-
حجاج بن یوسف ثقفی کے بارے میں ہمارا موقف حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ آج کل کچھ لوگ سفاک ،ظالم، فاسق وفاجر اور گستاخِ صحابہ حجاج بن یوسف ثقفی کی تعریفیں اور خوبیاں بیان کرتے نظر آ رہے ہیں، جس کی خباثت، ظلم وعدوان اور اللہ کے حدود کی پامالی ضرب المثل ہے جو بالتواتر اور بالاجماع ثابت ہے۔
لہٰذا ہر وہ تحقیق مردود، باطل اور ساقط الاعتبار ہے جو حجاج کو اچھا ثابت کرے اور اس کو مظلوم اور ناحق بدنام باور کرائے، بعید نہیں کہ مستقبل میں کوئی محقق اٹھے اور نیا شگوفہ چھوڑتے ہوئے عبد اللہ بن سبا، مسیلمہ کذاب، مختار ثقفی، عمرو بن عبید، واصل بن عطا، نظام معتزلی، چنگیز خان، ہلاکوخان اور ہٹلر وغیرہ میں سے کسی کو ہیرو بنا کر پیش کرے، اس کا دفاع کرے، اسے مظلوم ومفتریٰ علیہ ثابت کرے اور اس کی خوبیاں بیان کرے!!!
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’يأتي على الناس زمان يصلون فيه على الحجاج بن يوسف الثقفي‘‘
’’ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ حجاج بن یوسف ثقفی کے لیے رحمت کی دعا کریں گے‘‘
[أخرجہ عباس الدوری فی تاریخ ابن معین: ۳؍ ۵۰۶ ومن طریقہ أبو بکر الخلال فی السنۃ :۳ ؍۵۲۵ وإسنادہ صحیح]
اس کا دو مفہوم ہے:
اول: بعد کے زمانوں میں حجاج سے بھی زیادہ سخت گیر اور ظالم وجابر حکمران آئیں گے جن کی نسبت حجاج کو اچھا سمجھا جائے گا اور اس کے لیے رحمت کی دعا کی جائے گی۔
دوم: لوگ دینی غیرت سے اس قدر عاری ہو جائیں گے کہ وہ حجاج کے لیے عذر تلاش کریں گے اور اسے اچھا سمجھیں گے جس طرح گمراہی کے اماموں کے ساتھ لوگوں کا معاملہ ہے۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے حجاج کو مخاطَب کر کے کہا:
’’أمَا إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابًا وَمُبِيرًا، فَأَمَّا الْكَذَّابُ فَرَأَيْنَاهُ، وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ، قَالَ: فَقَامَ عَنْهَا وَلَمْ يُرَاجِعْهَا‘‘
’’ سنو!رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا تھا کہ بنو ثقیف میں ایک بہت بڑا کذاب اور ایک بہت بڑا سفاک ہوگا، کذاب (مختار ثقفی) کو تو ہم نے دیکھ لیا اور رہا سفاک تو میں نہیں سمجھتی کہ وہ تیرے علاوہ کوئی اور ہوگا، تو وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور انہیں کوئی جواب نہ دے سکا‘‘
[رواہ مسلم: ۲۵۴۵]
امام نووی اور شیخ احمد الشمنی کہتے ہیں: ’’علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ کذاب سے مراد مختار ثقفی اور سفاک سے مراد حجاج ہے۔[شرح النووی علیٰ صحیح مسلم: ۱۶؍ ۱۰۰، حاشیۃ الشفا بتعریف حقوق المصطفی :۱؍ ۳۴۰]
صحیح سند کے ساتھ مسند احمد (۲۶۹۷۴) کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:
’’يخرجُ من ثقيفٍ كذَّابانِ الأخرُ منهما أشرُّ من الأولِ وهو مُبيرٌ‘‘
’’ثقیف میں دو بڑے کذاب پیدا ہوں گے جن میں سے دوسرا پہلے سے زیادہ بدترین ہوگا اور وہ سفاک ہوگا‘‘
حجاج کے چند معروف جرائم:
