Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • موسم سرما اور غور وفکر کے چند پہلو

    موسموں کی تبدیلی، شب وروز کا اختلاف ،گرمی وسردی کی آمد ، مہینوں اور سالوں کی تبدیلی اور دھوپ وسائے کا اپنے اپنے وقت پر آنا یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ،ربوبیت وقیومیت پر دلالت کرتی ہیں اور اس کی عظمت وکمالِ تدبیر نیز عبادت میں اکیلا اور تنہا ہونے پر دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    {وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوَاتِ وَلْأَرْضِ وَللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ۔ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمٰـٰواتِ وَالْأَرْضِ وَخْتِلٰفِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَـَايَـٰت لِّأُولِي الْأَلْبَـٰبِ}
    ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘
    [آل عمران:۱۸۹۔۱۹۰]
    {وَفِي الْأَرْضِ آيٰتُ لِّلْمُوقِنِينَ ۔وَفِيٓ أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ۔ وَفِي السَّمَآئِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ}
    ’’اور یقین والوں کے لیے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں،اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو،اور آسمان میں تمہاری روزی ہے اور وہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیاہے ‘‘
    [الذاریات:۲۰۔۲۲]
    {أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَـٰوَٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِن شَيْئٍ وَأَنْ عَسَيٰٓ أَن يَّكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيْثٍِ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ}
    ’’اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کی ہیں اور اس بات میں کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آن پہنچی ہو، پھر قرآن کے بعد کون سی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے‘‘
    [الاعراف:۱۸۵]
    علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: غور کرو اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ پر یعنی گرمی وسردی کے موسم کے بارے میں کہ یکے بعد دیگرے کیسے ایک موسم ختم ہوتا ہے اور دوسرا آتا ہے ، جانداروچوپایوں و نباتات کے لیے یہ طریقہ کتنا مفید ہے،کیسے بالتدریج اور مہلت کے ساتھ ایک دوسرے کی ابتداء وانتہاء ہوتی ہے ۔ اگر اچانک موسم سرما آجائے یا اچانک گرمی کا زمانہ شروع ہوجائے تو انسان کا کیا حال ہوگا ۔ انسان کے جسم کو بیماری لاحق ہوجائے گی اور نباتات ہلاک وبرباد ہوجائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی حکمت اوراحسان ورحم وکرم ہے کہ تدریجا ًایک دوسرے کو لاتا ہے ۔ بحوالہ : [مفتاح دار السعادۃ:۲؍۶۱۰]
    محترم قارئین! موسم کے تغیر اور دن ورات کی آمد کواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تدریجی نظام کے ساتھ جوڑا ہے اور اس کا وقت متعین کر رکھا ہے،اندازہ کیجئے اگر اچانک رات آ جائے یا گرمی وسردی بغیر اطلاع کے آن پڑے اور پہلے ہی دن سے کڑاکے کی سردی پڑنے لگے یا اول دن سے لو کے تھپیڑوں کا سامنا ہونے لگے تو ظاہر ہے بغیر انتظامات کے انسان کی کیا گت بنے گی ؟
    موسم کی تبدیلی ہی سے غلوں اور پھلوں کے پکنے ، نباتات و جمادات کی نشو ونماکا تعلق ہے اور بہت سی تجارتیں اور بزنس ( Business ) صرف موسم کی بنیاد پرچلتے ہیں ،قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے :
    {لِإِيلٰفِ قُرَيْش۔إِلٰـفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآء ِ وَالصَّيْفِ۔ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ۔ الَّذِيٓ أَطْعَمَهُم مِّن جُوع۔ وَئَ امَنَهُم مِّنْ خَوْف}
