-
حج عبادت سے سیاحت تک حج اسلام کا عظیم رکن اور غیرمعمولی عمل ہے۔فضیلت،ثواب،نیکی سے قطعِ نظر یہ ایک تاثیر،تحریک، انقلاب اور تبدیلی کا نسخۂ کیمیا ہے،اگرانسان اخلاص و للہیت کے جذبے سے سرشار ہوکر آگے بڑھے تو اس عمل کے اثرات انسانی زندگی پر ضرور پڑیں گے،غور کیجیے اِس عبادت کے لیے اُس دیار مقدس پر قدم رنجہ ہونا پڑتا ہے جہاں قدم قدم پر توحید کا چشمہ ابلتا ہے،جہاں ایمان کی بادِ بہاری چلتی ہے،جہاں نورِہدایت کی ضیاپاش کرنیں ظلمتوں سے نبرد آزما ہوتی ہیں،ہر ایک نقش سے جلوۂ عزیمت جھانک رہا ہوتا ہے،ہر ایک گلی میں بیتے گداز لمحوں کی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے۔
اِسی سرزمین پر اُس تحریک کا آغاز ہوا جس نے مشرق و مغرب میں زندگی کا نقشہ بدل دیا،کفر کے چولوں کو ہلا دیا،اس سرزمین پر پہنچنے کے بعد ایک مسلمان کے سامنے ماضی بعید کی ایک ایک تصویر لہرا رہی ہوتی ہے،تاریخ کا ایک ایک جاوداں کردار ڈوب اور ابھررہا ہوتا ہے،ایک سے بڑھ کر ایک روح پرور منظر ذہن کی اسکرین پر مچل رہا ہوتا ہے،ایک خوشبو سی دل وروح میں اترتی محسوس ہوتی ہے،ایک جذبۂ انقلاب کروٹیں لیتا ہے،لیکن یکلخت جوش بیٹھ سا جاتا ہے، رفتار تھم سی جاتی ہے کیونکہ رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی،المیہ یہ ہے کہ حج انسانی زندگی میں ایک بے روح عمل بن کر رہ گیا ہے،عبادت ایک کھوکھلی رسم کی شکل اختیار کرچکی ہے،حج مسلسل ہورہا ہے لیکن وہ زیریں لہریں نہیں رہ گئیں جو خاموش سطح پر ہلچل پیدا کرتی تھیں،جو انقلاب کی جوت جگاتی تھیں،جو بپھری موجوں کے رخ تبدیل کردیا کرتی تھیں، آج اس کے خوشگوار ثمرات و برکات سے انسانیت محروم ہے،اس کے غیر معمولی انقلابی مہمات سے روح نا آشنا ہے،وہ دینی تڑپ،وہ متحرک جذبہ اوروہ درد آشنا دل جس کی آنکھیں منتظر ہوتی ہیں وہ دور دور تک ناپید ہوتا جارہا ہے۔
جانتے ہیں ایسا کیوں ہے؟اس لیے کہ حج کا عمل ان مفاسد کی نذر ہوجاتا ہے جو عمل وعبادت کے لیے زہر ہلاہل ہیں،حج خود حج سے محروم ہوتا جارہا ہے،جذبۂ نمائش عبادت کی روح کو میلا کر دیتا ہے،اول روز سے عازمِ حج عمل کی قبولیت سے زیادہ اس کی نمائش کے لیے فکر مند ہوتا ہے،عبادت کی تشہیر کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا ہے،جابجا لوگوں کو اپنے سفر اور روانگی کے بارے میں بتاتا پھرتا ہے،فون کے ذریعے اطلاعات دیتا ہے،سوشل میڈیا پرا سٹیٹس اپلوڈ کرتا ہے،حج پر روانگی سے پہلے شاندار دعوتیں کی جاتی ہیں،لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے،پھر روانگی کو بھی یادگار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے،قافلے کے ساتھ ائیر پورٹ تک کا سفر کیا جاتا ہے،ایک جم غفیر گرد وپیش میں منڈلا رہا ہوتا ہے، ائیر پورٹ پر تصویریں لے کر سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی ہیں،ایک عجیب ساجوش وخروش دل ودماغ پر سوار ہوتا ہے،لاکھوں روپے