(۱) حجاج بلا وجہ اور معمولی غلطیوں کی وجہ سے خون بہانے میں ضرب المثل ہے جس کے لیے ثبوت اور دلیل کا مطالبہ سورج اور چاند کے اثبات کے لیے دلیل کے مطالبے کے مترادف ہے۔
ہشام بن حسان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’أحصوا ما قتل الحجاج صبرا، فبلغ مائة ألف وعشرين ألف قتيل‘‘
’’حجاج نے بلا کسی جرم کے جن لوگوں کو قتل کیا تھا انہیں شمار کیا گیا تو ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار پہنچی‘‘
[جامع الترمذی: ۲۲۲۰، وسندہ صحیح]
(۲) حجاج نے یقینی طور پر جلیل القدر صحابی عبد اللہ بن الزبیر کو قتل کروایا تھا، سر تن سے جدا کرنے کے بعد جسد خاکی کو سولی پر لٹکایا، ان کی لاش کی بے حرمتی کی اور انتہائی ناروا سلوک کیا تھا۔
[صحیح مسلم :۶۴۹۶، العقد الفرید :۵؍۱۶۴، سیر أعلام النبلاء: ۳؍ ۳۶۳۔۳۸۰، البدایۃ والنہایۃ :۱۲؍ ۱۷۷۔۱۸۶]
(۳) صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حجاج بن یوسف نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے ساتھ انتہائی بدترین برتاؤ کیا تھا، ابو نوفل بیان کرتے ہیں:’’کہ جب حجاج کو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما کی لاش کے پاس کھڑے ہونے کی خبر پہنچی تو اس نے کارندے بھیجے، ان (کے جسد خاکی) کو کھجور کے تنے سے اتارا گیا اور جاہلی دور کے یہود کی قبروں میں پھینک دیا گیا، پھر اس نے (ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی والدہ) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس کارندہ بھیجا، انہوں نے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیا، اس نے دوبارہ قاصد بھیجا کہ یا تو تم میرے پاس آؤ گی یا پھر میں تمہارے پاس ان لوگوں کو بھیجوں گا جو تمہیں تمہارے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے آئیں گے، حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پھر انکار کردیا اور فرمایا: میں ہرگز تیرے پاس نہ آؤں گی یہاں تک کہ تو میرے پاس ایسے شخص کو بھیجے جو مجھے میرے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے جائے، کہا: تو حجاج کہنے لگا: میرے جوتے لاؤ، اس نے جوتے پہنے اور اکڑتا ہوا تیزی سے چل پڑا، یہاں تک کہ ان کے ہاں پہنچا اور کہا: تم نے مجھے دیکھا کہ میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا؟انہوں نے جواب دیا: میں نے تمہیں دیکھا ہے کہ تم نے اس پر اس کی دنیا تباہ کردی جبکہ اس نے تمہاری آخرت برباد کردی، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تو اسے دو پیٹیوں والی کا بیٹا(ابن ذات النطاقین) کہتا ہے، ہاں، اللہ کی قسم! میں دو پیٹیوں والی ہوں، ایک پیٹی کے ساتھ میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کھانا سواری کے جانور پر باندھتی تھی اور دوسری پیٹی وہ ہے جس سے کوئی عورت مستغنیٰ نہیں ہوسکتی‘‘
[صحیح مسلم :۶۴۹۶]
اس میں تین باتیں بڑی اہم ہیں:
پہلی بات: حجاج نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی بیوی، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن، ہجرت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی مددگار صحابیہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’یا تو تم میرے پاس آؤ گی یا پھر میں تمہارے پاس ان لوگوں کو بھیجوں گا جو تمہیں تمہارے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے آئیں گے‘‘۔
دوسری بات: حجاج نے حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما کو’’اللہ کا دشمن‘‘کہا، جن کی صحابیت، تقویٰ وطہارت، عبادت اور تلاوت قرآن معروف ومسلّم ہے۔
تیسری بات: حجاج حضرت عبد اللہ بن الزبیر کو’’ابن ذات النطاقین‘‘ کا طعنہ دیا کرتا تھا، اب اس سے بڑی کمینگی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک شخص صحابیٔ رسول کو ان کی ماں کا طعنہ دے اور وہ بھی اس چیز کی وجہ سے جو باعث شرف وفخر ہے۔
واضح رہے کہ عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے مروان یا ولید کے خلاف خروج نہیں کیا تھا بلکہ حجاج اس کے ساتھیوں اور ان کے آقاؤں نے عبد اللہ بن الزبیر کے خلاف خروج وبغاوت کیا تھا، جیسا کہ امام نووی فرماتے ہیں:
ومذهب أهل الحق أن ابن الزُّبَيْرِ كانَ مَظْلُومًا وأنَّ الحَجّاجَ ورُفْقَتَهُ كانُوا خَوارِجَ عَلَيْهِ‘‘
کیونکہ ربیع الآخر ۶۴ ہجری میں جب معاویہ بن یزید بن معاویہ کی وفات ہوئی اور انہوں نے کسی کو جانشین مقرر نہیں کیا، تو ان کی وفات کے بعد تقریباً دو ماہ کچھ دنوں تک کسی کے ہاتھ پر بیعت نہ ہو سکی اور لوگ بغیر خلیفہ کے رہے، یہاں تک کہ اسی سال اکیسویں رجب کو مکہ میں لوگوں نے عبد اللہ بن الزبیر کے ہاتھوں بیعت کر لی، اور عراق، حجاز، یمن، خراسان اور مشرقی علاقوں کے لوگ بھی انہی کے تابع ہو گئے، اس کے بعد مصر اور شام کے لوگوں نے مروان بن الحکم کے ہاتھوں پربیعت کی اور عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا، اس کے باوجود حضرت عبد اللہ بن الزبیر آٹھ سال تک حج کی امامت کا فریضہ انجام دیتے رہے، یہی اہلِ حق اہلِ سنت کا موقف ہے۔
[ المفہم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم للقرطبی: ۳ ؍۳۵۶، شرح النووی علیٰ صحیح مسلم: ۱۶؍ ۱۰۰، البحر المحیط الثجاج للأثیوبی :۴۰؍ ۱۸۰ ۔۱۹۶]
(۴) حجاج نے جلیل القدر صحابی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کی تھی، وہ برسر منبر کہتا تھا: ’’جہاں تک ہو سکے اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ،اس میں کوئی استثنا ء نہیں، اور امیر المومنین عبدالملک (بن مروان) کی بات سنو اور اطاعت کرو، اس میں کوئی استثنا نہیں، اللہ کی قسم! اگر میں لوگوں کو حکم دوں کہ مسجد کے فلاں دروازے سے باہر جاؤ اور وہ کسی دوسرے دروازے سے باہر نکل جائیں تو میرے لیے ان کے خون اور مال حلال ہوں گے، اللہ کی قسم! اگر میں مضر کے بدلے قبیلۂ ربیعہ کی گرفت کروں تو یہ میرے لیے اللہ کی طرف سے حلال ہے، کون ہے جو مجھے ہذیل کے غلام (عبد اللہ بن مسعود) کی طرف سے معذور سمجھے، اس کا خیال ہے کہ اس کی قرأت اللہ کی طرف سے ہے، اللہ کی قسم! یہ (اس کی قرأت) تو بدویوں کے رجز ( چھوٹے چھوٹے شعروں ) کی مانند ہے، اللہ نے اسے اپنے نبی ﷺ پر نازل نہیں کیا ہے‘‘۔
