Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حد یث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما (سترہویں قسط )

     دوسری علت:ثقات کی مخالفت:
    ابوالنعمان عارم کے علاوہ اس حدیث کو حمادبن زید ہی کے طرق سے پانچ ثقہ رواۃ نے نقل کیا ہے ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی متن میں غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ۔
    یہ چار رواۃ درج ذیل ہیں:
    سلیمان بن حرب عن حماد بن زید (صحیح مسلم ۳؍۱۰۹۹،رقم(۱۴۷۲)
    عفان بن مسلم عن حماد بن زید (مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الحوت:۴؍۶۹،وإسنادہ صحیح)
    یحییٰ بن آدم عن حماد بن زید (المسند المستخرج علی صحیح مسلم۴؍۱۵۳،وإسنادہ صحیح)
    خالد بن خداش عن حماد بن زید (المعجم الکبیر للطبرانی۱۱؍۴۰وإسنادہ صحیح)
    محمد بن أبی نعیم عن حماد بن زید (سنن الدارقطنی۸۰؍۵وإسنادہ حسن)
    نوٹ: دارقطنی کی سند میں محمد بن ابی نعیم صدوق ہیں ان کی توثیق پر تفصیل گزرچکی ہے۔
    اس کے علاوہ ابوالنعمان عارم نے سند کے دیگر طبقات کے رواۃ کی بھی مخالفت کی ہے مثلاً:
    اسی طریق میں ایوب سے اوپر موجود إبراہیم بن میسرۃ سے ابن جریج نے بھی یہی روایت نقل کی ہے انہوں نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔ [مستخرج أبی عوانۃ:۳؍۱۵۳،وإسنادہ صحیح وصرح ابن جریج بالسماع]
    اسی طرح إبراہیم بن میسرۃ سے اوپر موجود امام طاؤس سے یہی روایت درج ذیل رواۃ نے نقل کی ہے:
    ابن طاؤس عن طاؤس (صحیح مسلم :۳؍۱۰۹۹،رقم(۱۴۷۲)
    عمرو بن دینار عن طاؤس (مصنف عبد الرزاق:۶؍۳۹۲وإسنادہ صحیح)
    نوٹ: مصنف عبدالرزاق کی سند میں عمربن حوشب ہے یہ ثقہ ہے ، اس کی توثیق پر بحث گزرچکی ہے۔
    ان دونوں رواۃ نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔
    اسی طرح طاؤس سے اوپر موجود صحابی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی روایت ابن أبی ملیکہ نے نقل کی ہے۔[سنن الدارقطنی :۵؍۱۰۴، المستدرک :۲؍۱۹۶،وقال:ہذا حدیث صحیح الإسناد]
    ابن أبی ملیکہ نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ،ان کی روایت کی سند پر بھی تفصیل گزرچکی ہے۔
    ملاحظہ فرمائیں کہ ابوالنعمان عارم نے صرف یہ کہ حمادبن زید کے دیگر شاگردوں کی مخالفت کی ہے بلکہ سند کے دیگر طبقات کے رواۃ کی بھی مخالفت کی ہے ، اسی علت کی بنا پرامام ابن القیم رحمہ اللہ نے اس روایت کو معلول قرار دیتے ہوئے کہا:
    ’’كذا فى هذه الرواية قبل أن يدخل بها وبها أخذ إسحق بن راهويه وخلق من السلف جعلوا الثلاث واحدة فى غير المدخول بها وسائر الروايات الصحيحة ليس فيها قبل الدخول ولهذا لم يذكر مسلم منها شيئا ‘‘