داؤ پر لگا کر کیے جانے والے عمل کی اپنے ہاتھوں درگت بنائی جاتی ہے،ریا و نمود کا داعیہ پورے اعصاب پر سوار ہوتا ہے،خودنمائی کا آسیب حواس کو مختل کردیتا ہے،یہی جذبۂ نمائش سفر کرکے جب مکہ پہنچ جاتا ہے تو ایمان بڑھے نہ بڑھے شوق ریا بلیوں اچھلنے لگتا ہے،موبائل اس داعیے کا بھرپور ساتھ دیتا ہے،احرام،طواف،حجر ِاسود ،منیٰ،مزدلفہ ، قربانی اور حلق کی یادگاریں موبائل میں قید ہوجاتی ہیں،پل پل کو فلمایا جاتا ہے،حج سے فراغت کے بعد شوق عبادت پر شوق تفریح بازی لے جاتا ہے۔
ایک ہزار رکعت والی مسجد پر ریستورانوں اور تفریح گاہوں کو ترجیح دی جاتی ہے،تحائف کی تشنہ تکمیل فہرست کھلنا چاہتی ہے،شاپنگ سینٹروں کی چمک دمک پر دل لٹو ہوجاتا ہے،خریداری کا معرکہ ایک دن میں سر نہیں ہوپاتا ہے تو فرصت کے لمحوں کو شاپنگ پر قربان کردیا جاتا ہے،گھر پر تیار کی ہوئی تحائف کی فہرست تب جاکر پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے اور دل کو قرار آتا ہے،خانۂ کعبہ سے آخرت شعار بن کر لوٹنے والا حاجی مزید دنیا شعار بن کر واپس آتا ہے،اس کی دینی اسپرٹ جوں کی توں رہتی ہے،اس کی روحانی امنگوں کا ظرف خالی کا خالی رہ جاتا ہے،عبادت ایک ٹور بن کر رہ گئی،’’فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَي‘‘کی بازیابی نہیں ہوپاتی ہے،روح پر چھائی پژمردگی تازگی میں تبدیل نہیں ہوتی، جذبۂ عمل انگڑائی نہیں لیتا ہے،ایمان کی بشاشت کو نفوذ کی راہ نہیں ملتی ہے،ائیر پورٹ پر پہنچتے ہی’’حاجی صاحب‘‘کا خطاب ان کی شخصیت پر پرنٹ ہوجاتا ہے،دعوت ناموں اور شادی کارڈز پر نام کے ساتھ الحاج کا لاحقہ ان پر نشہ طاری کردیتا ہے،کبھی کبھی کمزور دل والے حاجی صاحب خطاب نہ لکھے جانے پر ناراض سے ہوجاتے ہیں،کہتے ہیں کہ نام ادھورا ہی لکھاہے، ان چونچلوں نے جب سے عمل حج میں قدم رکھا ہے،تمام برکات و ثمرات منظر سے ایسے غائب ہوچکے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ…حج ایک دینی سیاحت بن کر تقویٰ،خشیت،اخلاص،انابت،رجوع الی اللہ سے ناطہ توڑچکی ہے،تبھی تو فسق و فجور عود کرآتے ہیں،چلت پھرت،نششت وبرخاست،حرکات و سکنات سے کوئی متقیانہ لہر نہیں اٹھتی،گفتگو میں احتسابِ آخرت کی حرارت محسوس نہیں ہوتی،تجارت میں بے اعتدالی پھر شروع ہوجاتی ہے، بیٹے کی شادی کے لیے جہیز و ڈیمانڈ میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے،حرص وہوس کی آگ دھیمی پڑنے کی بجائے اور بھڑک اٹھتی ہے،حج و رمضان کی ہمیشہ کے لیے یہی کہانی ہو گئی ہے،زندگی عبادت کے ظاہری رشتے سے آگے نہیں بڑھ پاتی ہے،اس ظاہری سطح سے آگے بڑھو تو صرف خلا اور دھند نظر آتا ہے،اس لیے اب رہی سہی امید بھی مایوسی کے قبر میں اتررہی ہے،اللہ امت کو عقل سلیم اور جذبۂ مستقیم عطا فرمائے ۔آمین
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل ، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں ،تو باقی نہیں ہے