[رواہ أبو داؤد: ۴۶۴۳، وصححہ الألبانی، ووردت آثارٌ بنفس المعنی فی سنن أبی داؤد :۴۶۴۴ ، ۴۶۴۵]
اس میں تین باتیں ہیں:
اول: حجاج کا بلا وجہ قتل وخوں ریزی میں اسراف کا ثبوت کہ وہ کہتا ہے کہ اگر کوئی مسجد سے اس کے بتائے ہوئے دروازے کے علاوہ کسی دوسرے دروازے سے نکل جائے تو اس کا خون حلال ہے۔
امام ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں: حجاج عثمانی اموی تھا، وہ ان کی طرف حد درجہ جھکاؤ رکھتا تھا اور سمجھتا تھا کہ ان (امویوں) کی مخالفت کفر ہے اور اس بنیاد پر خون حلال سمجھتا تھا اور اس سلسلے میں وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا‘‘۔
[البدایۃ والنہایۃ :۹؍ ۱۳۱]
حجاج بنو امیہ کے تعلق سے کس قدر مبالغہ آرائی کرتا تھا ،اندازہ کریں کہ منبر پر کھڑے ہو کر کہتا ہے:’’ہم میں سے کسی کا قاصد جو اس کے کسی کام میں مشغول ہو، وہ اس کے لیے زیادہ محترم ہوتا ہے یا اس کا وہ نائب جو اس کے اہل میں ٹھہرا ہوا ہو؟‘‘ (سنن أبی داؤد ۴۶۴۲، ڈاکٹر عبد الرحمن فریوائی حفظہ اللہ نے’’مجلس علمی دار الدعوہ دہلی‘‘ کی طباعت میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے، اس کی سند میں ایک راوی’’ربیع بن خالد الضبی‘‘ ہیں جو اس قول کو حجاج سے روایت کرتے ہیں، حافظ ابن حجر نے’’ تقریب التہذیب‘‘ میں انہیں ثقہ کہا ہے ان کے علاوہ کسی اور نے اس راوی کی توثیق نہیں کی ہے، اس لیے شیخ البانی، شعیب ارنؤوط اور حافظ زبیر علی زئی رحمہم اللہ نے اسے مجہول قرار دیتے ہوئے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے)
علامہ ابو الحسن محمد عبد الہادی سندھی لکھتے ہیں:’’گویا اس نے -معاذ اللہ- مروانیین کو انبیاء سے افضل قرار دینا چاہا ہے، کیونکہ وہ اللہ کے خلفاء ہیں، اگر اس نے یہ مراد لیا ہے تب تو وہ کافر ہو گیا ہے، وہ کس قدر حق سے دور اور گمراہ ہے-ہم اللہ سے عفو و عافیت کے طلبگار ہیں- ورنہ (اس کے علاوہ) تو اس کی بات کا کوئی معنیٰ سمجھ میں نہیں آتا ہے‘‘۔
[فتح الودود فی شرح سنن أبی داؤد للسندی: ۴؍ ۴۴۳]
شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کلام سے ظالم حجاج کا مقصد عبد الملک بن مروان وغیرہ امراء بنو امیہ کو انبیاء علیہم السلام سے افضل قرار دینا ہے، کیونکہ انبیاء صرف اللہ تعالیٰ کے قاصد اور ان کے احکامات کو پہنچانے والے تھے، جبکہ عبد الملک وغیرہ امراء بنو امیہ اللہ تعالیٰ کے خلفاء تھے، اور خلفاء (نائبین) کا درجہ پیغامبروں سے بالاتر ہوتا ہے، اگر یہ اس کی مراد ہے جیسا کہ ظاہری طور پر پتا چلتا ہے اور اس کا یہ مراد لینا کوئی بعید بات نہیں ہے، جیسا کہ اس کے احوال کی تفصیلات سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں تو یہ بڑا بدترین مغالطہ ہے جو بلاشبہ اسے کافر قرار دیتا ہے‘‘
[عون المعبود ۲:۱؍ ۲۵۷]
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں :[البدایۃ والنہایۃ :۹؍ ۱۳۱]
دوم: حجاج کسی کو سزا دینے کے لیے وجہ اور سبب کا محتاج نہیں تھا بلکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق نمرود وفرعون کی طرح جسے چاہتا سزا دیتا اور جسے چاہتا چھوڑ دیتا تھا، چنانچہ وہ کہتا ہے:’’اگر میں مضر کے بدلے قبیلہ ربیعہ کی گرفت کروں تو یہ میرے لیے اللہ کی طرف سے حلال ہے‘‘۔
سوم: حجاج خطبوں میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کو ’’ہذیل کے غلام‘‘کا طعنہ دیتا تھا اور انہیں برا بھلا کہتا تھااور کہتا کہ یہ سب کرنے پر لوگ مجھے معذور سمجھے اور کوئی مجھے ملامت نہ کرے، وجہ صرف یہ تھی کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ قرآن کی اپنی الگ قرأت کے قائل تھے جو ان کے بقول انہوں نے اللہ کے رسول ﷺسے سیکھی تھی۔
امام ابن کثیررحمہ اللہ اس پر تعلیق لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:’’یہ حجاج- اللہ اسے ذلیل ورسوا کرے- کی ڈھٹائی، بدکلامی اور حرام خون میں پیش پیش رہنے کی دلیل ہے‘‘۔
[البدایۃ والنہایۃ: ۹؍ ۱۲۸]
امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ اللہ حجاج کو غارت کرے، وہ اللہ کے تعلق سے کس قدر دلیر تھا، اس نے مرد حق عبد اللہ بن مسعود کے بارے یہ بات کیسے کہہ دی‘‘!!
(تاریخ الإسلام ۶؍ ۳۲۰)
اسی طرح حجاج نے صحابیٔ رسول سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی شان میں بھی گستاخی کی تھی، چنانچہ اس نے دیہات میں رہنے کی وجہ سے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے کہا تھا:’’اے ابن اکوع!کیا تم مرتد ہو گئے ہو اور دیہات میں رہنے لگے ہو‘‘؟حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’یہ حجاج کی بد خلقی تھی کہ اس نے حقیقتِ حال سے آگاہی کے بغیر اس جلیل القدر صحابی سے اس طرح کے بدترین اسلوب میں بات کی، کہا جاتا ہے کہ اس نے انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا سو اس نے وہ بہانا بیان کر دیا جس کے ذریعے وہ انہیں قتل کا مستحق ٹھہرا سکے‘‘
[صحیح البخاری :۷۰۸۷، صحیح مسلم :۱۸۶۲، فتح الباری: ۱۳؍ ۴۱]
(۵) حجاج نماز کی ادائیگی میں کوتاہی برتتا تھا اور اسے وقت نکل جانے کے بعد ادا کرتا تھا، اسی طرح لوگوں سے ناحق زکوٰۃ وصول کرتا تھا، تابعی محمد بن عمرو بن الحسن بن علی بیان کرتے ہیں:’’حجاج نمازوں میں تاخیر کر دیتا تھا تو ہم نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا …‘‘[صحیح مسلم :۶۴۶] ابو عوانہ نے مستخرج کے اندر اضافہ کیا ہے:’’وَكَانَ يُؤَخِّرُ الصَّلَاة عَنْ وَقْت الصَّلَاة‘‘’’کہ حجاج نماز کو اس کے (شرعاً مقررہ) وقت سے تاخیر کرے کے پڑھتا تھا‘‘
[مستخرج أبی عوانۃ ط الجامعۃ الإسلامیۃ :۳؍۳۳۵، سنن الدارمی :۱۲۲۲]
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عدی بن ارطاۃ کو خط لکھا:
’’بلغني أنك تستن بسنن الحجاج ، فلا تستن بسننه ، فإنه كان يصلي الصلاة لغير وقتها،ويأخذ الزكاة بغير حقها، وكان لما سوي ذلك أضيع‘‘
’’مجھے خبر ملی ہے کہ تم حجاج کی راہ پر گامزن ہو، سنو تم اس کے راستوں پر ہر گز نہ چلنا، وہ بے وقت نماز پڑھتا تھا اور ناحق زکوٰۃ وصول کرتا تھا اور اس کے علاوہ امور میں تو اور بھی گیا گزرا تھا‘‘
[تاریخ دمشق: ۱۲؍ ۱۸۷، سیرۃ عمر بن عبد العزیز لابن الجوزی :ص:۸۸، البدایۃ والنہایۃ ط الفکر :۹؍۱۳۶]
(۶) حجاج نے سعید بن جبیر جیسے جلیل القدر تابعی اور عالم دین کو قتل کیا تھا، حرم مکی کا محاصرہ کیا تھا اور اہل مکہ کا کھانا پانی تک بند کر دیا تھا، یہاں تک کہ مکہ پر باہر سے منجنیقوں کے ذریعے حملہ کیا جس کی وجہ سے کئی پتھر خانۂ کعبہ کو لگے اور اس کے کچھ حصے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔
[تاریخ دمشق لابن عساکر: ۲۸؍۲۳۴، البدایۃ والنہایۃ ط الفکر :۸؍ ۳۲۹، تاریخ الإسلام للذہبی :۲؍ ۷۵۹]
(۷) حجاج کس قدر خبیث اور بدبخت تھا اس کا اندازہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے اس قول سے لگائیے ،فرماتے ہیں:
’’اگر قومیں خباثت میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی پر اتر آئیں اور ہر قوم اپنا اپنا خبیث انسان لے آئے اور ہم حجاج کو لے آئیں تو ہم ان سب سے بازی لے جائیں گے، وہ نہ تو دین کے حق میں اچھا تھا اور نہ ہی دنیا کے لئے‘‘
[المجالسۃ وجوہر العلم للدینوری:۵؍ ۲۵، حلیۃ الأولیاء: ۵؍ ۳۲۵، تاریخ دمشق: ۱۲؍ ۱۸۵، سیرۃ عمر بن عبد العزیز لابن الجوزی :ص:۱۱۲]
یہی وجہ ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ نے اسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے مسلط کردہ عذاب قرار دیا تھا، فرماتے ہیں:
’’حجاج اللہ کا عذاب ہے لہٰذا تم اللہ کے عذاب کو اپنے ہاتھوں سے دور کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ تم عاجزی اور گریہ وزاری کو اپنے اوپر لازم کر لو، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُون}
’’اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تاہم یہ لوگ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی عاجزی اختیار کی‘‘
[المؤمنون:۷۶][الطبقات الکبریٰ لابن سعد :۷؍ ۱۶۴، منہاج السنۃ النبویۃ: ۴؍ ۵۲۹]
(۸) حجاج کے کرتوتوں کو دیکھتے ہوئے ائمۂ سلف کی ایک جماعت نے اسے کافر قرار دیا ہے، شیخ الحدیث عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وكفره جماعة، منهم سعيد بن جبير والنخعي ومجاهد والشعبي وعاصم بن أبي النجود وغيرهم‘‘
’’اور ایک جماعت نے اسے کافر قرار دیا ہے، جن میں سعید بن جبیر، نخعی، مجاہد، شعبی اور عاصم بن ابی النجود وغیرہم ہیں‘‘
[مرعاۃ المفاتیح :۹؍ ۱۷۴]
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أشْهَدُ أنَّهُ مُؤْمِنٌ بِالطّاغُوتِ كافِرٌ بِاللّٰهِ، يَعْنِي الحَجّاجَ‘‘
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ طاغوت پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ کا منکر ہے یعنی حجاج‘‘
[الإیمان لابن أبی شیبۃ وصححہ الألبانی فی تحقیقہ، شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ للالکائی: ۱۸۲۳، تاریخ دمشق: ۱۲؍ ۱۸۷]
امام نخعی جب بھی حجاج کا تذکرہ کرتے تو فرماتے:’’ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو‘‘
[الإیمان لابن أبی شیبۃ: ۹۶، وصححہ الألبانی فی تحقیقہ لہ]
مزید فرماتے ہیں:’’کفی بمن یشکُ فی أمرِ الحجاج لحاہُ اللّٰہ‘‘’’ جو حجاج کے معاملے میں شک کرتا ہے اس (کی تباہی) کے لیے یہی کافی ہے، اس(حجاج) پر اللہ کی لعنت ہو‘‘
[الإیمان لابن أبی شیبۃ: ۹۸، وسندہ صحیح]
امام طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عَجبًا لإخواننا مِنْ أَهْلِ العِرَاقِ، يُسَمُّوْنَ الحَجَّاجَ مُؤْمِنا‘‘
’’ہمارے عراقی بھائیوں کا معاملہ بھی بڑا نرالہ ہے کہ وہ حجاج کو مومن سمجھتے ہیں‘‘
[الإیمان لابن أبی شیبۃ: ۹۵، وصححہ الألبانی فی تحقیقہ لہ، والسنۃ لعبد اللہ بن أحمد :۶۷۱، والسنۃ للخلال: ۱۱۶۵، ۱۵۳۱]
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قيل لسعيد بن جبير: خرجت على الحجاج؟ ’’إني واللّٰه ما خرجت عليه حتي كفر‘‘
سعید بن جبیر سے کہا گیا کہ آپ نے حجاج کے خلاف بغاوت کی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:’’اللہ کی قسم جب تک وہ کافر نہیں ہو گیا تب تک میں نے اس کے خلاف بغاوت نہیں کی‘
[تاریخ دمشق: ۱۲؍ ۱۸۳، التمہید لابن عبد البر: ۱۲؍ ۲۶۲، بغیۃ الطلب فی تاریخ حلب :۵؍۲۰۴۹، البدایۃ والنہایۃ ط الفکر :۹؍۱۳۶]
نوٹ: سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے اس قول سے ان تحریکیوں اور خارجیوں کا استدلال باطل ہو جاتا ہے جو سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے خروج کرنے سے ظالم حکمران کے خلاف خروج کے جواز پر استدلال کرتے ہیں، کیونکہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے اس وقت خروج کیا تھا جب انہیں لگا کہ حجاج کافر ہو چکا ہے اور یہی اہل السنہ کا منہج ہے کہ جب تک حکمراںکافر نہ ہو جائے اس کے خلاف بغاوت حرام ہے۔
امام اعمش کہتے ہیں:’’ کہ لوگوں کا حجاج کے بارے میں اختلاف ہو گیا تو انہوں نے آپس میں کہا کہ تم کس سے سوال کرنا پسند کرو گے؟ تو ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: مجاہد سے، چنانچہ وہ ان کے پاس آئے اور ان سے سوال کیا تو امام مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا:’’تَسْألُونِي عَنِ الشَّيْخِ الكافِر‘‘’’ تم لوگ مجھ سے کافر بوڑھے کے بارے میں سوال کر رہے ہو‘‘!
[حدیث أبی الفضل الزہری: ۲۷۴، تاریخ دمشق لابن عساکر :۱۲؍۱۸۷، البدایۃ والنہایۃ ط الفکر ۹؍۱۳۶]
اسی طرح کی باتیں قاسم بن مخیمرہ اور عاصم بن ابی النجود وغیرہما سے بھی منقول ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: [تاریخ دمشق: ۱۲؍ ۱۸۵۔۱۸۸، حلیۃ الأولیاء :۶؍ ۸۱]
ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری خطرناک باتیں ہیں جو حجاج کی ضلالت وگمراہی اور فسق و فجور پر دلالت کرتی ہیں جن کی تفصیلات [وفیات الأعیان: ۲؍ ۲۹۔۴۶، تاریخ دمشق: ۱۲؍ ۱۱۲۔۲۰۲، تاریخ الإسلام:۵؍۳۱۰۔۳۱۶، ۶؍ ۳۱۴۔۳۲۷، البدایۃ والنہایۃ: ۹؍ ۱۱۶۔۱۳۹] میں دیکھی جا سکتی ہے۔
انہی اسباب کی بنا پر علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے حجاج کے لیے بددعائیں کی ہے اور اس کے حق میں ’’قبحہ اللہ، أخزاہ اللہ، أقصاہ اللہ، أبعدہ اللہ، لحاہ اللہ‘‘ جیسے جملے استعمال کئے ہیں، جن میں ابن عبد ربہ، خطابی، ابن عبد البر، عجلی، قرطبی، ابن عساکر، سمین الحلبی، سبط ابن الجوزی، ذہبی، ابن کثیر، ابن عبد الہادی، ابن الملقن، مرتضیٰ زبیدی، محمد رشید رضا اور محمد مختار شنقیطی وغیرہم رحمہم اللہ ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’وہ ناصبی تھا، آل مروان بنو امیہ کی طرف داری میں حضرت علی اور ان کے ساتھیوں سے بغض رکھتا تھا، وہ بڑا جابر اور شرکس تھا، معمولی شبہ کی بنیاد پر خون بہانے کے لئے تیار رہتا تھا، اس سے ایسے بدترین اور قبیح الفاظ منقول ہیں جو ظاہری طور پر کفریہ ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، چنانچہ اگر اس نے ان چیزوں سے توبہ کر لی ہے اور پورے طور پر رجوع کر لیا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ اس کے سر باقی ہیں، لیکن اندیشہ ہے کہ وہ چیزیں کسی حد تک بڑھا چڑھا کر نقل کی گئی ہیں کیونکہ کئی وجوہات کی بنا پر شیعہ اس سے شدید بغض رکھتے تھے‘‘۔[البدایۃ والنہایۃ ط الفکر: ۹؍۱۳۲۔۱۳۳]
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وہ بڑا ظالم وجابر، ناصبی، خبیث اور انتہائی سفاک تھا۔پس ہم اسے برا بھلا کہیں گے اور نہ ہی اس سے محبت کریں گے، بلکہ اللہ کے واسطے ہم اس سے بغض رکھیں گے، یقینا یہی ایمان کا سب سے مضبوط درجہ ہے، اس کے کچھ حسنات ہیں جو اس کی گناہوں کے سمندر میں پوشیدہ ہیں اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے‘‘۔[سیر أعلام النبلاء ط الحدیث :۵؍۱۹۹]
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حجاج انتہائی بڑا مجرم، ظالم وجابر، فاسق وفاجر، سفاک وبے رحم، اللہ کے حدود کو پامال کرنے والا اور صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والا انسان تھا، اس نے چند اچھے کام بھی کیے تھے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:’’إنَّ اللّٰهَ لَيُؤَيِّدُ هذا الدِّينَ بالرَّجُلِ الفاجِرِ‘‘[صحیح البخاری :۶۶۰۶، صحیح مسلم :۱۱۱]کہ اللہ تعالیٰ فاجر وگنہگار شخص کے ذریعے بھی اس دین کی مدد لیتا ہے، لیکن اس کے ان عظیم وکثیر اور سنگین ترین گناہوں کے بیچ ان چند نیکیوں کا ذکر آٹے میں نمک کے برابر ہے، لہٰذا ہمیں ہر گز اس سے محبت یا ہمدردی نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی اس کی خوبیاں بیان کرنی چاہیے، بلکہ اس سے نفرت کرنی چاہیے اور اس کے تعلق سے دل میں بغض رکھنا چاہیے، اسی طرح تعیین کے ساتھ اس پر لعن طعن کرنے یا اس کی تکفیر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا حق ہے، بلکہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے۔
[مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ :۲۷؍۴۷۵]
البتہ مجھے ان اہل حدیثوں پر شدید افسوس اور تعجب ہوتا ہے جو ایک دو صحابی پر اعتراض کرنے کی وجہ سے مودودی، سید قطب اور ان جیسے لوگوں پر تو خوب تنقید کرتے ہیں لیکن اپنی تحقیق اور صلاحیت منوانے کے چکر میں اتنے سارے صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والے شخص جسے رسول اللہ نے کذاب اور سفاک کہا ہو اور علماء کی ایک جماعت نے جس کی تکفیر کی ہو، اس کی تعریفیں کرتے ہیں اور اس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں!