-
Tags: فروری، دعا
ایک عظیم الشان اور جامع ترین مسنون دعا جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگو
در کریم سے بندے کو کیا نہیں ملتا
اللہ سے دعا مانگنا دنیا کے ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے،اللہ رب العالمین ہربندے کی دعا سنتا اور سمجھتا ہے خواہ وہ کسی بھی زبان میں دعا مانگے ۔ کیونکہ اللہ عز وجل نے دنیا کی جملہ زبانوں کو بھی اپنی نشانی قرار دیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
{وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ }
’’اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (بھی) ہے، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں‘‘
[سورۃ الروم:۲۲]
جو شخص بھی اخلاص وللہیت، رزق حلال کے اہتمام اور یقین کامل کے ساتھ اللہ سے جائز دعا مانگتا ہے رب العالمین اسے شرف قبولیت سے نوازدیتاہے ، اس لئے ہمیں کثرت سے اللہ رب العالمین سے اپنی چھوٹی بڑی ہر طرح کی ضرورتوں ،اعمال صالحہ کی قبولیت اور گناہوں کی مغفرت سے متعلق دعائیں مانگتے رہنا چاہیے ۔ ارشاد ربانی ہے :
{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۔إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ }
’’اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘
[سورہ غافر:۶۰]
بنیادی طور پر دعائوں کی دو قسمیں ہیں ۔(۱) مسنون دعائیں(جو دعائیں کتاب و سنت سے ثابت ہیں ) (۲) غیر مسنون دعائیں(جودعائیں کتاب و سنت سے ثابت نہ ہوں ) ۔
غیر مسنون دعائیں مانگنا بھی جائز ہے اگر ان میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو لیکن مسنون دعائیں غیر مسنون دعائوں کی بہ نسبت زیادہ جامع اور زیادہ بہتر ہوتی ہیں اور رسول اللہ ﷺ جامع دعائوں کو پسند فرماتے تھے ۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جامع دعائیں پسند فرماتے اور جو دعا جامع نہ ہوتی اسے چھوڑ دیتے۔
(سنن ابی دائود:۱۴۸۲، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے)
اس مضمون میں قرآن و سنت سے ثابت شدہ مسنون وجامع دعائوں میں سے ایک انتہائی مشہور وجامع ترین دعا کا ترجمہ اور اس کی مختصر شرح پیش خدمت ہے :
ارشاد ربانی ہے :
{وَمِنْهُمْ مَنْ يَّقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}
’’اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ سے دعا مانگتے ہوئے کہتے ہیں : اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے ‘‘
[سورۃ البقرۃ :۲۰۱]
رسول اللہ ﷺ کثرت سے مذکورہ دعا مانگا کرتے تھے ۔
عَنْ اَنَسٍ، قَالَ: ’’كَانَ اَكْثَرُ دُعَائِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :’’کہ نبی کریم ﷺ کی اکثر یہ دعا ہوا کرتی تھی :
’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
اے اللہ ہمارے پروردگار!ہمیں دنیا میں بھلائی ( حسنۃ) عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے‘‘
[صحیح البخاری:۶۳۸۹]
’’وَكَانَ اَنَسٌ إِذَا اَرَادَ اَنْ يَدْعُوَ بِدَعْوَةٍ دَعَا بِهَا، فَإِذَا اَرَادَ اَنْ يَدْعُوَ بِدُعَائٍ دَعَا بِهَا فِيهِ‘‘
’’اور انس رضی اللہ عنہ بھی جب دعا کرنا چاہتے تو یہی دعا کرتے اور جب دوسری کوئی دعا کرتے تو اس میں بھی یہ دعا ملا لیتے‘‘
[صحیح مسلم :۲۶۹۰]
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:’’ رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو بیماری سے چوزے کی طرح (یعنی بہت ضعیف اور ناتواں )ہو گیا تھا، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: تو کچھ دعا کیا کرتا تھا یا اللہ تعالیٰ سے کچھ سوال کیا کرتا تھا؟ وہ بولا: ہاں میں یہ کہا کرتا تھا: یا اللہ! جو کچھ تو مجھ کو آخرت میں عذاب دینے والا ہے وہ دنیا ہی میں دے دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ! تجھے اتنی طاقت کہاں ہے کہ اللہ کا عذاب اٹھا سکے،تو نے یہ کیوں نہیں کہا: ’اَللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ ’’یا اللہ! مجھ کو دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور مجھ کو جہنم کے عذاب سے بچا لے‘‘، پھر آپ ﷺ نے اس کے لیے اللہ عزوجل سے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اس کو شفایاب کردیا‘‘
[صحیح مسلم :۲۶۸۸]
دعا کے تینوں ٹکڑوں کی مختصر شرح:
ا۔ دعا کا پہلا ٹکڑا: ’’اَللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً‘۔اس کی تفسیر دوسری آیتوں میں عمومی طور پر اس طرح موجود ہے کہ جو شخص بھی اخلاص کے ساتھ ایمان لاکر نیک عمل کرے تو اللہ اسے آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی بھلائی عطا فرمائے گا۔
{ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰي وَهُوَ مُوْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
’’جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً (دنیامیں )نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے‘‘
[سورۃ النحل :۹۷]
{لِلَّذِينَ اَحْسَنُوا فِي هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ}
’’جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے اور یقینا آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے اور کیا ہی خوب پرہیز گاروں کا گھر ہے‘‘
[سورۃ النحل:۳۰]
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ ہ مذکورہ آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں : ’’وہی ما رزقہم من خیرہا وطاعتہ فیہا‘‘دنیاکی زندگی میں(حلال وکشادہ ) روزی اور اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کی توفیق ہے۔
[زاد المسیر :ج:۲، ص:۵۵۷]
سورہ نحل میں تو رب العالمین نے خصوصی طور پر ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمادیا ہے کہ ہم نے ابراہیم کو دنیا وآخرت دونوں جہاں کی بھلائیاں عطا فرمادیں۔ ارشاد ربانی ہے :
{وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ }
’’اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی عطا فرمادی اور بیشک وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں‘‘
[سورۃ النحل : ۱۲۲]
علامہ عبد الرحمن بن ناصر بن عبد اللہ السعدی رحمہ اللہ مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر کے تحت رقمطراز ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ابراہیم علیہ السلام کو دنیا کی بھلائی سے متعلق چار عظیم الشان نعمتیں عطا فرمائی تھیں :
’’رزقا واسعا، وزوجة حسناء ، وذرية صالحين، واخلاقا مرضية‘‘۔
۱۔ کشادہ روزی ۲۔ نیک و خوبصورت بیوی ۳۔ نیک اولاد ۴۔ عمدہ اخلاق ۔
[تفسیر سعدی عربی:سورۃ النحل : آیت:۱۲۲]
۱۔ کشادہ روزی : رہی ابراہیم علیہ السلام کی کشادہ روزی کا حال تو اس کا تذکرہ بھی قرآن مجید میں سورہ ذاریات آیت :۲۴ میں موجود ہے کہ جب فرشتے انسانی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے بھنا ہوا بچھڑا پیش کردیا جو ابراہیم علیہ السلام کی کشادہ روزی پر واضح دلیل ہے۔ جو خوشحال اور مالدار ہوگا وہی مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے فوری طور پر بھنا ہوا بچھڑا ذبح کرسکتا ہے۔
۲۔ نیک و خوبصورت بیوی: نیک بیوی کے طور پر سارہ و ہاجر علیہما السلام کی سیرت وپاکیزگی اور شوہر کی فرمانبرداری بالکل واضح ہے ۔
سارہ علیہاالسلام کی پاکیزگی اور تقویٰ کو سمجھنے کے لئے صحیح بخاری کا وہ مشہورواقعہ ہی کافی ہے کہ جب مصر کے ظالم بادشاہ نے ان کے ساتھ بد سلوکی کرنی چاہی وہ عذاب الٰہی کا شکار ہوگیا ۔جب مصر کے ظالم بادشاہ نے سارہ کے تقویٰ اور ان کی پاکیزگی سے متأثر ہوکر اپنی بیٹی یا لونڈی ہاجر کو سارہ کے حوالے کردیا اس وقت سارہ علیہا لاسلام لاولد تھیں اس وقت تک ابراہیم علیہ السلام لاودلد تھے اور اولاد کے خواہشمند تھے تو سارہ نے اپنے شوہر ابراہیم علیہ السلام کی خوشنودی کے لئے ہاجر کو ابراہیم علیہ السلام کے حوالے کردیا کہ ہوسکتا ہے کہ ہاجر سے براہیم علیہ السلام کو کوئی اولاد ہوجائے ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں :[صحیح البخاری:۳۳۵۸]
اور ہاجرعلیہا السلام بھی بلاشبہ اللہ کی صالحہ ومومنہ بندی اور اپنے شوہر ابراہیم علیہ السلام کی جان نثار و فرمانبردار بیوی تھیں ۔ اس کی دلیل بھی صحیح بخاری میں تفصیل سے موجود ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام انہیں اور ننھے و شیرخوار لخت جگر اسماعیل کو ہجرت مکہ کے موقع پر خانۂ کعبہ کے پاس چھوڑ کے جانے لگے اور واپس مڑ کرنہیں دیکھا تو مجبوراً ہاجر نے خود پوچھ لیا کہ ابراہیم!کیا یہ اللہ کا حکم ہے کہ تم مجھے اور شیرخوار بچے اسماعیل کو اس ویران وسنسان اور بے آب و گیاہ پہاڑوں کی وادی میں چھوڑ کر چلے جائو؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ہاں ، اللہ ہی کا حکم ہے کہ میں تمہیں اور شیر خوار لخت جگر اسماعیل کو یہیں چھوڑ کر چلا جائوں ۔ تو ہاجر نے فریا یا تھا کہ اے ابراہیم اگر تم مجھے اور ننھے اسماعیل کو پہاڑوں کی اس وادی میں چھوڑ کر جارہے ہو تو خوشی سے جائو اللہ ہمیں ہر گز ضائع نہیں فرمائے گا ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں:[صحیح بخاری :۳۳۶۵]
۳۔ نیک اولاد : ابراہیم علیہ السلام کو اللہ رب العالمین نے بڑھاپے میں نیک اولاد سے نوازا جن میں سے ایک کا نام اسماعیل ذبیح اللہ دوسرے کا نام اسحاق ہے ۔ اسماعیل ہاجرکے بطن سے پیداہوئے اور اسحاق سارہ کے بطن سے اور دونوں کو اللہ نے رسالت و نبوت کے منصب سے بھی سرفراز فرمایا۔
اسماعیل علیہ السلام سے متعلق اللہ رب العالمین نے فرمایا:
{وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَي رَبِّي سَيَهْدِينِ۔ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ۔ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَابُنَيَّ إِنِّي اَرَي فِي الْمَنَامِ اَنِّي اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَي قَالَ يَااَبَتِ افْعَلْ مَا تُوْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاء َ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِينَ فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ۔ وَنَادَيْنَاهُ اَنْ يَاإِبْرَاهِيمُ ۔قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ }
’’اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں۔ وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا ۔ اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی ۔پھر جب وہ(بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجالا ئیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا ۔تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!۔یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ‘‘
[سورۃ صافات:۹۹۔۱۰۵]
اسحاق علیہ السلام سے متعلق ارشاد ربانی ہے:
{إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُوْمِنِينَ۔ وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ۔وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَي إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ }
’’بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔ اور ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگااور ہم نے ابراہیم واسحاق (علیہ السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں اور ان دونوں اولاد میں بعضے تو نیک بخت ہیں اور بعض اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والے ہیں‘‘
[سورۃ صافات:۱۱۱۔۱۱۳]
نیک بیوی اور نیک اولادمانگنے کی خصوصی دعا:
{رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}
’’ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا‘‘
[سورۃ الفرقان:۷۴]
۴۔ عمدہ اخلاق: ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے حسن اخلاق جیسی عظیم نعمت سے بھی نوازا تھا ۔ اس کی وضاحت کے لئے صرف ایک مثال پیش خدمت ہے :
جب ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑ دیا تو ان کا باپ آزر سخت ناراض ہوگیا اور کہنے لگا: ابراہیم ایک مدت کے لئے میری نگاہوں سے اوجھل ہوجائو ورنہ میں تمہیں رجم کردوں گا اتنی بد خلقی اور سخت مزاجی کے جواب میں ابراہیم علیہ السلام نے جو محبت اور سلامتی کا جملہ اپنی زبان مبارک سے ادا فرمایا اسے رب العالمین نے قرآن مجید میں نقل فرمایا ہے۔ارشاد ربانی ہے :
{قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَاإِبْرَاهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا۔ قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا}
’’اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا۔ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:(سَلَامٌ عَلَيْكَ )اچھا تم پر سلام ہو، میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے‘‘
[سورۃ مریم:۴۶۔۴۷]
عمدہ اخلاق مانگنے کی خصوصی دعا :
’’اَللّٰهُمَّ اهْدِنِي لِاَحْسَنِ الْاَعْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِاَحْسَنِهَا إِلَّا اَنْتَ، وَقِنِي سَيِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَيِّئَ الْاَخْلَاقِ لَا يَقِي سَيِّئَهَا إِلَّا اَنْتَ‘‘
’’اے اللہ! مجھے حسن اعمال اور حسن اخلاق کی توفیق دے تیرے سوا کوئی اس کی توفیق نہیں دے سکتااور مجھے برے اعمال اور قبیح اخلاق سے بچا تیرے سوا کوئی ان برائیوں سے بچا نہیں سکتا‘‘
[سنن نسائی:۸۹۶]
۲۔ دعا کا دوسرا ٹکڑا۔ ’’وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً‘‘۔
(جنت اور اس کی بیش بہا نعمتیں اور اللہ کا دیدار )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھانہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے‘‘۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو:’’ فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين‘‘’’پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ جنتیوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں‘‘
[صحیح البخاری:۳۲۴۴]
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جب جنتی جنت میں جا چکیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ فرما ئے گا: تم اور کچھ زیادہ چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: کیا تو نے ہمارے منہ روشن نہ کئے؟ ہم کو جنت نہ دی جہنم سے نہ بچایا؟ (اب اور کیا چاہیے) پھر اللہ رب العزت پردہ اٹھالے گا۔ اس وقت جنتیوں کو کوئی چیز اپنے پروردگار کی طرف دیکھنے سے زیادہ بھلی معلوم نہ ہوگی‘‘ [صحیح مسلم:۱۸۱]
آخرت میں جنت اللہ کی سب سے بڑی نعمت اور جہنم اللہ کا سب سے بڑا عذاب ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’کہ جنت اور دوزخ نے بحث کی، دوزخ نے کہا :میں متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا: مجھے کیا ہوا کہ میرے اندر صرف کمزور اور کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس میں نہیں رکھ دے گا۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس بس! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پر چڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا‘‘[صحیح البخاری:۴۸۵۰]
اللہ سے جنت طلب کرنے اور جہنم سے نجات حاصل کرنے کی خصوصی دعا۔
’’اَللّٰهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ الْجَنَّةَ ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ عَمَلٍ ، وَاَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ عَمَلٍ‘‘
’’ اے اللہ! میں تجھ سے جنت کا طالب ہوں اور اس قول و عمل کا بھی جو جنت سے قریب کر دے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم سے اور اس قول و عمل سے جو جہنم سے قریب کر دے‘‘
[سنن ابن ماجہ:۳۸۴۶، مسند احمد: ۱۴۸۳، قال الالبانی صحیح،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۱۵۴۲]
۳۔دعا کا تیسرا ٹکڑا۔ ’’وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
جہنم کا ایک ہولناک منظر۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تمہاری (دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلے میں (اپنی گرمی اور ہلاکت خیزی میں) سترواں حصہ ہے۔ کسی نے پوچھایا رسول اللہ! (کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔ آپﷺ نے فرمایا دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ انہتر گنا بڑھ کر ہے‘‘
[صحیح البخاری:۳۲۶۵]
حضرت عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جہنمی اتنا روئیں گے (اور اتنا آنسو بہائیں گے کہ) اگر ان میں کشتی چلائی جائے تو وہ بھی چل پڑے گی، وہ پانی کے آنسوؤں کی جگہ خون کے آنسو روئیں گے‘‘
[سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۱۶۷۹،حسن]
جہنم سے نجات ، یہ خود بہت بڑی کامیابی ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:
{ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ}
’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہوگیااور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے‘‘
[سورۃ آل عمران:۱۸۵]
حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے تو اسے اس حال میں موت آنی چاہیے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اورجو لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرے جیسا اپنے لئے پسند کرتا ہو‘‘
[مسند احمد:۶۸۰۷،قال الالبانی صحیح ،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۲۴۱]
عذاب جہنم سے نجات حاصل کرنے کی خصوصی دعا :
{رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا}
’’ اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے۔ بے شک اس کا عذاب ہمیشہ چمٹ جانے والا ہے‘‘
[سورۃ الفرقان :۶۵]
آخر میں دعاگوہوں کہ رب العالمین ہم سب کو دونوںجہاں کی کامیابی عطا فرمائے ۔ آمین
٭٭٭
٭