    ’’سنن ابی داؤدوالی روایت میں ایسے ہی غیرمدخولہ کا ذکر ہے اور یہی موقف اسحاق بن راھویہ اور سلف کی ایک جماعت نے اپنایا ہے کہ غیرمدخولہ کو دی گئی تین طلاق ایک شمار ہوگی، اور اس سلسلے کی دیگرجتنی بھی صحیح روایت ہیں ان میں سے کسی میں بھی غیرمدخولہ کی صراحت نہیں ہے ، اسی لئے امام مسلم رحمہ اللہ نے اس سلسلے کی جوروایات پیش کی ہیں ان میں ایسا کوئی لفظ ذکر نہیں کیا ہے‘‘
    [إغاثۃ اللہفان:۱؍۲۸۵]
    امام ابن القیم رحمہ اللہ کی اس عبارت سے یہ بھی پتہ چلا کہ انہوں نے دوسرے مقام پر اس روایت کی سند کو جو صحیح کہا تو وہاں اس شذوذ پران کا دھیان نہیں رہا ورنہ وہاں بھی اس روایت کی تضعیف ہی کرتے جیسے یہاں کیا ہے۔
     تیسری علت: ایوب کے مجہول اساتذہ:
    اس سند میں ایوب نے جن سے روایت کیا ہے ان میں سے کسی کا نام ذکر نہیں ہے بلکہ غیر واحد کہہ کر سب کو مبہم کردیا گیا ہے۔لہٰذا ان نامعلوم ومجہول لوگوں کے سبب بھی یہ روایت ضعیف ہے۔
    قاضی عیاض بن موسیٰ أبو الفضل (المتوفی ۵۴۴) فرماتے ہیں:
    ’’أما قول الراوي: حدثني غير واحد، أو حدثني الثقة، أو حدثني بعض أصحابنا، فهذا لا يدخل فى باب المقطوع ولا المرسل ولا المعضل عند أهل الصناعة، وإنما يدخل فى باب المجهول ‘‘
    ’’اہل فن کے نزدیک اگر راوی یہ کہے کہ : مجھ سے کئی ایک نے بیان کیا ہے ، یا مجھ سے ثقہ نے بیان کیا ہے ، یا مجھ سے میرے بعض ثقہ اساتذہ نے بیان کیا ہے ، تو ایسی حدیث مقطوع ، مرسل ، یا معضل وغیرہ میں شمار نہ ہوگی بلکہ مجہول سے روایت شمار ہوگی‘‘
    [إکمال المعلم بفوائد مسلم :۵؍۲۲۲]
    امام نووی رحمہ اللہ (المتوفی۶۷۶) نے بھی قاضی عیاض کا یہ قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
    ’’قال القاضي إذا قال الراوي حدثني غير واحد أو حدثني الثقة أو حدثني بعض أصحابنا ليس هو من المقطوع ولا من المرسل ولا من المعضل عند أهل هذا الفن بل هو من باب الرواية عن المجهول‘‘
    ’’قاضی عیاض فرماتے ہیں اہل فن کے نزدیک اگر راوی یہ کہے کہ:مجھ سے کئی ایک نے بیان کیا ہے ، یا مجھ سے ثقہ نے بیان کیا ہے ، یا مجھ سے میرے بعض ثقہ اساتذہ نے بیان کیا ہے ، تو ایسی حدیث مقطوع ، مرسل ، یا معضل وغیرہ میں شمار نہ ہوگی بلکہ مجہول سے روایت شمار ہوگی‘‘
    [شرح النووی علیٰ مسلم: ۱۰؍۲۱۹]
    دراصل جب کوئی راوی سند میں مبہم واسطہ ذکر کرے اور نام ظاہر نہ کرے تو بعض اہل علم ایسی سند کو منقطع اور مرسل وغیرہ بھی کہتے ہیں، تو قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ چونکہ راوی نے سند میں واسطہ بالکل ساقط نہیں کیا بلکہ مبہم ہی سہی مگر ذکر کیا اس لئے ایسی سند کو منقطع وغیرہ تو نہیں کہیں گے البتہ واسطہ میں نام ذکر نہیں ہے اس لئے اسے مجہول سے روایت کرنا کہیں گے ۔
    امام نووی رحمہ اللہ (المتوفی۶۷۶) رحمہ اللہ قاضی عیاض کی بات کی تائید کرتے ہوئے اورایسی روایت کا حکم واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’وهذا الذى قاله القاضي هو الصواب لكن كيف كان فلا يحتج بهذا المتن من هذه الرواية لو لم يثبت من طريق آخر‘‘
    ’’قاضی عیاض نے جو یہ بات کہی ہے وہی درست ہے (یعنی ایسی روایت کو منقطع وغیرہ نہیں بلکہ مجہول سے روایت کہیں گے) تاہم اسے کوئی بھی نام دیں بہر صورت ایسی سند سے آنے والی حدیث سے حجت نہیں لی جائے گی جب تک کہ وہ دوسرے طریق سے ثابت نہ ہوجائے‘‘
    [شرح النووی علٰی مسلم: ۱۰؍۲۱۹]
    معلوم ہوا کہ کوئی راوی غیر واحد کہہ کر اپنے کئی اساتذہ کے واسطے روایت بیان کرے تو اس کے اساتذہ کے مجہول ہونے کے سبب اس کی روایت مردود ہوگی ۔سنن ابی داؤدکی اس روایت کا بھی یہی حال ہے ، اسی لئے امام نووی رحمہ اللہ (المتوفی۶۷۶)نے ابوداؤد کی اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا:
    ’’وأما هذه الرواية التى لأبي داؤد فضعيفة رواها أيوب السختياني عن قوم مجهولين عن طاؤس عن ابن عباس فلا يحتج بها ‘‘
    ’’یہ روایت جسے ابوداؤدنے روایت کیا ہے ضعیف ہے ، کیونکہ ایوب السختیانی نے مجہول لوگوں کے واسطے سے طاؤس عن ابن عباس سے روایت کیا ہے لہٰذا اس سے دلیل نہیں لی جاسکتی ‘‘
    [شرح النووی علٰی مسلم: ۱۰؍۷۲]
    اسی طرح حافظ عبد العظیم المنذری (المتوفی ۶۵۶) نے بھی اس روایت کو اسی سبب ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا:
    ’’الرواة عن طاؤس مجاهيل ‘‘
    ’’طاؤس سے روایت کرنے والے رواۃ مجہول ہیں‘‘
    [مختصر سنن أبی داؤد للمنذری ت حلاق:۲؍۵۲]
     ’’غیر واحد‘‘ سے روایت میں محدثین کا منہج:
    بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب کوئی راوی یا محدث کسی حدیث کواپنے کئی اساتذہ سے سنا ہوتا ہے جس میں سب یا اکثر ثقہ ہوتے ہیں تو وہ بوقت روایت اپنے اساتذہ کانام نہیں لیتا بلکہ غیر واحد کہہ کر بیان کرتا ہے ، لہٰذا ایسی روایت صحیح مانی جائے گی۔
    عرض ہے کہ :
    ٭ اولاً:
    اوپر وضاحت کی جاچکی ہے کہ اگر کوئی محدث یا راوی اپنے اساتذہ کا نام لئے بغیر حدیث بیان کرتا ہے تو اہل فن کے نزدیک اس کے اساتذہ کو مجہول مانا جاتا ہے اور اس کی روایت صحیح تسلیم نہیں کی جاتی ، جیساکہ قاضی عیاض اور امام نووی کا حوالہ گزرا بلکہ قاضی عیاض نے اسی قول میں یہ بھی صراحت کردی ہے کہ اگر راوی اپنے استاذ کو ثقہ بتائے لیکن نام نہ بتائے تو بھی اس کے استاذ کومجہول ہی مانا جائے گا۔
    قاضی عیاض نے ایسا اس وجہ سے کہا کیوںکہ وہ راوی گرچہ اس کے شاگرد کی نظرمیں ثقہ ہو لیکن دوسروں کی نظرمیں ضعیف بھی ہوسکتا ہے اس لئے اس کا نام ظاہر کرنا ضروری ہے۔
    ٭ ثانیاً:
    کسی روایت میں متعدد اساتذہ ہونے پر محدثین کا عمومی طرزعمل یہی ہوتا ہے کہ وہ سب کا نام ذکرکرتے ہیں ، یا کم ازکم ان میں سے کسی ایک کا نام ذکر کرتے ہیں ، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک کا بھی نام ذکر نہیں کیا تو ان کی حدیث ضعیف شمار ہوگی ، بطور مثال چند اسانید ملاحظہ ہوں جن میں رواۃ نے غیر واحد سے نقل کیا ہے مگر ان میں سے کم از کم ایک کا نام لیا ہے:
    حدثنا على بن مسلم، حدثنا هشيم، أخبرنا غير واحد منهم:مغيرة، وفلان ورجل ثالث أيضا، عن الشعبي…
    [صحیح البخاری :رقم:۶۴۷۳]
    حدثنا محمد بن المثني، وابن بشار، قال:حدثنا ابن أبي عدي، عن سعيد، عن قتادة، قال:حدثني غير واحد لقي ذاك الوفد، وذكر أبا نضرة…
    [صحیح مسلم :رقم:۱۸]
    حدثنا أبو بكر محمد بن زنجويه البغدادي، وغير واحد قالوا:حدثنا الحسين بن محمد قال…
    [سنن الترمذی ت شاکر :رقم:۴]
    نیز دیکھئے : [سنن ترمذی حدیث نمبر:۶۶،۲۶۸،۳۰۵،۴۳۰،۵۲۴]
    ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا مخصوص طرزعمل:
    بعض لوگ علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے علامہ معلمی کی کتاب ’’التنکیل‘‘ کے حاشیہ میں یہ وضاحت کی ہے کہ ابراہیم جب بغیر واسطہ ذکر کئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کریں تو ان کی روایت صحیح ہوگی ، کیونکہ ابراہیم کے اساتذہ جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں سب کے سب ثقہ ہیں ، لہٰذا یہاں بھی اگر ایوب نے غیر واحد کے واسطے سے طاؤس سے روایت کیا ہے تو ان کی روایت بھی صحیح ہونی چاہئے۔ کیونکہ ایوب کے اساتذہ جو طاؤس سے روایت کرتے ہیں سب کے سب ثقہ ہیں۔
    عرض ہے کہ:
    ٭ اولاً:
    ماقبل میں قاضی عیاض اور امام نووی رحمہ اللہ کے اقوال کی روشنی میں واضح کیا جاچکاہے کہ اہل فن کے یہاں ایسے مجہول واسطوں والی حدیث ضعیف ہی ہوتی ہے لہٰذا اس کے برخلاف عصر حاضر کے علماء کا موقف غیر مقبول ہے۔واضح رہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا یہ موقف بھی صرف ایک خاص طریق سے متعلق ہے وضاحت آگے آرہی ہے ۔
    ٭ ثانیاً:
    علامہ معلمی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ابراہیم کی بلاواسطہ روایت پرکئی اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ بھی کیا تھا کہ ممکن ہے ابراہیم کے واسطے والے راوی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہ سنا ہو۔
    علامہ معلمی رحمہ اللہ نے ایسا اس وجہ سے کہا کیونکہ انہوں نے اس سلسلے میں ابراہیم نخعی کا قول تہذیب سے نقل کیا تھا جس میں ابراہیم کا قول ان الفاظ میں تھا:
    ’’وإذا قلت قال عبد اللّٰه فهو عن غيرواحد عن عبد اللّٰه ‘‘۔
    اگر میں کہوں کہ:’’عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے کہا تو یہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے کئی رواۃ کے واسطے سے ہے ‘‘
    [تہذیب التہذیب لابن حجر، ط الہند:۱؍۱۷۸]
    اس قول پر علامہ معلمی رحمہ اللہ نے کہا:
    ’’لا يدفع الانقطاع لاحتمال أن يسمع إبراهيم عن غير واحد ممن لم يلق عبد اللّٰه‘‘
    ’’اس سے انقطاع دور نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بھی احتمال ہے کہ ابراہیم نے ان غیر واحد سے روایت کیا ہو جن کی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی نہ ہو ‘‘
    [التنکیل بما فی تأنیب الکوثری من الأباطیل:۲؍۸۹۸]
    تہذیب والے قول پر علامہ معلمی رحمہ اللہ کا یہ اعتراض بالکل درست ہے کیونکہ اس میں ابراہیم نے یہ صراحت نہیں کی ہے کہ ان کے واسطے والے غیر واحد کون ہوں گے ؟ کیا یہ ابن مسعود رضی للہ عنہ کے شاگر دہی ہوں گے ؟ یا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ایسے لوگ ہوں گے جن کی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی نہ ہو۔
    تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابراہیم کا قول تہذیب کے بجائے طبقات ابن سعد سے نقل کیا جس میں ابراہم کے یہ الفاظ  تھے :
    إذا قلت: ’’قال عبد اللّٰه فقد سمعته من غير واحد من أصحابه ‘‘
    ابراہیم کہتے ہیں :’’کہ جب میں کہوں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا تو اس بات کو میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کئی شاگردوں سے سنا ہوتا ہے ‘ ‘
    [الطبقات الکبریٰ ط دار صادر:۶؍۲۷۲،وإسنادہ صحیح]
    ابراہیم کے اس قول کو پیش کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے واضح کیا کہ اس میں ابراہیم نے یہ بھی صراحت کردی ہے کہ جب میں بلا واسطہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کروں تو یہ روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کئی شاگردوں سے میں نے سنی ہوتی ہے۔
    ظاہر ہے کہ اس میں اس احتمال کی گنجائش نہیں ہے جسے علامہ معلمی رحمہ اللہ نے پیش کیا تھا اسی لئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس دوسرے حوالے کو پیش کرکے ان پر رد کیا اور علامہ معلمی کو معذور بھی جانا کیونکہ انہوں نے تہذیب والے الفاظ کی بناپر اعتراض کیا تھا جس میں واقعی اس اعتراض کی گنجائش تھی ، چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
    ’’وإذا تأمل الباحث فى قول إبراهيم من غير واحد من من أصحابه يتبين له ضعف بعض الإحتمالات التى أوردها المصنف على ثبوت رواية إبراهيم إذا قال:قال ابن مسعود، فأن قوله:من أصحابه يبطل قول المصنف أن يسمع إبراهيم من غير واحد ممن لم يلق عبد اللّٰه ، كما هو ظاهر۔ وعذره فى ذلك، أنه نقل قول إبراهيم هذا من التهذيب ، ولم يقع فيه قوله:من أصحابه الذى هو نص فى الاتصال ‘‘
    ’’جب ایک محقق ابراہیم کے قول’’ من غیر واحد من أصحابہ‘‘ (ابن مسعود کے کئی شاگردوں سے) پر غور کرے گا تو اس کے لئے علامہ معلمی کا وہ اعتراض کمزور ظاہر ہوگا جو انہوں نے ’’إبراہیم إذا قال:قال ابن مسعود‘‘ (ابراہیم جب کہیں کہ ابن مسعود نے کہا) کے ثبوت پر وارد کیا تھا ، کیونکہ ابراہیم کا ’’من أصحابہ‘‘ (ابن مسعود کے شاگردوں) کی صراحت کرنا علامہ معلمی کے اس احتمال کو غلط ثابت کرتا ہے کہ ابراہیم نے ان غیرواحد سے نقل کیا ہو جن کی ابن مسعود سے ملاقات ہی نہ ہو ، جیساکہ ظاہر ہے اور علامہ معلمی کا عذر یہ ہے کہ انہوں نے ابراہیم کا یہ قول تہذیب سے نقل کیا جس میں’’ من أصحابہ‘‘ (ابن مسعود کے شاگردوں) کے الفاظ نہیں ہیں جو اتصال پردلالت کرتے ہیں‘‘
    [التنکیل بما فی تأنیب الکوثری من الأباطیل:۲؍۸۹۸حاشیہ :۱]
    اس سے واضح ہوتا ہے کہ:
    اگر علامہ البانی رحمہ اللہ کو طبقات ابن سعد میں ابراہیم کے قول میں ’’من أصحابہ ‘‘(ابن مسعود کے شاگردوں) کی صراحت نہ ملتی تو وہ بھی علامہ معلمی رحمہ اللہ سے متفق ہوتے۔
    اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بلاواسطہ ابراہیم کی روایت کو اس لئے صحیح کہا کیونکہ خود ابراہیم نخعی نے یہ صراحت کردی ہے کہ میں ایسی روایت کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے ہی نقل کرتاہوں اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سارے شاگرد جو ابراہیم کے استاذ ہیں ثقہ ہیں۔
    اب ذرا سنن ابی داؤدوالی زیربحث روایت کو دیکھئے اس میں ایوب نے طاؤس سے غیرواحد کے واسطے سے نقل کیاہے ۔
    لیکن کیا ابراہیم نخعی کی طرح ایوب نے بھی کہیں پر یہ صراحت کی ہے کہ میں جب طاؤس سے غیر واحد کہہ کر نقل کرتا ہوں تو یہ روایت طاؤس کے کئی شاگردوں کے ذریعہ ہوتی ہے ؟
    یقینا ایوب نے کہیں پر بھی ایسی کوئی صراحت نہیں کی ہے ۔لہٰذا ان کی طاؤس سے غیر واحد کے ذریعہ روایت میں یہ احتمال رہے گا کہ انہوں نے ایسے واسطوں سے نقل کیا ہو جن کی طاؤس سے ملاقات ہی نہ ہو۔
    اس لئے بعض دیوبندی حضرات کا طاؤس کے ان ثقہ شاگردوں کی لسٹ پیش کرنا جن سے ایوب روایت کرتے ہیں بالکل غلط ہے ، کیونکہ ایوب نے کہیں پر بھی صراحت نہیں کی ہے کہ انہوں نے جن واسطوں سے طاؤس سے نقل کیا ہے وہ لوگ طاؤس کے شاگرد ہی ہیں ۔لہٰذا یہاں ایوب کے واسطے میں موجود لوگ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن کی طاؤس سے ملاقات ہی نہ ہو۔
    یہی وجہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ابراہیم کی روایت کو تو صحیح کہا ہے لیکن زیر بحث سنن ابی داؤدکی روایت کو قطعا ًصحیح نہیں کہا ہے بلکہ اسے ضعیف قرار دیتے ہوئے اس کی پہلی وجہ یہی بتائی کہ ایوب اور طاؤس کے بیچ جو واسطہ ہے وہ نامعلوم ہے، چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    قلت: ’’هذا إسناد ضعيف، وله ثلاثُ عِللٍ:جهالةُ الواسطة بين أيوب وطاوس، واختلاطُ أبي النًعْمان- واسمه:محمدُ بنُ الفضْل-، وتفرُدُه بقوله:قبل أن يدخل بها ۔
    ’’یہ سند ضعیف ہے ، اس میں تین علتیں ہیں ، اول: ایوب اور طاؤس کے بیچ واسطہ نامعلوم ہے ۔ دوم :ابو النعمان اس کا نام محمدبن الفضل ہے یہ مختلط ہے ۔ سوم:یہ غیر مدخولہ والے الفاظ بیان کرنے میں منفرد ہے‘‘
    [ضعیف أبی داؤد: ۲؍۲۳۳]
    نیز’’ سلسلہ ضعیفہ‘‘ میں حافظ منذری سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :
    ’’وأعلہ المنذری فی مختصر السنن (۳؍۱۲۴)بقولہ : الرواۃ عن طاؤس مجاہیل ‘‘
    ’’حافظ منذری نے مختصر السنن(۳؍۱۲۴) میں یہ کہتے ہوئے اس روایت کومعلول قرار دیا ہے کہ:طاؤس سے روایت کرنے والے رواۃ مجہول ہیں ‘‘[سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ :۳؍۲۷۲]
    علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہاں یہ وہ بات بالکل نہیں کہی جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ابراہیم کی روایت سے متعلق کہی ہے، بلکہ ایوب اور طاؤس کے درمیان کے رواۃ کو مجہول ہی گرادانا ہے۔
    اس وضاحت کے بعدعرض ہے کہ ایوب کے اساتذہ میں کئی رواۃ بالاتفاق ضعیف ہیں اور کئی جمہور کے نزدیک ضعیف ، مختلف فیہ اور مدلس رواۃ بھی ہیں، لہٰذا زیر بحث حدیث کی سند میں ایوب کے نامعلوم اساتذہ انہی ضعیف ومجروح وغیرہ لوگوں میں سے بھی ہوسکتے ہیں ، لہٰذا یہ روایت ضعیف ومردود ہے۔
    ٭ ثالثاً:
    اگریہ فرض بھی کرلیں کہ یہاں ایوب نے اپنے جن اساتذہ سے روایت کیا ہے وہ سب طاؤس کے شاگرد ہی ہیں تو بھی سند صحیح نہیں ہوسکتی کیونکہ ایوب کے جو اساتذہ طاؤس کے شاگرد ہیں ان میں بعض ضعیف،بعض مدلس اور بعض نامعلوم ہیں ، مثلاً:
    ابو امیہ عبد الکریم بن أبی المخارق یہ بالاتفاق ضعیف راوی ہے۔
    یہ ایوب کا استاذ ہے۔ دیکھئے :[المعجم الأوسط:۸؍۳۲۱]
    اور یہ طاؤس کاشاگرد بھی ہے ، دیکھئے:[صحیح البخاری تحت الرقم :۱۱۲۰، مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمی:۲؍۳۷،مسند الحمیدی رقم :۵۰۲،ص:۴۴۰]
    قتادۃ بن دعامۃ السدوسی یہ مشہور مدلس راوی ہیں۔
    یہ ایوب کے استاذ ہیں ۔دیکھئے: [تہذیب الکمال للمزی:۳؍۴۵۸]
    اور یہ طاؤس کے شاگرد بھی ہیں ، دیکھئے:[تاریخ ابن أبی خیثمۃ :۳؍۳۰۹،وإسنادہ صحیح]
    واضح رہے کہ قتادہ کے بعض قدری عقیدہ کے سبب طاؤس ان سے ناراض تھے ، لیکن قتادہ ان کے پاس طلب علم کے لئے جاتے رہتے تھے ، نیز فریق مخالف غیر مدخولہ کی طلاق سے متعلق طاؤس کا جو فتویٰ نقل کرتے ہیں اسے طاؤس سے قتادہ ہی روایت کرتے ہیں، کما سیاتی۔
    ’’رجل‘‘۔ ’’ایک شخص‘‘۔
    مصنف ابن ابی شیبہ میں أیوب ، عن رجل ، عن طاؤس کے طریق سے ایک روایت ہے۔[مصنف بن أبی شیبۃ ت عوامۃ:۱۶؍۲۹۲]
    یہ رجل (شخص) ایوب کا استاذ بھی ہے اور طاؤس کا شاگرد بھی ہے، مگر یہ ہے کون ؟ اس کا کچھ پتہ نہیں !
    یا درہے کہ ایوب نے یہاں مجرد واسطہ کا حوالہ نہیں دیابلکہ ایک رجل (شخص) کا ذکر کیا ہے ، یہ’’ رجل‘‘ ایوب کے دیگر معروف اساتذہ کے علاوہ بھی کوئی ہوسکتا ہے۔
    جاری ہے ………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings