی ، لہٰذا یہ روایت مضطرب ہے ۔
عرض ہے کہ گیارہ کی تعدا کے د علاوہ جس طریق میں اکیس کی تعداد آئی ہے وہ ثابت ہی نہیں تو پھراضطراب کہاں؟ جہاں تک تیرہ کی تعداد کا معاملہ ہے تو اسے محمدبن اسحاق نے بیان کیا ہے اور:
اول :
یہ گیارہ کی تعداد کے خلاف نہیں ہے بلکہ تطبیق ممکن ہے تفصیل اگلے سطور میں آرہی ہے، یادرہے کہ نیموی الحنفی نے بھی تطبیق ہی کا موقف اختیاررکیا ہے کماسیاتی۔
دوم:
اگرتطبیق کی صورت نہ اختیار کی جائے تو لازمی طورپر ابن اسحاق کی روایت شاذ ہوگی کیونکہ ابن اسحاق نے تنہا ، محمدبن یوسف سے تیرہ کی تعداد نقل کی ہے کسی بھی دوسرے راوی نے ان کی متابعت نہیں کی ہے جبکہ امام مالک نے گیارہ کی تعداد نقل کی ہے اور امام مالک رحمہ اللہ حافظہ میں ابن اسحاق سے بڑھ کر ہیں مزید یہ کہ دیگر پانچ راویوں نے بھی امام مالک کی متابعت کی ہے کماسیاتی ، لہٰذا پانچ راویوں کی جماعت کے بالمقابل تنہا ابن اسحاق کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، بالخصوص جبکہ ان کے حفظ پربھی لوگوں نے کلام کیا ہے۔
سوم:
حنفی حضرات تو محمدبن اسحاق کو کذاب ودجال اورنہ جانے کیا کیا کہتے پھرتے ہیں، پھر کس منہ سے وہ اس کی ایک منفرد روایت کو ایک جماعت کی رویات کے خلاف پیش کررہے ہیں۔
لطف تو یہ ہے کہ حنفی حضرات امام مالک ہی کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ امام مالک نے محمدبن اسحاق کو دجال کہا ہے ، اورپھر تراویح کی بات آتی ہے تو امام مالک ہی کے خلاف اس کی روایت پیش کردیتے ہیں۔
الغرض یہ کہ گیارہ کی تعداد کی مخالفت ثابت نہیں لہٰذا اضطراب کا دعوی فضول ہے، نیز اضطراب اس وقت تسلیم کیا جاتا ہے جب ترجیح کی کوئی صورت نہ ہو ، لیکن اگر ترجیح کی صورت موجود ہو تو اضطراب کا دعوی مردود ہے:
امام نووی رحمہ اللہ (المتوفی 676)نے کہا:
المضطرب ہو الذی یروی علی أوجہ مختلفۃ متقاربۃ، فإن رجحت إحدی الروایتین بحفظ راویہا أو کثرۃ صحبتہ المروی عنہ، أو غیر ذلک: فالحکم للراجحۃ، ولا یکون مضطرباً، والاضطراب یوجب ضعف الحدیث لإشعارہ بعدم الضبط، ویقع فی الإسناد تارۃ وفی المتن أخری وفیہما من راو أو جماعۃ: واللہ أعلم.(التقریب والتیسیر لمعرفۃ سنن البشیر النذیر فی أصول الحدیث ص: 6)۔
متن پر دوسرا اعتراض
(رواۃ نے کبھی تعدادبیان کی ہے کبھی نہیں)
اول:
یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں کیونکہ محدثین اختصار کی خاطر اپنی بیان کردہ روایت میں کمی بیشی کرتے رہتے ہیں ، اس طرح کی باتوں کو اضطراب کی دلیل بنانا یا تو اس فن سے ناواقفیت کی دلیل ہے یا مغالطہ بازی اور دھوکہ دہی ہے ، اگراس طرح کی باتوں کو بنیاد بناکر اضطراب کا دعوی کیا جانے لگا توپھر قرانی آیات بھی مضطرب نظر آنے لگیں گی کیونکہ قران میں ایک بات ایک مقام پر مختصر ہے جبکہ دوسرے مقام پر مفصل اور یہ سارا کلام صرف اللہ واحد ہی کا ہے۔
دوم:
اس شبہہ کی بنیاد جن روایات پرقائم ہے یعنی وہ روایات جن میں تعداد کا ذکر نہیں ، وہ محل نظر ہیں ، چنانچہ اس سلسلے میں ایک ہی کتاب سے دو روایت پیش کی جاتی ہے، دونوں کی حقیقت ملاحظہ ہو:
پہلی روایت:
امام عمر بن شبۃ رحمہ اللہ (المتوفی262)نے کہا: عُمَرُ بْنُ شَبَّۃَ
حَدَّثَنَا أَبُو ذُکَیْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ یُوسُفَ الْأَعْرَجَ، یُحَدِّثُ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ: ” جَاء َ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لَیْلَۃً مِنْ لَیَالِی رَمَضَانَ إِلَی مَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ مُتَفَرِّقُونَ، یُصَلِّی الرَّجُلُ بِنَفْسِہِ، وَیُصَلِّی الرَّجُلُ وَمَعَہُ النَّفَرُ فَقَالَ : لَوِ اجْتَمَعْتُمْ عَلَی قَارِئٍ وَاحِدٍ کَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَہُمْ عَلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ جَاء َ مِنَ الْعَالِیَۃِ وَقَدِ اجْتَمَعُوا عَلَیْہِ وَاتَّفَقُوا فَقَالَ: نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ہَذِہِ، وَالَّتِی یَنَامُونَ عَنْہَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِی یُصَلُّونَ، وَکَانَ النَّاسُ یُصَلُّونَ أَوَّلَ اللَّیْلِ وَیَرْقُدُونَ آخِرَہُ(تاریخ المدینۃ لابن شبۃ: 2/ 713)۔
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ مصنف کے استاذ ابوذکیر (ذال سے ) نا معلوم راوی ہیں ۔
بعض نے اس کی تعیین أبو زکیر(زاء سے) سے کی ہے جن کانام ہے یحیی بن محمد بن قیس البصری المحاربی الضریر، لیکن عرض ہے ہے کہ یہ راوی بھی ضعیف ہے چنانچہ:
امام عقیلی رحمہ اللہ (المتوفی322)نے کہا:
لا یتابع علی حدیثہ(الضعفاء الکبیر للعقیلی: 4/ 427)۔
امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی233)نے کہا:
أبو زکیر ضعیف(الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: 9/ 184)۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی354)نے کہا:
کان ممن یقلب الأسانید ویرفع المراسیل من غیر تعمد فلما کثر ذلک منہ صار غیر محتج بہ إلا عند الوفاق(المجروحین لابن حبان: 3/ 119)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی852)نے کہا:
صدوق یخطیء کثیرا(تقریب التہذیب لابن حجر: 1/ 508)۔
ضتحریر التقریب کے مؤلفین (دکتور بشار عواد اور شعیب ارنؤوط)نے کہا:
ضعیف یعتبر بہ فی المتابعات والشواہد(تحریر التقریب: رقم7639)۔
دوسری روایت:
امام عمر بن شبۃ رحمہ اللہ (المتوفی262)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِیسَی قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِی مَالِکٌ، و َعَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ، وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ یُوسُفَ، حَدَّثَہُمْ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ: جَمَعَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ النَّاسَ عَلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، وَتَمِیمٍ الدَّارِیِّ، فَکَانَا یَقُومَانِ فِی الرَّکْعَۃِ بِالْمِئِینَ مِنَ الْقُرْآنِ، حَتَّی إِنَّ النَّاسَ لَیَعْتَمِدُونَ عَلَی الْعِصِیِّ مِنْ طُولِ الْقِیَامِ، وَیَتَنَوَّطُ أَحَدُہُمْ بِالْحَبَلِ الْمَرْبُوطِ بِالسَّقْفِ مِنْ طُولِ الْقِیَامِ، وَکُنَّا نَخْرُجُ إِذَا فَرَغْنَا وَنَحْنُ نَنْظُرُ إِلَی بُزُوغِ الْفَجْرِ(تاریخ المدینۃ لابن شبۃ: 2/ 716)
یہ اختصار ابن وھب کی طرف سے کیونکہ موصوف نے اس سند میں مذکور اپنے تینوں اساتذہ (امام مالک ، اسامیہ بن زید ، عبداللہ بن عمر)سے ایک ہی سیاق میں روایت نقل کی اور روایت کے صرف اسی مضمون کو پیش کیا جسے ان کے تمام اساتذہ نے متفقہ طورپربیان کیا ہے کیونکہ یہاں ان کے اساتذہ میں عبد اللہ بن عمر بن حفص، العمری بھی ہیں اوران سے تعداد والی روایت منقول نہیں ، لہذا ظاہر ہے کہ وہ تعداد بیان کرتے تو اس روایت کو اپنے تمام اساتذہ سے ایک ہی سیاق میں نقل نہ کرسکتے لہٰذا انہوں نے روایت کے صرف اسی مضمون کونقل کیا ہے جس کے بیان میں ان کے تمام اساتذہ متفق ہیں، اورمتفقہ مضمون بیان کرنے کے لئے اختصارتو کیا جاسکتا ہے لیکن اضافہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے ابن وھب نے یہاں اپنے تمام اساتذہ کی روایات سے وہ حصہ نقل کیا ہے جسے سب نے متفقہ طور پربیان کیا ہے۔
یاد رہے کہ اگرکوئی روای مختلف اساتذہ ومختلف اسانید کے ساتھ ایک ہی روایت بیان کرے اور اس کے تمام اساتذہ اس روایت پر متفق نہ ہوں تو یہ چیز راوی پرجرح کا سبب بن جاتی ہے جیساکہ محمدبن عمرالواقدی کا معاملہ ہے ، اس پر جن اسباب کی بناپر جرح ہوئی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مختلف اسانید سے ایک ہی مضمون کی روایت نقل کرتے تھے حالانکہ اس مضمون پرتمام لوگوں کا اتفاق نہیں ہوتا تھا ، چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ نے محمدبن واقدی پرجرح کرتے ہوئے کہا:
لیس أنکر علیہ شیئا، إلا جمعہ الأسانید، ومجیئۃ بمتن واحد علی سیاقۃ واحدۃ عن جماعۃ ربما اختلفوا(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی: 4/ 24 اسنادہ حسن بالشواھد)۔
لہٰذا محدثین جب مختلف طرق سے کوئی ایک روایت پیش کرتے ہیں تو روایت کا صرف وہ حصہ پیش کرتے ہیں جو سارے طرق سے منقول ہو ، یا کبھی کمی بیشی کے ساتھ بھی نقل کردیتے ہیں اورساتھ میں وضاحت بھی کردیتے ہیں کہ کس کے طریق میں کیا فرق ہے بصورت دیگریہ طرزعمل ان پرجرح کا موجب ہوگا۔
الغرض یہ کے ابن وھب نے ایک ہی مضمون اپنے متعدداساتذہ سے نقل کیا ہے اوراختصار کی غرض سے صرف وہ مضمون نقل کیا ہے جس پرسب کااتفاق تھا ، اورمتفقہ مضمون بیان کرنے کے لئے اختصارتو کیا جاسکتا ہے لیکن اضافہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے جس بات کو بیان کرنے میں سب متفق نہ تھے اس کا تذکرہ ابن وھب نے چھوڑدیا ہے۔
اب رہا مسئلہ یہ کہ ان تینوں اساتذہ میں کس کس نے تعدابیان کی ہے اورکس کس نے نہیں ؟ تو عرض ہے کہ اس سند میں مذکور ان کے اساتذہ میں سوائے عبد اللہ بن عمر بن حفص العمری کے بقیہ دونوں اساتذہ سے تعداد منقول ہے جسے خود ابن ھب ہی نے دوسرے مقامات پر بیان کیا ہے ۔
٭چنانچہ ابن وھب نے اپنے استاذ امام مالک سے تعداد کا بیان امام طحاوی کی روایت میں نقل کیا ہے ، دیکھئے : شرح معانی الآثار 1/ 293 رقم 1740 واسنادہ صحیح۔
نیز ابوبکرنیساپوری کی روایت میں بھی نقل کیا ہے دیکھئے : فوائد أبی بکر النیسابوری (مخطوط) ص 16 رقم 18 ترقیم الشاملہ واسنادہ صحیح۔
٭اسی طرح ابن وھب نے اپنے استاذ اسامہ بن زیدسے تعداد کا بیان امام ابوبکر نیساپوری کی روایت میں نقل کیا ہے دیکھئے : فوائد أبی بکر النیسابوری (مخطوط) ص 16 رقم 17 ترقیم الشاملہ واسنادہ صحیح۔
٭اب باقی بچے ان کے استاذ عبد اللہ بن عمر بن حفص العمری تو یہ موصوف ہی ہیں جنہوں نے اپنی روایت میں تعداد بیان نہیں کی ، اور یہ حضرت جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں ان کے بارے میں بعض اہل فن کے اقوال ملاحظہ ہوں:
امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ (المتوفی 198)نے کہا:
ضَعِیفٌ (الضعفاء الکبیر للعقیلی: 2/ 280 واسنادہ صحیح)۔
امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی233)نے کہا:
ضَعِیف(العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد 2/ 605 واسنادہ صحیح)۔
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی241) نے کہا:
ہُوَ یَزِیدُ فِی الْأَسَانِیدِ (الضعفاء الکبیر للعقیلی: 2/ 280 واسنادہ صحیح )
امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی303)نے کہا:
لیس بالقوی (الضعفاء والمتروکون للنسائی: ص: 61)۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی354)نے کہا:
کَانَ مِمَّن غلب عَلَیْہِ الصّلاح وَالْعِبَادَۃ حَتَّی غفل عَن ضبط الْأَخْبَار وجودۃ الْحِفْظ للآثار فَرفع الْمَنَاکِیر فِی رِوَایَتہ فَلَمَّا فحش خَطؤُہُ اسْتحق التّرْک(المجروحین لابن حبان 2/ 7)۔
امام حاکم رحمہ اللہ (المتوفی405)نے کہا:
لم یذکر إلا بسوء الحفظ فقط (المستدرک للحاکم: 3/ 645)۔
امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی458)نے کہا:
الْعُمَرِیُّ غَیْرُ مُحْتَجٍّ بِہِ(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: 9/ 253)۔
امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی:507)نے کہا:
ضعیف(معرفۃ التذکرۃ لابن القیسرانی: ص: 199)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی852)نے کہا:
ضعیف عابد(تقریب التہذیب لابن حجر: 1/ 229)۔
تحریر التقریب کے مؤلفین (دکتور بشار عواد اور شعیب ارنؤوط)نے کہا:
ضعیف یعتبر بہ فی المتابعات والشواہد(تحریر التقریب:رقم1844)۔
موصوف کے بارے میں مزید جرح کے لئے عام کتب رجال ملاحظہ ہو۔
معلوم ہوا کہ عدم ذکر والی روایت عبد اللہ بن عمر بن حفص العمری سے اوریہ ضعیف ہیں لہٰذا تعداد کے ذکر سے خالی یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
سوم:
اگر عدم ذکر کی روایات کو بھی مقبول مان لیا جائے تو بھی ذکر والی روایات راجح قرارپائیں گی کیونکہ وہ زیادہ مضبوط اورمتعددلوگوں سے منقول ہیں، اورجب ترجیح کی صورت ممکن ہے تو اضطراب کا دعوی مردودہے۔
چنانچہ درج ذیل تین حضرات کے بارے میں کہا جاتاہے کہ انہوں نے تعدادبیان نہیں کی۔
٭ امام مالک رحمہ اللہ۔
٭ اسامہ بن زید اللیثی۔
٭ عبداللہ بن عمرالعمری۔
٭ ابوذکیر ۔
عرض ہے کہ:
٭جہاں تک امام مالک رحمہ اللہ کا معاملہ ہے تو امام مالک کے تمام شاگردوں نے امام مالک سے تعداد نقل کی ہے حتی کہ مذکورہ سند میں ان کے شاگرد ابن وھب نے بھی امام مالک سے یہ تعداد نقل کی ہے کما مضی وسیاتی ۔
لہٰذا ابن وھب کی وہی روایت رجح قرارپائے گی جس پر امام مالک کے تمام شاگرمتفق ہیں۔
٭جہاں تک اسامہ بن زید اللیثی کا معاملہ ہے تو ابن وھب نے اپنے اس استاذ سے بھی تعداد نقل کی ہے جیساکہ ربیع بن سلیمان نے ان سے روایت کیا ہے اوریہ روایت محمدبن یوسف کے دیگرتمام شاگردوں کے موافق ہے لہٰذا یہی راجح ہے نیزاس کی سند بھی اعلی اورمضبوط ہے وسیاتی۔
٭رہی عبداللہ بن عمرالعمری کی روایت کی بات ، تو یہ متکلم فیہ ہیں اورجمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں ، اور رہی ابوذکیر کی رویات تو یہ مجہول ہیں ، لہٰذا ان دونوں کی روایات بھی مرجوح قرار پائیں گی۔
مزید یہ کہ درج ذیل چار لوگوں نے بھی محمدبن یوسف سے مذکورہ روایت تعداد کے ساتھ نقل کی ہے اور ان کے شاگردوں میں سرے سے کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔
إسماعیل بن أمیۃ بن عمرو بن سعید القرشی (المتوفی144)۔
إسماعیل بن جعفر بن أبی کثیر الأنصاری(المتوفی180ھ)۔
عبد العزیز بن محمد بن عبید الدراوردی(المتوفی186ھ)۔
امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ (المتوفی 198ھ)۔
ان سب کی روایتیں آگے امام مالک کی متابعات کے تحت آرہی ہیں۔
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف اورصرف ابن وھب نے تعداد بیان نہیں کی ہے وہ بھی صرف ایک دفعہ اور اختصار کی غرض سے ، لہٰذا محض ان کی مختصر روایت میں تعداد کا ذکر نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
متن پر تیسرا اعتراض
(الفاظ میں اختلاف)
یہ روایت بالمعنی ہے اسے اضطراب قراردینا بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں ، اگرمفہوم کی یکسانیت کے باوجود الفاظ کے اختلاف کو اضطراب قراردیا جائے تو اس صورت میں تو شاید ہی کوئی حدیث اضطراب کی زد سے بچ سکے بلکہ حدیث تو درکنار قرانی آیات میں بھی اضطراب نظر آئے گا ، مثال کے طور پر قران میں آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ متعددمقامات پربیان ہوا ہے لیکن ہر جگہ الفاظ یکساں نہیں ہیں ۔
قَالَ أَنَا خَیْرٌ مِنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طِینٍ ( ص۷۶)
قَالَ لَمْ أَکُنْ لِأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (الحجر۳۳)
قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِینًا (الإسراء ۶۱)
اعتراض کی دوسری قسم
(رواۃ پراعتراض)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رواۃ پر پہلا اعتراض
(بخاری ومسلم کے ثقہ راوی محمدبن یوسف کی تغلیط)
کہاجاتاہے کہ محمدبن یوسف سے رکعات تراویح کی تعداد کی روایت میں غلطی ہوئی کیونکہ محمدبن یوسف ہی کے استاذ سے :
٭حارث بن عبد الرحمن بن أبی ذُباب
٭ اور یزید بن خصیفۃ
نے بھی یہی روایت بیان کی ہے لیکن انہوں نے رکعات کی تعداد گیارہ نہیں بتلائی ہے۔
عرض ہے کہ یہ دونوں روایات ثابت ہی نہیں ہیں لہٰذا ان کی بنیاد پر محمدبن یوسف کی تغلیط بے معنی ہے ۔
ذیل میں ہم ان دنوں روایات کی حقیقت بیان کرتے ہیں:
پہلی روایت
(از:حارث بن عبد الرحمن بن أبی ذُباب)
امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی211)نے کہا:
عَنِ الْأَسْلَمِیِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی ذُبَابٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ: کُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِیَامِ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ، وَقَدْ دَنَا فُرُوعُ الْفَجْرِ، وَکَانَ الْقِیَامُ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ ثَلَاثَۃً وَعِشْرِینَ رَکْعَۃً(مصنف عبد الرزاق: 4/ 261)۔
یہ روایت موضوع ہے اس میں کئی علتیں ہیں:
پہلی علت:
الحارث بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن سعد بن أبی ذُباب۔
موصوف گرچہ صدوق ہیں لیکن یہ منکر روایات بیان کرتے ہیں:
امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی277)نے کہا:
یروی عنہ الدراوردی أحادیث منکرۃ ولیس بذاک بالقوی(الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: 3/ 79)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی852)نے کہا:
صدوق یہم(تقریب التہذیب لابن حجر: 1/ 67)۔
فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے صلاۃ التراویح ص : ۵۲ پر صرف اسی ایک علت کی بناپر اس روایت کو ضعیف کہا ہے کیونکہ موصوف کو اس روایت کی پوری سند نہ مل سکی تھی، دراصل علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو علامہ عینی کی کتاب عمدۃ القاری سے نقل کیا تھا اورعلامہ عینی نے اسے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ سے نقل کیا ، اور عمدۃ القاری میں مکمل سند منقول نہ تھی اس لئے علامہ البانی رحمہ اللہ پوری سند سے آگاہ نہ ہوسکے لیکن موصوف نے سند کے بقیہ حصہ کے بارے میں بھی شک ظاہر کرتے ہوئے کہا:
علی أننا لا ندری إذا کان السند بذلک إلیہ صحیحا فلیس کتاب ابن عبد البر فی متناول یدنا لنرجع إلیہ فننظر فی سائر سندہ إن کان ساقہ
یعنی: ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ حارث بن عبد الرحمن تک بقیہ سند صحیح ہے، کیونکہ ابن عبدالبررحمہ اللہ کی کتاب تک ہماری رسائی نہیں ہے کہ ہم اس کی طرف رجوع کریں اورساری سند دیکھ سکیں بشرطیکہ ابن عبدالبر نے پوری سند ذکر کی ہو( صلاۃ التراویح للالبانی: ص : ۵۲ )۔
لیکن حقیت یہ ہے کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی پوری سند ذکر نہیں کی ہے ملاحظہ ہوں ابن عبدالبرکی کتاب کے الفاظ:
وروی الحارث بن عبد الرحمن بن أبی ذباب عن السائب بن یزید قال کنا ننصرف من القیام علی عہد عمر(الاستذکار لابن عبدالبر: 2/ 69)۔
عرض ہے کہ ہمارے سامنے اس کی پوری سند ہے اور سندکے جس حصہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ واقف نہ ہوسکے اس حصہ میں تو کذاب راوی ہے اگرعلامہ البانی رحمہ اللہ کو یہ پوری سند مل گئی ہوتی تو موصوف اس روایت کو موضوع کہتے ۔
اورہمارے سامنے چونکہ اس سند کا بقیہ حصہ بھی موجود ہے اور اس میں کذاب راوی ہے اس لئے اس روایت کے موضوع ہونے میں ہمیں ذرا بھی شک نہیں، اس سند میں جو کذاب راوی ہے اس کے بارے میں تفصیل اگلے سطور میں ملاحظہ ہو:
دوسری علت:
إبراہیم بن محمد بن أبی یحیی الاسلمی
امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ (المتوفی 198)نے کہا:
کنا نتہمہ بالکذب(ضعفاء العقیلی: 1/ 63 واسنادہ صحیح)۔
امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی233)نے کہا:
إبراہیم بن أبی یحیی لیس بثقۃ کذاب(الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم 2/ 126)۔
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی234)نے کہا:
ابراہیم بن أبی یحیی کَذَّاب(سؤالات ابن أبی شیبۃ لابن المدینی: ص: 124)۔
امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی277)نے کہا:
کذاب متروک الحدیث(الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم 2/ 126)۔
یہ صرف وہ ثابت اقوال ہیں جن میں اہل فن نے راوی مذکور کو کذاب کہا ہے ، اس کے علاوہ جو شدید جرحیں اس پر ہوئی ہیں اس کے لئے تہذیب اور عام کتب رجال کی طرف مراجعت کی جائے۔
تیسری علت:
عبدالرزاق رحمہ اللہ مدلس ہیں اورروایت عن سے ہے۔
موصوف مدلس ہیں،دیکھئے:تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس لابن حجر: ص 34 نیز ملاحظہ ہو :الضعفا للعقیلی :ج ۳ص ۰۱۱۔ ذہبی عصر علامہ معلمی رحمہ اللہ نے بھی ان کے تدلیس کی وجہ سے بعض روایات پرکلام کیا ہے، دیکھئے:الفوائد المجموع ص: 347۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ روایت حارث بن عبد الرحمن بن أبی ذُباب کی وجہ سے موضوع ومن گھڑت ہے لہٰذا اس کذاب کی روایت کو بنیاد بناکر بخاری ومسلم کے ثقہ راوی محمدبن یوسف کی تغلیط کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
دوسری روایت
(از: یزیدبن خصیفہ)
علی بن الجَعْد بن عبید البغدادی (المتوفی230ھ)نے کہا:
أنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ: کَانُوا یَقُومُونَ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ فِی شَہْرِ رَمَ انَ بِعِشْرِینَ رَکْعَۃً، وَإِنْ کَانُوا لَیَقْرَء ُونَ بِالْمِئِینَ مِنَ الْقُرْآنِ (مسند ابن الجعد:ص: 413)۔
یہ روایت شاذ ہے اس کی کئی وجوہات ہیں:
شذوذ پہلی وجہ
سند میں موجود یزید بن خصیفہ ، رکعات کی تعداد صحیح طور سے ٍضبط نہیں کرسکے، اس بات کا اعتراف خود انہوں نے کرلیا ہے اورپوری صراحت کے ساتھ بتلادیا کہ انہیں تعداد بالضبط یاد نہیں ہے بلکہ انہیں ایسا لگتا تھا کہ محمدبن سائب نے اکیس کی تعداد بتائی ہوگی ، چنانچہ:
امام أبو بکر النیسابوری رحمہ اللہ (المتوفی324)نے کہا:
حدّثنا یوسف بن سعید، ثنا حجاج، عن ابن جریج، حدثنی إسماعیل بن أمیۃ، أنّ محمد بن یوسف ابن أخت السّائب بن یزید أخبرہ، أنّ السّائب بن یزید أخبرہ قال: جمع عمر بن الخطاب الناس علی أبی بن کعب وتمیم الداری، فکانا یقومان بمائۃ فی رکعۃ، فما ننصرف حتی نری أو نشک فی فروع الفجر. قال: فکنا نقوم بأحد عشر.
قلت : أو واحد وعشرین؟! قال: لقد سمع ذلک من السائب بن یزید ابنُ خصیفۃ. فسألتُ یزید بن خصیفۃ، فقال: حسبتُ أنّ السّائب قال: أحد وعشرین. (فوائد أبی بکرالنیسابوری ،مخطوط )۔
ترجمہ: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں ایک رکعت میں سوآیات پڑھاتے تھے پھرجب ہم نماز سے فارغ ہوتے تھے تو ہم کو لگتا کہ فجرہوچکی ہے ، سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
اس روایت کے راوی اسماعیل بن امیہ نے جب محمدبن یوسف سے سناتو پوچھا: گیارہ رکعات یا اکیس رکعات ؟؟
محمدبن یوسف نے کہا: اس طرح کی بات یزیدبن خصیفہ نے سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔
اساعیل بن امیہ کہتے ہیں کہ: پھر میں یزیدبن خصیفہ سے اس بارے میں سوال کیا توانہوں نے کہا:مجھے لگتا ہے کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے اکیس کہا تھا۔
اس روایت میں غورکیجئے کہ محمدبن یوسف سے ان کے شاگرد اسماعیل بن امیہ نے جب گیارہ کی تعداد سنی تو مزید یاد دلا کرپوچھا کہ کیا گیارہ رکعات یا اکیس رکعات ؟؟؟
یہ یاد دلانے پر بھی محمدبن یوسف نے گیارہ ہی کی تعداد بیان کی اور اور کہا اکیس والی بات تو ابن خصیفہ بیان کرتے ہیں ، گویا کہ محمدبن یوسف کو پوری طرح اپنے حفظ وٍضبط پر پورا اعتماد تھا اسی لئے انہوں اپنے شاگرکے دوبارہ پوچھنے پربھی گیارہ ہی کی تعداد بتلائی ۔
نیز محمدبن یوسف کو یہ بھی معلوم تھا کہ یزیدبن خصیفہ اکیس کی تعداد بتلاتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے گیارہ ہی کی تعداد آگے روایت کی اس سے معلوم ہوا کہ محمدبن یوسف نے پورے وثوق سے گیارہ کی تعداد بیان کی ہے ۔
اس کے برعکس یزیدبن خصیفہ کا حال یہ ہے کہ ان سے جب تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے تردد ظاہر کیا اوریوں کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ سائب بن یزید نے اکیس کی تعداد بتلائی تھی ، نیز انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ان کے دوسرے ساتھی کیا تعداد بیان کرتے ہیں لہٰذا ان کی بیان کردہ تعداد مشکوک ہے اور محمدبن یوسف کی بیان کردہ تعداد کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردوو ہے۔
اسماعیل بن امیہ نے اپنے استاذ محمدبن یوسف سے سوال کیوں کیا؟؟
یہاں پرایک بات غورطلب یہ ہے کہ اسماعیل بن امیہ کے استاذ محمدبن یوسف نے جب ان کے سامنے گیارہ کی تعداد بیان کی تو انہوں نے اپنے استاذ سے دوبارہ کیوں پوچھا کہ گیارہ رکعات یا اکیس رکعات۔
دکتو بقالی صاحب نے کہا کہ:
فہذا النّص یشعر بأن محمد بن یوسف لم یکن بذاک ال ابط المتقن للعدد؛ ولذلک جعل إسماعیل بن أمیۃ یراجعہ ویستوثقہ بقولہ: أو واحد وعشرین وکأنّہ سمع ذلک من غیرہ. [فصل الخطاب فی بیان عدد رکعات صلاۃ التراویح فی زمن عمر بن الخطاب (المنشورعلی الشبکہ)]۔
یعنی اس نص سے پتاچلتاہے کہ محمدبن یوسف کو تعداد صحیح طرح یاد نہ تھی اسی لے ان کے شاگرد ابن امیہ نے انہیں ٹوکا۔
عرض ہے کہ اسماعیل بن امیہ کے ٹوکنے سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ محمدبن یوسف کو تعداد یا نہ تھی کیونکہ اسماعیل بن امیہ کے ٹوکنے کے بعد بھی محمدبن یوسف نے گیارہ ہی کی تعداد بتلائی۔
اصل بات یہ ہے کہ اسماعیل بن امیہ کے انہیں استاذ محمدبن یوسف ہی کے حوالہ سے کچھ لوگ یہ بھی بیان کرتے پھرتے تھے کہ انہوں نے اکیس کی تعداد روایت کی ہے ، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں ہے، چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی211) نیکہا:
عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَیْسٍ، وَغَیْرِہِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، ” أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِی رَمَ انَ عَلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، وَعَلَی تَمِیمٍ الدَّارِیِّ عَلَی إِحْدَی وَعِشْرِینَ رَکْعَۃُ یَقْرَء ُونَ بِالْمِئِینَ وَیَنْصَرِفُونَ عِنْدَ فُرُوعِ الْفَجْرِ “(مصنف عبد الرزاق: 4/ 260)۔
یعنی داؤد بن قیس وغیرہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا : عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رم ان میں لوگوں ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ اکیس رکعات تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، یہ سوسو آیات پڑھتے تھے اوراورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔
اس روایت میں دیکھیں کہ اسماعیل بن امیہ کے استاذ محمدبن یوسف ہی کے حوالے سے دوسرے لوگوں نے اکیس کی تعداد نقل کی ہے ، یقینا یہ بات اسماعیل بن امیہ تک بھی پہونچی ہوگی اور انہوں نے یہ سن رکھا ہوگا کہ محمدبن یوسف نے اکیس کی تعداد بیان کی ہے لیکن جب انہوں نے اپنے استاذ محمدبن یوسف سے براہ راست یہ روایت سنی تو محمدبن یوسف نے اکیس کی تعداد نہیں بتلائی جیساکہ لوگوں نے ان کے حوالہ سے بیان کررکھاتھا بلکہ گیارہ کی تعداد بتلائی ، ظاہر ہے کہ ان کے شاگر کو حیرانی ہوگی کیونکہ انہوں نے اپنے اسی استاذ کے حوالہ سے اکیس کی تعداد سنی تھی ، لہٰذا انہوں نے فورا سوال اٹھا دیا کہ گیارہ رکعات یا اکیس رکعات ؟؟ اس پر ان کے استاذ نے بتلایا کہ گیارہ ہی رکعات ، اور اکیس والی تعداد تو دوسرے صاحب یزیدبن خصیفہ بیان کرتے ہیں۔
اس و احت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس روایت میں محمدبن یوسف کے حوالہ سے اکیس کی تعداد بیان کی گئی ہے وہ مردود ہے کیونکہ محمدبن یوسف نے اس سے برات ظاہر کردی ہے۔
تنبیہ بلیغ
یاد رہے کہ فوائد أبی بکر للنیسابوری ابھی تک غیرمطبوع ہے لیکن کسی صاحب نے اس کی ٹائپنگ کرکے شاملہ فارمیٹ میں تیار کیا ہے اورشاملہ کی سائٹ پر موجود بھی ہے ، اس شاملہ والے نسخہ میں مذکور روایت میں تحریف کردی گئی ہے ، اور وہ عبارت جس سے یزید بن خصیفہ کے وہم کی دلیل تھی اسے بدل دیا گیا ہے:
چنانچہ مخطوطہ میں اصل عبارت یوں ہے :
فسألتُ یزید بن خصیفۃ، فقال: حسبتُ أنّ السّائب قال: أحد وعشریں ( ملاحظہ ہو آگے مخطوطہ کے متعلقہ صفحہ کا عکس).
ترجمہ: اسماعیل بن امیہ نے یزید بن خصیفہ سے تعداد رکعات سے متعلق پوچھا تو یزید بن خصیفہ نے کہا؛ مجھے لگتا ہے کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے اکیس کہا تھا۔
چونکہ اس عبارت سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یزیدبن خصیفہ کو بالضبط تعداد یاد نہ تھی اورتعداد کی بابت وہ تردد کے شکار تھے ، اس لئے کچھ لوگوں نے اس عبارت میں اس طرح تحریف کردی کہ یزیدبن خصیفہ کے اظہار تردد پر پردہ پڑ جائے چنانچہ شاملہ کے محولہ نسخہ میں ہے:
فسألت یزید بن خصیفۃ، فقال: أحسنت إن السائب قال إحدی وعشرین(فوائد أبی بکر عبد اللہ بن محمد بن زیاد النیسابوری – مخطوط ص: 14 ترقیم الشاملہ)۔
ترجمہ: اسماعیل بن امیہ نے یزید بن خصیفہ سے تعداد رکعات سے متعلق پوچھا تو یزید بن خصیفہ نے کہا؛ تم ٹھیک کہ رہے ہو سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے اکیس کہا تھا۔
غورفرمائیں کی مذکورہ تحریف سے عبارت کیا سے کیا بن گئی ، یعنی یزیدبن خصیفہ کے تردد کو یقین سے بدل دیا گیا ، اناللہ واناالیہ راجعون۔
اس شاملہ والے نسخہ کے ناسخ نے مخظوطہ کے مصدر کاحوالہ یوں دیا ہے:
مصدر المخطوط: مجامیع المدرسۃ العمریۃ، الموجودۃ فی المکتبۃ الظاہریۃرقم المجموع: 3755 عام (مجامیع 18)
اس شمارہ کے اخیرمیں ہم اسی مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا عکس پیش کررہے ہیں قارئین تسلی کے لئے ملاحظہ فرمالیں:
مخطوطہ میں صاف پڑھا جارہا ہے کہ حسبت سے قبل أ موجود نہیں ہے لہٰذا اسے احسنت پڑھنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی مخطوطہ ہی سے یہ روایت نقل کی ہے اور حسبت ہی نقل کیا ہے اور اس سے یزید بن خصیفہ کے تردد پر استدلال بھی کیا ہے، دیکھئے (صلاۃ الترایح للالبانی: ص : 58)۔
دکتور کمال قالمی نے بھی اسے مخطوطہ ہی سے نقل کیا ہے اورحسبت ہی نقل کیا دیکھئے موصوف کا مضمون فصل الخطاب فی بیان عدد رکعات صلاۃ التراویح فی زمن عمر بن الخطاب۔
لہٰذا قارئیں سے گزارش ہے کہ شاملہ کے نسخہ سے دھوکہ نہ کھائیں۔
یادرہے کہ دکتوربقالی صاحب نے حسبت کی تاویل کی ہے جو باطل ہے، اورکہا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ یہ شک کے لئے استعمال کیا ہو بلکہ ممکن ہے کہ احتیاط کے لئے کہا ہے اوردیگررواۃ نے توبالجزم اسے روایت کیا ہے۔
عرض ہے کہ یہ لفظ محمدبن یوسف کے بالضبط بیان کے بالمقابل استعمال کیا گیا ہے لہٰذا سیاق وسباق تو صاف دلالت کرتا ہے کو موصوف نے اظہار شک کے لئے اس لفظ کا استعمال کیا ہے رہی دیگرروایت جو جزم کے ساتھ ہیں تو اس شک کے مخالف نہیں کیونکہ ان روایات میں شک کا انکار نہیں ہے۔
نیزاگرابن خصیفہ نے بعض دفعہ بالجزم بیان کیا ہے تو محمدبن یوسف تو ہردفعہ بالجزم بیان کیا لہٰذا اس پہلو سے بھی محمدبن یوسف ہی کی رویات راضح ہوقرارپائے گی۔
شذوذ کی دوسری وجہ
حفظ وضبط میں یزیدبن خصیفہ ، محمدبن یوسف سے کم تر ہیں کیونکہ:
ژ ابن خصیفہ کے ضعف حفظ کی پہلی دلیل:
محمدبن یوسف کے حفظ پرکسی نے بھی جرح نہیں کی ہے جبکہ یزید بن خصیفہ کو ثقہ کہنے کے ساتھ ساتھ ان کے حفظ پر درج ذیل ناقدین کی جرح ملتی ہے۔
پہلے ناقد:
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی241) ، چنانچہ امام مزی رحمہ اللہ نے کہا:
وَقَال أبو عُبَید الآجری ، عَن أبی داود : قال أحمد : منکر الحدیث(تہذیب الکمال للمزی: 32/ 173 وابوعبید لایعرف لکن المخالفون یحتجون بہ)۔
بعض اہل عم کا یہ کہنا ہے کہ امام احمدرحمہ اللہ نے یہاں منکر سے منفرد حدیث بیان کرنے والا مراد لیا ہے بے دلیل ہے۔
یادرہے کہ امام احمدبن حنبل روایت پرتفرد کے اعتبارسے منکرکااطلاق کرتے تھے نہ کہ راوی پر جیساکہ درج ذیل نقل سے پتہ چلتاہے ۔
امام ابن عدی نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عِصْمَۃَ، حَدَّثَنا أبو طالب سألت أحمد بن حنبل عن عَبد الرحمن بن أَبِی الْمَوَالِی قال عَبد الرحمن لا بأس بہ، قَال: کان محبوسا فی المطبق حین ہزم ہؤلاء ، یروی حدیثا لابن المنکدر عن جابر عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسلَّمَ فی الاستخارۃ لیس یرویہ أحد غیرہ ہو منکر قلت ہو منکر؟ قَال: نَعم لیس یرویہ غیرہ لا بأس بہ
وأہل المدینۃ إذا کان حدیث غلط یقولون بن المنکدر عَن جابر وأہل البصرۃ یقولون ثابت، عَن أَنَس یحیلون علیہما (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 5/ 500)
تنبیۃ:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دکتور بشار عواد نے امام احمد کے اس قول کو غیرثابت قراردیا ہے اورکہا:
ہذا شیء لم یثبت عن أحمد ، فیما أری واللہ أعلم ، فقد تقدم قول الأثرم عنہ ، وفی العلل لابنہ عَبد اللہ ، أنہ قال : ما أعلم إِلاَّ خَیْرًا ) وہو توثیق واضح.(تہذیب الکمال للمزی: 32/ 173)۔
عرض ہے کہ :
٭ الف:
اگربشار صاحب نے اس قول کرغیرثابت کہا ہے تو دیگراہل علم نے ان پر رد بھی کیا ہے مثلا علامہ اسحاق الحوینی فرماتے ہیں:
ولعل ہذا الاختلاف من یزید بن خصیفۃ، فہو وإن کان ثقۃ إلّا أن أحمد قال فی روایۃ: “منکر الحدیث”، وقد خولف فیہ کما یأتی, وزعم المعلق علی “تہذیب الکمال” “32/ 173” أن ہذا لم یثبت عن أحمد، ولم یُبْدِ حجۃ سوی قولہ: “فیما أری”! وبأن أحمد قال: “لا أعلم إلا خیرًا”، وہذا القول لا یمنع أن یکون لأحمد فیہ قول آخر, واللہ أعلم.(ف ائل القرآن لابن کثیر ص: 117 حاشیہ)۔
٭ ب:
اس قول کو امام احمدبن حنبل سے امام ابوداؤد نے روایت کیا اور ان سے ابوعبیدنے جوبشار صاحب اوربیس رکعات والوں کے نزدیک قابل اعتماد ہے پھر اسی کی کتاب سے امام مزی نے اس قول کو نقل کیا پھر اسے غیرثابت کہنا کیا معنی رکھتاہے۔
٭ ج:
امام احمدرحمہ اللہ ہی کی طرح ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی یزید بن خصیفہ کے حفظ پر کلام کیا ہے لہٰذا بلاوجہ امام احمد کی طرف اس قول کی نسبت سے انکار کرنا درست نہیں۔
دوسرے ناقد:
امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی354) ، چنانچہ موصوف نے کہا:
یزید بن عبد اللہ بن خصیفۃ من جلۃ أہل المدینۃ وکان یہم کثیرا إذا حدث من حفظہ (مشاہیر علماء الأمصار لابن حبان: ص: 135)۔
تیسرے ناقد:
امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی748) ، چنانچہ موصوف نے اس روای کو ضعاء کی کتاب میزان میں نقل کرتے ہوئے کہا:
یزید بن عبداللہ بن خصیفۃ ، وقد ینسب إلی جدہ فیقال: یزید بن خصیفۃ. عن السائب بن یزید، وعروۃ، ویزید بن عبداللہ بن قسیط. وعنہ مالک، وطائفۃ. وثقہ أحمد من روایۃ الاثرم عنہ، وأبو حاتم، وابن معین، والنسائی. وروی أبو داود أن أحمد قال: منکر الحدیث.(میزان الاعتدال للذہبی: 4/ 430)۔
یاد رہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام احمدکے قول پر کوئی تعاقب نہیں کیا ہے ، اس سے معلوم ہواکہ امام ذہبی رحمہ اللہ بھی اسے ثقہ کے ماننے کے ساتھ اس کو حافظہ پرکلام کو تسلیم کرتے ہیں۔
ژ ابن خصیفہ کے ضعف حفظ کی دوسری دلیل:
محمدبن یوسف کی کئی ایک محدث نے اعلی توثیق کی ہے: ملاحظہ ہو:
٭(۱) : امام یحیی بن سعید نے آپ کو ثبت قراردیاہے۔
کان یحیی بن سعید یثبتہ (تہذیب التہذیب لابن حجر: 31/ 35)۔
٭(۲) : امام علی بن المدینی نے بھی اسے بر اء ورغب نقل کیاہے چنانچہ:
امام ابن أبی خیثمۃ رحمہ اللہ (المتوفی:279)نے کہا:
رَأَیْتُ فی کتاب علی بن الْمَدِیْنِیّ: سمعت یَحْیَی یقول: مُحَمَّد بن یُوسُف أثبت من عَبْد الرَّحْمَن بن حُمَیْد، وعَبْد الرَّحْمَن بن عَمَّار. قَالَ: قلت: أیما أثبت عَبْد الرَّحْمَن بن حُمَیْد أو عَبْد الرَّحْمَن بن عَمَّار؟ فقال: ما أقربہما.
وسألتہ عن عمر بن نبیہ؟ قَالَ: لم یکن بہ بأس. قَالَ: وکان مُحَمَّد بن یُوسُف أعرج، وکان ثبتا وکان یقول: سمعت السائب بن یزید وہو جدی من قِبَلِ أُمِّی.(التاریخ الکبیر = تاریخ ابن أبی خیثمۃ – السفر الثالث 2/ 282)۔
٭ (۳) : امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بر اء ورغبت نقل کرتے ہوئے کہا:
کَانَ یحیی یُثَبِّتُہُ (التاریخ الکبیر للبخاری: 2/ 42)۔
٭(۴): حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ناقدین کے اقوال کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے یزید بن خصیفہ کو صرف ثقہ کہا ہے (تقریب: رقم 7738) جبکہ محمدبن یوسف کو ثقہ ثبت کہا ہے (تقریب: رقم6414)۔
ایک عجیب غلط فہمی :
بعض لوگوں دھاندلی میں یہ دعوی کرلیا کہ حافظ ابن حجرنے جو محمدبن یوسف کو ثقہ کے ساتھ ثبت قرار دیا ہے تو اس سلسلے میں انہوں نے أحمد بن صالح المصری کے قول پر اعتماد ہے ، کیونکہ انہوں نے یہ قول تہذیب میں اسی راوی کے ترجمہ میں پیش کیا ہے ، لیکن اس قول کا تعلق محمدبن یوسف نہیں بلکہ اسی نام کے دوسرے راوی سے ہیں اورحافظ موصوف کو وھم ہوا ہے ، لہٰذا جب یہ قول ہی ثابت نہیں تو حافظ ابن حجر کے ثبت کہنے کی بنیاد بھی گئی ۔
عرض ہے کہ گرچہ محمدبن یوسف سے متعلق کا أحمد بن صالح المصری قول ثابت نہیں لیکن جرح وتعدیل کے مشہور امام یحیی بن سعد رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف کو ثبت قرار دیا ہے اور اسے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بخاری کے حوالہ سے نقل کیا ہے چنانچہ حافظ ابن حجرلکھتے ہیں:
کان یحیی بن سعید یثبتہ (تہذیب التہذیب لابن حجر: 31/ 35)۔
امام بخاری کی رویات ان کی کتاب تاریخ میں یوں موجود ہے:
کَانَ یحیی یُثَبِّتُہُ (التاریخ الکبیر للبخاری: 2/ 42)۔
اس کے ساتھ ساتھ حافظ حجررحمہ اللہ نے امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ سے یہ بھی نقل کیا:
قال بن معین قال لی یحیی لم أر شیخا یشبہہ فی الثقۃ(تہذیب التہذیب لابن حجر: 31/ 35)۔
یہ اقوال تھذیب الکمال میں بھی منقول ہیں لہٰذا حافظ ابن حجر کی بنیاد یہی اقوال ہیں جن کے بیان میں انہیں کوئی وہم نہیں ہوا ہے پھر حافظ موصوف کا محمدبن یوسف کو ثقہ کے ساتھ ثبت قرر دینا بالکل مبنی برصواب ہے۔
الغرض یہ کہ محمدبن یوسف کو دو عظیم محدث نے ثقہ وثبت کہا ہے :
ایک جرح وتعدیل کے امام یحیی بن سعد نے اوردوسرے خاتمۃ الحفاظ حافظ ابن حجررحمہ اللہ ، جبکہ یزیدبن خصیفہ کے بارے میں صرف اور صرف ایک محدث ابن سعد ہی سے اعلی توثیق منقول ہے ، چنانچہ :
امام ابن سعد رحمہ اللہ نے کہا:
وَکَانَ عَابِدًا نَاسِکًا ثِقَۃً کَثِیرَ الْحَدِیثِ ثَبَتًا.(الطبقات الکبری لابن سعد: 9/ 274)۔
لہٰذا یحیی بن سعید جیسے جرح وتعدیل کے امام اور حافظ ابن حجرجیسے ماہر رجال کے بالمقابل ابن سعد کی اعلی توثیق کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔
ژ ابن خصیفہ کے ضعف حفظ کی تیسری دلیل:
محمدبن یوسف نے کسی بھی رویات میں اپنے حافظہ پرتردد کا اظہار نہیں کیا ہے جبکہ یزید بن خصیفہ نے اپنے حافظ پر تردد کا اظہار کیا ہے ، جیساکہ فوائد ابی بکرالنیسابوری کے حوالہ سے و احت گذرچکی ہے۔
ابن خصیفہ کے ضعف حفظ سے متعلق بعض شبہات کا ازالہ
بعض لوگ یہ بے بنیاد دعوی کرتے پھرتے ہیں کہ یزیدبن خصیفہ ، محمدبن یوسف کے زیادہ ثقہ ہے ، ان حضرات کے شبہات کا ازالہ پیش خدمت ہے:
ۃ پہلا شبہ:
امام اثرم نے احمدبن حنبل سے یزیدبن خصیفہ کے بارے میں نقل کیا :
ثقۃ ثقۃ (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: 9/ 274)۔
عرض ہے کہ یہ مکرر توثیق امام احمد رحمہ اللہ سے ثابت نہیں اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
(۱) یہ مکررتوثیق صرف ایک مخطوطہ میں ہے دیگرمخطوطوں میں ایسا نہیں۔
(۲) احمدبن حببل کے کسی بھی دوسرے شاگرنے ان سے یہ بات نقل نہیں کی ہے۔
(۳) امام احمدبن حنبل کے بیٹے نے بھی بھی ایسا نہیں نقل کیا۔
(۴) امام احمدسے ان کے بارے میں منکرالحدیث بھی منقول ہے۔
ۃ دوسرا شبہہ:
ابن معین نے انہیں ثقۃ حجۃ کہا ہے ۔
عرض ہے کہ ابن معین سے یہ قول ثابت ہی نہیں یہ قول (تہذیب الکمال للمزی 32/ 173) میں بے سند مذکورہے۔
نیزابن محرز نے کہا:
سَمِعتُ یَحیَی، وقیل لہ: أیما أَحبُّ إلیکَ، یزید بن عَبد اللہ بن خصیفہ، أَو مُحَمّد بن عَمرو بن عَلقَمَۃ؟ فقال: یَزید، ویَزید أعلاہما.(معرفۃ الرجال لابن معین روایۃ ابن محرز: 1/ 116)۔
اول یہ اعلی درجہ کی توثیق نہیں ہے دوم یہ قول بھی ثابت نہیں کیونکہ ابن محرز مجہول ہے۔
ۃ تیسرا شبہہ:
ابن سعد نے یزید بن خصیفہ کو تابعیں میں ذکرکیا ہے لیکن محمدبن یوسف کو ذکر نہیں کیا۔
عرض ہے کہ اول تو طبقات کے کئی صفحات مفقود ہیں اس لئے محمدبن یوسف کے عدم ذکر کا دعوی محل نظر ہے ، دوم عدم ذکر سے یہ کہاں لازم آیا کہ ابن سعد کی نظر میں وہ کم حفظ والے تھا ، ایسا اسی صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ جب ابن سعد نے ان کا بھی تذکرہ کیا ہوتا اوردونوں کے تعارف میں تفریق کی ہوتی ، لیکن ایسا نہیں ہے لہٰذا دعوی ثابت نہیں ہوا۔
نیز الزاما ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ جرح و تعدیل کے امام یحیی بن سعد رحمہ اللہ نے یزیدبن خصیفہ کو اپنی کسی مجلس میں تو نہ ثقہ کہا اور نہ ہی ان کا تذکرہ کیا ، جبکہ اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے محمدبن یوسف کو اعلی درجہ کا ثقہ قرار دیا بلکہ ایک روایت کے مطابق یہاں تک کہا: لم أر شیخا یشبہہ فی الثقۃ(تہذیب الکمال للمزی: 27/ 50 ، تہذیب التہذیب لابن حجر: 31/ 35)۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ محمدبن یوسف جرح و تعدیل کے امام یحی بن سعد کی نظر میں یزیدبن خصیفہ کے زیادہ ثقہ تھے ، یادرہے کہ ابن سعد کے بالمقابل امام یحیی بن سعید رجال کی بابت زیادہ ماہر ہیں۔
ۃ چوتھا شبہہ:
امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف کے بارے میں کہا:
صدوق مقل(الکاشف للذہبی: 2/ 232)۔
عرض ہے کہ:
(۱) : امام ذھبی رحمہ اللہ نے صدوق کے ساتھ مقل بھی کہا ہے جس سے اشارہ ملتاہے کہ موصوف نے مقل کے اعتبار سے انہیں صدوق کہہ دیا ہے ، یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ ان کی مرویات کی تعداد کم ہے ، اسی جن کی مروایات زیادہ ہوں انہیں امام ذہبی رحمہ اللہ حافظ سے تعبیرکرتے ہیں اس پر ان کی کتاب تذکرۃ الحفاظ شاہد ہے ۔
نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے تو قلت روایت کی وجہ سے صرف صدوق کہا ہے لیکن امام ابن معین کا طرزعمل تو یہ تھا کہ وہ قلیل الحدیث رواۃ کو لیس بشی کہا دیا کرتے تے چاہے وہ ثقہ وثبت ہی کیوں نہ ہو ، اورلیس بشی سے مراد متعلقہ راوی کے حفظ کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی مرویات کی قلت ہوتی تھی(التعریف برجال المؤطا:۳؍۸۱۲،فتح المغیث:۲؍۱۲۳،التنکیل بمافی تانیب لکوثری من الاباطیل:ص۵۴)۔
لہیذا اگرقلیل الحدیث کی وجہ سے کسی کو لیس بشی کہنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر قلیل الحدیث کے سبب کسی کو صدوق کہنے سے کیا فرق پڑسکتاہے۔
لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس صیغہ سے حافظ کی کمزوری قطعا مراد نہیں ، اور اس بات کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ اگرامام ذہبی رحمہ اللہ کی نظر میں اس کا حافظہ کمزور ہوتا تو موصوف اس کا تذکرہ میزان الاعتدال میں ضرور کرتے ہیں، کیونکہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے تو ان لوگوں کا بھی تذکرہ کیا جو ثقہ وثبت ہیں اور ان پر بلاوجہ کلام کیا گیا ہے ، ایسی صورت میں محمدبن یوسف کا تذکرہ تو میزان میں ضرور ہونا چاہئے کیونکہ یہ توخود امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک کمزورحافظہ والے تھے ۔
(۲) : امام ذہبی نے اسی کتاب میں یزید بن خصیفہ کو ثقہ کہنے کے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں امام احمدکی جرح منکرالحدیث بھی نقل کی ہے اورکوئی دفاع نہیں کیا ہے ، نیز اس کا تذکوہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں بھی کیا ہے اوروہاں بھی کوئی دفاع نہیں کیا ہے ، جبکہ محمدبن یوسف سے متعلق امام ذھبی رحمہ اللہ نے کوئی جرح نہیں نقل کیا اوراس کا تذکرہ بھی میزان میں نہیں کیا ہے ۔
قارئیں غور کریں کہ ایک راوی جسے امام ذھبی ضعفاء میں ذکرکریں اورکوئی دفاع نہ کریں ،یسا روای حفظ واتقان میں اس راوی سے بڑھ کرکیسے ہوسکتا ہے جس کا تذکرہ امام ذہبی ضعفاء کی کسی بھی کتاب میں ذکر نہ کریں ، اور اس کے بارے میں کوئی جرح نہ نقل کریں۔
(۳) : متقدمیں محدثین نے متفقہ طور پر محمدبن یوسف کو ثقہ کہا بلکہ جرح وتعدیل کے امام یحیی بن سعید القطان نے انہیں ثبت قراردیا ہے ، لہٰذا متقدمین اورجرح وتعدیل کے امام یحیی بن سعد کے بالمقابل امام ذھبی کے فیصلہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
شذوذ کی تیسری وجہ
یزید بن خصیفہ کی روایت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے بھی خلاف ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ الیل کی تعداد گیارہ بتلائی گئی ہے ، یاد رہے کہ صلاۃ اللیل ہی کو رم ان میں تراویح کہا جاتاہے۔
لطیفہ:
کچھ لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے یزید رحمہ اللہ پرسب وشتم کرتے ہیں اوریہاں تک کہتے پھرتے ہیں کی یزید کے دور کے بعد اہل سنت نے اپنے لڑکوں کانام یزید رکھنا بندکردیا ۔
عرض ہے کہ اکیس رکعات کی تعدا یزید نامی روای ہی بیان کررہے ہیں جو یزیدبن معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورکے بعد کے تھے جبکہ گیارہ کی رکعات کی تعداد محمد نامی راوی بیان کررہے ہیں۔
اگریزید کے مخالفین مذکورہ بات پریقین رکھتے ہیں تو پھر ان کے اصول کے مطابق یزید نامی روای کوئی اچھا راوی نہیں ہوگا اس لئے ان حضرات کو یزیدبن خصیفہ کے بجائے محمدبن یوسف کی روایت کو ترجیح دینی چاہئے ورنہ ایک طرف یزید نام سے بھی نفرت اوردوسری طرف محمدی سند کو نظر انداز کرکے یزیدی سند کو گلے لگالینا ، بہت حیرت انگیزہے۔
موطا میں ایک منقطع روایت کو بھی بیس رکعت والے پیش کرتے لیکن بدقسمتی سے اس میں بھی یزید نامی ایک راوی موجود ہے۔
تنبیہ:
کچھ لوگ محمدبن یوسف کی روایت کے بالمقابل ابن خصیفہ کی روایت کو اس لئے راجح قرار دیتے ہیں کہ ابن خصیفہ سے روایت کرنے والے شاگردوں نے رکعات کی تعداد میں اختلاف نہیں کیا ہے جبکہ محمدبن یوسف کے شاگردوں نے تعداد رکعات میں اختلاف کیا ہے لہٰذا محمدبن یوسف کی روایت مرجوح ہوگی:
عرض ہے کہ:
اول:
محمدبن یوسف کے پانچ شاگردوں نے متفقہ طور پر ایک ہی تعداد بیان کی ہے جن میں امام مالک ، یحیی بن سعید القطان جیسے جلیل القدر محدثین بھی ہیں لہٰذا ایک دو شاگردوں کے اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ۔
دوم:
محمدبن یوسف کے شاگردوں میں بھی اختلاف ثابت نہیں ہے تفصیل اگلے سطور میں :
رواۃ پردوسرا اعتراض
(جلیل القدر محدث وفقیہ امام مالک رحمہ اللہ کی تغلیط)
کہاجاتاہے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے رکعات تراویح کی تعداد کی روایت میں غلطی ہوئی کیونکہ محمدبن یوسف ہی کے استاذ سے داود بن قیس نے بھی یہی روایت بیان کی ہے لیکن انہوں نے رکعات کی تعداد گیارہ نہیں بلکہ اکیس بتلائی ہے۔
ابوالقاسم رفیق دلاوری صاحب رقمطرازہیں:
اسی طرح ہمیں یقین ہے کہ گیارہ کی روایت جو موطا امام مالک میں ہے اسنادا بالکل صحیح ہے لیکن ہمارے اہل حدیث حضرات کی بدقسمتی سے امام مالک اکیس کو گیارہ سمجھنے میں غلط فہمی کاشکار ہوگئے تھے (التوضیح عن رکعات التراویح:ص 170)۔
عرض ہے کہ اکیس والی روایت ثابت ہی نہیں، لہٰذا اس کی بنیاد پر امام مالک رحمہ اللہ کی تغلیط بے معنی ہے ۔
ذیل میں ہم اس روایت کی حقیقت بیان کرتے ہیں:
تغلیط امام مالک رحمہ اللہ کی بنیاد
(منکرروایت)
امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی211) نے کہا:
عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَیْسٍ، وَغَیْرِہِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِی رَمَ انَ عَلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، وَعَلَی تَمِیمٍ الدَّارِیِّ عَلَی إِحْدَی وَعِشْرِینَ رَکْعَۃُ یَقْرَء ُونَ بِالْمِئِینَ وَیَنْصَرِفُونَ عِنْدَ فُرُوعِ الْفَجْرِ (مصنف عبد الرزاق: 4/ 260)۔
یہ روایت ضعیف ہے اورثقہ رواۃ کے خلاف ہے لہٰذا منکرہے اس کی علتوں کی تفصیل ملاحظہ ہو:
ظ پہلی علت:
امام عبدالرزاق کا عنعنہ:
عبدالرزاق رحمہ اللہ نے عن سے وایت کیا ہے، اورموصوف مدلس ہیں،دیکھئے:تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس لابن حجر: ص 34 نیز ملاحظہ ہو :الضعفا للعقیلی :ج ۳ص ۰۱۱۔ ذہبی عصر علامہ معلمی رحمہ اللہ نے بھی ان کے تدلیس کی وجہ سے بعض روایات پرکلام کیا ہے، دیکھئے:الفوائد المجموع ص: 347۔
ظ دوسری علت:
اسحاق بن ابراہیم الدبری عن عبدالرزاق کے طریق میں ضعف:
مصنف عبدالرزاق کے مطبوعہ نسخہ میں مذکورہ رویات کو امام عبدالرزاق سے اسحاق بن ابراہیم الدبری نے نقل کیا ہے۔
اوراس طریق سے عبدالرزاق کی مرویات پر اہل فن نے کلام کیا ہے اسحاق دبری نے امام عبدالرزاق سے آخری دور میں سنا ہے اور آخر میں عبدالرزاق رحمہ اللہ مختلط ہوگئے تھے ، چنانچہ:
امام احمد رحمہ اللہ (المتوفی241) نے کہا:
لا یعبأ بحدیث من سمع منہ وقد ذہب بصرہ، کان یلقن أحادیث باطلۃ(سوالات ابن ھانی رقم 2285 ، موسوعۃ أقوال الإمام أحمد فی الجرح والتعدیل 4/ 322)۔
امام أبو زرعۃ الدمشقی رحمہ اللہ (المتوفی281)نے کہا:
أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: أَتَیْنَا عَبْدَ الرَّزَّاقِ قَبْلَ الْمِائَتَیْنِ، وَہُوَ صَحِیحُ الْبَصَرِ وَمَنْ سَمِعَ مِنْہُ بعدما ذہب بصرہن فَہُوَ ضَعِیفُ السَّمَاعِ(تاریخ أبی زرعۃ الدمشقی: ص: 457)۔
امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی303)نے کہا:
عبد الرَّزَّاق بن ہمام فِیہِ نظر لمن کتب عَنہُ بِأخرَۃ(الضعفاء والمتروکون للنسائی: ص: 69)۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی365)نے کہا:
لا بأس بہ إلاَّ أنہ قد سبق منہ أحادیث فِی ف ائل أہل البیت ومثالب آخرین مناکیر(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 6/ 545)۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی385)نے کہا:
یخطیء علی معمر فی أحادیث لم تکن فی الکتاب(سؤالات ابن بکیر للدارقطنی: ص: 2)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی852)نے کہا:
ثقۃ حافظ مصنف شہیر عمی فی آخر عمرہ فتغیر وکان یتشیع(تقریب التہذیب لابن حجر: 2/ 354)۔
معلوم کہ امام عبدالرزاق اخیر میں مختلط ہوگئے تھے لہٰذا ان سے جن لوگوں نے اختلاط کے بعد روایت کی ہے وہ حجت نہیں اور زیرتحقیق روایت کو ان سے اسحاق الدبری نے روایت کیا اورانہوں امام عبدالرزاق کے اختلاط کے بعد ان سے روایت کی ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی365)نے کہا:
استصغرہ عَبد الرَّزَّاق أحضرہ أبوہ عندہ، وَہو صغیر جدا فکان یقول: قرأنا علی عَبد الرَّزَّاق أی قرأ غیرہ، وحضر صغیرا وحدث عنہ باحادیث منکرۃ .(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 1/ 560)۔
امام ابن الصلاح رحمہ اللہ (المتوفی643)نے کہا:
قَدْ وَجَدْتُ فِیمَا رُوِیَ عَنِ الطَّبَرَانِیِّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ الدَّبَرِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ أَحَادِیثَ اسْتَنْکَرْتُہَا جِدًّا، فَأَحَلْتُ أَمْرَہَا عَلَی ذَلِکَ، فَإِنَّ سَمَاعَ الدَّبَرِیِّ مِنْہُ مُتَأَخِّرٌ جِدًّا(مقدمۃ ابن الصلاح: ص: 396)۔
امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی748)نے کہا:
ما کان الرجل صاحب حدیث، وإنما أسمعہ أبوہ واعتنی بہ، سمع من عبد الرزاق تصانیفہ، وہو ابن سبع سنین أو نحوہا، لکن روی عن عبد الرزاق أحادیث منکرۃ(میزان الاعتدال للذہبی: 1/ 181)
علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
أن الإسناد الذی ساقہ لا تقوم بہ حجۃ ؛ لأنہ من روایۃ الدبری عن عبد الرزاق ؛ فإن الدبری – مع أنہ قد تکلم بعضہم فیہ ؛ فإنہ – ممن سمع من عبد الرزاق بعد اختلاطہ ؛ قال ابن الصلاح : “وجدت فیما روی الطبرانی عن الدبری عنہ أحادیث استنکرتہا جداً ، فأحلت أمرہا علی ذلک” (سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ :11/ 521)۔
ظ تیسری علت:
عبدالرزاق سے نقل کرنے والے ” اسحاق بن ابراہیم الدبری ” یہ خود بھی متکلم فیہ ہیں:
امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی365)نے کہا:
حدث عنہ بحدیث منکر(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 1/ 560)۔
امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی748)نے کہا:
ما کان الرجل صاحب حدیث، وإنما أسمعہ أبوہ واعتنی بہ، سمع من عبد الرزاق تصانیفہ، وہو ابن سبع سنین أو نحوہا، لکن روی عن عبد الرزاق أحادیث منکرۃ(میزان الاعتدال للذہبی: 1/ 181)
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اکیس رکعت والی روایت ثابت ہی نہیں لہٰذا اسے بنیاد بنا کر امام مالک رحمہ اللہ کی تغلیط کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
ابن عبدالبرپر رد
اورعلامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ (المتوفی 463)نے جو یہ کہا:
( ہکذا قال مالک فی ہذا الحدیث إحدی عشرۃ رکعۃ ) وغیر مالک یخالفہ فیقول فی موضع إحدی عشرۃ رکعۃ ( إحدی وعشرین ) ولا أعلم أحدا قال فی ہذا الحدیث إحدی عشرۃ رکعۃ غیر مالک واللہ أعلم(الاستذکار 2/ 68)۔
یعنی: امام مالک رحمہ اللہ نے گیارہ رکعت روایت کیا ہے جبکہ امام مالک کے علاوہ دوسرے روای گیارہ رکعات کے بجائے اکیس رکعات روایت کرتے ہیں اور مجھے ایک بھی راوی ایسا نہیں معلوم جس نے اس روایت میں گیارہ رکعت نقل کیا ہو
عرض ہے کہ علامہ ابن عبدالبررحمہ اللہ کی یہ بات بہت ہی عجیب وغریب ہے ، کیونکہ:
اول :
علامہ ابن عبدالبر نے اکیس کی تعداد والی جس روایت پر اعتماد کرکے امام مالک رحمہ اللہ کی تغلیط کی ہے وہ صحیح نہیں کمامضی۔
دوم:
علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جو یہ کہا کہ مجھے ایک بھی راوی ایسا نہیں معلوم جس نے اس روایت میں گیارہ رکعت نقل کیا ہو یہ بجائے خود بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ امام مالک کے علاوہ بھی بہت سارے رواۃ نے اسی روایت کوبیان کرتے ہوئے گیارہ رکعت کی تعداد نقل کی ، اسی لئے امام زرقانی نے موطا کی شرح میں علامہ ابن عبدالبر کی اس بات کا پھرپور رد کیا ہے۔
٭امام زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَوْلُہُ: إِنَّ مَالِکًا انْفَرَدَ بِہِ لَیْسَ کَمَا قَالَ فَقَدْ رَوَاہُ سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ فَقَالَ: إِحْدَی عَشْرَۃَ کَمَا قَالَ مَالِکٌ.(شرح الزرقانی علی الموطأ: 1/ 419)۔
ابن عبدالبرکا یہ کہنا کہ صرف امام مالک نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے گیارہ کی تعداد نقل کی ہے ، درست نہیں ، کیونکہ سعیدبن منصورنے ایک دوسرے طریق (عبد العزیز بن محمد بن عبید الدراوردی) سے محمدبن یوسف سے نقل کیا اوراس راوی نے بھی امام مالک کی طرح گیارہ کی تعدادنقل کی ہے۔
٭امام سبکی( المتوفی756ھ) بھی ابن عبدالبر پررد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَکَأَنَّہُ لَمْ یَقِفْ عَلَی مُصَنَّفِ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ فِی ذَلِکَ فَإِنَّہُ رَوَاہَا کَمَا رَوَاہَا مالک عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ محمد بن یوسف شَیْخِ مالک(الحاوی للفتاوی 1/ 417)۔
لگتاہے کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ سعیدبن منصور رحمہ اللہ کی کتاب سے واقف ہی نہیں ہوئے کیونکہ اس کتاب میں بھی امام مالک ہی کی روایت کے مطابق ، امام مالک کے شیخ محمدبن بن یوسف سے عبدالعزیزبن محمد نے روایت کیا ہے۔
٭بلکہ نیموی حنفی بھی فرماتے ہیں:
مَا قالہ بن عَبْدِ الْبَرِّ مِنْ وَہَمِ مَالِکٍ فَغَلَطٌ جِدًّا لِأَنَّ مَالِکًا قَدْ تَابَعَہُ عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عِنْدَ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ فِی سُنَنِہِ وَیَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ عِنْدَ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ فِی مُصَنَّفِہِ کِلَاہُمَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ وَقَالَا إِحْدَی عَشْرَۃَ کَمَا رَوَاہُ مَالِکٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ ، وَأَخْرَجَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِیُّ فِی قِیَامِ اللَّیْلِ مِنْ طَرِیقِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ عَنْ جَدِّہِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ کُنَّا نُصَلِّی فِی زَمَنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی رَمَ انَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ، انتھی ہَذَا قَرِیبٌ مِمَّا رَوَاہُ مَالِکٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ أَیْ مَعَ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَاء ِ (آثار السنن: ج ۲ص ۵۲ وانظر:تحفۃ الأحوذی:3/ 443)۔
ابن عبدالبر نے امام مالک رحمہ اللہ کے وہم سے متعلق جوبات کہی ہے وہ بہت ہی غلط ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ کی متابعت عبدالعزیز بن محمد نے کی ہے جیساکہ سنن سعیدبن منصور میں ہے اور یحیی بن سعیدالقطان رحمہ اللہ نے بھی امام مالک کی متابعت کی ہے جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ، چنانچہ عبدالعزیز بن محمد اور یحیی بن سعیدالقطان ، ان دونوں اماموں نے (امام مالک ہی کے شیخ) محمدبن یوسف سے یہی روایت نقل کی ہے اور ان دونوں نے بھی اسی طرح گیارہ رکعات نقل کیا ، جس طرح امام مالک رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ، نیز امام مروزی رحمہ اللہ نے بھی قیام اللیل میں محمدبن اسحاق کے طریق سے روایت کی انہوں نے کہا: مجھ سے محمدبن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے نقل کیاکہ انہوں نے کہا: ہم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے ۔ یہ روایت بھی تقریبا امام مالک کی محمدبن یوسف سے نقل کردہ روایت ہی کی طرح ہے ، بایں طور کہ اس روایت میں عشاء کی بعد کی دو سنت رکعات بھی شمار کی لی گئی ہیں۔
عرض ہے اس کے علاوہ بھی اورکئی رواۃ نے محمدبن یوسف سے اسی روایت کوگیارہ کی تعداد کے ساتھ نقل کیا اوران سب کی کل تعداد چھ ہے ، تفصیل آگے ملاحظہ ہو:
امام مالک کی متابعات
امام مالک رحمہ اللہ سے گیارہ کی تعداد نقل کرنے میں قطعا کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے۔ اس کی زبردست اورقطعی دلیل یہ ہے کہ امام مالک کے استاذ محمدبن یوسف ہی سے چھ اور راویوں نے بھی یہی روایت نقل کی اوران سب نے بھی وہی تعداد نقل کی ہے جو امام مالک رحمہ اللہ نے نقل کی ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
إسماعیل بن أمیۃ بن عمرو القرشی (المتوفی144ھ)۔
اسامہ بن زید اللیثی المدنی أبو زید (المتوفی153ھ)۔
إسماعیل بن جعفربن ابی کثیر الأنصاری(المتوفی180ھ)۔
عبد العزیز بن محمدبن عبید الدراوردی (المتوفی186ھ)۔
امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ (المتوفی 198ھ)۔
امام المغازی محمد بن اسحاق رحمہ للہ (المتوفی 150ھ)۔
ان چھ متابعات میں سے شروع کی پانچ متابعات میں صراحتا گیارہ کی تعداد کا ذکر ہے جبکہ چھٹی متابعت میں معنوی طور پر یہ تعداد مذکورہے۔
اب آگے ان سب کی روایات ملاحظہ ہوں:
پہلی متابعت
(از: إسماعیل بن أمیۃ بن عمرو بن سعید القرشی المتوفی144)
امام أبو بکر النیسابوری رحمہ اللہ (المتوفی324)نے کہا:
حدّثنا یوسف بن سعید، ثنا حجاج، عن ابن جریج، حدثنی إسماعیل بن أمیۃ، أنّ محمد بن یوسف ابن أخت السّائب بن یزید أخبرہ، أنّ السّائب بن یزید أخبرہ قال: جمع عمر بن الخطاب الناس علی أبی بن کعب وتمیم الداری، فکانا یقومان بمائۃ فی رکعۃ، فما ننصرف حتی نری أو نشک فی فروع الفجر. قال: فکنا نقوم بأحد عشر.(فوائد أبی بکرالنیسابوری ،مخطوط ، واسنادہ صحیح، ورجالہ کلھم من رجال الصحیحین خلا یوسف بن سعد فمن رجال النسائی وھو ثقہ و ابن جریج مدلس لکنہ صرح بالتحدیث فی ھذا السند)۔
ترجمہ: اسماعیل بن امیہ رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں ایک رکعت میں سوآیات پڑھاتے تھے پھرجب ہم نماز سے فارغ ہوتے تو ہم کو لگتا کہ فجرہوچکی ہے ، سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
د وسری متابعت
(از: اسامہ بن زید اللیثی،المتوفی153)
امام أبو بکر النیسابوری رحمہ اللہ (المتوفی324)نے کہا:
حدثنا الربیع بن سلیمان، ثنا ابن وہب، حدثنی أسامۃ بن زید، عن محمد بن یوسف، عن السائب بن یزید، قال: جمع عمر بن الخطاب الناس فی قیام رم ان علی أبی بن کعب وتمیم الداری، کانا یقومان أحد عشرۃ رکعۃ ۔۔۔(فوائد أبی بکر عبد اللہ بن محمد بن زیاد النیسابوری ، مخطوط ص:15 رقم17 ترقیم الشاملہ واسنادہ صحیح رجالہ ثقات کلھم مترجمون فی التھذیب)۔
اسامہ بن زید اللیثی المدنی رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رم ان میں لوگوں کو ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔
تیسری متابعت
(از:إسماعیل بن جعفر بن أبی کثیر الأنصاری المتوفی180ھ)۔
علی بن حجر بن إیاس السعدی(المتوفی244ھ)نے کہا:
ثنا إِسْمَاعِیلُ، حَدْثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یَزِیدَ الْکِنْدِیُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ أَنَّہُمْ کَانُوا یَقُومُونَ فِی زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِإِحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً یَقْرَء ُونَ فِی الرَّکْعَۃِ بِالْمِائَتَیْنِ حَتَّی إِنَّہُمْ لَیَعْتَمِدُونَ بِالْعِصِیِّ(أحادیث إسماعیل بن جعفر رقم 440، واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین)۔
اسماعیل بن امیہ رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہاکہ: لوگ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات تراویح پڑھتے تھے ، اورایک ایک رکعت میں سو سو آیات پڑھتے تھے یہاں تک کہ طویل قیام کی وجہ سے لکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے۔
چوتھی متابعت
(عبد العزیز بن محمد بن عبید الدراوردی المتوفی186ھ)
امام سعید بن منصور رحمہ اللہ (المتوفی 227)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِی محمد بن یوسف: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ یَزِیدَ یَقُولُ: کُنَّا نَقُومُ فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِإِحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً نَقْرَأُ فِیہَا بِالْمِئِینَ، وَنَعْتَمِدُ عَلَی الْعِصِیِّ مِنْ طُولِ الْقِیَامِ، وَنَنْقَلِبُ عِنْدَ بُزُوغِ الْفَجْرِ(الحاوی للفتاوی 1/ 416 وانظر المصابیح فی صلاۃ التراویح للسیوطی : ص 38 واسنادہ صحیح)۔
ترجمہ: عبدالعزیز بن محمدالدراوردی رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات تراویح پڑھتے تھے ہم سو سو آیات پڑھتے تھے اورلکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے اورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔
٭امام سبکی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حددرجہ صحیح قراردیتے ہوئے کہا:
وَفِی مُصَنَّفِ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ بِسَنَدٍ فِی غَایَۃِ الصِّحَّۃِ (نقلہ السیوطی فیالحاوی للفتاوی 1/ 417)۔
یعنی سعیدبن منصور کی کتاب میں حددرجہ صحیح سند کے ساتھ یہ روایت مروی ہے۔
تنبیہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سندہ فی غایۃ الصحۃ کما قال السیوطی فی المصابیح (صلاۃ التراویح للالبانی :ص: 57)۔
اس کی سند حددرجہ صحیح ہے جیساکہ امام سیوطی نے اپنے رسالہ مصابیح میں کہا ہے۔
عرض ہے کہ یہ تصحیح امام سیوطی رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ امام سبکی کی ہے جسے امام سیوطی نے نقل کیا ہے، دراصل امام سیوطی نے امام سبکی سے ایک طویل اقتباس نقل کیا اوراس کے درمیان ہی یہ تصحیح ہے اس لئے شاہد علامہ البانی رحمہ اللہ متعلقہ مقام کی عبارت کا امام سیوطی کی عبارت سمجھ لیا ۔
پانچویں متابعت
(از: امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ (المتوفی 198ھ)
امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ ، أَنَّ السَّائِبَ أَخْبَرَہُ : أَنَّ عُمَرَ جَمَعَ النَّاسَ عَلَی أُبَیٍّ وَتَمِیمٍ فَکَانَا یُصَلِّیَانِ إحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ، یَقْرَآنِ بِالْمِئِینَ ، یَعْنِی فِی رَمَ انَ.(مصنف ابن أبی شیبۃ: 2/ 391 واسنادہ صحیح، واخرجہ ای ا عمر بن شبۃ فی تاریخ المدینۃ : 2/ 713 من طریق یحیی بہ)۔
امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رم ان میں لوگوں کو ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے، اورہرکعت میں سو سوآیات پڑھاتے تھے۔
چھٹی متابعت
(از: امام ابن اسحاق رحمہ للہ)
امام أبو بکر النیسابوری رحمہ اللہ (المتوفی324)نے کہا:
حدثنا أبو الأزہر، ثنا یعقوب بن إبراہیم، حدثنی أبی، عن ابن إسحاق، قال حدثنی محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن أخت السائب، عن السائب، قال: کُنَّا نُصَلِّی فِی زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِی رَمَ انَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ومَا کُنَّا نُخْرِجُ إِلاَّ فِی وِجَاہِ الصُّبْحِ , کَانَ الْقَارِئُ یَقْرَأُ فِی کل رَکْعَۃٍ خَمْسِینَ آیَۃً , سِتِّینَ آیَۃً.(فوائد أبی بکر عبد اللہ بن محمد بن زیاد النیسابوری – مخطوط ص: 17رقم 19ترقیم الشاملہ واسنادہ حسن)۔
امام محمدبن اسحاق رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم عمرفارق رضی اللہ عنہ کے دور میں رم ان میں تیرہ رکعات پڑھتے تھے اورہم صبح کے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے ، اور قاری ایک رکعت میں پچاس سے ساٹھ آیات کی تلاوت کرتاتھا۔
تطبیق:
ابن اسحاق کی اس روایت میں بھی معنوی طور پر امام مالک کی متابعت کی گئی ہے کیونکہ اس میں جو تیرہ رکعات کا ذکر ہے وہ امام مالک کی روایت میں مذکور گیارہ رکعات کے مخالف نہیں ہے ، کیونکہ دونوں میں تطبیق ممکن ہے وہ اس طرح کہ ابن اسحاق کی روایت میں عشاء کے بعد کی دو سنت رکعات بھی شمار کرلی گئی ہیں ۔
تطبیق مذکور کی پہلی مثال:
اس تطبیق کی مثال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ اللیل سے متعلق صحیحین میں مروی مختلف روایات بھی ہیں ۔
چنانچہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی معروف مشہور روایت میں یہ تعداد گیارہ رکعات بتلائی گئی ہے(بخاری :کتاب صلاۃ التراویح:باب فضل من قام رم ان، رقم 2013)۔
جبکہ صحابی رسول زید بن خالد الجہنی نے یہ تعداد تیرہ رکعات بتلائی ہے چنانچہ:
امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی261)نے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ قَیْسِ بْنِ مَخْرَمَۃَ، أَخْبَرَہُ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ، أَنَّہُ قَالَ: لَأَرْمُقَنَّ صَلَاۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَّیْلَۃَ، فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ خَفِیفَتَیْنِ، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ طَوِیلَتَیْنِ طَوِیلَتَیْنِ طَوِیلَتَیْنِ، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ، وَہُمَا دُونَ اللَّتَیْنِ قَبْلَہُمَا، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ، وَہُمَا دُونَ اللَّتَیْنِ قَبْلَہُمَا، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ، وَہُمَا دُونَ اللَّتَیْنِ قَبْلَہُمَا، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ وَہُمَا دُونَ اللَّتَیْنِ قَبْلَہُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ فَذَلِکَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً(صحیح مسلم :کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا:باب الدعاء فی صلاۃ اللیل وقیامہ، رقم765)۔
صحابی رسول زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں آج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو دیکھوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں پھر دو لمبی رکعتیں پڑھیں دو لمبی لمبی، دو لمبی سے لمبی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور یہ دونوں پہلی دونوں پڑھی گئی سے کم پڑھیں پھر اس سے کم اور پھر اس سے کم دو رکعات پڑھیں پھر اس سے کم دو رکعات پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین وتر پڑھے تو یہ تیرہ رکعتیں ہو گئیں۔
بخاری مسلم کی یہ دونوں روایات باہم مضطرب یا ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان دونوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعدکی دو رکعات بھی شمار کرلی ہے جیساکہ ان کی روایت کے سیاق سے صاف ظاہرہے۔
ہم کہتے ہیں یہی صورت تطبیق امام مالک کی روایت اورابن اسحاق کی روایت کے مابین بھی اختیار کی جائے گی۔
تطبیق مذکور کی دوسری مثال:
تطبیق کی ایک دوسری مثال صلاۃ اللیل سے متعلق اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی مختلف روایات بھی ہیں ، چنانچہ:
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں رکعات صلاۃ اللیل کی تعداد گیارہ رکعات بتلائی گئی ہے، کمامضی۔(بخاری :کتاب صلاۃ التراویح:باب فضل من قام رم ان، رقم 2013)۔
جبکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی دوسری روایت میں یہ تعداد تیرہ رکعات بتلائی گی ہے ، (بخاری:کتاب الجمعۃ :باب: کیف کان صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ ، رقم 1140)۔
اوراماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی ایک تیسری روایت میں یہ تعداد پندرہ رکعات بتلائی گی ہے ، (بخاری :کتاب الجمعۃ:باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر، رقم 1170)۔
ان تینوں روایات میں تعداد کا اختلاف اضطراب کی دلیل نہیں ہے بلکہ تطبیق ممکن ہے وہ اس طرح کہ:
٭جس روایت میں گیارہ رکعات کا ذکر ہے اس سے مراد خالص صلاۃ اللیل کی رکعات ہیں ۔
٭اورجس روایت میں تیرہ رکعات کا ذکر ہے اس میں صلاۃ اللیل کی رکعات کے ساتھ عشاء کے بعد کی دو سنتیں بھی شمار کرلی گئی ہیں یا فجرسے قبل کی دو سنتیں شمار کرلی گئی ہیں ۔
٭اورجس روایت میں پندرہ رکعات کا ذکر ہے اس میں صلاۃ اللیل کی رکعات کے ساتھ عشاء کے بعد کی دو سنتیں اور فجرسے قبل کی دو سنتیں بھی شمار کرلی گئی ہیں ۔
ان توجیہات سے ان تمام روایت میں تطبیق ہوجاتی ہے۔
گھرکی مثال:
اورلطف تو یہ ہے کہ اختلاف کی یہی صورت حال احناف کی ان ضعیف ومردود مستدل روایات میں بھی ہے جنہیں وہ بیس رکعات کی دلیل میں پیش کرتے ہیں ،چنانچہ ان روایات میں سے :
٭کسی میں بیس(۲۰) رکعات کا ذکرہے(کتاب الصیام للفریابی:ص158)۔
٭تو کسی میں اکیس(۲۱) رکعات کا ذکرہے(مصنف عبد الرزاق: 4/ 260 رقم 7730)۔
٭تو کسی میں تیئیس(۲۳) رکعات کا ذکر ہے(مصنف عبد الرزاق: 4/ 261 رقم7733)۔
لیکن احناف کو یہاں اضطراب نظر نہیں آتا بلکہ وہ بڑے مزے سے ان کے مابین تطبیق دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں ، اوراضطراب کا نام تک نہیں لیتے ۔
عرض ہے کہ اگربیس ، اکیس ، تیئیس میں تطبیق ممکن ہے تو گیارہ اور تیرہ میں تطبیق کیونکر ناممکن ہے ؟؟؟؟؟
الغرض یہ کہ امام مالک کی روایت اورامام ابن اسحاق کی روایت میں بایں طور تطبیق ممکن ہے کہ امام مالک کی روایات میں خالص رکعات تراویح کابیان ہے جبکہ امام ابن اسحاق کی روایت میں رکعات تراویح کے ساتھ عشاء کے بعد کی دو رکعت سنت بھی شمار کی لی گئی۔
گھرکی شہادت:
چنانچہ دیوبندیوں کے علامہ نیموی حنفی نے بھی امام مالک کی روایت میں اورامام ابن اسحاق کی رویات میں یہی تطبیق دی ہے ، اور پھر یہ تطبیق دینے کے بعد امام ابن اسحاق کی اس روایت کو روایت امام مالک کی متابعات کے ضمن میں پیش کیا ہے ، ملاحظہ ہوں موصوف نیموی حنفی کے الفاظ:
لِأَنَّ مَالِکًا قَدْ تَابَعَہُ عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عِنْدَ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ فِی سُنَنِہِ وَیَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ عِنْدَ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ فِی مُصَنَّفِہِ کِلَاہُمَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ وَقَالَا إِحْدَی عَشْرَۃَ کَمَا رَوَاہُ مَالِکٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ ، وَأَخْرَجَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِیُّ فِی قِیَامِ اللَّیْلِ مِنْ طَرِیقِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ عَنْ جَدِّہِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ کُنَّا نُصَلِّی فِی زَمَنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی رَمَ انَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ، انتھی ہَذَا قَرِیبٌ مِمَّا رَوَاہُ مَالِکٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ أَیْ مَعَ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَاء ِ (آثار السنن: ج ۲ص ۵۲ وانظر:تحفۃ الأحوذی:3/ 443)۔
کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ کی متابعت عبدالعزیز بن محمد نے کی ہے جیساکہ سنن سعیدبن منصور میں ہے اور یحیی بن سعیدالقطان رحمہ اللہ نے بھی امام مالک کی متابعت کی ہے جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ، چنانچہ عبدالعزیز بن محمد اور یحیی بن سعیدالقطان ، ان دونوں اماموں نے (امام مالک ہی کے شیخ) محمدبن یوسف سے یہی روایت نقل کی ہے اور ان دونوں نے بھی اسی طرح گیارہ رکعات نقل کیا ، جس طرح امام مالک رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ، نیز امام مروزی رحمہ اللہ نے بھی قیام اللیل میں محمدبن اسحاق کے طریق سے روایت کی انہوں نے کہا: مجھ سے محمدبن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے نقل کیاکہ انہوں نے کہا: ہم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں تیرہ رکعات پڑھتے تھے تھے ۔ یہ روایت بھی تقریبا امام مالک کی محمدبن یوسف سے نقل کردہ روایت ہی کی طرح ہے ، بایں طور کہ اس روایت میں عشاء کی بعد کی دو سنت رکعات بھی شمار کی لی گئی ہیں۔
اگراب بھی بضدہوں تو:
اوراگر ابن اسحاق کی روایت اورامام مالک کی روایت میں تطبیق نہ دی جائے اور یہ مانا جائے کہ ابن اسحاق کی روایت امام مالک کی رویات سے مختلف ہے تو دریں صورت ابن اسحاق کی رویات شاذ قرار پائے گی کیونکہ ابن اسحاق ثقہ ہیں اوربعض نے ان کے حفظ پر کلام بھی کیا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ اوثق اور احفظ ہیں اور اوراوثق کے خلاف ثقہ کی روایت شاذ قرار پاتی ہے۔
مزیدبرآں یہ کہ امام مالک رحمہ اللہ کی متابعت بھی پانچ رواۃ نے کی ہے جن میں یحیی بن سعید القطان جیسے زبردست محدث بھی ہیں ایسی صورت میں لازمی طور پر امام مالک کی روایت راجح ہوگی اور ابن اسحاق کی رویات شاذ و نا قابل التفات ہوگی ۔
لیکن ہماری نظر میں تطبیق کی صورت ہی بہتر ہے کیونکہ اس کی نظیر ہمیں صحیحین کی روایات میں ملتی ہے ۔
فائدہ:
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ روایت باسند متصل نہیں ملی لہٰذا مردودہے،(تعداد رکعات ،قیام رم ان کا تحقیقی جائزہ: ص:۳۶)۔
عرض ہے کہ اس روایت کی متصل سند فوائد أبی بکر عبد اللہ بن محمد بن زیاد النیسابوری میں موجود ہے جسے اوپرنقل کیا گیا ہے اوریہ سند حسن ہے ، لہٰذا مقبول ہے۔
اورہمارے نزدیک یہ روایت ، امام مالک کی روایت کے مخالف نہیں بلکہ معنوی طورپر اس کی مؤید ہے ، لیکن اگر کوئی ابن اسحاق کی روایت کو امام مالک کی روایت کے خلاف سمجھے تو اسے لازمی طورپر ابن اسحاق کی روایت کو شاذ تسلیم کرنا چاہے کیونکہ ابن اسحاق حفظ اتقان میں امام مالک سے کمتر ہیں اور اپنی روایت میں منفرد بھی ہیں ، جبکہ امام مالک ان کی بنسبت اوثق و احفظ ہیں اور اپنی رویات میں منفرد بھی نہیں بلکہ یحیی بن سعد جیسے جلیل القدر محدث سمیت پانچ رواۃ نے ان کی متابعت کی ہے کما مضی ، وللہ الحمد۔
نوٹ: بعض ابن ابی شیبہ وغیرہ سے بعض منقطع وضعیف شواہد بھی پیش کرتے ہیں ،اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ تمام شواہد منقطع ہونے کے ساتھ ساتھ موطاکی اس ثابت شدہ روایت کے خلاف ہیں لہٰذا منکر ہیں اورمنکرروایت ہمیشہ منکرہی ہوتی وہ شواہد کے لائق نہیں ہوتی۔
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ موطا امام مالک کی روایت اعلی درجہ کی صحیح وحجت ہے۔