    ’’قریش کے مانوس کرنے کے لیے،یعنی انہیں سردی اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے لیے۔پس انہیں چاہیے کہ اسی گھر کے رب کی عبادت کرتے رہیں۔جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور ڈر (اور خوف) میں امن و امان دیا ‘‘
    [قریش:۱۔۴]
    موسم کے تغیر کے لحاظ سے اللہ نے اس کے شایان شان لباس اور دیگر انتظامات کئے ہیں، یہ سب اللہ کی ایسی بیش قیمت نعمتیں ہیں جو انسان کو خالق و مالک کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور اس کی ہدایت کا سامان بھی کرتی ہیں ، اللہ نے اس احسان کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا:
    {خَلَقَ الْإِنسٰنَ مِن نُّطْفَة فَإِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِين۔ وَالْأَنْعَـٰمَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْئٌ وَمَنٰٰفِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُون}
    ’’اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا،اسی نے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لیے گرم لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں‘‘
    [النحل:۴۔۵]
    {وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُم مِّن بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَّجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِا لْأَنْعٰمِ بُيُوتاً تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَآ أَثٰثاً وَّمَتٰعًا إِلٰي حِين}
    ’’اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے گھروں میں سکونت کی جگہ بنا دی ہے اور اسی نے تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں کے گھر بنا دیئے ہیں، جنہیں تم ہلکا پھلکا پاتے ہو اپنے کوچ کے دن اور اپنے ٹھہرنے کے دن بھی،اور ان کی اون اور روؤں اور بالوں سے بھی اس نے بہت سے سامان اور ایک وقت مقررہ تک کے لیے فائدہ کی چیزیں بنائیں‘‘
    [النحل: ۸۰]
    {وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَأْسَكُمْ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ}
    ’’اور اسی نے تمہارے لیے کرتے بنائے ہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسے کرتے بھی جو تمہیں لڑائی کے وقت کام آئیں وہ اس طرح اپنی پوری پوری نعمتیں دے رہا ہے کہ تم حکم بردار بن جاؤ‘‘
    [النحل:۸۱]
    محترم قارئین ! زمانے کے تغیرات اوررات و دن کا گزرنا جہاں ایک مومن ومتقی مسلمان کو فرحت وتازگی ونشاط عطا کرتا ہے تووہیں اس کو اس فکر میں بھی مبتلا کر دیتاہے کہ زندگی کے ایام کم ہور ہے ہیں، موت کی گھڑیاں قریب ہورہی ہیں ،گرمی یا سردی کی آمد اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ زندگی کا اور ایک سال کم ہوگیا ، پچھلے دنوں توشۂ آخرت تو کچھ تیار نہ ہوسکا۔ مزید یہ کہ گناہوں کا ایک بھاری بوجھ لد گیا ۔
    کڑاکے کی سردی جب آتی ہے یا جب لُو کے تھپیڑے چلتے ہیں تو جنت و جہنم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
    جیسا کہ حدیث ہے :
    ’’اِشْتَكَتِ النَّارُ إلٰي رَبِّهَا، فَقالَتْ: يا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فأذِنَ لَهَا بنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَائِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهْوَ أَشَدُّ ما تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ ما تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ‘‘
