-
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا ابراہیم اس عظیم ہستی کا نام ہے جس کو دین اسلام کا ادنیٰ سا علم رکھنے والا بھی جانتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے اور اسی محبت کی بنیاد پر اپنے بچوں کو اس نام سے موسوم کرتا ہے، ابراہیم اس شخصیت کا نام ہے جو اولوا العزم انبیاء میں شمار کی جاتی ہے اور جس کو اللہ رب العزت نے خُلَّت جیسی اعلیٰ صفت سے نوازا، وہ ابراہیم علیہ السلام جن کا تذکرہ قرآن مجید میںجابجا آیا ہے بلکہ ان کے نام کی طرف ایک سورہ بھی منسوب ہے۔
معزز قارئین! کائنات کا یہ اصول تو مسلم ہے کہ یہاں کوئی بلندی، ترقی اور اعلیٰ مقام یونہی حاصل نہیں کرلیتا بلکہ یہاں لوہے کی بھٹیوں سے گزار کر کندن بنائے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے خلیل علیہ السلام بھی کچھ ایسے ہی امتحانات ،آزمائشوں اور کٹھن راستوں سے گزر کر اس مقام پر فائز ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا {إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا}’’ بے شک میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں‘‘
اللہ اکبر کبیرا …!!!
نبوت، رسالت، خلت اور امامت سبحان اللہ! بیک وقت اتنے عہدے کیا یونہی مل گئے؟
کیا اس مقام تک پہنچنے کا صرف یہی ایک پہلو آزمائش ہے؟
کیا آزمائشوں سے گزرنے والا ہر شخص اس قدر رب کا چیدہ بن جاتا ہے؟
یا پھر ابراہیم علیہ السلام کے بعد آزمائشوں کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا؟
مذکورہ ہر سوال کا جواب ہم فقط نفی میں دیں گے۔
کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کو اپنے رب کا برگزیدہ بننے میں آزمائشوں سے زیادہ آزمائشوں پر ان کے رد عمل کا کردار ہے جو ایمان، توحید، تقویٰ، للہیت، اخلاص، حکمت اور صبر بے مثال سے سرشار ہے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کو بھی ہمارے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا : {قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيٓ اِبْـرَاهِـيْمَ} ’’بے شک تمہارے لیے ابراہیم میں اچھا نمونہ ہے ‘‘[الممتحنۃ : ۴]
اور محمد رسول اللہﷺ کو بھی اس عظیم نبی کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا:
{ثُمَّ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ أَنِ اَتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَ ٰهِيمَ حَنِيفا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ}
’’پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ ملت ِابراہیم کی پیروی کرو جو یکسو تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے‘‘
[النحل : ۲۳]
اب آئیں ہم اپنے اور اپنے نبی محمد ﷺ کے اسوۂ ابراہیم علیہ السلام کے غیر معمولی ایمان پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنا جائزہ لیتے ہیں۔
جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا ہر پہلو آزمائشوں سے پُر ہے اور ہر آزمائش پر ان کا صبر نمایاں ہے تو یہ صبر فقط ایمان کی بنیاد پر ہے یعنی مجموعی طور پر کہا جائے تو یہ ایمانی قوت ہی تھی جس کی آڑ میں ابراہیم علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کرنا آسان ہوگیا تھا کیونکہ صبر اہل ایمان ہی کا شیوہ ہے اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم اہل ایمان ہی کو دیا ۔ {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ} [البقرۃ:۱۵۳]
ورنہ ایمان سے خالی دل پر آزمائشیں پہاڑوں کی مانند گراں گزرتی ہیں جس کو وہ برداشت نہیں کر پاتا اور جزع و فزع کے ساتھ ہر طرح کے اجر و ثواب سے محروم بلکہ اپنے اوپر گناہوں کا بوجھ ڈالتا ہے۔
تو اس اعتبار سے اگر ہم ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے اپنی زندگی کا موازنہ کریں تو سب سے بڑا فرق ہماری ایمانی قلت اور کمزوری ہے۔ اسی لیے تو شاعر کہتا ہے:
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
محترم قارئین! ایمان کا یہ سفر جو آفاق میں پھیلی نشانیوں پر تفکر و تدبر سے شروع ہوتا اور ربِّ کائنات کو پا کر مقصد ِحیات سمجھاتا ہے، سفر آگے بڑھتا ہے تو راستوں کی دشواریوں سے سامنا کبھی باپ کی دشمنی، قوم کا انکار اور ہٹ دھرمی، توحید سمجھانے کو حکمت سے کام لینے پر اور ظالم و جابر بادشاہ کو الٰہ واحد کی طرف بلانے پر قتل کی سعی۔ اللہ اکبر
عائلی زندگی پر نظر ڈالیں تو ایک لمبے عرصے تک اولاد جیسی بیش بہا نعمت سے محرومی لیکن رحمت الہٰی سے نا امیدی بالکل نہیں، ہاں یہ امید بھی ایمان ہی کا ثمرہ ہے جس کے عوض بڑھاپے کے مرحلے میں اولاد سے نوازے جاتے ہیں اور وہ اولاد جو جگر کا ٹکڑا اور بے حد عزیز تھی اس کے ذریعے بھی آزمائش کی باری آتی ہے کہ اپنی اہلیہ اور بیٹے کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آؤ یہاں آزمائش میں اہلیہ بھی شریک تھیں، وہ بھی ایمان میں پختہ ایک مرد مومن کی زوجیت میں تھیں جس نے صبر کے ساتھ اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور رہتی دنیا تک کے لیے ایک سنہری تاریخ رقم کر گئیں، اولاد جب جوان ہوئی تو حکم ہوا اس کو فی سبیل اللہ قربان کر دو۔۔۔۔۔۔ !!!
سخت ترین آزمائش کا موقع تھا لیکن ایمان بھی تو قوی سے قوی تر تھا جو پیچھے رہنے کہاں دیتا۔
بیٹے کو آگاہی اور مشورے کے بعد اس کی رضامندی بھی معلوم ہوگئی کیونکہ وہ بھی ایک مومن باپ کا مومن بیٹا تھا بالآخر یہ بھی کرنا تھا۔
لیکن ربِّ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خلیل کی آزمائشوں پر بڑے بڑے انعامات تیار رکھ رکھے تھے جو انہیں ملنے ہی تھے، شفقت پدری سے محروم کرکے اللہ نے سارے مسلمانوں بلکہ بعض غیر مسلموں کے دل میں آپ کی محبت ڈال دی، آگ میں پھینک کر بھسم کرنے کی بادشاہی چال کو ناکام کرکے آگ کو ایک چمن کی طرح راحت بخش بنادیا، بیوی بیٹے کو مکہ چھوڑ آنے پر وہاں پانی کا انتظام کیا اور پھر اس کے نتیجے میں اس ویران وادی میں آبادی پھیلنے لگی اور پھر دعا کو بھی اس طرح قبولیت بخشی کہ اس مقام کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دیا، لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی کہ وہ مکہ کی زیارت کے لیے تڑپتے ہیں، انہیں رزق و پھلوں کی فراوانی سے نوازا اور اس سرزمین پر آخری نبی کی بعثت فرما کر ساری انسانیت پر احسان کیا، اور اولاد کی قربانی کا اجر تو اس قدر بڑھادیا کہ ان کے بعد کی شریعت میں بھی اسے بطور یادگار عید ا لاضحی کی شکل میں باقی رکھا۔
یہ محض قصے کہانیاں نہیں جو پڑھ کر بھلادی جائیں بلکہ کسی کے ایمان کی سچی داستان ہے جو متاخرین میں ذکر خیر بن کر محفوظ ہیں۔ کیونکہ اسی ابو الانبیاء نے دعا کی تھی: {وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ}[الشعراء:۸۴]
ابراہیم علیہ السلام ایمان و صبر کا وہ باب ہے جس پر دیوانیں رقم کریں تب بھی کم ہے۔
ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
غور کریں توہم میں نہ وہ ایمان کی قوت ہے نہ صبر و استقلال کی وہ عظمت جسے دیکھ کر زمانہ رشک کرے۔
ہم تو اپنے اسوہ کو چھوڑ کر اغیار کی پیروی میں منہمک ہیں تو پھر کہاں یہ معجزات رونما ہوں گے اور کہاں ہمیں غلبہ نصیب ہوگا؟ ہم تو مغلوب بن رہے ہیں اور یہ ہماری ہی قلت ِایمانی اور سستی و کوتاہی کا نتیجہ ہے۔
اور اگر ہم میں ایمانی جذبہ ہو بھی تو ہم نے محاذوں پر نکل کر کام کرنا چھوڑ دیا اور اپنی ذمہ داری کے احساس کو صرف مصلوں اور دعاؤں سے جوڑ دیا ہے۔ اللہ امت محمدیہ پر رحم فرمائے ۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا إلہ إلا اللہ
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا إلہ إلا اللہ
اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ ہم کو ابراہیم سا ایمان و صبر اورتوکل عطا فرمائے۔آمین ثم آمین