Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • بدعتِ حسنہ کی شرعی حیثیت

    مذہب ِاسلام ایک مکمل دین ہے ،اس میں کسی بھی طرح کی کمی بیشی کی گنجائش موجود نہیں ہے ، مگر دین اسلام میں بدعت ِحسنہ کے نام پر بے شمار قسم کی بدعات وخرافات ایجاد کی گئیں ، جن کا کتاب وسنت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں، جبکہ نبی ﷺ کا بدعت سے متعلق واضح فرمان ہے:
    ’’وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌٌ‘‘
    ’’اور دین میں نئی باتوں (بدعتوں )سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے ‘‘
    [سنن ابن ماجہ:ح: ۴۲،صحیح]
    بدعت کی تعریف:
    اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے اور اس کی عبادت کی غرض سے دین میں کسی ایسی چیز کے ایجاد کرنے کا نام ہے جو کتاب و سنت کے مخالف ہو اور اس کی کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو۔ (دین کامل :مؤلف د؍صالح السحیمی:ص:۱۲۶)
    قارئین کرام ! قابل غور بات یہ ہے کہ جب کتاب و سنت کی روشنی میں صراحتاً ہر بدعت کو ضلالت (گمراہی) کہا گیا ہے تو ہم بدعت کو بدعت ِحسنہ اور سیئہ میں کیسے تقسیم کرسکتے ہیں ۔ حالانکہ حدیث کے واضح الفاظ ہیں ’’كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘جس سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ شریعت میں بدعت ِحسنہ کا کوئی وجود نہیں ہے اور یہاں پر لفظ ’’کُلُّ‘‘ عموم کے لیے ہے، اس عموم سے کوئی بھی چیز خارج نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے لیے تخصیص کی کوئی دلیل نہ ہو۔
    بدعت دراصل اس عظیم نعمت ِالٰہی کی تحقیر و تذلیل اور خانہ ساز شریعت کی تشکیل کا نام ہے جو بطور تکمیل ہم پر کی گئی ہے۔ ایک بدعتی جب کوئی بدعت ایجاد کرتا ہے تو وہ زبانِ قال سے نہ سہی مگر زبانِ حال سے یہی دعویٰ کررہا ہوتا ہے کہ دین ابھی ناقص ہے ۔ اس طرح وہ نبی ﷺ پر الزام لگاتا ہے کہ آپ کو ان ’’بدعاتِ حسنہ ‘‘ کا علم نہیں تھا یا آپ علم نے رکھنے کے باوجود امت کو اس سے آگاہ نہ فرما کر فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں نعوذباللہ خیانت سے کام لیا ہے جبکہ دین مکمل ہوچکاہے ۔ {اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ }’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے‘‘ [المائدہ :۳]
    آئیے چند اہم شکوک و شبہات پر نظر ڈالتے ہیں:
    پہلا شبہ: صحیح مسلم میں نبی ﷺ سے مروی ہے:
     ’’مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَّنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْء ٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَّنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْء ٌ‘‘
    ’’جو شخص اسلام میں اچھی بات نکالے (یعنی عمدہ بات کو جاری کرے جو شریعت کی رو سے ثواب ہے) پھر لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو اس کو اتنا ثواب ہو گا جتنا سب عمل کرنے والوں کو ہو گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی اور جو اسلام میں بری بات نکالے (مثلاً بدعت یا گناہ کی بات) اور لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو تمام عمل کرنے والوں کے برابر گناہ اس پر لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہو گا‘‘
    [صحیح مسلم : ۱۰۱۷]
    پہلے شبہ کا رد: دو لفظوں میں جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں سنت ِحسنہ اور سنت ِسیئہ کا ذکر ہے ، نہ کہ بدعت ِحسنہ اور سیئہ کا۔ لفظِ سنت کا اطلاق لغت میں عادت ، طور طریقہ، اخلاق و کردار، طبیعت و مزاج پر بھی ہوتا ہے۔ یہاں پر سنت ِحسنہ اور سیئہ سے یہی مراد ہے۔مذکورہ حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ آ پ ﷺ نے صدقات کی فضیلت پر خطبہ دیا۔ ایک صحابی درہم ودینار سے بھری ہوئی تھیلی اٹھا کر لائے اور ان کو دیکھ کر دیگر صحابہ نے بھی صدقہ میں حصہ لیا، اس پر آپ ﷺ نے خوش ہوکر کہا: ’’مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً‘‘ الحدیث۔ یہاں پر ’’سَنَّ‘‘ کے لفظ کو اختراع اور ایجاد کے معنی پر محمول کرنا قطعاً درست نہیں ہے کیونکہ عمل کا اچھا یا برا ہونا شریعت کی موافقت یا مخالفت ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔
    قارئین کرام! ذرا آپ ہی بتلائیں ان صحابۂ کرام نے یہاں کون سا نیا کام ایجاد کیا تھا؟ انہوں نے تو اپنے عمل سے صرف ایک ہدایت اور کارِخیر کی طرف لوگوں کو راستہ دکھایا تھا، جس صدقہ کا حکم اسلام پہلے ہی دے چکا تھا ، آپ ﷺ نے اس وقت بھی صدقہ دینے کی ترغیب دلائی تھی۔
    کہتے ہیں : ’’الحديث يفسر بعضه بعضا‘‘ ایک حدیث دوسرے حدیث کی وضاحت کرتی ہے ۔ اسی کے مطابق صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے :
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:’’مَنْ دَعَا إِلَي هُدًي، كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَي ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا‘‘
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کو ہدایت پر چلنے والوں کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کا ثواب کچھ کم نہ ہوگااور جو شخص گمراہی کی طرف بلائے اس کو گناہ پر چلنے والوں کا بھی گناہ ملے گااور چلنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہوگا‘‘
    [صحیح مسلم :۲۶۷۴]
    اس حدیث میں سنت ِحسنہ کے بجائے لفظ’’هُديٰ‘‘ استعمال کیا گیا ہے، جس سے مراد ہدایت ِربانی اور سنت ِنبوی کا احیاء ہے نہ کہ کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے کیونکہ نئی چیز کے ایجاد کا نام ہی تو’’ بدعت ‘‘ہے اور اگر بالفرض مذکورہ حدیث سے بدعت ِحسنہ اور سیئہ کی تقسیم درست مان لی جائے تب بھی یہ حدیث ان احادیت سے متعارض ہوگی جس میں بدعت کی عمومی مذمت کی گئی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جب عموم اور تخصیص کے دلائل باہم متعارض ہوں تو تخصیص ناقابل قبول ہوگی اور توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ کسی چیز کا حسن و قباحت کا دارومدار شریعت پر ہے ۔ اہل سنت و الجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تحسین و تقبیح شرع کے ساتھ خاص ہے ۔(بدعت کی حقیقت ،شمیم احمد سلفی:ص:۳۶۰۰)
    لہٰذاسنت ِحسنہ کا اطلاق یہاں پر صدقۂ مشروعہ پر ہوگا اور سنت ِسیئہ کا اطلاق معصیت پر ہوگا جس کا معصیت ہونا شرعاً ثابت ہو ۔جیسے قتل وغیرہ ۔ اور اسی طرح اس کا اطلاق بدعت پر بھی ہوگا کیونکہ شرعاً اس کی مذمت ثابت ہے ، ایسی صورت میں ’’سنت ِحسنہ‘‘ والی حدیث خود اہل بدعت کے خلاف حجت ہے ۔
    دوسرا شبہ : عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’فَمَا رَأَي الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ حَسَن‘‘ ’’لہٰذا مسلمان (صحابۂ کرام) جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہے‘‘[مسند احمد: ۳۶۰۰]
    رد: جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔ دراصل اس روایت کی پوری عبارت نقل نہیں کی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے عبارت یہ ہے:
     ’’ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَائَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلٰي دِينِهِ، فَمَا رَأَي الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ سَيِّئٌ‘‘
    ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی محمد ﷺ کے دل کے بعد ،تو صحابۂ کرام کے دلوں کو دوسرے بندوں کے دلوں سے بہتر پایا ،ان کو اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور دین کی نصرت کے لیے پسند کرلیا، لہٰذا مسلمان (صحابۂ کرام) جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جسے وہ برا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری چیز ہے ‘‘
    [مسند احمد:۳۶۰۰]
    پہلے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صحابۂ کرام کا ذکر فرماتے ہیں پھر انہی کو ’’المسلمون‘‘ سے تعبیر کررہے ہیں یعنی جس فعل کو تمام صحابۂ کرام اچھا سمجھیں وہ فعل اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اگر پس ِمنظر کو اس قول سے الگ کرلیں پھر بھی ’’المسلمون‘‘ میںالف لام استغراق کے لیے ہے، تب اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ تمام مسلمان جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔ اس سے مراد اجماعِ امت ہے نہ کہ مختلف فیہ آراء و اقوال۔
    دوسری بات یہ ہے کہ ایک صحابی کے قول کو قول رسول ﷺ کے مقابلہ میں پیش کرنا اور معارضہ کرنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حج ِتمتع کے سلسلہ میں کچھ لوگوں نے گفتگو کی ،عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں اس کو صحیح قرارا دیا ۔تو لوگوں نے کہا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس سے روکتے تھے ۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء ۔أقول: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وتقولون: قال أبو بكر وعمر‘‘ ’’ڈرلگتا ہے کہ آسمان سے تم پر پتھروں کی بارش ہونے لگے ،میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا اور تم کہتے ہو ابوبکر اور عمر نے ویسا کہا ‘‘ [تیسیر العزیز الحمید فی شرح کتاب التوحید مؤلف سلیمان بن عبد اللّٰہ :ص:۵۴۴]
    تیسرا شبہ: عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورخلافت میں جمعہ کے روز ایک اور اذان کا اضافہ کیا ۔
    رد: حضرت سائب بن یزید کہتے تھے:’’جمعہ کی پہلی اذان نبی ﷺ کے زمانہ میں اس وقت ہوتی جب امام (خطبہ کے لیے ) منبر پر بیٹھتا، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا، جب عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور نمازی بہت بڑھ گئے تو انہوں نے دوسری اذان کا حکم دیا وہ ’’زوراء‘‘پر دی گئی پھر یہی دستورقائم رہا۔
    [فتح الباری فی شرح صحیح البخاری:کتاب الجمعۃ:باب المؤذن الواحد یوم الجمعۃ:ص:۳۹۵]
    مصنف عبد الرزاق میں ابن جریج سے روایت ہے کہ ’’سلیمان بن موسیٰ نے کہا مدینہ میں سب سے پہلے جس نے اذان کا اضافہ کیا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت عطاء نے کہاوہ اذان ہر گز نہیں تھی وہ صرف ایک بلاوا تھا، اس سے لوگوں کو بلاتے تھے اور اذان ایک کے سوا دوسری نہیں ہوتی تھی۔ حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اذان صرف پہلی ہے جو امام کے نکلنے کے وقت دی جاتی تھی اور جو اس سے پہلے دی جاتی تھی وہ بدعت ہے ۔ اور اسی طرح عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک روایت میں کہا ہے جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے ۔[مصنف عبد الرزاق صنعانی: کتاب الجمعۃ:باب الاذان یوم الجمعۃ:ح:۵۳۳۹]
    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری حکومت میں دوسری اذان جاری نہیں کی بلکہ جب مدینہ میں لوگوں کی کثرت ہوگئی ،آبادی میں اضافہ ہوگیا ،مسجد کی اذان کی آواز کا بازار میں لوگوں تک پہنچنا مشکل ہوگیا، اس دور میں آج کی طرح لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کا وجود نہیں تھا ، اس لیے آ پ نے انہیں جمعہ کا وقت معلوم کرانے کے لیے یہ بلاوا(اذان) شروع کرایا تھا، حالانکہ ان کی حکومت سمر قند سے تاشقند تک پھیلی ہوئی تھی پھر بھی اپنی پوری حکومت میں دوسری اذان کا حکم جاری نہیں کیا بلکہ ان کے بہت بعد حجاج بن یوسف نے مکہ مکرمہ میں دوسری اذان کا حکم دیا ۔
    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دوسری اذان کو مسجد کے اندر نہیں بلکہ مسجد کے باہر مقام زوراء پر مقرر کیا۔ ان کے آٹھ سال بعد خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے اس دوسری اذان کو مسجد کے اندر دلانا شروع کردیا۔(حدیث خیر وشر :مصنف عبد المتین میمن جونا گڑھی رحمہ اللہ :ص:۱۲۶)
    آج لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کی ایجاد نے دور حاضر میں اس ضرورت کو پورا کردیا ہے ۔ اس لیے اب دوسری اذان کی ضرورت نہ رہی ۔ صر ف خطبہ کے وقت کی پہلی اذان کافی ہے ۔
    دوسری طرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دوسری اذان کا اضافہ بھی بدعتِ حسنہ کے لیے دلیل نہیں بن سکتا،اس لیے کہ عثمان خلیفۂ راشد ہیں اور خلفاء راشدین کے افعال ،بدعات ہر گز نہیں ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی سنت کے ساتھ ان کی بھی سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے ۔
    ’’فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ‘‘
    ’’تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا‘‘
    [سنن ابی داؤد:۴۶۰۷]
    آپ ﷺ نے’’سنة الخلفاء الراشدين‘‘ کہا نہ کہ ’’بدعة الخلفاء الراشدين‘‘ کہا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اعمال بدعت نہیں بلکہ سنت اور قابل ِاتباع ہیں۔ ان کے علاوہ کسی اور کے عمل کو آپ ﷺ نے سنت کا درجہ نہیں دیا کہ اسے اختیارکیا جائے۔
    چوتھا شبہ:  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنے کا مشورہ دیا تو فرمایا تھا ’’نعم البدعة هذه‘‘ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے ‘‘۔
    رد: امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ کہ اکثر و بیشتر جہاں بھی عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اقوال میں بدعت کو ’’بدعت ِحسنہ‘‘ کا نام دیا ہے دراصل اس سے مراد لغوی بدعت ہے نہ کہ شرعی بدعت۔ یہی وجہ ہے کہ بدعت لغت میں ہر اس چیز کو شامل ہے جس کو بلاکسی سابقہ مثال کے وجود میں لایا جائے اوررہی بات بدعت ِشرعیہ کی تو وہ بدعت ہے جس پر شرعی دلیل دلالت نہیں کرتی ہے‘‘۔
    [اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ:ص:۲۷۶]
    امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر ان کے موافقین نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ’’نعم البدعۃ ھذہ‘‘ اس قول کے بعد حجت قائم کی ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی سے بدعت کی تقسیم بدعت محمودہ اور بدعت مذمومہ کے اعتبار سے کیا ہے۔ مزید اس پر اس طرح سے توضیح فرماتے ہیں کہ بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو۔ اوربدعت مذمومہ وہ بدعت ہے جو اس کے برعکس ہو۔
    [کتاب الباعث علی انکار البدع والحوادث، ابو شامۃ شھاب الدین:ص:۹۳]
    امام شافعی رحمہ اللہ کا بدعت کی اس تقسیم میں کتاب و سنت کی مخالفت و مطابقت کی شرط لگانااس بات کی واضح دلیل ہے کہ’’نعم البدعة هذه‘‘ سے مراد لغوی بدعت ہے نہ کہ اصطلاحی ۔ کیونکہ اگر اس سے مراد شرعی بدعت ہو تی تو کتاب و سنت کے مطابق و مخالف ہونے کی تقیید نہ کرتے ۔
    اور تروایح کا جماعت کے ساتھ پڑھنا بدعت نہیں ہے ۔ خود نبی ﷺ کے دور میں نماز تراویح جماعت کے ساتھ کچھ دنوں تک پڑھی گئی ہے ، لیکن جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی اور آپ ﷺ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں تراویح کو فرض نہ کردیا جائے تو آپ نے جماعت سے اہتمام کو روک دیا۔لیکن آپ ﷺ کی وفات کے بعد وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے فرضیت کا اندیشہ جب ختم ہوگیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ اگر مسجد میں متفرق لوگوں کو ایک قاری اورایک امام کے پیچھے جمع کردیا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔ تب جا کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سنت کو دوبارہ زندہ کیا اور صحابۂ کرام کا اس پر اجماع ہوگیا۔
    [البدع ومضارھا۔مؤلف عبد الھادی بن عبد الخالق:ص:۲۲]
    مزید اس کی وضاحت علامہ البانی رحمہ اللہ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بدعت کا شرعی معنی مراد نہیں لیا ہے ، انہو ںنے دین میں کوئی نئی چیز ،بدعت ایجاد نہیں کیا بلکہ ایک سنت کو زندہ کیا ہے ۔ ان کے یہاں بدعت سے لغوی بدعت مراد تھی۔
    [صلوٰۃ التراویح ،لعلامۃ ناصرالدین الالبانی رحمہ اللّٰہ:ص:۵۰تا۵۱]
    امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے تراویح سے متعلق سوال کیا ،تو انہوں نے جواب دیا کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے اسے ایجاد نہیں کیا ، جو انہوں نے اسے جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا وہ اسی اصل سے ہے جو ان کے پاس رسول ﷺ کی طرف سے تھی۔ اس تراویح کو باجماعت صحابۂ کرام نے پڑھا ہے ۔ ان میں سے حضرت عثمان ،زبیر، معاذ رضی اللہ عنہم ہیں۔(حدیث خیر و شر:مؤلف عبد المتین میمن جونا گڑھی رحمہ اللہ:ص:۱۵۹ تا ۱۶۰)
    پانچواں شبہ:  قرآن مجید میں زبر، زیر،پیش پہلے نہیں تھا اب اسے لگایا گیا ۔ اس لیے یہ بھی اچھی بدعت ہے ۔
    رد: یہ سوچ انتہائی خوفناک ہے کہ قرآن میں پہلے زبر ،زیر نہیں تھا۔ سچ یہ ہے کہ قرآن میں زبر ،زیر تب سے ہے جب سے قرآن ہے ۔ البتہ اسے لکھا بعد میں گیا ہے ۔زبر ،زیرلکھنے سے پہلے قرآن کا جو تلفظ تھا وہی تلفظ اب بھی ہے ۔ اس پر پوری امت کا اجماع ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ’’الحمد‘‘ میں ’’ح ‘‘پر جب زبر نہیں لکھا تھا تب اسے کیسے پڑھا گیا؟ ظاہر ہے اعراب لگانے سے پہلے جیسے اسے پڑھا جارہا تھا بعد میں بھی اسی طرح پڑھا جا رہا ہے۔
    اور آج بھی اہل عرب اور جوعربی زبان جانتے ہیں وہ بغیر زبر،زیر کے قرآن آسانی سے پڑھ لیتے ہیں، انہیں اعراب کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔زبر ،زیراس لیے لگایا گیا تاکہ جو لوگ عربی زبان نہیں جانتے ہیں وہ پڑھنے میں غلطی نہ کریں۔ پورا قرآن مجید بھی نبی ﷺ کے دور میں موجود نہیں تھا، بعد میں صحابۂ کرام نے اسے لکھا۔لہٰذا کسی چیز کے لکھنے سے جو پہلے سے پڑھی جاتی ہو بدعت نہیں ہو سکتی ہے ۔
    بدعت حسنہ کا قلع قمع:
    حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے :
     ’’ أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَي جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَال: الحَمْدُ لِلّٰهِ، وَالسَّلَامُ عَلٰي رَسُولِ اللّٰهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَأَنَا أَقُولُ: الحَمْدُ لِلّٰهِ وَالسَّلَامُ عَلٰي رَسُولِ اللّٰهِ، وَلَيْسَ هٰكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ: الحَمْدُ لِلّٰهِ عَلٰي كُلِّ حَالٍ‘‘
    ’کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا ’’الحَمْدُ لِلّٰهِ، وَالسَّلَامُ عَلٰي رَسُولِ اللّٰه‘‘ِ یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ ﷺ پر۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کہنے کو تو میں بھی ’’الحَمْدُ لِلّٰهِ، وَالسَّلَامُ عَلٰي رَسُولِ اللّٰه‘‘ِ کہہ سکتا ہوں لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم ’’الحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ‘‘ ہر حال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، کہیں ۔
    [سنن الترمذی:۲۷۳۸]
    حالانکہ دیکھا جائے اس شخص نے صرف چھینک آنے پر ’’الحمد للہ‘‘ کے ساتھ نبی ﷺ پر درود بھیجا تھا، جو کہ ثواب کا کام ہے مگر وہ طریقہ نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روک دیا ۔
    قارئین کرام! دین اسلام میں حسنہ اور سیئہ، دین میں اچھی اور بری چیز طے کرنے کا حق صرف اللہ رب العالمین کو ہے ۔وہ شریعت ساز ہے۔ کسی بھی انسان کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے فیصلہ کرے کہ دین اسلام کے لئے کیا چیز اچھی ہے پھر بھی اگر کوئی شخص بدعت ِحسنہ کے نام پر دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرتا ہے تو وہ بدعت ہے قابل مردود ہے۔ ’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ‘‘ ’’جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میںسے نہیں ہے وہ مردود عمل ہے ‘‘[صحیح البخاری:۲۶۹۷]اس پر مستزاد یہ اعتراض کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ٹرین اور ہوئی جہاز پر سفر کیوں کی جاتی ہے ؟ ACکیوں استعمال کیا جاتا ہے ؟یہ تمام چیزیں نبی ﷺ کے دور میں نہیں تھیں،صحابۂ کرام تک نے استعمال نہیں کیا ۔
    انہیں معلوم ہونا چاہئے دین اسلام میں نئی چیز کو ایجاد کرنے پر بدعت کہاگیا ہے،ٹرین وغیرہ یہ تمام چیزیں مادی ہیں، دنیوی ہیں ،اللہ تعالیٰ نے کہا: {اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ }’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے‘‘[المائدہ:۳] اب اس میں بدعت کی ،کسی اضافہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ اور مادی ایجادات سے استفادہ بالکل کیا جا سکتا ہے ۔
    لہٰذا بدعتِ حسنہ اور سیئہ کے اعتبار سے بدعت کی شرعی تقسیم درست نہیں ہے ۔ اس پر کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں ہے ۔ دین کامل ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings