-
Tags: فروری،2023
تین طلاق اور صحیح مسلم کی حد یث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما (چودہویں قسط ) (ب) ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ کے فتویٰ سے معارضہ
بعض لوگوں نے صحیح مسلم والی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ بہانا بناکر رد کرنے کی کوشش کی ہے کہ خود اس کے راوی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اس کے خلاف ہے ۔
عرض ہے کہ:
امام بیہقی رحمہ اللہ ہی نے قرأت خلف الامام کے مسئلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ایک حدیث پر یہ اعتراض کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفا ًمروی حدیث اس کے خلاف ہے تو یہ اعتراض نقل کرکے اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا سرفرازصفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
اعتراض: بیہقی رحمہ اللہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اصل روایت میں ’’لاصلاة خلف الامام
‘‘ کا جملہ نہیں ہے جیساکہ علاء بن عبدالرحمن رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر نقل کیا ہے اور اس میں یہ جملہ مذکور نہیں ہے…الخ
جواب: یہ اعتراض چنداں وقعت نہیں رکھتا ۔
اولاً اس لئے کہ مرفوع حدیث کو موقوف اثر کے تابع بناکر مطلب لینا خلاف اصول ہے ۔وثانیا ً اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی کہ اعتبار راوی کی مرفوع حدیث کا ہوتا ہے اس کی اپنی ذاتی رائے کااعتبار نہیں ہوتا۔[احسن الکلام: ۱؍۲۹۸]
مولانا سرفرازصفدر نے ایک دوسرے مقام پر لکھا:
روایت کے مقابلے میں راوی کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔[احسن الکلام :۲؍۱۱۸]
ایک بریلوی عالم کا بھی ایسا قول آگے آرہاہے ۔
اب اس اعتراض کے مزید جوابات ملاحظہ ہوں:
اولا :
محدثین کے یہاں یہ مسلم ہے کہ کوئی بھی راوی اگر اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرلے یا فتویٰ دے دے تو اس سے اس کی روایت کردہ حدیث پر کوئی جرح واقع نہیں ہوگی۔ چنانچہ:
امام ابن الصلاح رحمہ اللہ (المتوفی۶۴۳) نے کہا:
’’إن عمل العالم أو فتياه علٰي وفق حديث ليس حكما منه بصحة ذلك الحديث، وكذلك مخالفته للحديث ليست قدحا منه فى صحته ولا فى راويه ‘‘
’’عالم کا عمل یا فتویٰ کسی حدیث کے موافق ہوجائے تو یہ اس کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح نہیں ہے ، اسی طرح عالم کا عمل یا فتویٰ کسی حدیث کے خلاف ہوجائے تو یہ اس کی طرف سے نہ تو اس حدیث پر کوئی جرح ہے اورنہ ہی اس کے راویوں پر کوئی جرح ہے‘‘
[مقدمۃ ابن الصلاح، ت عتر:ص:۱۱۱]
امام نووی رحمہ اللہ (المتوفی۶۷۶) نے کہا:
’’وعمل العالم وفتياه علٰي وفق حديث رواه ليس حكماً بصحته ولا مخالفته قدح فى صحته ولا فى راويه ‘‘
’’عالم کا کسی حدیث کے موافق عمل کرنا یا فتویٰ دینا یہ اس کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح نہیں ہے ، اسی طرح عالم کاکسی حدیث کی مخالفت کرنا اس کی طرف سے اس حدیث یا اس کے راویوں پر کوئی جرح نہیں ہے
‘‘[التقریب والتیسیر للنووی: ص:۴۹]
ابن الترکمانی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی۷۵۰) نے کہا:
’’مذهب الشافعي والمحدثين ان الراوي إذا روي حديثا ثم خالف كان العبرة لما روي لا لما ر أى ولا يكون رأيه جرحا فى الحديث ‘‘
’’امام شافعی اور محدثین کا کہنا یہ ہے کہ راوی جب ایک حدیث بیان کرے اور اس کی مخالفت کردے تو اعتبار اس کی حدیث کا ہوگا نہ کہ اس کی مخالفت کا ، اور اس کی مخالفت اس کی روایت کردہ حدیث پر جرح شمار نہیں ہوگی ‘‘
[الجوہر النقی:۲؍۱۵۹]
ثانیاً :
جب قرآن اور صحیح حدیث سے ایک مسئلہ ثابت ہوجائے تو اسی کو لیا جائے گا اس کے خلاف کسی بھی امتی کا قول نہیں لیا جاسکتا کیونکہ قرآن و حدیث وحی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے جبکہ امتی کے قول میں غلطی کا امکان ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ امتی نے حالات یا کسی مصلحت کے سبب نص کے خلاف فتویٰ دیا ہو جس میں وہ معذور ہوں۔
حتیٰ کہ کوئی صحابی ایک حدیث روایت کریں اور خود اس کے خلاف فتویٰ دیں تو بھی ان کی روایت کردہ حدیث ہی کو لیا جائے گا نہ کہ اس کے خلاف ان کے فتویٰ کو ، کیونکہ ان کے اس طرح کے فتویٰ میں بھی مذکورہ احتمالات ہوسکتے ہیں ۔
بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت کردہ بعض مرفوع احادیث اور ان کے خلاف ان کے فتویٰ کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
پہلی مثال:
بریرہ رضی اللہ عنہا جب لونڈی تھیں تبھی ان کی شادی ہوگئی تھی بعد میں ان کے مالک نے انہیں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیچ دیا اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خریدنے کے بعد آزاد کردیا ، لیکن اللہ کے نبی ﷺ نے اس خرید وفروخت کو طلاق قرار نہیں دیا بلکہ انہیں اختیاردیا کہ وہ چاہیں تو بدستور اپنے شوہر کی بیوی بنی رہیں اور چاہیں تو الگ ہوجائیں ۔
اس حدیث کو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ شادی شدہ لونڈی کو بیچ دینے یا اسے آزاد کردینے سے اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔لیکن دوسری طرف ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح یہ فتویٰ بھی ثابت ہے کہ لونڈی کو بیچنا ہی اس کی طلاق ہے ،یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی ہی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتویٰ دیا ہے ۔ لیکن اہل علم نے یہاں ان کے فتویٰ کو نہیں لیا بلکہ ان کی حدیث کو لیا ہے۔
لونڈی سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اور اس کے خلاف ان کا فتویٰ ہم گزشتہ قسطوں میں تفصیل سے پیش کرچکے ہیں ۔
دوسری مثال:
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ مرفوع حدیث روایت کی ہے کہ صلاۃ وسطیٰ سے مراد صلاۃ عصر ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱) نے کہا:
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ثابت ، حدثنا هلال ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:قاتل النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عدوا ، فلم يفرغ منهم حتي أخر العصر عن وقتها ، فلما ر أى ذلك قال:’’اللهم من حبسنا عن الصلاة الوسطي ، فاملأ بيوتهم نارا ، واملأ قبورهم نارا ‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے قتال کیا اور دشمنوں سے عصر کے آخری وقت ہی فارغ ہوئے ، جب آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا: ’’اے اللہ!جن لوگوں نے ہمیں صلاۃ وسطیٰـ سے روک دیا ہے ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے ‘‘
[مسند أحمد ط المیمنیۃ: ۱؍۳۰۱، وإسنادہ صحیح وأخرجہ عبد بن حمید فی المنتخب طریق محمد بن الفضل عن ثابت بہ ، وأخرجہ أیضا البزار کما فی کشف الأستار:۱؍۱۹۷،من طریق عباد بن العوام، و الطبرانی فی الکبیر:۱۱؍۳۲۹،والأوسط:۲؍۲۸۴من طریق أبی عوانہ ، کلاہما عن ہلال بہ]
لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت کردہ اس حدیث کے خلاف یہ فتویٰ دیا ہے کہ صلاۃ وسطیٰ سے مراد صلاۃ فجر ہے ۔
امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵) نے کہا:
حدثنا وكيع، عن قرة،قال:حدثنا أبو رجاء ، قال:’’صليت مع ابن عباس الصبح فى مسجد البصرة، فقال:هذه الصلاة الوسطي‘‘
ابورجاء کہتے ہیں :’’کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھی تو انہوں نے کہا:یہی صلاۃ وسطیٰ ہے‘‘
[مصنف ابن أبی شیبۃ، ط الفاروق:۳؍۵۱۶،وإسنادہ صحیح وأخرجہ الطحاوی فی شرح معانی الآثار، ت النجار:۱؍۱۷۰،من طریق أبی داؤدعن قرۃ بہ ،وأخرجہ أیضا عبد الرزاق فی مصنفہ: رقم:۲۲۰۷،والطحاوی فی شرح معانی الآثار، ت النجار:۱؍۱۷۰،من طریق عوف عن أبی رجاء بہ ، وأخرجہ أیضا اسماعیل القاضی من طریق آخر و صححہ کما فی التمہید لابن عبد البر:۴؍۲۸۵، ولہ طرق کثیرۃ عن ابن عباس]
واضح رہے کہ جن روایات میں یہ آیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی صلاۃ عصر کو صلاۃ وسطیٰ کہا ہے وہ ساری روایات ضعیف ہیں ، قدرے تفصیل کے لئے دیکھئے :[تفسیر سنن سعید بن منصور:۳؍۹۱۷تا ۹۲۰حاشیہ]
تیسری مثال:
ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے متعلق ایک اور مثال ایک بریلوی عالم کی زبانی سنئے ، مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
ہم آپ کو فقہ کے بیسوں مسائل دکھا سکتے ہیں کہ فقہاء نے راوی کی روایت پر عمل کیا ہے اور اس کی رائے کو چھوڑ دیا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
عن ابن عباس أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أمر أصحابه أن يرملوا الأشواط الثلاثة۔
[بخاری: رقم : ۱۶۰۲]
اور آپ کا قول یہ ہے کہ’’ لیس الرمل بسنۃ‘‘ [سنن أبی داؤد :رقم۱۸۸۵] اب عمل روایت پر ہے ان کی رائے پر نہیں۔ (دعوت فکرونظر:مطبوع در مجموعہ مقالات :ص:۲۴۱)
اس دوسری مثال سے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فإن قيل:إن ابن عباس قال فى الرمل:ليس سنة، وهو راوي الحديث؟ قلنا:لا حجة فى أحد مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ‘‘
’’اگر کہا جائے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ رمل سنت نہیں ہے ، اور رمل والی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ہی روایت کی ہے ، تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے خلاف کسی کا قول بھی حجت نہیں ہے ‘‘
[المحلی لابن حزم، ط بیروت:۵؍۸۴]
ثالثاً:
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی اس حدیث کے موافق بھی فتویٰ دیا ہے جیساکہ اس سلسلے میں ان سے دس روایات آگے پیش کی جائیں گی ، اس لئے یہ اعتراض سرے سے بے معنیٰ ہوگیا ۔
(ج) نام نہاد اور خیالی اجماع سے معارضہ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ تین طلاق کے ایک ماننے پر اجماع ہوگیا ہے اور غلط چیز پر امت کا اجماع نہیں ہوسکتا ، اس لئے اجماع پر اس حدیث کو مقدم نہیں کریں گے بلکہ کوئی بھی تاویل وتوجیہ کرکے اس حدیث کو ناقابل عمل قرا ردیں گے۔
عرض ہے کہ:
اولا :
یہاں جن بنیادوں پر اجماع کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان کی روشنی میں یہ اجماع معلوم نہیں بلکہ اجماع ظنی ہے اور اجماع ظنی قطعاً حجت نہیں ہے ، اس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں پیش کی جاچکی ہے ۔
ثانیاً :
تین طلاق کو تین ماننے پر کبھی بھی اجماع نہیں ہوا بلکہ ہرصدی میں اختلاف کا ثبوت موجود ہے نیز ہر صدی میں تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ دینے والے اہل علم بھی موجود رہے ہیں اس بارے میں آگے مکمل تفصیل آرہی ہے۔
ثالثاً :
عہد صدیقی اورعہد فاروقی کے ابتدائی دوسال میں اسی بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ تین طلاق ایک مانی جائے گی ، اور اس دور میں اس اجماع کے خلاف کسی کا بھی کوئی قول موجود نہیں ہے ، اس بارے میں تفصیل آگے آرہی ہے۔
لہٰذا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث حقیقی اجماع کے موافق ہے اور فریق مخالف جس اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کبھی واقع ہی نہیں ہوا ہے ۔
(د) غیرمقبول ہونے کا دعویٰ
بعض لوگوں کا کہنا ہے اس روایت کو محدثین اور فقہاء نے قبول نہیں کیا ہے ۔
عرض ہے کہ یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے ، محدثین کے نزدیک اس روایت کے قبول ہونے کی زبردست دلیل یہی ہے کہ امام مسلم نے اسے اپنی صحیح میں روایت کیاہے اور صحیح مسلم کی احادیث کے صحیح ومقبول ہونے پر امت کا اجماع ہے۔چنانچہ:
امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱) نے کہا:
’’ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ها هنا إنما وضعت ها هنا ما أجمعوا عليه ‘‘
’’میں نے اس کتاب میں ہرصحیح حدیث درج نہیں کی ہے بلکہ صرف ان صحیح احادیث کو درج کیا ہے جن کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے ‘‘
[صحیح مسلم :۲؍۳۰۴تحت رقم:۴۰۴]
محمد بن طاہر ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی۵۰۷) فرماتے ہیں:
’’أجمع المسلمون علٰي قبول ما أخرج فى الصحيحين لأبي عبد اللّٰه البخاري ، ولأبي الحسين مسلم بن الحجاج النيسابوري ‘‘
’’صحیحین میں امام بخاری ومسلم نے جو احادیث روایت کی ہیں ان کی قبولیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے‘‘
[صفوۃ التصوف لابن القیسرانی :(ورقۃ ۸۷، ۸۸) بحوالہ أحادیث الصحیحین بین الظن والیقین للشیخ الزاہدی ]
امام ابن الصلاح رحمہ اللہ (المتوفی۶۴۳) لکھتے ہیں:
’’جميع ما حكم مسلم بصحته من هذا الكتاب فهو مقطوع بصحته والعلم النظري حاصل بصحته فى نفس الأمر وهكذا ما حكم البخاري بصحته فى كتابه وذلك لأن الأمة تلقت ذلك بالقبول سوي من لا يعتد بخلافه ووفاقه فى الإجماع‘‘
’’وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے ،اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو’’تلقی بالقبول‘‘حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ‘‘
[صیانۃ صحیح مسلم :ص:۸۵]
امام نووی رحمہ اللہ (المتوفی۶۷۶) فرماتے ہیں:
’’اتفق العلماء رحمهم اللّٰه على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول ‘‘
’’علماء رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ قرآن عزیز کے بعدسب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، امت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہے‘‘
[شرح النووی علیٰ مسلم:۱؍۱۴]
امام ابن کثیر رحمہ اللہ (المتوفی۷۷۴) فرماتے ہیں:
’’أجمع العلماء علٰي قبوله وصحة ما فيه، وكذلك سائر أهل الإسلام ‘‘
’’صحیح بخاری کی مقبولیت اور اس کی احادیث کی صحت پر علماء اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ‘‘
[البدایۃ والنہایۃ ط إحیاء التراث:۱۱؍۳۰]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲) نے کہا:
’’وتلقي العلماء لكتابيهما بالقبول ‘‘
’’علماء کے یہاں ان دونوں کتابوں کو تلقی بالقبول حاصل ہے ‘‘
[نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر :ص:۶۰]
ض ملا علی القاری رحمہ اللہ(المتوفی۱۰۱۴)فرماتے ہیں:
’’ثم اتفقت العلماء علٰي تلقي الصحيحين بالقبول، وأنهما أصح الكتب المؤلفة ‘‘
’’پھر علماء کا صحیحین کو قبول کرنے پر اتفاق ہے اور اس بات پر کہ تمام کتابوں میں یہ صحیح ترین کتابیں ہیں ‘‘
[مرقاۃ المفاتیح للملا القاری:۱؍۱۸]
جہاں تک فقہاء کی بات ہے تو صحیح مسلم کی احادیث کی قبولیت پر اتفاق کرنے والوں میں فقہائے محدثین بھی شامل ہیں ، نیز ہرصدی میں اس حدیث کے مطابق فتویٰ دینے والے فقہاء موجود رہے ہیں جیساکہ آگے تفصیل آرہی ہے ۔
اور اس حدیث کی قبولیت پراجماع ہونے کے بعد نیز ہر صدی میں فقہاء کی ایک جماعت کا اس پر اعتماد کرنے اور اس کے مطابق فتویٰ دینے کے بعد بعض فقہاء کا اسے قبول نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
ہم یہاں احناف میں سے دو بڑے حنفی علماء کاحوالہ پیش کرتے ہیں جنہوں نے یہ شہادت کی ہے کہ محدثین وفقہاء نے اس حدیث کو نہ صرف صحیح تسلیم کیا ہے بلکہ اس سے استدلال کرتے ہوئے اس کے موافق موقف بھی اپنایا ہے۔
امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ (المتوفی۳۲۱) نے کہا:
حدثنا روح بن الفرج قال ثنا أحمد بن صالح قال:ثنا عبد الرزاق قال:أخبرنا ابن جريج قال:أخبرني ابن طاؤس،عن أبيه، أن أبا الصهباء قال لابن عباس:’’أتعلم أن الثلاث كانت تجعل واحدة علٰي عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأبي بكر وثلاثا من إمارة عمر؟ قال ابن عباس:نعم قال أبو جعفر:فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا، فقد وقعت عليها واحدة إذا كانت فى وقت سنة،وذلك أن تكون طاهرا فى غير جماع۔ واحتجوا فى ذلك بهذا الحديث ‘‘
امام طحاوی اپنی سند سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابوالصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:’’کیا آپ کوعلم ہے کہ عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا :ہاں! امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے ، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا ، ان لوگوں نے یہ بات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے‘‘
[شرح معانی الآثار، ت النجار:۳؍۵۵]
علامہ عینی رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۵) فرماتے ہیں:
’’ووضع البخاري هذه الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجوز وقوع الطلاق الثلاث، وفيه خلاف۔فذهب طاؤس ومحمد بن إسحاق والحجاج بن أرطأة والنخعي وابن مقاتل والظاهرية إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا فقد وقعت عليها واحدة، واحتجوا فى ذلك بما رواه مسلم ‘‘
’’امام بخاری نے یہ ترجمہ قائم کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سلف میں کچھ لوگ ایسے تھے جو تین طلاق کے وقوع کے قائل نہ تھے ، اور اس مسئلہ میں اختلاف ہے ، چنانچہ طاؤس ، محمدبن اسحاق ، حجاج بن ارطاۃ ، نخعی ، ابن مقاتل اور ظاہریہ کا کہنا ہے کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دیا تو اس پر ایک ہی طلاق واقع ہوگئی ، اس کے لئے ان اہل علم نے صحیح مسلم کی حدیث سے استدلال کیا ہے‘‘
[عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری: ۲۰؍ ۲۳۳]
احناف کو کم از کم اپنے ان دو بڑے اماموں کی شہادت پر یقین کرنا چاہیے جو کہہ رہے ہیںکہ محدثین و فقہاء نے اس حدیث کو قبول کیاہے اور اس سے استدلال کرتے ہوئے اس کے مطابق موقف اپنایاہے۔
جاری ہے ………