    ’’ جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب ! میرے بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی ایک ٹھنڈی میں اور ایک گرمی میں ، تم انتہائی گرمی اور سردی جو محسوس کرتے ہو اسی کی وجہ سے ہے‘‘
    [صحیح بخاری:۳۲۶۰،صحیح مسلم:۶۱۷]
    جاڑے کے ایام یا موسم سرما مومن کے لیے ایک نعمت ہے ۔ ایام شتاء غنیمت کے اوقات ہیں ،دن مختصر اور رات لمبی، قیام اللیل میں مزہ اور صوم نہار میں کیا ہی لذت ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف اس موسم کا استغلال کرتے تھے ، جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’الشتاء غنيمة العابدين ‘‘’’موسم سرما عبادت گزاروں کے لیے بہار کازمانہ ہے ‘‘یعنی موسم سرما عبادت گزار بندوں کے لیے بڑے ہی غنیمت کے اوقات ہیں ، وہ عبادت کا لطف موسم سرما میں لیتے ہیں یعنی موسم سرما کو غنیمت جانتے ہیں ۔
    بحوالہ:[ مصنف ابن ابی شیبہ :۹۸۳۵]
    ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے:
    ’’مرحبا بالشتاء تنزل فيه البركة ،ويطول فيه الليل للقيام ،ويقصر فيه النهار للصوم‘‘
    ’’خوش آمدید ٹھنڈک کا زمانہ ! اس موسم میں برکتوں کا نزول ہوتا ہے ،رات لمبی ہوتی ہے قیام اللیل کے لیے ،اور دن چھوٹا ہوتا ہے روزہ رکھنے کے لیے ‘‘
    [لطائف المعارف لإبن رحبَ:۳۲۷]
    ابن ابی الدنیا نے ’’المحتضرین ‘‘میں ایک واقعہ ذکر کیا ہے :کہ عامر بن عبداللہ رحمہ اللہ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو عامر بن عبداللہ رونے لگے ،کسی نے رونے کا سبب پوچھا تو جواب دیا کہ میں موت سے ڈر کر نہیں رو رہا ہوں اور نا دنیا چھوڑنے کے فراق میں رو رہا ہوں بلکہ میں رو رہا ہوں کہ گرمی کے موسم میں روزہ رکھنے اور شتاء یعنی جاڑے کے موسم میں قیام اللیل سے محروم ہورہا ہوں ۔ بحوالہ:[ المحتضرین لإبن أبی الدنیا :۱۷۸]
    سردی یا گرمی کے موسم ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب سخت گرمی یا سردی ہوتی ہے توانسان کوجنت کی آرائش وجہنم کی سختیوں کو ،قبر کی تنگی وظلمت کو اور میدان محشر کے دھوپ وپسینہ کو یاد کرناچاہئے ۔
    گرمی وسردی کا موسم ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ انسان کی حالت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، حالات میں اتار چڑھاؤ اور نرم گرم ہوتا رہتا ہے ۔ اور یہ کہ ظالم کو بقاء نہیں جس طرح کہ گرمی کے ایام چاہے کتنا ہی زیادہ ہو یا ٹھنڈک کی راتیں کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہوں صبح تو نمودار ہوکے رہے گی ۔ سورج کی شعائیں پوری دنیا کو روشن کردیں گی ، اسی طرح ظلم وستم کے ایام اور تلخیاں کتنے ہی دیرپا کیوں نہ ہوں انحطاط و زوال مقدر ہے ۔
    موسم سرما ہمیں سبق دیتاہے کہ ہم ٹھنڈک سے بچنے کے لیے جس طرح گرم وموٹے لباس، جیکیٹ اورسوئٹر وغیرہ خریدتے ہیں تاکہ ٹھنڈک سے محفوظ رہیں خود بھی اور اپنے رشتے دار اور اہل وعیال بھی۔ اسی طرح ہمیں جہنم کی عذاب جو ٹھنڈک کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے۔ تو جہنم کی ٹھنڈک سے اپنے آپ کواور بچوں کو بچانے کی فکر کریں ۔
    اسی طرح ہم فقراء غرباء ومساکین اور بیواؤںویتیموں کو بھی ٹھنڈک سے محفوظ رکھنے کے لیے مدد کریں ۔ صدقہ وخیرات کریں اور انہیں بھی راحت پہنچائیں۔
    موسم سرما میں ہماری شریعت کی رہنمائی :
    دین اسلام دین یسر وسماحت ہے ،سہل و آسان اور تطبیقی دین ہے ، ہر طرح کی رہنمائی اس دین میں موجود ہے ، آئیے ذیل کے سطور میں ہم موسم سرما کے کچھ احکام ومسائل کا ذکر کرتے ہیں :
    ۱ ۔’’ اسباغ الوضوء‘‘ یعنی مکمل طورپر وضوکرنا ۔ کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے نفس کو خطرہ میں ڈالے اور نہ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے آپ کو مشقت وپریشانی میں ڈالے مثلاً موسم سرما میں ٹھنڈے پانی سے وضو کا قصد کرنا زیادہ نیکی وثواب کی نیت سے ۔ جبکہ سخت ٹھنڈ کا زمانہ ہے ،ٹھنڈ پانی کے استعمال سے وہ بیمار پڑ سکتا ہے مرض لاحق ہوسکتا ہے ۔بلکہ یہ غلو وتعنت ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ گرم پانی ٹھنڈ پانی کے جیسا ہے طاہر ومطہر کا وصف ان میں موجود ہے ۔ جیسا ابن المنذرنے(الاوسط لابن المنذر:۱؍۲۵۰) میں ذکر کیا ہے ۔بلکہ پانی کو گرم کرکے استعمال کرنا زیادہ افضل ہے اس لیے کہ اس سے اسباغ وضووتدلیک اعضاء وغیرہ کے لیے آسانی ہے اور کمال طہارت بھی ہے ۔
    ۲۔ اگر شدید ٹھنڈک ہو تو وضو وغسل جنابت کے بدلے تیمم کرنا جائز ہے ۔ لیکن یاد رہے کہ مجرد موسم سرما کے آمد سے ہی تیمم کرنا جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
    ’’وان خافَ مِن شدة البرد، وأمكنه أن يُسَخَّنَ الماء ، أو يستعمله على وجه يأمن الضرر، مثل أن يَغْسِل عُضوًا عضوًا، وكلما غسل شيئًا ستره؛ لَزِمَه ذلك. وإن لم يقدر، تيمم وصلي فى قول أكثر أهل العلم‘‘
    ’’اگر شدت برد (ٹھنڈک )کا خوف ہو اور اس کے لیے ممکن ہو کہ پانی گرم کرسکے ،یا یہ کہ ٹھنڈ پانی سے اس طور پر وضو کرے کہ اسے ضرر لاحق نہ ہو مثلاً ایک عضوکو دھوئے اور اس کو ڈھانپ دے تو اسے ایسا کرنا ضرور چاہئے ،اگر اسے ان کی طاقت نہ ہو تو تیمم کرکے نماز پڑھے یہی اکثر اہل علم کا قول ہے ‘‘
    [المغنی لابن قدامۃ:۱؍۳۳۹]
    لہٰذا معلوم ہوا کہ جب سخت ٹھنڈک ہو تب تیمم کرنا جائز ہے ۔
    کیسے جانیں کہ سخت ٹھنڈک ہے ؟ تو اس کی معرفت کے لیے چار قاعدے یا چار صورتیں ہیں :
    نمبر ایک : اگر پانی کے استعمال سے بدن کو ضرر لاحق ہو تو تیمم کرسکتے ہیں ۔
    نمبر دو: اگر پانی کے استعمال سے بیماری کے ٹھیک ہونے میں تاخیر ہونے کاخدشہ ہو تب تیمم کرسکتے ہیں ۔
    نمبر تین : اگر پانی کے استعمال سے مرض میں مزید اضافہ وخطرناک صورت حال پیدا ہونے کاخدشہ ہو ۔ اس صورت میں بھی تیمم کرسکتے ہیں ۔
    نمبر چار: اگر پانی کے استعمال سے ایسی مشقت لاحق ہو جو خارج عن العادۃ ہوں ۔ یعنی ایسی مشقت جس کا برداشت کرنا محال ہو۔ اگر ان چار صورتوں میں سے کوئی بھی صورت پائی جائے تو تیمم کیا جاسکتا ہے ۔ (شیخ عبدالسلام الشویعر حفظہ اللہ نے یہ قاعدہ بیان کیا ہے)
    ۳ ۔ سخت ٹھنڈک کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنا اور جمع بین الصلاتین کرنا بھی جائز ہے ۔ یعنی اصل تو یہ ہے کہ نماز باجماعت اور وقت پر پڑھا جائے لیکن انتہائی تیز وتند ہوائیں چل رہی ہوں ، یابارش ہورہی ہو،باہر نکلنے میں سخت پریشانی ہو اورمرض میں مبتلا ہوجانے کا خدشہ ہوتو’’ تخلف عن الصلاة وجمع بين الصلاتين ‘‘کیا جاسکتا ہے چاہے دن ہو یا رات ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے :[المغنی لإبن قدامہ :۲:۳۷۸،الشرح الممتع:۴؍۳۱۷]
    لیکن اس معاملہ میں تساہل برتنا درست نہیں ہے یعنی ٹھنڈک کو عذر کے طور پر استعمال نہ کرنے لگے زیادہ ٹھنڈ نہ ہو پھر بھی جماعت میں حاضری نہیں ۔ خاص کر وہ لوگ جن کے گھر سے مسجد بالکل قریب ہو اسی طرح یہاں یہ واضح رہے کہ عورتیں جمع بین الصلاتین نہ کریں ۔ (شیخ عبدالسلام الشویعر)
    ۴۔ نماز کے دوران چہرہ کو ڈھانپنا بغیر ضرورت کے مکروہ ہے ۔ جیسا کہ حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے منع فرمایا :’’کہ کوئی شخص حالت نماز میں چہرہ ڈھانپے ‘‘[رواہ أبوداؤد:۵۴۸،وابن ماجہ:۹۵۶ ،وحسنہ الألبانی ]
    لیکن یاد رہے کہ اگر پورا چہرہ نہیں ڈھانپا ہے بلکہ بعض حصہ ڈھانپا ہے تو معفو عنہ ہے ، اسی طرح اگر ضرورت ہوکسی کو چہرہ ڈھانپنے کی مثلا ًسخت سردی وٹھنڈک کااحساس ہو ،سردی زکام نزلہ وغیرہ ہو تو اس وقت جائز ہے چہرہ ڈھانپنا ۔
    ۵ ۔ مسح علی الخفین کی رخصت :
    یعنی موزوں پر مسح کرنا متواتر احادیث سے ثابت ہے بلکہ مسح علی الخفین کے رواۃ کی تعداد۸۰ سے زیادہ ہے ،ان میں سے دس ایسے صحابہ ہیں جن کے جنتی ہونے کی خوشخبری دنیا ہی میں دی گئی تھی ، اہل سنت والجماعت کا اس کے جواز پر اتفاق ہے صرف اہل بدعت اورشیعہ روافض وغیرہ اس کا انکار کرتے ہیں ۔
    آئیے ذیل میں موزوں پر مسح کے چند احکام بیان کرتے ہیں ۔
    ۱۔ ہر وہ لباس جو قدمین میں پہنا جاتا ہے یا جس کو خف یعنی موزہ کہاجاتاہے چاہے وہ چمڑے کے ہوں، اون کے ہوں ، نائیلن کے ہوں یا سوتی وغیرہ ہوں اس پر مسح جائز ہے بشرط یہ کہ وہ قدمین کے اکثر حصے ڈھانپے ۔
    ۲۔ موزوں پر مسح کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ نجاست سے پاک ہو ںاور ان میںگندگی نہ لگی ہو ،اسی طرح وہ محل فرض یعنی دونوں قدم اور ایڑیوں کو ڈھانپتے یا چھپاتے ہوں،بعض موزے ایسے ہوتے ہیں جن میں ایڑیوں کے دونوں طرف کی ابھری ہوئی ہڈی کھلی رہتی ہے ایسے موزوں پر مسح نہیں کیا جا سکتا۔
    موزوں پر مسح کی سب سے اہم شرط یہ ہے کہ وہ بذات خود پاک ہوں اور کامل طہارت کی حالت میں پہنے گئے ہوں یعنی وضو کرنے کے بعد انہیں پہنا گیا ہو۔ جو موزے حالت ِوضو میں نہیں پہنے گئے ہیں ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ واضح رہے کہ وضو کے فوراً بعد موزہ پہننا ضروری نہیں ہے۔ ضروری یہ ہے کہ وضو ٹوٹنے سے قبل وہ موزہ پہنا گیا ہو۔
    ۳۔ مقیم شخص ایک دن اور ایک رات (۲۴ گھنٹے ) تک موزوں پر مسح کر سکتا ہے ۔ اور مسافر تین دن اور تین رات ۷۲گھنٹے ) تک ، الا یہ کہ کوئی بیمار ہو اور سخت ٹھنڈک کا احساس ہوں اور مشقت میں پڑجائے تو ان کے لیے کوئی مدت متعین نہیں ہے وہ جبیرہ یعنی پٹی باندھنے کے حکم میں ہوگا ۔
    ۴۔ مسح کے مدت کا آغاز اول حدَث بعد اللبس سے ہوگا ۔یعنی جب موزہ پہننے کے بعد پہلی بار مسح کیا جائے۔ مثلا اگر کسی شخص نے ظہر کی نماز کے لیے وضو کیا اور موزے پہن لیے اور اس کا وضو باقی رہا یہاں تک کہ اس نے اس وضو سے عصر، کی نماز پڑھی اور عصر کے بعد اس کو حدث اصغرلاحق ہوئی تو اب اس نے وضو کیا اور مسح کیا تواس کے مسح کی مدت کا آغاز اب سے شروع ہورہاہے یعنی وہ کل عصرتک اس موزے پر مسح کرسکتا ہے۔مختصر یہ کہ جس وقت موزے پہنے گئے ہیں اس وقت سے مدت کا شمار نہیں ہوگا بلکہ جس وقت پہلی بار ان پر مسح کیا جائے اس وقت سے مدت کا شمار ہوگا۔
    ۵۔ موزوں پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی بھیگی ہوئی انگلیاں دائیں پیر پر اور بائیں ہاتھ کی بھیگی ہوئی انگلیاں بائیں پر رکھ کر پنڈلی تک ایک بار لے جائے، ایک ایک بار ہاتھ پھیرے دو تین بار نہیں کرنا چاہیے ۔ اس لیے کہ علماء کے یہاں قاعدہ ہے:
    ’’ لا تعدد فی الممسوحات‘‘’’ یعنی مسح میں تعدد وتکرار نہیں ‘‘ واللہ اعلم
    ۶۔ سردی کی شدت کی وجہ سے الیکٹرونک ہیٹر وغیرہ جس میں آگ کا شعلہ نہ ہو (دفایات کھربائیۃ ) کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا درست ہے ۔اور یہ استقبال نار میں داخل نہیں ہے ۔
    ۷۔ موسم سرما میں اکثر تیز وتند ہوائیں چلتی ہیں لہٰذا انہیں گالی نہ دیں وہ تو اللہ کی فرماںبردارمسخر فوج ہے ۔ جب ہوا چلے تو یہ دعا پڑھیں :
    ’’اَللّٰهُمَّ إنِّي أسألُكَ مِنْ خَيرِهَا وخَيْرِ مَا فِيْهَا وَخَيْرِ مَا أُرْسِلَت بِهِ وَأعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيْهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ‘‘
    اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات کاپابند بنائیں ، اور مکمل اسلام وشریعت پر چلنے کی توفیق دئے اور تفقہ فی الدین عطاء فرمائے آمین ۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings