Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حد یث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما (اٹھارہویں قسط )

    حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی عبارت کا سہارا:
    بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روایت میں ایوب کا استاذ ابراہیم بن میسرہ ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں کہا ہے۔عرض ہے کہ:
    اولاً:
    فتح الباری میں ابن حجررحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
    ’’أخرجها أبو داؤد لكن لم يسم إبراهيم بن ميسرة وقال بدله عن غير واحد ولفظ المتن أما علمت أن الرجل كان إذا طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها جعلوها واحدة الحديث‘‘
    ’’اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے لیکن سند میں ابراہیم بن میسرہ کا نام نہیں لیا ہے بلکہ اس کی جگہ غیر واحد کہا ہے اور اس کے متن میں بھی یہ ہے کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ جب کوئی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دیتا تھا تو اسے ایک شمار کرتے تھے ‘‘
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۳۶۳]
    یہاں ابن حجررحمہ اللہ نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ ابوداؤد والی روایت میں جس کا نام نہیں ہے وہ ابراہیم بن میسرہ بلکہ انہوں نے صرف سند کا اختلاف ذکرکیا ہے ، کہ دوسری سندوں میںجس مقام پر ابراہیم بن میسرہ کا نام ہے اس مقام پر ابوداؤد کی سند میں غیر واحد کا لفظ ہے ۔ نیز ابن حجررحمہ اللہ نے آگے متن کا بھی اختلاف بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں غیرمدخولہ کے الفاظ ہیں یہ سیاق بھی بتارہا ہے کہ ابن حجررحمہ اللہ یہاں سنن ابی داؤد والی روایت میں سند و متن کا اختلاف ذکر کررہے ہیں ۔
    نیز اس بات پرغور کریں کہ سنن ابی داؤد والی روایت میں نامعلوم رواۃ کی تعداد ایک سے زائد ہے ، اس لیے اگر ابن حجررحمہ اللہ کو ان نامعلوم رواۃ کے نام بتانے ہوتے تو سب کا نام بتاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ محض سند کا اختلاف بتارہے ۔
    ثانیاً:
    اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ ان نامعلوم رواۃ میں ایک ابراہیم بن میسرہ ہے تو یہ ماننا لازم ہے کہ اس روایت میں جو الفاظ ذکر ہوئے ہیں وہ ابراہیم بن میسرہ کی روایت کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ دوسرے نامعلوم رواۃ کے الفاظ ہیں کیونکہ صرف ابراہیم بن میسرہ کا نام لے کر جن لوگوں نے بھی یہ روایت بیان کی ہے ان میں سے کسی نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔
    چنانچہ پانچ رواۃ سلیمان بن حرب عفان بن مسلم یحییٰ بن آدم خالد بن خداش محمد بن أبی نعیم نے حماد عن أیوب کے طریق سے ابراہیم بن میسرہ کا نام لے کر یہ روایت بیان کی لیکن ان پانچوں میں سے کسی نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ۔
    اسی طرح ابراہیم بن میسرہ کے دوسرے شاگرد ابن جریج نے براہِ راست ابراہیم بن میسرہ سے یہ روایت بیان کی ہے لیکن انہوں نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔
    ان سب کی روایات کے حوالے ماقبل میں دوسری علت کے تحت گزرچکے ہیں ، دیکھے:
    امام ایوب السختیانی کا ثقہ ہی سے روایت کرنا :
    بعض لوگ کہتے ہیں ایوب صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں اس لیے ان کے اساتذہ ثقہ ہی ہیں گرچہ انہوں نے ان کا نام نہیں بتایا ہے۔عرض ہے کہ:
    اولاً:
    اس سے زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ ایوب کی نظر میں ثقہ ہیں ، لیکن دیگر تمام محدثین کے نزدیک بھی ثقہ ہوں یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا ، اوریہ بات سب کو معلوم ہے کہ کسی راوی کو ایک محدث ثقہ کہہ دیتا ہے لیکن دوسرے محدثین کی تحقیق میں وہ ضعیف ہوتا ہے اور اس کا ضعیف ہونا ہی راجح ہوتا ہے ۔
    چنانچہ ایوب کے اساتذہ میں بھی بعض رواۃ ایسے ہیں جن کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق واجماع ہے۔ مثلاً:
    1 ابن أبی ملیکۃ [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۱؍۲۵۲]
    2 ابو امیہ عبد الکریم بن أبی المخارق[المعجم الأوسط للطبرانی:۸؍۳۲۱]
    3 عبد اللہ بن نافع العدوی [سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط:۵؍۵۴۲]
    یہ ایوب کے وہ اساتذہ ہیں جن کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اجماع ہے، اور ایوب نے بھی کہیں ان کو صراحتاً ثقہ نہیں کہا ہے ، لیکن اگر ان سے ایوب کی روایت کے سبب مان بھی لیا جائے کہ یہ ایوب کی نظر میں ثقہ ہیں تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ دیگرتمام محدثین انہیں ضعیف بتلانے پر متفق اللسان ہیں ۔
    اسی لیے قاضی عیاض نے صراحت کی ہے جیساکہ ماقبل میں نقل کیا جاچکا ہے کہ کوئی محدث اگر اپنے استاذ کا نام نہ لے اور اسے ثقہ بتاکر بھی روایت کرے تو بھی اس کی روایت قبول نہیں ہوگی کیونکہ وہ دوسروں کے نزدیک ضعیف ہوسکتا ہے۔
    ثانیاً:
    بطور الزام عرض ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بھی صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔[شفاء السقام فی زیارۃ خیر الأنام:ص:۱۳، إعلاء السنن :۳؍۶۹]
    اور امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    حدثنا صاحب لنا عن حمدويه قال:قلت لمحمد بن مسلمة:ما لر أى النعمان دخل البلدان كلها إلا المدينة؟ قال:إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال:’’لا يدخلها الدجال ولا الطاعون، وهو دجال من الدجاجلة ‘‘
    ہمارے ایک ساتھی نے ہم سے حمدویہ سے روایت بیان کیا کہ انہوں نے کہا:میں نے محمد بن مسلمہ سے کہا کہ : ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کی رائے کا کیا مسئلہ ہے کہ یہ سارے شہروں میں پہنچ گئی سوائے مدینہ کے تو انہوں نے کہا:اللہ کے نبی  نے فرمایا ہے:’’کہ مدینہ میں دجال اور طاعون داخل نہیں ہوگا اور وہ (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) دجالوں میں سے ایک دجال ہے‘‘
    [الضعفاء الصغیر للبخاری ت أبی العینین :ص:۱۳۲]
    اس روایت میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے استاذ کا نام نہیں لیا ہے ۔اس پر زاہد کوثری حنفی صاحب لکھتے ہیں:
    ’’وقول البخاري حدثنا صاحب لنا ، رواية عن مجهول ، ولو كان هذا الصاحب من شرط البخاري أن يروي عن مثله لصرح بإسمه فدل على أن الرواية لا تعويل عليها ‘‘
    ’’اور بخاری کا کہنا کہ ہم سے ہمارے ساتھی نے بیان کیا یہ مجہول سے روایت ہے ، اگر یہ ساتھی بخاری کے اس معیار پر ہوتا کہ وہ اس سے روایت کرتے تو وہ اس کے نام کی بھی صراحت کردیتے ، لہٰذا یہ دلیل ہے کہ یہ روایت ناقابل اعتماد ہے‘‘
    [تانیب الخطیب: ص:۲۰۴دوسرا نسخہ :ص:۱۰۳]
    زاہد کوثری صاحب کے اسی اصول سے پتہ چلا کہ بخاری کی طرح ایوب بھی جب ثقہ سے روایت کرتے ہیں تو انہوں نے بھی جن کا نام نہیں بتایا ہے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ ایوب ان سے روایت کریں ،اسی لیے ایوب نے ان کے نام کی صراحت نہیں کی ہے، لہٰذا یہ دلیل ہے کہ ایوب کی یہ روایت بھی ناقابل اعتماد ہے۔
    امام طاؤس رحمہ اللہ کے فتویٰ کا سہارا :
    بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام طاؤس سے یہ فتویٰ منقول ہے کہ غیرمدخولہ کو دی گئی تین طلاق ایک ہوتی ہے اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس روایت میں غیرمدخولہ ہی کاذکرہوگا ، تبھی تو انہوں نے اپنی روایت کے مطابق فتویٰ دیا ہے۔عرض ہے کہ:
     اولاً:
    امام طاؤس کا یہ فتویٰ دو سند سے مروی ہے اور دونوں ضعیف ہے:
    1 امام ابن أبی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا إسماعيل ابن علية، عن ليث، عن طاؤس وعطاء ، أنهما قالا:’’إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، فهي واحدة‘‘
    طاؤس وعطاء سے مروی ہے :’’کہ انہوں نے کہا کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے قبل تین طلاق دے دے تو وہ ایک شمار ہوگی‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۱۰؍۱۲۷]
    اس کی سند میں موجود لیث یہ’’ لیث بن ابی سلیم ‘‘ہے اور یہ مشہور ضعیف راوی ہے۔تفصیل کے لیے دیکھئے ہماری کتاب:(یزید بن معاویہ: ص:۵۲۷تا۵۲۹)
    2 امام ابن أبی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا محمد بن بشر،قال:حدثنا سعيد، عن قتادة، عن طاؤس وعطاء وجابر بن زيد، أنهم قالوا:’’إذا طلقها ثلاثا قبل أن يدخل بها فهي واحدة ‘‘
    طاؤس ، عطاء اور جابربن زید سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:’’جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے قبل تین طلاق دے دے تو وہ ایک شمار ہوگی‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۱۰؍۱۲۸]
    اس سند میں قتادہ کا عنعنہ ہے اوریہ مدلس ہیں ، اسی طرح سعید یعنی سعید بن ابی عروبۃ کا بھی عنعنہ ہے اور یہ بھی مدلس ہیں ، ان کے بارے میں ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
    ’’کثیر التدلیس ‘‘،’’ یہ بہت زیادہ تدلیس کرتے تھے‘‘
    [تقریب التہذیب لابن حجر:رقم :۲۳۶۵]
     ثانیاً:
    یہ روایت جن الفاظ کے ساتھ صحیح و ثابت ہے اس میں الفاظ مطلق وعام ہیں جو مدخولہ وغیرمدخولہ دونوں کو شامل ہیں ، اس لیے امام طاؤس عموم و اطلاق سے استدلال کرتے ہوئے بھی غیرمدخولہ کو دی گئی تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ دے سکتے ہیں ، لہٰذا ان کا فتویٰ اس روایت کے الفاظ کی تخصیص و تقیید کی دلیل نہیں بن سکتا۔
    ابن نصرالمروزی کے دعوائے اجماع کا سہارا:
    بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام محمد بن نصرالمروزی نے اس بات پراجماع نقل کیا ہے کہ مدخولہ کو بیک وقت دی گئی تین طلاق تین شمار ہوگی ، لہٰذا اس حدیث کا مفہوم یہی ہوگا کہ اس سے غیرمدخولہ مراد ہے ۔چنانچہ:
    امام محمد بن نصرالمروزی(المتوفی۲۹۴)نے کہا:
    ’’ولا اختلاف بين أَهْل العلم أَنَّهُا إِذَا كانت مدخولا بِهَا فقَالَ لها أَنْتَ طالق أَنْتَ طالق أَنْتَ طالق سكت أَوْ لم يسكت فيما بينهما عنها طالق ثلاثا ‘‘
    ’’اہل علم کے مابین اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کسی کی بیوی مدخولہ ہو اوراس کے شوہر نے اسے’’ تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ‘‘کہہ دے اورجملے کے درمیان رکے یا نہ رکے تو اس کو تین طلاق پڑ جائے گی‘‘
    [اختلاف العلماء للمروزی: ص:۲۴۸]
    عرض ہے کہ:
    اس سلسلے میں عدم اختلاف کا دعویٰ غلط ہے کیونکہ امام محمد بن نصرالمروزی(المتوفی۲۹۴)نے اپنی معلومات کی بناپر ایسا کہا ہے اور انہیں اس مسئلہ میں اختلاف کا علم نہیں ہوسکا ۔اور ان سے پہلے فوت ہونے والے:
    خ امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی۲۵۶)نے باب قائم کیا کہ: باب من أجاز طلاق الثلاث
    جس نے تین طلاق کو واقع قرار دیا اس بارے میں بیان ۔[صحیح البخاری قبل الحدیث :رقم:۵۲۵۹]
    اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے جو احادیث ذکرکی ہیں وہ مدخولہ ہی سے متعلق ہیں۔
    اس بات کی تشریح میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وفي الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجز وقوع الطلاق الثلاث ‘‘
    ’’اس عنوان میں اشارہ ہے کہ سلف میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو تین طلاق کے وقوع کے قائل نہ تھے‘‘
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۳۶۲]
    خنیز محمد بن نصرالمروزی(المتوفی۲۹۴)ہی کے معاصر اور انہیں کے دور کے دوسرے عالم امام طحاوی (المتوفی ۳۲۱)نے اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف نقل کیا ہے اور علماء کی ایک جماعت کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ مدخولہ کودی گئی تین طلاق کو ایک شمار کرتے ہیں ، اور امام طحاوی رحمہ اللہ نے یہ بھی واضح کردیا کہ علماء کی یہ جماعت صحیح مسلم والی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ بات کہتی ہے ، چنانچہ:
    امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ (المتوفی۳۲۱)نے کہا:
    حدثنا روح بن الفرج قال ثنا أحمد بن صالح قال:ثنا عبد الرزاق قال:أخبرنا ابن جريج قال:أخبرني ابن طاوس،عن أبيه،أن أبا الصهباء قال لابن عباس:أتعلم أن الثلاث كانت تجعل واحدة على عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأبي بكر وثلاثا من إمارة عمر؟ قال ابن عباس: نعم ۔ قال أبو جعفر: فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا،فقد وقعت عليها واحدة إذا كانت فى وقت سنة ،وذٰلك أن تكون طاهرا فى غير جماع۔واحتجوا فى ذلك بهذا الحديث
    امام طحاوی اپنی سند سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا:کیا آپ کوعلم ہے کہ عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عمرفاروق رضی اللہ عنہما کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:ہاں!امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے ، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا ، ان لوگوں یہ بات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے ۔
    [شرح معانی الآثار، ت النجار:۳؍۵۵]
    امام طحاوی رحمہ اللہ کے الفاظ ’’اذا كانت فى وقت سنة ،وذٰلك أن تكون طاهرا فى غير جماع ‘‘ (اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا )پرغور کیجئے، یہ الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ امام طحاوی مدخولہ کو دی گئی تین طلاق کے بارے میں بات کررہے ہیں کیونکہ پاکی اور ہمبستر ی سے پہلے کی شرط مدخولہ پر ہی صادق آتی ہے ۔
    ملاحظہ فرمائیں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ کا کلام کس قدر واضح ہے وہ نہ صرف یہ کہ غیر مدخولہ کو دی گئی تین طلاق کو ایک شمار کرنے والا قول ایک جماعت سے نقل کررہے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی صراحت کررہے ہیں کہ اس جماعت نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ہی یہ بات کہی ہے۔
    لہٰذا اس کے مقابلے میں امام محمد بن نصرالمروزی کے کلام کی کوئی اہمیت نہیں ہوسکتی کیونکہ انہوں نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے اپنی بات نہیں کہی ہے نیز ان کا کلام اختلاف سے عدم علم پر مبنی ہے جبکہ امام طحاوی کا کلام اختلاف کے علم پر مبنی ہے ، اور یہ اصول ہے کہ علم والے کی بات عدم علم والے کی بات پرمقدم ہوگی۔
    اس کے علاوہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ گزرچکے ہیں کہ انہوں نے مدخولہ کو دی گئی تین طلاق کو ایک قرار دیا ہے، اس سلسلے میں مزید اقوال کا بیان آگے آرہا ہے۔
    (جاری ہے۔۔۔)

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings