-
سماجی ہم آہنگی میں احترام انسانیت کا کردار یہ مضمون ایک تقریری مسابقہ میں پیش کرنے کے لیے صاحب ِتحریر نے لکھا تھا جسے آپ قارئین کی خدمت میں من و عن پیش کیا جارہاہے ۔ادارہ
حامداً و مصلیاً اما بعد ! اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔
{اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ}
محبّت کا جُنوں باقی نہیں ہے
مسلمانوں میں خُوں باقی نہیں ہے
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق
کہ جذبِ اندرُوں باقی نہیں ہے
جناب صدر حکم صاحبان ،سامعین و حاضرین!
انسانی زندگی میں نفرت کا لاوا کس تیزی سے پک رہا ہے؟اس کا تازہ ڈسپلے مشرق وسطی کی جنگی کارروائیوں میں دیکھا جاسکتا ہے،جب معصوم بچے جنگ کے نام پر وحشت وبربریت کا شکار بنائے جارہے ہوں اور دنیا کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگ رہی ہو تو انسانی پستی کی اور کون سی جھلک آپ دیکھنا چاہیں گے؟جب نفرت کے نام پر بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہورہی ہوں تو رحم کو آپ کہاں تلاش کریں گے؟واقعات کو دیکھو تو لگتا ہے کہ دنیا نفرت وعداوت کے آتش فشاں میں تبدیل ہوچکی ہے،اخبار اب نفرت کی تجارت کررہے ہیں،میڈیا عداوت کی بارودی سرنگ بچھا رہا ہے،سیاست آگ لگا رہی ہے،تعلیم گاہیں ذہنوں میں بھید بھاؤ کی کاشت کر رہی ہیں،مذہبی رہنما سماج کو بانٹنے کی بات کررہے ہیں،تو انسانیت امن کی تلاش میں کہاں جائے؟مظلوم انصاف کی دہائی کس سے لگائے؟ایک عام آدمی زندہ رہنے کی امید کس سے وابستہ کرے۔
غیرت کی نگاہوں میں یہ آنسو نہیں خوں ہیں
گر پردۂ غفلت پہ ٹپک جائے تو جل جائے
حالات کی گردش نے چلایا ہے جو مجھ پر
اے کاش و ہ نشتر ترے احساس پہ چل جائے
سامعین کرام!
اس پرآشوب دور میں انسانیت محبت کو ترس رہی ہے،فضائیں امن کی متلاشی ہیں،زندگیاں اعتماد کی پیاسی ہیں،معاشرہ سماجی ہم آہنگی کے لیے انتظار کی دہلیز پر کھڑا ہے،ایسے میں اسلام انسانیت کو آواز دے رہا ہے،اے گم کردہ راہ انسانو!ادھر آؤ…تمہارے درد کی دوا وحی الٰہی میں ہے،تمہارے زخموں کا مرہم فرمانِ رسول میں ہے،تمہاری تشنہ لبی کا سامان نظامِ اسلامی میں ہے،اے آدم کی نسلو! …اسلام کے ایوانِ عدل و انصاف میں آؤ، آپ کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے،آؤ!… احترام انسانیت کا وہ نسخۂ کیمیا اپنے ہاتھوں میں تھام لو جو تمہارے درمیان کے انتشار کو اتحاد میں بدل دے گا،آؤ !یہ عظیم سبق تمہارے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دے گا،یہ ایسے ہی تمہیں انسانیت و بھائی چارگی کی ایک لڑی میں پرو دے گاجس طرح ساڑھے چودہ سو برس پہلے اس نے انسانیت کے بھٹکے ہوئے آہووں کو ایک صف میں لا کھڑا کردیا تھا،اس نے دیکھا… دنیا باہم دست وگریباں ہے تو اس نے بآواز بلند پکارا۔۔۔۔ {ياايها النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰي وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآيلَ لِتَعَارَفُوْا۔اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰيكُمْ} بہت واضح لفظوں میں کہ دیا گیا،تم سب ایک ماں باپ کی اولاد ہو،تمہارے درمیان کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے،یہ جو قبیلے اور خاندان ہیں صرف تعارف کے لیے ہیں۔ [الحجرات:۱۳]
جب یہ دیکھا کہ انسانی خون کی ارزانی ہے،عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے،اموال پر نگاہِ غلط انداز اٹھ رہی ہے تو سخت لفظوں میں تنبیہ کی،فرمایا: ’’إنَّ دِماء َكُم، وأمْوالَكم وأعْراضَكُم حرامٌ عَلَيْكُم كَحُرْمة يومِكُم هَذَا، فى شهرِكُمْ هَذَا، فى بلَدِكُم هَذَا‘‘’’تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں تمہارے کے لیے اسی طرح محترم ہیں جیسے آج کا یہ دن، آج کا مہینہ محترم ہے۔ اور یہ شہر محترم ہے‘‘
ایک قدم آگے بڑھا کر پھر تنبیہِ مزید کی اور فرمایا: ’’كُلُّ المُسلِمِ عَلي المُسْلِمِ حرَامٌ: دَمُهُ وعِرْضُهُ وَمَالُهُ ‘‘
’’ہر مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کاخون ،اس کا مال اوراس کی عزت وآبرو حرام ہے ‘‘
سامعین کرام!
اسلام نے انسانی تعلقات کو خوشگواربنانے کے لیے آخری حد تک کوشش کی ہے،ان تمام اعمال کی حوصلہ شکنی کی ہے جو سماجی ہم آہنگی کو صدمہ پہنچاتے ہیں،احترام آدمیت کی اس سے اچھی ترغیب اور کیا ہوسکتی ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ‘‘
’’حقیقی مسلمان وہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘
گویا اسلام یہ کہتا ہے کہ…خبردار کسی کے شیشۂ دل کو زبان کی ٹھوکر سے چکنا چور مت کرنا،کسی کے دست و گریباں کی طرف اپنے ہاتھ نہ بڑھانا…یہ معمولی بات نہیں ہے بلکہ تمہارے ایمان واسلام کا مسئلہ ہے،ایسا کرکے تم آخرت میں اپنے لیے مشکلات پیدا کرلو گے،آپ ﷺ نے کبھی بھی اس بات کو برداشت نہیں کیا کہ آپ کی موجودگی میں کسی کا ذکر بھی نامناسب کلمات سے کیا جائے،یاد کیجئے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو صرف پستہ قد کہا تھا،آپ کے قد پر طنز کیا تھا،آپ نے سخت ناراضگی جتلائی،ڈانٹ پلائی اور کہا:عائشہ!…تم نے ایک ایسی بات کہی ہے اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ کڑوا ہوجائے۔
اب تک کی گفتگو سے یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ سماجی ہم آہنگی،باہمی میل جول احترام آدمیت میں مضمر ہے،یہ سماجی ہم آہنگی خواہ مسلمانوں کے درمیان ہو یا غیر مسلموں کے درمیان ،آج جو سماجی دوریاں اور باہمی ناچاقیاں ہیں،اس کو مذہبی ٹھیکیداروں نے اپنے مفادات کے لیے پیدا کیا ہے،اس مقصد کے لیے برسوں کی جد و جہد ہے،وسائل کا بے جا استعمال ہے،نتیجہ یہ ہوا کہ محبت نفرت سے ہار گئی،اخوت مذہبی دشمنی کی نذر ہوگئی،آپ ﷺ نے جس معاشرے میں زندگی گزاری تھی،اس میں کفار بھی تھے،اس میں یہودی بھی تھے،لیکن آپ نے عقیدہ و مذہب سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان سے روابط استوار رکھے تھے،آپ ایک یہودی کے بچے کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے ہیں،اس پر اسلام پیش کرتے ہیں،آپ ایک یہودیہ کی دعوت میں تشریف لے گئے اور اس نے آپ کو زہر آلود کھانا پیش کردیا،آپ کے یہاں یہودی مہمان ہوتا ہے،آپ اس کی مہمان نوازی کرتے ہیں،آپ نے جانی دشمنوں کو معاف کیا ہے،نبی ﷺکی جگہ کوئی اور ہوتا تو ثمامہ مار دیئے جاتے،مگر آپ نے در گذر فرمایا،آپ نے دوسروں کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے،دوسروں کے جذبات،ان کے احساسات،ان کے مذاہب،ان کے عقائداوران کی عبادت گاہوں کا احترام کرنے کی تعلیم دی ہے،عقیدہ و مذہب پر مباحثہ بھی اچھے انداز میں کرنے کی دعوت دے فرمایا: ’’وجادلهم بالتي هي احسن‘‘ ’ان سے بحث بھی خوبصورت طریقے سے کرو ‘‘
سامعین کرام!
احترامِ آدمیت،خیرسگالی اور رواداری ایک حقیقت کے چند نام ہیں،یہی کردار ماضی کی سماجی ہم آہنگی کو موجودہ دور میں بازیاب کرے گا،یہی کردار محبتوں کی خوشبو بکھیرے گا،نفرت،تعصب،حسداورتحقیر کے زہر کو اخلاق کے تریاق میں بدل دے گا،لیکن یاد رہے افراط و تفریط کسی معاملے میں درست نہیں ہے،احترامِ آدمیت کا جذبہ کہیں دینی غیرت سے سمجھوتا نہ کرلے،رواداری کہیں بت خانوں کی صفائی پر آپ کو آمادہ نہ کردے،خیر سگالی کہیں غیروں کے تہواروں میں آپ کو ملوث نہ کردے،بھائی چارگی کہیں آپ کی توحید کو کند نہ کردے ،اس لیے احترامِ آدمیت کے ساتھ غیرتِ ایمانی کا پیمانہ اپنے ہاتھ میں ضرور رکھیں،اس شعر کے ساتھ گفتگو موقوف کرتا ہوں۔
کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے
پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے