Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حد یث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما (پندرہویں قسط )

    متن پرتیسرا اعتراض:متن کے مفہوم پر اعتراض
    (الف) غیر مدخولہ پر محمول کرنا
    بعض لوگوں نے صحیح مسلم کی اس حدیث کے بارے میں بغیر کسی صحیح دلیل کے یہ کہا ہے کہ یہ غیر مدخولہ کے لیے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسحاق بن راہویہ اور زکریا الساجی شافعی وغیرہ کی طرف یہ بات منسوب کیا ہے۔
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۳۶۳، وانظر:السنن الکبریٰ للبیہقی، ط الہند:۷؍۳۳۸]
    عرض ہے کہ:
    اولًا :
    قرآن یا حدیث میں کوئی بھی بات اگر عام یا مطلق وارد ہو تو اپنی طرف سے اس کی تخصیص یا تقیید نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ اس کے لیے بھی قرآن یا حدیث ہی کی دلیل درکار ہوگی اور صحیح مسلم کی اس حدیث کو غیر مدخولہ کے ساتھ خاص یا مقید کرنے کے لئے قرآن یا حدیث سے کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے ۔
    ثانیاً :
    صحیح مسلم کی حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ عہد فاروقی میں لوگوں نے کثرت سے تین طلاق دینا شروع کردیا تھا چنانچہ:
    امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱) نے کہا:
    وحدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، عن أيوب السختياني، عن إبراهيم بن ميسرة، عن طاوس، أن أبا الصهباء ، قال لابن عباس:’’هات من هناتك، ألم يكن الطلاق الثلاث علٰي عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وأبي بكر واحدة؟ فقال: قد كان ذلك، فلما كان فى عهد عمر تتايع الناس فى الطلاق، فأجازه عليهم ‘‘
    امام طاؤس کہتے ہیں کہ ابوالصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:’’آپ اپنی احادیث میں سے یہ حدیث سناکر بتائیے کہ کیا عہد رسالت اور عہد صدیقی میں تین طلاق ایک نہیں مانی جاتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:معاملہ ایسے ہی تھا لیکن جب عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو لوگوں نے کثرت سے طلاق دینی شروع کردی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے ان پر نافذ کردیا‘‘
    [صحیح مسلم :۳؍۱۰۹۹،رقم :۱۴۷۲]
    اس حدیث سے معلوم ہواکہ عہد فاروقی میں لوگوں نے کثرت سے تین طلاق دینی شروع کردی تھی ، اس لیے عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تین طلاق کو تین ہی مان کر ان پرنافذ کردیا۔
    اب ذرا غور کیجئے کہ اگر یہ معاملہ صرف غیرمدخولہ کا ہوتا تو کیا طلاق کے واقعات کثرت سے پیش آتے؟
    ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کی بات عموما ًتبھی آتی ہے جب ان میں جھگڑا یا اختلاف ہوتا ہے ، اور یہ تبھی ممکن ہے جب عورت مدخولہ ہو یعنی وہ شوہر کے پاس آخر اس سے مل چکی ہو اور دونوں ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔پھر ایک ساتھ رہنے کے سبب جھگڑے اور اختلاف رونما ہوتے ہیں اور بات طلاق تک پہنچتی ہے۔
    اور صرف ایک طلاق دینے کے بجائے ایک ساتھ کئی طلاق دینے کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ شوہر غصہ میں طلاق دیتا جیساکہ بعض روایت میں ایسی صراحت بھی ملتی ہے، چنانچہ:
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵) نے کہا:
    نا دعلج، نا الحسن بن سفيان، نا حبان ،نا ابن المبارك، أنا سيف ،عن مجاهد ،قال:’’جاء رجل من قريش إلى ابن عباس، فقال:يا ابن عباس إني طلقت امرأتي ثلاثا وأنا غضبان ،فقال:إن ابن عباس لا يستطيع أن يحل لك ما حرم عليك عصيت ربك وحرمت عليك امرأتك ، إنك لم تتق اللّٰه فيجعل لك مخرجا، ثم قرأ (إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن) طاهرا من غير جماع ‘‘
    مجاہد کہتے ہیں :’’کہ قریش کا ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: اے ابن عباس ! میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی اور میں غصہ میں تھا ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:ابن عباس کے پاس اس بات کی طاقت نہیں ہے کہ جو چیز تم پر حرام ہوگئی اسے حلال بنادیں ، تم نے اپنے رب کی نافرمانی اورتمہاری بیوی تم پر حرام ہوچکی ہے ، تم نے اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کیا کہ اللہ تمہارے لئے کوئی راہ نکالتا، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی (جب تم اپنی بیویوں کو طلاق تو ان کی عدت میں طلاق دو) یعنی ان کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے‘‘
    [سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط: ۵؍۲۵،وإسنادہ صحیح]
    ملاحظہ کریں اس روایت میں سائل نے بیک وقت تین طلاق دینے کی وجہ اپنے غصہ کو بتایا ۔پتہ چلا غصہ میں ہی شوہر ایک ساتھ تین طلاق دیتا ہے ۔
    بلکہ کبھی کبھی غصہ شدید ہوتا ہے تو شوہر تین پر بھی بس نہیں کرتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر سو ، ہزار حتیٰ کہ ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے ڈالتا ہے ، چنانچہ:
    امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵) نے کہا:
    حدثنا محمد بن فضيل، عن عاصم، عن ابن سيرين، عن علقمة، عن عبد اللّٰه قال:أتاه رجل فقال:’’إنه كان بيني وبين امرأتي كلام، فطلقتها عدد النجوم، قال:تكلمت بالطلاق؟ قال:نعم، قال:قال عبد اللّٰه: قد بين اللّٰه الطلاق، فمن أخذ به فقد بين له، ومن لبس علٰي نفسه جعلنا به لبسه، واللّٰه لا تلبسوا علٰي أنفسكم ونتحمله عنكم، هو كما تقولون، هو كما تقولون ‘‘
    علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ ایک شخص ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا:’’میرے اور میری بیوی کے بیچ جھگڑا ہوگیا تو میں نے اسے ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے دی ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:تم نے طلاق کا لفظ استعمال کیا ؟ اس نے کہا :ہاں ! تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ نے طلاق کا طریقہ بتادیا ہے تو جو اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق طلاق دے گا اس کا مسئلہ واضح ہے ، اور جو الٹ پھیر کرے گا تو ہم اس کے الٹ پھیر کواسی پرڈال دیں گے ، اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ تم خود الٹ پھیر کرو اور پھر تمہاری جگہ ہم اس کا بوجھ اٹھائیں ،جی ہاں جیسا تم کہتے ہو ویسا ہی تمہار معاملہ ہوگا‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۱۰؍۱۰۸، وإسنادہ صحیح ]
    یہاں دیکھئے میاں بیوی کے بیچ جھگڑے کاذکر ہے اور اس کا انجام بھی سامنے ہے کہ شوہر ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے ڈالی ۔
    ایسا اس وجہ سے ہوا کیونکہ اس شوہر کی بیوی مدخولہ تھی ، بلکہ اس کے بچوں کی ماں بھی تھی ، جیساکہ اسی روایت کے ایک طریق میں شوہر کے یہ الفاظ بھی ہیں:
    ’’إن لي منها ولدا، وإن ناسا يريدون أن يفرقوا بيني وبين أهلي‘‘
    ’’اس بیوی سے میرے بچے بھی ہیں اور کچھ لوگ میرے اور میری اہلیہ کے بیچ علیحدگی کا فتویٰ دے رہے ہیں‘‘
    [المعجم الکبیر للطبرانی:۹؍۳۲۷،وإسنادہ صحیح]
    ان روایات سے بھی یہ بات واضح ہوگئی کہ اکثر شوہر حضرات انہیں بیویوں کو طلاق دیتے ہیں جو مدخولہ ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ رہ رہی ہوتی ہیں ۔اس کے برعکس اگر عورت غیر مدخولہ ہو یعنی شوہر سے ابھی ملی ہی نہیں ہو بلکہ اپنے گھر پر ہو تو ان دونوں کے بیچ جھگڑے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا اس لئے ایسے میاں بیوی کے مابین ملاپ اور دخول سے پہلے طلاق کی نوبت شاذ ونادر ہی آسکتی ہے ، مثلاً یہ کہ ملاپ سے پہلے اس کی بیوی کے کسی عیب پر شوہر کو آگاہ کردیا جائے یا اس طرح کی کوئی اور بات ہو ، تبھی شوہر ملاپ سے پہلے غیرمدخولہ بیوی کو طلاق دے گا۔
    نیز غیرمدخولہ بیوی کوطلاق دے گا بھی تو سنجیدگی کے ساتھ صرف ایک ہی طلاق دے گا ، اور بہت کم ہی ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک ساتھ تین طلاق دے ، کیونکہ ایک ساتھ تین طلاق یا اس سے بھی زائد طلاق آدمی تبھی دیتا ہے جب لڑائی جھگڑے کے سبب غصہ میں ہوتا ہے ، اور غیرمدخولہ بیوی چونکہ اس کے ساتھ نہیں ہوتی ہے اس لئے اسے ایک سے زائد طلاق دینے پر ابھارنے کے لیے اس کے پاس غصہ کی کیفیت نہیں ہوتی ہے۔ہاں ایسے شوہر کو بھی اچانک اپنی غیرمدخولہ بیوی سے متعلق سخت ناگوار خبر ملے تو اس پر وہ بھی غصہ ہوکر تین طلاق سے دے سکتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم ہی ہوسکتے ۔
    عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ تو جانے دیں وہ تو خیر القرون کازمانہ تھا ، آج کے زمانے میں دیکھ لیجئے کہ باوجود یکہ لوگ بہت بگڑ چکے ہیں، حتیٰ کہ بہت سے لوگ نماز وروزہ تک کے بھی پابند نہیں ہیں ، ایسے زمانے اور ایسے ماحول میں بھی غیرمدخولہ بیوی کو طلاق دینے کا واقعہ لاکھوں میں ایک ملتا ہے۔
    پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عہد فاروقی جیسے خیر القرون کا معاشرہ آج کے معاشرہ سے بھی زیادہ بگڑا ہوا ہو اوراس میں غیرمدخولہ بیویوں کو بھی کثرت سے طلاق دی جاتی ہو۔
    معاذ اللہ ! ایسا کسی بھی صورت میں نہیں ہوسکتا ، صحابہ و تابعین سے محبت کرنے والا کبھی بھی ایسی بے بنیاد باتوں پر یقین نہیں کرسکتا۔
     تنبیہ بلیغ:(علی مرزا کا رد)
    انجینئر علی مرزا نے ایک من گھڑت کہانی یہ بیان کی ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میںفتوحات ہورہی تھیں اورشام اور مصر سے بڑی خوبصورت خوبصورت لونڈیاں آتی تھیں ، تو لوگ اس وقت کسی عورت سے نکاح کیے ہوتے تھے لیکن رخصتی نہیں ہوئی ہوتی تھی ، پھر کوئی نئی عورت یعنی لونڈی پسند آئی تو اس سے شادی کرلیا اور پرانی بیوی کو فارغ کردیا، کیونکہ نئی والی بیوی بولتی تھی کہ پرانی بیوی کو فارغ کرو۔ پھر بعد میں جب نئی والی کے ساتھ نباہ نہیں ہوتا تھا ۔کیونکہ نئی والی کی زبان الگ تھی تو عربی عجمی کے ساتھ کیسے گزارا کرتا؟ تو بعد میں یہ کہنے لگتا کہ نہیں میں نے تو ایک طلاق دی تھی، تو اس طرح ان لوگوں نے مذاق شروع کردیا ۔تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ایسی کی تیسی تم طلاق تین کی نیت سے دیتے ہو اور کہتے ہو کہ ایک ہی طلاق دی تھی ، اب اگر کسی نے تین طلاق دی تو میں تین ہی شمار کروں گا۔دیکھئے:
    ( اس کی ویڈیو، مسئلہ نمبر ۱۵تین طلاق ، حلالہ اور حرامہ)
    اولاً:
    انجینئر علی مراز کی بیان کردہ یہ کہانی محض گپ اور من گھڑت ہے، کسی صحیح سند تو درکنار کسی ضعیف سند سے بھی ایسی کوئی بات مروی نہیں ہے ۔
    ثانیاً:
    لونڈیوں سے شادی کرنے کے لیے کئی شرائط ہیں جن میں بنیادی شرط آزاد بیوی کا خرچ اٹھانے کی طاقت نہ ہونا اور بدکاری میں پڑجانے کا خوف ہونا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَنْ تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ}
    ’’اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی پوری وسعت وطاقت نہ ہو تو وہ مسلمان لونڈیوں سے جن کے تم مالک ہو (اپنا نکاح کر لے) اللہ تمہارے اعمال کو بخوبی جاننے والا ہے، تم سب آپس میں ایک ہی تو ہو، اس لیے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو، اور قاعدہ کے مطابق ان کے مہر ان کو دو، وہ پاک دامن ہوں نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں، نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں، پس جب یہ لونڈیاں نکاح میں آجائیں پھر اگر وہ بے حیائی کا کام کریں تو انہیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے۔ کنیزوں سے نکاح کا یہ حکم تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں گناہ اور تکلیف کا اندیشہ ہو اور تمہارا ضبط کرنا بہت بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والااور بڑی رحمت والا ہے‘‘
    [۴؍النساء:۲۵]
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ لونڈیوں سے شادی کرنے کے لیے کئی شرطیں ہیں جن میں بنیادی طور پر یہ دوشرطیں ہیں:
    1 آدمی کے پاس آزاد بیوی کا خرچ اٹھانے کی طاقت نہ ہو۔
    2 آدمی کو بیوی کے بغیر رہنے میں گناہ وبدکاری کا خوف ہو۔
    اب ذرا غور کیجئے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں کیا اتنی غربت آگئی تھی کہ مسلمانوں کی اکثریت کے پاس آزاد عورت سے شادی کی طاقت نہ تھی ، اور وہ لونڈی سے شادی پرمجبور تھے ؟ ذرا یہ روایات ملاحظہ کریں:
    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی۲۵۶)نے کہا:
    حدثنا سعيد بن يحيي، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن شقيق، عن أبي مسعود الأنصاري رضي اللّٰه عنه، قال:’’كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذا أمرنا بالصدقة، انطلق أحدنا إلى السوق، فيُحامل، فيصيب المد وإن لبعضهم اليوم لمائة ألف‘‘
    ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں :’’کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد (کھجور ) حاصل کرتے۔ (جسے صدقہ کر دیتے) لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم ) موجود ہیں‘‘
    [صحیح البخاری :۲؍ ۱۰۹، رقم ۱۴۱۶]
    امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۰) نے کہا:
    أخبرنا أحمد بن عبد اللّٰه بن يونس قال:أخبرنا عبد اللّٰه بن المبارك، عن يونس، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب:’’أن عمر بن الخطاب فرض لأهل بدر من المهاجرين من قريش والعرب والموالي خمسة آلاف خمسة آلاف، وللأنصار ومواليهم أربعة آلاف أربعة آلاف‘‘
    سعیدابن المسیب فرماتے ہیں :’’کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے قریش عرب، اہل بدر اوران کے موالی کے لیے پانچ پانچ ہزار (درہم) وظیفہ مقررکیا اور انصاراوران کے موالی کے لیے چارچار ہزار (درہم) وظیفہ مقررکیا ‘‘
    [الطبقات الکبریٰ ط دار صادر:۳؍۳۰۴،و إسنادہ صحیح ولہ طرق أخری]
    ان روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عہد فاروقی میں غربت کا یہ حال نہیں ہوسکتا کہ قوم کی اکثریت آزاد عورت کے بجائے لونڈی سے شادی کرنے پر مجبور ہو ۔
    مزید برآں یہ بھی دیکھئے کہ انجینئر علی مراز کے بقول لونڈیوں سے شادی کرنے والوں کی پہلے سے آزاد عورت کے ساتھ شادی ہوچکی ہوتی تھی صرف رخصتی باقی تھی ، اب ذرا غو کریں کہ جس کی آزاد عورت سے شادی ہوچکی ہے بھلا اس کے لیے یہ جائز کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ لونڈی سے شادی کرے یہ تو قرآن کے صریح خلاف ہے ، اگر اس دور کے لوگ واقعی ایسا ہی کرتے تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ تین طلاق کا قانون نہیں بناتے بلکہ ان کو لونڈیوں سے شادی کرنے سے ہی روک دیتے ، کیونکہ یہ تو ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بھی بڑاجرم تھا ۔
    ثالثاً:
    علی مرزا کے بقول لوگ پہلی غیر مدخولہ بیوی کو اس لئے طلاق دیتے تھے کیونکہ جب یہ لونڈی سے شادی کرتے تو وہ مطالبہ کرتی کہ اپنی پرانی بیوی کو فارغ کرو۔
    ملاحظہ کریں یہ کتنی بے تکی بات ہے کہ اللہ نے تو آزاد بیوی کے ہوتے ہوئے لونڈی سے شادی کرنا حرام قراردیا ہے ، اور علی مرزا لونڈی کے لیے آزاد بیوی کو فارغ کرنے کی بات کررہا ہے ۔سبحان اللہ!
    رابعاً:
    ایک مصری ادیب محمد حسین ہیکل نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر کتاب لکھی ہے اس میں اس نے بغیر کسی حوالے کے محض اپنا اندازہ اورگمان ظاہر کیا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ لونڈیوں سے شادی کے لیے اپنی بیوی کو تین طلاق دینے لگ گیے تھے ۔اس مصری ادیب نے بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ لوگ غیر مدخولہ عورت کو طلاق دے کر لونڈی سے شادی کرتے تھے ، بلکہ اس نے عام بیویوں کو طلاق دینے کی بات کہی ہے ۔نیز اس نے بعد میں اپنی یہ بات بدل بھی دی ہے اور یہ کہا ہے کہ اس کے بجائے دوسرے اسباب بھی ہوسکتے ہیں ۔
    بہر حال یہ کہانی خودساختہ اور گھڑنت ہے ،صحیح تو درکنار کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔
    جاری………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings