Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • چندے کا سہارا کب تک؟

    رمضان کے اختتام کے بعد مدارس ایک بار پھر اخراجات سے بے پروا ہوکر لمبی نیند سوجاتے ہیں،ایک مہینے کی سر توڑ محنت پورے سال کے لیے آرام مہیا کردیتی ہے،تعلیم کی مشنری بدستور چل پڑتی ہے،سفارتی محنت سے کشید کیے گئے وسائل سے واجبات کو پورا کیا جاتا ہے،بقایا جات کو نمٹایا جاتا ہے،باقی ماندہ رقوم سے ماہ بماہ اخراجات پورے کیے جاتے ہیں،بعض مدارس بجٹ ختم ہونے پر درمیان سال میں بھی سفر پر نکل پڑتے ہیں،اس طرح سے رمضان سے پہلے بھی مدارس کو کمک مل جاتی ہے،یہی مدارس کا مقدر ہے اور برسوں سے اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے،اس طرزِ کہن کو بدلنے کی طرف ذہن سوچنے کی ہمت نہیں جٹا پاتا ہے،ہماری عافیت پسندی کسی مہم جوئی کی زحمت اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے،مگر بدلتے حالات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،چندے کا متبادل وقت کی بہت بڑی ضرورت بن چکا ہے، کب تک اس بیساکھی کے سہارے چلیں گے؟کبھی یہ کمزور بیساکھی ٹوٹ گئی تو کیا کریں گے؟ملک کے حالات اور مدارس کے گرد تنگ ہوتے گھیرے کو سامنے رکھتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنا ہوشمندی کا تقاضا ہوگا،اچھی طرح سمجھ لیں کہ رنگ بدلتے قوانین کی زد میں چندہ کبھی بھی آسکتا ہے،کورونا میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ دو سال تک پابندی کے سبب چندہ نہیں ہوا تو مدارس جانکنی کے عالم میں پہنچ گئے تھے،کتنے مدارس بند ہوگئے،کتنے قبلہ تبدیل کرلیے،اساتذہ بدحال اور زبوں حال تھے،خدا خدا کرکے لاک ڈاؤن گزرا اور ہم ماضی کو بھلا کر پرانے ڈھرے پر چل پڑے۔
    کم از کم ملک کے حالات سے سبق حاصل کرنا چاہیے،ہمارے ملک میں ایک نعرہ بڑی تکرار کے ساتھ لگایا جارہا ہے،وہ یہ کہ ملک کو’’آتم نربھر‘‘بنانا ہے،بس اس نعرے سے سبق لے کر مدارس کو آتم نربھر بنانے کی ضرورت ہے، چندے میں چلنے والے کرپشن کو دور کرنے کے لیے بھی یہ تجویز بہت مناسب ہے،کیا ایسا ممکن ہے؟کیا مدارس آتم نربھر اور خود کفیل ہوسکتے ہیں؟جی ہاں دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہے،اگر ہمت،حوصلہ اور کچھ کرگزرنے کاجذبہ ہو توکوئی کام ناممکن نہیں ہے،وقت لگ سکتا ہے،ممکن ہے ابھی کچھ سالوں اور چندے کی دشوار گزار راہ پر آبلہ پا ہونا پڑے، مصائب و آلام کی صحراء نوردی کرنی پڑے،مگرایک بات گرہ میں باندھ لیں کہ چندے کا مقصد سال بھر مدرسہ چلانا نہ ہو بلکہ طویل المیعاد مدرسے کی کفالت کا مستقل ذریعہ پیدا کرنا بھی ہو،الگ الگ مقاصد کے لیے الگ الگ بلڈنگیں تعمیر کرنے کے ساتھ کچھ بلڈنگیں مستقل ذریعۂ آمدنی کی غرض سے بھی تعمیر کرلی جائیں،آمدنی کے ذرائع پیدا کیے جائیں،ہمارے ملک میں بے شما ررفاہی ادارے اور این جی اوز ہیں،کیا وہ بھی قریہ قریہ روداد اور رسید لے کر دکانوں اور آفسوں کے گرد جوتے چٹخاتے ہیں،وہ پورے سال سماجی کام کرتے ہیں،بڑے بڑے پروجیکٹ پر عمل درآمد کرتے ہیں،ان کو وسائل کیسے مہیا ہوتے ہیں،ان کو رقوم کیسے ملتی ہیں؟آخر وہ بھی تو ڈونیشن پر چلتے ہیں،وہ بھی تو عوامی امداد پر منحصر ہوتے ہیں،دوسروں کے تجربوں سے سیکھ لینے کی ضرورت ہے،اگر ذہن سازی کی جائے تو ایک دوسرا بے داغ طریقہ بھی ہمارے لیے دریافت ہوسکتا ہے،جسے اختیار کرکے علماء ایک ماہ کی خانہ بدوشی سے نجات پاجائیں گے،وقار داؤ پر نہیں لگے گا،یاد کیجیے ان بزرگ علماء کرام کو جو بلڈپریشر اور شوگر کی گولیاں ساتھ لے کر سفر کرتے ہیں،موسم کی سختیوں کو جھیلتے ہیں،اب تو حادثات اور وفیات کی خبریں بھی آرہی ہیں،سوچو مدرسے کی کفالت کے لیے سفر کرنے والے شہید کی کفالت کون کرے گا؟ان روتے بلکتے بچوں کی اشک شوئی کون کرے گا جنہیں ریل گاڑی کا شہید مولوی اپنے پیچھے چھوڑگیا ہے،آج مدارس کولے کر مصارف زکوٰۃ پر سوال بہت زیادہ اٹھنے لگے ہیں،کئی لوگوں نے اب مدارس کو دینا بند بھی کردیا ہے،سوچئے اگر یہ ہواذرا اور زور سے چلی تو مستقبل کی تصویر کیا ہوگی؟اس لیے ایک منصوبہ تخلیق کیا جائے اور اس منصوبے کے تئیں عوام الناس کی ذہن سازی شروع کردی جائے،آخر موجودہ چندہ بھی ایک منصوبہ تھا اور طویل ذہن سازی کے بعد شروع ہوا تھا اور پورے شدومد کے ساتھ چل رہا ہے،بہت حدتک کامیابی سے ہمکنار بھی ہوا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ امت میں سرمایہ دار افراد کی کمی نہیں ہے،اس قوم کے پاس کتنی دولت ہے؟کتنا پیسہ ہے؟یہ لوگ جب شادیاں کرتے ہیں تو بہت زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے،ضروری ہے کہ مدارس اور دینی اداروں کے لیے دل کھول کر خرچ کرنے کی طرف عوام کی توجہ موثر انداز میں مبذول کرائی جائے،ان کو بتایا جائے کہ ہمارا دینی وجود انہی مدارس کی بدولت ہے،یہیں کے فارغ التحصیل علماء ہیں جو اصلاح وتبلیغ اور دین کی نشر واشاعت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں،جب مدارس نہیں ہوں گے اور علماء نہیں ہوں گے تو دین کی شمع گل ہوجائے گی،اسلام کی قدریں اور روایات مرورایام کے ساتھ معدوم ہوجائیں گی،دین کے ان قلعوں کی حفاظت اور تقویت وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے،لوگوں میں یہ ذہن پیدا کیا جائے کہ اپنے رأس المال سے ان اداروں پر خرچ کیا جائے،ایسا نہیں ہے کہ منبر ومحراب سے بلند ہونے والی یہ صدائیں رائیگاں جائیں گی،تحریک و تذکیر کی آوازیں یکسر فضاؤں میں تحلیل ہوجائیں گی،یہ آوازیں کبھی کبھار کسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں،اگر زیادہ نہیں تو چند نفوس کے سر میں کوئی سودا سما جاتا ہے،ماضی کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں،ایسے بھی بے لوث اور دریادل گزرے ہیں جنہوں نے مساجد اور مدارس کے نام اپنی جائیدادیں وقف کردی ہیں،دینی اداروں کو گود لے لیا ہے،شہروں میں کتنی مساجد ہیں جو قیمتی جائیدادوں پر نہ صرف چل رہی ہیں بلکہ بڑے بڑے کام بھی کررہی ہیں،یہ سلسلہ آج بھی چل سکتا ہے،ضرورت ہے کامیاب ذہن سازی کی،اس تدبیر پر عمل درآمد کے سا تھ چندے کی موجودہ صورت حال میں ذرا تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے،شہروں میں دیکھا ہے کہ اکثر چندہ مسجدیا مدرسے کے علماء نہیں کرتے بلکہ بااثر ذمے داران کرتے ہیں،اپنے اثر ورسوخ کا بھرپور استعمال کرتے ہیںاور علماء سے زیادہ فنڈ جمع کرلیتے ہیں،اس مقصد کے لیے ذمے داران اپنی امیج،وقار اور عزت نفس کا بہت زیادہ خیال نہیں کرتے بلکہ ایک مائنڈ سیٹ بن گیا ہے اور علماء دین کو دریوزہ گری سے بچا لیا ہے،دوسرے مقامات کے ذمے داروں کو بھی یہی کرنا چاہیے،وہ کون سا ادارہ ہے جس سے شہروں کے بعض تجار اور سرمایہ دار جڑے نہ ہوں اور اس ادارے سے ہمدردی نہ رکھتے ہوں،ان لوگوں کے رسوخ کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے،انہیں اس کار خیر کی اہمیت اس شدت سے بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اس کام کو دل پر لے کر کریں،یہ صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عملی طور پر اس کی نظیریں موجود بھی ہیں،کتنے ایسے ہیں جو اپنے مدرسین کو سفر کے جنجال کی زحمت بھی نہیں دیتے،رسید روداد منگاکر چندہ کرکے رقوم بھیج دیتے ہیں۔
    ایک بات اور عرض کرنی ہے کہ مدارس کے نام پر مکاتب اور فیک اداروں کی بڑی تعداد فیلڈ میں اتر چکی ہے،اس لیے بھی چندے کے میدان میں بہت زیادہ چیلنجز درپیش ہیں،مشکلات کے خارزار میں سب کچھ الجھ کر رہ گیا ہے، خوب اور خوب تر کی تمیز نہیں ہوپاتی ہے،صحیح اور غلط کا سراغ نہیں مل پاتا ہے کیونکہ کچھ لوگ غلط اور فراڈ لوگوں کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں،بسا اوقات تصدیق ان کے ہاتھ میں بھی نظر آتی ہے کہ زمین پر جن کا مدرسہ نظر نہیں آتا ہے، مرکزی جمعیت کو تصدیق کے معاملے میں بہت زیادہ چوکسی برتنے کی ضرورت ہے،مکاتب کے اخراجات گاؤں سے پورے کیے جاسکتے ہیں،علاقے کے لوگ اپنے رأس المال سے اس بار کو سہارا دے سکتے ہیں،فیس سے بھی کسر پوری کی جاسکتی ہے لیکن ایک ذہن یہ بن گیا ہے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھولینے میں کیا مضائقہ ہے؟بس یونہی چلے چلو جہاں تک چلی چلے۔
    اب ان اداروں کو بھی چندے کی چراگاہ لبھانے لگی ہے جو خلیجی ممالک میں اپنے رسوخ سے خطیر رقمیں سمیٹ لاتے ہیں اور نئے نئے پروجیکٹ شروع کیے رکھتے ہیں،یہاں بھی مقصد وہی ہے کہ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے،یعنی ہمارے مدرسے میں بھی وہ مخلوق پائی جاتی ہے جس کی برادری رمضان میں دودھ دینے والی گائے ثابت ہوتی ہے،اس لیے روداد رسید کے ساتھ انہیں بھی روٹ دے دیا جاتا ہے،حد تو اس وقت ہوتی ہے کہ جب گھر سے شروع ہونے والے سفر خرچ کو بھی رسید سے مہیا کرکے آگے بڑھنے کی بات کہی جاتی ہے،بے چارہ مولوی رکشے کے کرائے کے لیے ایک عدد رسید کا گاہک ڈھونڈ رہا ہوتا ہے،بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی؟چندے کے متبادل کی تلاش میں ہم پھر چندے پر آکر پہنچ گئے، بس یہی کہانی ہے،ہم نے تدبیر پیش کردی ہے لیکن عملی میدان میں اتریں تو پتہ چلتا ہے کہ بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی… ہم سرمایہ دار اور متمول افراد کی مالی قربانی کو بطورحل پیش کررہے تھے لیکن جب ادارے کا ذمے دار شادیوں میں شاہانہ کروفر کے ساتھ کروڑوں روپے خرچ کررہا ہو تو ہماری تجویز خود ہم پر ہنسنے لگتی ہے اور ہم اپنا سا منہ لے کررہ جاتے ہیں،پر کوششیں رنگ لاتی ہیں،اللہ کرے کہ اس مسئلے کے حل کے اسباب غیب سے پیدا ہوجائیں کیونکہ رمضان میں علماء کا حال زار دیکھا نہیں جاتا ہے اور ہماری اصل پروبلم یہی ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings