Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • علماء و اہلِ خیر حضرات

    دین کی دعوت امت تک پہنچانے میں معاشرے کے دو اہم لوگوں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے وہ دواہم لوگ ’’علماء‘‘ اور’’ اہل ِخیر‘‘حضرات ہیں۔
    دعوتِ دین کے حوالے سے علماء کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کتاب و سنت اور سلف صالحین کی تعلیمات کی روشنی میں صحیح اور صاف ستھرا دین امت تک پہنچائیں ،لوگوں کے ایمان و عقیدہ اور اعمال صالحہ کی اصلاح کے ساتھ انہیں منہیات و منکرات سے آگاہ کرکے ان سے بچنے کی تلقین کریں، علماء کو یہ کام کرنے لیے کسی اسلامی ادارہ،جامعات اور مساجد و مدارس سے جڑ کر کام کرنا ہوتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کسی بھی ادارے سے جڑنے کے بعد دنیاوی ضروریات کے تحت علماء کے مشاہروں اور ان کی تنخواہوں کا مناسب بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کے دیگر اخراجات کا بندوبست کرنا ایک اہم کام ہوتاہے۔
    عوام الناس کے درمیان دینی بیداری کے لیے موقع بہ موقع مختلف مقامات پر دینی و اصلاحی پروگرام ،اجتماعات، کانفرنسیں اور دروس وغیرہ کے اہتمام کی ذمہ داری بھی انہی علماء کے کند ھوں پر ہی عائد ہوتی ہے ، اِن پروگراموں میں شرکت کے لیے علماء کو جہاں دوردراز کا سفرطے کرکے وقت پر پروگرام گاہ تک آنا ہوتا ہے وہیں پروگرام کے انعقادکے لئے گراؤنڈ کی بکنگ سے لے کر اسٹیج سجانے،لائیو ٹیلی کاسٹ کرنے،ویڈیوریکارڈنگ کرنے اور کھانے پینے کے بندوبست کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی چیزوں پر اچھا خاصا خرچ درکار ہوتا ہے جس کا بندوبست کرنا دردِ سر سے کم نہیں ہوتا۔
    دعوتِ دین اور فروغِ اسلام کا ایک ذریعہ کتابت بھی ہے، وقت اور حالات کے حساب سے علماء پر اس ناحیہ سے بھی یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ عوام کی دینی و اصلاحی ضرورت کے تحت کتابیں، مضامین،بک لیٹ اورپمفلٹس وغیرہ لکھتے رہیں تاکہ جہاں ان کے ذریعہ عام عوام کا دینی فائدہ ہو وہیں اِس قدم سے علم کی حفاظت کا بھی مناسب بندوبست ہوتا رہے۔ اس کام کے لیے بھی کتاب لکھنے والے علماء کے اخراجات سے لے کر اس کتاب کو مختلف مراحل سے گزار کر فائنل پرنٹنگ تک پہنچانے کے لئے مختلف قسم کے اخراجات کامسئلہ آتا ہے ۔
    اس کے علاوہ دین کی دعوت و تبلیغ کے اور بھی کئی طریقے اور راستے ہو سکتے ہیں جن کے ذریعہ علماء عام عوام میں دینی بیداری کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں ،لیکن دعوت و تبلیغ کے جو بھی طریقے اور راستے ہوں وہ سب کے سب اخراجات سے پاک نہیں ہو سکتے ،کھلے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ دین کا کوئی بھی کام ہو بنا روپئے پیسوں کے خرچ کے ممکن نظر نہیں آتا ۔
    علماء کی اپنی علمی ذمہ داریوں کے بعد معاشرے اور سماج کے اہل ثروت و اہل خیر حضرات کا تعاون بہت معنیٰ رکھتا ہے ،اگر یہ کہا جائے تو بجا نہ ہوگا کہ اہل ثروت و اہل خیر حضرات اگراپنا ہاتھ دعوت و تبلیغ پر ہونے والے اخراجات سے کھینچ لیں تو اصلاح و تبلیغ کا یہ سلسلہ آہستہ آہستہ دم توڑ دے گا کیونکہ مساجد ، مدارس اورجامعات ودینی مراکز سے جڑے علماء و عام اسٹاف کے اخراجات کی بات ہو یا اجلاس و کانفرنس کے ساتھ کتابوں کی اشاعت و ترویج کے اخراجات کا مسئلہ ہوکہیں نہ کہیں جا کر بات اہلِ خیرحضرات کے تعاون اور امداد پر ٹک جاتی ہے۔
    اس لیے جہاں علماء اپنی علمی کاوش اور محنت کی وجہ سے اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں دعوت و تبلیغ کے کریڈٹ کا اول مستحق قرار دیا جائے تو وہیں معاشرے و سماج کے اہلِ خیر حضرات بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں دعوت وتبلیغ پر ہونے والے اخراجات کے بوجھ کو اٹھانے کے حساب سے گاڑی کا دوسرا پہیہ تصور کیا جائے ،اُن کی داد وتحسین کی جائے ،ان کے کار خیراور ایک ایک پیسے کے خرچ پر ان کی ہمت افزائی اور دل جوئی کی جائے کیونکہ مساجد ، مدارس، جامعات اوردینی مراکز کے ساتھ دعوت و تبلیغ کے ہر راستے میں ہونے والے خرچ پر اگر ایک سرسری نظرڈالا جائے تو یہی اہل خیر حضرات ہی صف اول میں کھڑے نظر آتے ہیں کہ انہی کی دریا دلی اور بھر پورتعاون کی وجہ سے یہ کشتی آگے بڑھ رہی ہے ۔
    دینی خدمات اور اس کی نشر واشاعت کے لیے مالدار طبقے کا تعاون یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ،حیات طیبہ پر اگر ایک سرسری نظر ڈالا جائے تو معلوم ہوگا کہ دورِ نبوی میں جب بھی دینی خدمات اور جنگی تیاری کے لیے مالی ضرورت درپیش ہوئی نبی کی ایک درخواست پر صحابہ نے اپنا قیمتی سرمایہ نبی ﷺکے دامن میں لا کرانڈیل دیا،صحابہ کے مالی تعاون کو لے کر نبی ﷺنے جہاں دینی اور جنگی ضروریات کو پورا کیا وہیں پر نبی ﷺنے ان صحابہ کا صرف شکریہ ہی ادا نہیں کیا بلکہ ان کی ہمت افزائی کی ، ان کے مالوں میں خیر و برکت کی دعا کی ، ان کے مالی امداد کو سراہا اور اتنا سراہا کہ ایک موقع پرحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار دینار کے تعاون کو دیکھ کر نبی نے یہاں تک کہہ دیا کہ’’مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ اليَوْمِ مَرَّتَيْنِ‘‘ ’’کہ آج کے بعد سے عثمان کو کوئی بھی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا، ایسا آپ نے دو بار فرمایا‘‘
    [سنن ترمذی:ح:۳۷۰۱،حسن]
    اپنے جائز مال کو اللہ کے راہ میں خرچ کرنے والوں کی قدر ہونا چاہیے،ان کی ہمت افزائی کے ساتھ ان کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے، کیونکہ مالدار تو دنیامیں بہت سے ہیں لیکن یہ چنندہ لوگ جو اپنے مال کو دین کی راہ میں لگاتے ہیں یہ کوئی معمولی اقدام نہیں ہے بلکہ ان کا یہ عمل قابل رشک ہے۔جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:’’ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ مَالًا، فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَائَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَار‘‘
    سالم رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’حسد (یعنی رشک) نہیں مگر فقط دو آدمیوں کے معاملے میں:پہلا وہ شخص جسے اللہ نے قرآن عطا فرمایا اور وہ دن رات اس کے ساتھ قائم رہے۔ دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال عطا فرمایا اور وہ دن رات (اللہ کی راہ میں)خرچ کرتا رہے‘‘۔
    [صحیح مسلم:۸۱۵]
    ہمارے وہ بھائی بہن جو اللہ کے راستے میں اپنے مالوں کورب کی رضاو خوشنودی کی خاطر بے دریغ خرچ کرتے ہیں، لوگوں کی اصلاح اور خیر و بھلائی کے خاطر بنا احسان جتلائے اور بنا تکلیف دیئے بے دریغ اپنے مال کو اللہ کے راستے میں لگاتے ہیںوہ بہت ہی قابل ِمبارک باد اور خوش نصیب ہیں ان کا یہ عمل قابل ستائش ہے،ایسے اہل خیر حضرات اپنے اس عمل کی بنا پر اللہ کے یہاں بہترین اجر کے مستحق ہیںجیسا کہ اللہ نے فرمایا :
    {اَلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَا أَنفَقُواْ مَنًّا وَلَا أَذًي لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ}
    ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کیے ہوئے کے پیچھے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘
    [البقرۃ:۲۶۲]
    خلاصہ یہ کہ علماء اپنی علمی صلاحیت کے بقدر معاشرے کے لوگوں کی اصلاح کریںاور اہل ثروت و اہل خیر حضرات دین کی خدمت کرنے والے لوگوں کے ساتھ دینی مراکز کا مالی طور سے خیال رکھیں اور ہم سب مل کر علماء کی خدمات کے ساتھ اہل خیر حضرات کا شکریہ اداکریں ۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings